سوال کاجواب: قومی ریاست کی خدمت کرنے والے اداروں کی حقیقت
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:
ہم اکثر وبیشتر 'طاقت اور اتھارٹی' کے مراکز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں کہ قومی ریاست ہی قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس ضمن میں ہم بطورمثال ان امریکی مفادات کو پیش کرتے ہیں جن کو امریکہ دنیا کی نمبرایک اورعالمی سیاست میں بہت زیادہ موثر کرداراداکرنے والی ریاست ہونے کے ناطے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ'طاقت اور اتھارٹی' کی حقیقی بنیاد قومی ریاست کی حدود سے بھی آگے بڑھ کرہے۔ اس سے ان کی مرادمتحدہ قوت کی حامل خفیہ عالمی تنظیمیں ہوتی ہیں جن کے پاس 'طاقت اور اتھارٹی' ہوتی ہے۔ جیسے سہہ فریقی کمیشن (The Trilateral Commission)، بلڈربرگ گروپ (Bilderberg Group) اورخارجہ تعلقات کی کونسل (Council on Foreign Relations) وغیرہ۔ بسا اوقات یہ تمام قوتیں ایک عام نام کے تحت یکجاہوجاتی ہیں ،مثلاً Illuminate، گلوبل بینکرزاوربڑے مالیاتی وتجارتی ادارے۔
جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان طاقت کے مراکز کی کسی بھی قومی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی دوستی نہیں ہوتی،حتی ٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی نہیں، بلکہ ان کے اندریہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ''نیوورلڈ آرڈر تھیوری '' کی بنیاد پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے باہرطاقت کے نئے ڈھانچوں کی طرف منتقل ہو جائیں جس کے نتیجے میں حیرت انگیز تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ڈالر سے جان چھڑائی جائے اور کسی نئی کرنسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے تیل کی تجارت میں ڈالر کے استعمال کو روک دیا جائے جو مختلف قسم کی اشیاء یا کرنسیوں کے یکجا ہوجانے پر انحصار کرتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس میں کہاں تک حقیقت ہے؟ اور اگریہ سچ ہے توحزب کانقطہ نظر 'طاقت اور اتھارٹی' کے ان مراکز کے حوالے سے کیاہے ، جو قومی ریاست کی حدود بے معنی کرتے ہوئے عالمی اتھارٹی کاروپ دھارلیتے ہیں۔
جواب:
1۔سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے قومی سوچ کے خاتمے پرکوئی کام نہیں کیا، بلکہ یہ اس کااعترا ف کرتی ہے اوراس نے ریاستوں کے درمیان قائم سرحدوں کوبھی تسلیم کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سرمایہ دارانہ ریاستوں نے عالمی معاہدات میں کھینچے گئے نقشوں کے ضمن میں علیحدہ ہونے والی ریاستوں کی آزادی کوتسلیم کیا۔ انہی معاہدات میں سے ایک معاہدہ 1815میں ہونے والاویانامعاہدہ تھا۔ ان ریاستوں کے درمیان قومیت پرستی کی بنیادپر جنگیں ہوئیں ......سرمایہ دارانہ ریاستوں نے قوم پرستی اوروطن دوستی کی سوچ کواختیارکیااور سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے سہارے اس کوتحفظ فراہم کیا۔ یہ ریاستیں قومی اوروطنی اتھارٹی اوراستعماری مفادات کی خاطرایک دوسرے کے ساتھ جنگوں میں اُلجھی رہیں،باوجود اس کےکہ ان سب کی بنیاد سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی پر استوارہے اوریہ ریاستیں دوسروں کے پاس بھی اسی آیئڈیا لوجی کولے کرجاتی ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کرغلط طریقے سے ریاست کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ : (ریاست) اتھارٹی ،قوم اور محدودعلاقائی حدود کانام ہے۔ پس اس آئیڈیالوجی کے قیام کے آغازہی سے ان ریاستوں کے درمیان خونی لڑائیاں جاری ہیں۔ جہاں تک یورپی یونین کاتعلق ہے تویورپ کئی بحرانوں کے ادوار سے گزرا ہے جس نے یورپ کو تقریباً زوال کا شکار کردیا ہے۔ اس کی بہت ساری ریاستیں ٹوٹنے کے قریب ہیں اور بیلجیم، اسپین ، برطانیہ اور اٹلی سمیت بہت سے ممالک میں علیحدگی کے نعرے گونج رہے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ ممالک نے وفاقی (Federal) نظام حکومت کو اپنایا ہےجو علیحدگی کے جراثیم پروان چڑحاتا ہے بالخصوص ان ریاستوں میں جومختلف قومیتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ علیحدگی اورانقسام کا یہی عنصر امریکی وفاق میں پایا جاتا ہے، وہاں 1860میں یہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی،جب شمالی وجنوبی امریکہ کی ریاستوں کے درمیان پانچ سال تک لڑائی جاری رہی تھی۔ اس تمام کے ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ فکرکے حاملین کے لئے قومی ریاست کاخاتمہ ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی ایک ہی ڈھانچے میں قوموں اورلوگوں کوڈھالنے میں ناکام ہوچکی ہے۔یہ نظریہ ایک ہی ریاست میں بسنے والی مختلف قومیتوں کو ایک قوم میں تبدیل کرنے میں شکست کھاچکا ہے ۔ اس بنا پر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے حاملین کے ہاں قومی ریاست کے خاتمے کی بات حقیقت سے کلی طورپربعید ہے ۔
ہرریاست میں موجود بڑے سرمایہ دار اپنی اپنی قوم کاحصہ ہوتے ہیں، اپنی قومی ریاستوں کے ساتھ تعاون اوراس کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں اور وہ اپنی قوموں کی بلاوسطہ یا بالواسطہ رہنمائی کرتے ہیں ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست میں اعلٰی عہدوں کو سنبھالنے والے کئی لوگ یا تو خود سرمایہ دار ہوتے ہیں یا ان کے سرمایہ داروں کے ساتھ روابط ہوتے ہیں یا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے بڑی کمپنیوں کے اداروں میں کام کیاہوتاہے۔
2۔سوال میں جن قوتوں کاذکرکیاگیاہے اوریہ کہ یہ قومی ریاست کی حدود سے بڑھ کر ایک عالمی اتھارٹی کی طرف بڑھی ہیں تو ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ادارے قومی ریاست بالخصوص امریکی ریاست کی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے۔۔۔
ا ۔ جہاں تک بلڈربرگ گروپ کا تعلق ہے تو یہ 29 مئی 1954 کو ہالینڈ کے شہر اوسٹربیک (Oosterbeek) میں ڈی بلڈربرگ ہوٹل میں قائم کیاگیااوراس جگہ کی نسبت سے ہی اسے یہ نام دیاگیا۔ اس کاقیام ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) جیسے بڑے امریکی سرمایہ داروں کی طرف سے عمل میں لایاگیااور اس میں بعض یورپی لوگوں نے بھی شرکت کی جو مغربی یورپ کے ساتھ امریکی تعاون کی پالیسی کے حامی تھے۔ ان میں سے نیدرلینڈ کاپرنس برنہارڈ (Prince Bernhard)بھی تھاجسے اس گروپ کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔ ان کے ساتھ گروپ کی ایڈمنسٹریشن میں جان کولمین (John Coleman) بھی تھاجوامریکی چیمبرآف کامرس کاصدرتھا۔ اس نے بتایاکہ اس (گروپ)کے قیام کامقصد یورپ میں امریکہ کے ساتھ دشمنی اورعداوت کے بڑھتے ہوئے ان احساسات کی روک تھام تھا جس کی وجہ درحقیقت وہ امریکی مارشل پلان تھا جس کی بدولت دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ پر واشنگٹن کا تسلط اوربالادستی قائم ہوئی اور یہ مسئلہ امریکہ نے یورپ کی مدد کی پالیسی کے تحت حل کیا جبکہ کیمونسٹ اورڈیگالیوں نے ان احساسات کوبھڑکانے میں اہم کرداراداکیا ۔ اس نے یہ بھی بتایاکہ''اس گروپ کے قیام کے پیچھے کارفرماعوامل میں امریکہ کے ساتھ اس معاندانہ رویہ کوکم کرنا شامل تھا، تاکہ امریکہ اوریورپ کے درمیان تعلقات کومستحکم کیاجائے ، مشرقی کیمونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کومضبوط کیاجائے اور مغربی تہذیب ،نیز سرمایہ دارانہ آزاد معیشت کے ماڈل کوتحفظ فراہم کیاجائے ''۔ اس گروپ کے اجلاسوں میں یورپ کے متعدد لیڈرز شریک ہوتے تھے ،جن میں کچھ شہزادے ،میڈیا نمائندگان ،پالیسی ساز اور دائیں بازوں کے کنزرویٹواورڈیموکریٹک سیاستدان ہوا کرتےتھے۔یہ گروپ سال میں ایک بار اپنا اجلاس منعقد کیا کرتا تھا؛ یہ ادارہ امریکی اہداف ،امریکی ہدایات اور احکامات کے لئے امریکیوں نے ہی قائم کیا ۔ لیکن کچھ لوگ فلمی انداز میں سوچ کراس کوایک خفیہ عالمی حکومت کی شکل میں پیش کرتے ہیں جو دنیا کے امور کو چلاتی ہے۔ ایک روسی مصنف نے خاص اسی موضوع پرایک کتاب لکھی ،جس کے کئی ملین نسخے فروخت ہوئے ، لیکن سیاسی مفکرین اورسیاسی شعور رکھنے والے اس گروپ کی حقیقت وماہیت سے باخبرہیں ، جیسے کہ ایک فرانسیسی نے یہ لکھاکہ:''بلڈربرگ گروپ جوکہ بااثرشخصیات پرمشتمل ہے ، دباؤ ڈالنے کے ایک مؤثر آلے کے سواکچھ نہیں جسے نیٹو اپنے مفادات کی ترویج کیلئے استعمال کرتاہے اور وہ اس کے ذریعے امریکہ کے اثرورسوخ کوتوسیع دینے پرکام کرتاہے "۔ اس گروپ میں امریکہ کی طاقت فرانس کے ورسائلزپیلس (the Palace of Versailles) میں 15 تا 18 مئی 2003 کو اس کے منعقد کئے گئے اجلاس اور اس میں فرانسیسیوں اورامریکیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے سے کھل کرسامنے آئی،جب فرانس کے صدرشیراک (Jacques Chirac) نے اجلاس میں شرکت کی توامریکیوں نے اسے اس بات پرتنقید کانشانہ بنایاکہ اس نے عراق جنگ میں امریکیوں کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اس کانفرنس میں اس کی بے عزتی اورتحقیر کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ، جہاں بش جونیئر کے عہد کے امریکی انتظامیہ کی اہم شخصیات ،امریکن ڈیفنس سیکرٹری ڈونالڈ رمزفیلڈ،اس کانائب پاول وولفویٹز،امریکن ڈیفنس پالیسی کمیٹی کارکن ریچرڈ پرل ،اسی طرح سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر شریک تھے ، جبکہ انہی دنوں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول امریکی پالیسی کے حق میں حمایت حاصل کرنے کیلئے اپنے پہلے دورہ یورپ پرتھا۔ اس کانفرنس میں ان بڑے بڑے سودوں پر گرم بحث ومباحثہ ہوا جوامریکی کمپنیاں عراق میں کرچکی تھیں، جیسے بکٹل (Bechtel) اورہالبرٹن (Halliburton) وغیرہ۔ ایک یورپین ممبرپارلیمنٹ نے طنزیہ انداز میں سوال کرتے ہوئے کہا: یورپ کی کونسی کمپنیاں ان جیسے مہنگے سودے کرنے کی قابل ہیں؟ اسی طرح یورپین فوج کے قیام کے موضوع پربحث کی گئی۔ امریکیوں نے اس پراعتراض کیااوراس قسم کی فوج کی ضرورت کے حوالے سے امریکیوں اوریورپین کے درمیان بہت گرم بحث ہوئی ، بالآخرامریکہ نے اس فوج کی تشکیل کی سوچ کو مٹا کردم لیا۔
تو اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ بلڈربرگ گروپ یورپ پرامریکی تسلط کی پالیسی کے دفاع کاایک ذریعہ ہے ،اوراسی کے ذریعے امریکہ یورپ میں اپنے منصوبوں کی مارکیٹنگ اس طورپرکرتاہے کہ یورپ والوں کواس بات پرمطمئن کرلیاجائے کہ امریکی پالیسی ان کی پالیسی کے ساتھ متصادم نہیں ،بلکہ یہ ان کے اورپورے مغرب کے مفاد میں ہے ، جبکہ سب سے پہلے یہ امریکی مفادات اوراس کے منصوبوں کی تکمیل کاایک ایجنڈاہے۔
ب ۔ جہاں تک سہ فریقی کمیشن کاتعلق ہے ،یہ 1973 میں ڈیوڈ راک فیلر (David Rockefeller) اور زبگنیو برزنسکی (Zbigniew Brzezinski) کی جانب سے قائم کی گئی، جبکہ ان کے ساتھ امریکی مفکروں، سیاستدانوں اوردانشوروں کاایک گروپ بھی شامل تھا۔ جب کمیشن قائم کیا گیا تو امریکہ ،مغربی یورپ اور جاپان تینوں خطوں کے نمائندے اس کے ممبران ہوا کرتے تھے۔ اس کے اہداف یہ ہیں: ان ممالک کے باقی دنیامیں معاشی سیاسی اورخودمختاری جیسے مفادات کیلئے ان کے درمیان تعاون کااستحکام ، ان ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کاحل نکالنا، ان کے درمیان تجربات اورنقطہ نظرکاتبادلہ اورمشرق ومغرب کے درمیان بدلتے تعلقات کی نگرانی۔ لہٰذا یہ دیکھاجاسکتاہے کہ امریکیوں نے ہی یورپ اورجاپان پرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کیلئے اس کلب کوقائم کیا۔
ج۔ جہاں تک بڑے پرائیویٹ مغربی مالیاتی اورتجارتی اداروں کاتعلق ہے ،جن میں وہ بھی ہیں جو خاندانوں کی ملکیت ہیں ،جیسے راک فیلر (Rockefeller) فیملی ، یاروتھ شیلڈ (Rothschild) فیملی اوربلومبرگ (Bloomberg) فیملی، تویہ سب ان ممالک کی پالیسی کے دائرے میں اوران کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں اور یہ ملکی پالیسی کی تمام تفصیلات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ،جیساکہ ہم نے بلڈربرگ اورسہ فریقی کمیشن کے قیام میں راک فیلر کی سرگرمیوں کودیکھا، جویورپ ، جاپان اور دنیاکے دیگرممالک پرامریکی ریاست کا تسلط قائم کرنے کیلئے بنائی گئی۔ یہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہی ان کوتحفظ فراہم کرتی ہے ،وہی ان کی پشت پناہ ہوتی ہے ،ریاست ہی ان کے مفادات اورمنافع کے حصول کی ضمانت دیتی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاست یہ دیکھتی ہے کہ یہ کمپنیاں ہی ہیں جوبیرونی سرمائے اورمنافع کوریاست کے اندر کھینچ لانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی کمپنیاں اندرونی سطح پر منصوبے شروع کرتی ہیں اورمزدوروں کوروزگارفراہم کرتی ہیں۔ اس طرح کمپنیوں ان کواس نظرسے دیکھاجاتاہے گویایہ حکومتی ادارے ہیں جوحکومت کی بجائے شہریوں کی خدمت کااہم کرداراداکرتےہے اوراپنے ملک کے مفادمیں کام کرتی ہیں۔ نیز بیرونی سطح پراس کے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے ان کو ایک آلہ کارکے طورپر دیکھاجاتا ہے۔
ماضی میں برطانیہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیاکمپنی کے ذریعے داخل ہوا، پھراس کوفوراً اپنی کالونی میں تبدیل کرناشروع کیا۔ پرائیویٹ امریکی مالیاتی کمپنیاں اورادارے امریکی مفادات کیلئےیورپی یونین کے خلاف فعال کرداراداکرتے رہےہیں ۔ اس نے 2001میں یونان کی اقتصادی حالات کی جعلی تصویرکشی کی ،تاکہ یورپ کوکمزورکرنے یااس کوزوال سے دوچارکرنے کے لئے یونان کویوروخطے (Euro Zone) میں شامل کیاجائے، اور یوں خطے میں معاشی اوراقتصادی مشکلات کھڑی کی جائیں۔
چنانچہ نیویارک ٹائمز نے بتایاکہ ''2001 میں گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) بینک نے 15 ملین ڈالر کا جو سودا کیا،اس نے یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر میں بجٹ نگرانوں کی طرف سے دیےجانے والے یونان کے کئی ارب ڈالرز کے قرضوں کی وصولی کروائی'' (الجزیرہ ڈاکومنٹری: 'وال سٹریٹ یورپ کے مالیاتی بحران میں ملوث ہے' 14/2/2010)۔
کیونکہ وہ ان رقوم کو تجارتی لین دین کاحصہ سمجھتے ہیں نہ کہ قرض ۔ تواس نے ایساظاہرکیاکہ قرضوں کی حد نےقومی آمدنی اورجی ڈی پی کوپارنہیں کیا ہے اوریہ کہ ا فراط زر یورپ کے ہاں قابل قبول حد سے زائد نہیں۔ امریکا کا مقصد یہ تھاکہ یورپی اتحاد کوکمزوراور ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے اوریوروکونشانہ بنایاجائے اس طرح اس کے اندر ڈالرکے ساتھ مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہے گی۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ یورپ اوران کی معیشت بلکہ پوری دنیاپرامریکی تسلط کوقائم رکھنے کی ضمانت دی جاسکے۔ چنانچہ بڑے پرائیویٹ امریکی مالیاتی ادارے اورکمپنیاں اپنے ملک کے مفاد کیلئے امریکی ریاست کے ساتھ نظم وضبط طے کرکے خاص کرداراداکرتے ہیں۔ جرمنی نے اس کے بارے میں اپنی بے چینی کااظہارکیااورجب 2010میں یونان میں مالیاتی بحران اُمڈ پڑا تو اس کوجھوٹ اورفراڈ کاطعنہ دیا۔ بحران جرمنی اور یورو زون کی ہم آہنگی پر اثراندازہوااوراس کے اثرات اب تک جاری ہیں۔
د۔ اس کے باوجود کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کاقیام عالمی اداروں کی حیثیت سے عمل میں لایاگیا، تاہم یہ ادارے اپنی آزادی کوحاصل نہ کرسکے کہ جو مختلف ریاستوں پرایک عالمی حکومت کی حیثیت سے حکم چلائیں جبکہ ہوا یوں کہ ان اداروںمیں امریکہ کو ہی مؤثراور فیصلہ سازکردار حاصل ہے۔ اس طرح امریکہ دیگرممالک پراپنی پالیسیوں کے نفاذ، بالادستی اوراثرورسوخ کیلئے ان کواستعمال کرتاہے ۔ ان عالمی اداروں نے امریکی پرائیوٹائزیشن اورگلوبلائزیشن کے قوانین اوراس کی مارکیٹ اکانومی پالیسی کودوسرے ممالک پرمسلط کردیا۔ امریکہ نے انہی اداروں کی وساطت سے پوری دنیا پر اپنی کرنسی ڈالرکومسلط کیااوراسی کوتیل ،گیس اورسونے چاندی وغیرہ جیسی دھاتوں اورسامان کی قیمتوں کیلئے ایک پیمانہ قراردیا۔ دنیا پر اپنا تسلط جمانے کیلئے ڈالرکوہی کرنسی کے تبادلے کیلئے عالمی کرنسی قراردیا۔ اس طرح ڈالردنیامیں اصل کرنسی بن گیا،جس کے ساتھ بہت سے ممالک کی کرنسیوں کو منسلک کر دیا گیا۔ نیز ڈالر ہی کئی ممالک کیلئے ریزروسرمایہ بن گیا۔ یہ ان اسالیب میں سے ہے جسے امریکہ دنیا پر اپنے تسلط اوربالادستی کے لئے استعمال کرتاہے۔ اس لئے ایک ایسی عالمی حکومت جودنیاکے امورکوسنبھالتی ہواورقومی ریاست کوختم کرے ،ایک ایسا سراب ہےجس میں کوئی حقیقت نہیں، بلکہ بڑی ریاستیں بالخصوص سپر پاورز ہی دنیا پر تسلط رکھتی ہیں ۔
3۔ سرمایہ دارانہ ممالک پرسرمایہ داروں کاتسلط ہوتاہے ،چنانچہ ہرسرمایہ دار ریاست میں یہ لوگ حکمرانوں کاانتخاب کرتے ہیں لہٰذا وہ کیوں ریاست کاخاتمہ کریں،جبکہ ان کے منتخب حکمران ان کے مفادات کی حفاظت کا فریضا سرانجام دیتے ہیں۔ یہ سرمایہ داراپنے اپنے ملک کی اس لئے حفاظت کرتے ہیں تاکہ ریاست ان کے مفادات کاتحفظ کرے اوراپنے منافع کوبڑھانے کیلئے ان کی ریاستیں دیگرریاستوں پراپنی بالادستی قائم کریں۔ توان کی ریاست جتنی مضبوط ہوگی اتناہی ان کی تجارت وسیع اوران کا منافع زیادہ ہو گا۔ مگرایک کمپنی یا مالیاتی ادارہ ریاست نہیں بن سکتا،کیونکہ اس کی نظرمنافع پرہوتی ہے ،نہ تو لوگ اس کو قبول کرتے ہیں اورنہ ہی ریاستی اداروں کی تشکیل ،اس کوچلانے اورلوگوں کے امورسنبھالنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ تو جب سرمایہ دارانہ ممالک نے پرائیوٹائزیشن کی پالیسی شروع کی توانہوں نے وہ حکومتی ادارے جولوگوں کے مفادات کے لئے خدمات پیش کرتے ہیں،پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیے،جیسے بجلی،ٹیلیفون اورشہروں یاممالک کے درمیان رابطے کے بعض ریلوے ٹریک اور شاہراہیں وغیرہ۔ یہ پرائیویٹ کمپنیاں جنہوں نے ان سہولیات کوخریدا ،ریاستی ایگزیکٹیواداروں کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگرلوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور کمپنی کے اثاثوں پر دھاوا بول دینے کافیصلہ کریں یااحتجاج کریں ،جیساکہ''وال سٹریٹ پرقبضہ کرو'' (Occupy Wall Street) مہم میں رونما ہوا تویہ کمپنیاں اپنے تحفظ کیلئے ریاست کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کو کچھ ایسے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنا کام آگے بڑھا سکیں اوراپنے منصوبے مکمل کرسکیں ۔ جب امریکہ میں مالیاتی بحران رونما ہوا،جس کے باعث یورپ میں بھی بحران پیداہوا تو کمپنیاں اورمالیاتی ادارے اپنے بچاؤ کیلئے ریاست کی محتاج ہوئیں۔ ریاست سے ان کامطالبہ تھاکہ وہ ا ن کے قابل اتلاف حصص خریدے ، جسے عام لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں کےذریعے خریدا گیا ۔ اس عمل کو سرمائے کی ترسیل کانام دیاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مالیاتی ادارے اورکمپنیاں ایگزیکٹو، جوڈیشل یا قانونی اتھارٹی نہیں رکھتی ہیں جہاں یہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ کمپنیاں یہ کرتی ہیں کہ اندرونی وبیرونی طورپراپنے اوراپنے منصوبوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے حصول اورمنافع کمانے ،نیز بحرانوں کے وقت اپنے بچاؤ کیلئے ان اتھارٹیز پراثرانداز ہوتی ہیں۔
4۔ تمام ادارے اپنی قومی ریاست کی خدمت کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہ ادارے اس حوالے سے کسی بھی عمل سے نہیں جھجکتے، خواہ وہ عمل کتناہی گھٹیا، غیراخلاقی یا انسانیت سوز ہی کیوں نہ ہو اورامریکہ کے جاسوسی سکینڈل سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ امریکہ نے دیگرممالک کی جاسوسی شروع کی جن میں سرفہرست اس کے اتحادی یورپین ممالک تھے۔
امریکہ ان ممالک کے حکمرانوں ،سفارت خانوں ،ا ن کی کمپنیوں اورعام شہریوں کی جاسوسی کرنے لگا، اس کے لئے پرائیویٹ الیکٹرانک آلات کواستعمال کیا، جواس کے جاسوس اہلکاروں کے کنٹرول میں تھے، اس میں Google اور Yahoo جیسی امریکی کمپنیاں بھی ملوث تھیں جوالیکٹرانک میڈیاپر کنٹرول رکھتی ہیں۔ یہ سکینڈل سرمایہ دارانہ ممالک کے درمیان قومی ریاست کی قیادت کے معاملے پرکشمکش پر سے پردہ اٹھاتاہے۔ امریکہ نے اپنے وزیرخارجہ جان کیری کی زبانی لندن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے اعتراف کیاکہ FBI کی جاسوسی کامعاملہ بعض اوقات حدود پھلانگ جاتا ہے۔ (بی بی سی2013/11/1)۔ اورساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیاکہ "جاسوسی کی ان کاروائیوں نے دہشتگردوں کے حملوں کوروکا ہے"۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ یورپ کی قیادت جرمن چانسلر انجیلا مرکل (Angela Merkel) جیسی شخصیات کی جاسوسی کرتے تھے اوراس کے ذاتی موبائل ٹیلفون کی دسیوں سالوں تک نگرانی کرتے رہے ، امریکہ یہ سب کچھ صرف قومی خود مختاری اوردنیامیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کرتاہے ،تاکہ امریکی تسلط سے آزادی کے حصول کیلئے کوشش کرنے والے یورپین ممالک کی ہرحرکت کی نگرانی کرسکے ،اورکسی بھی ایسی طاقت کوابھرنے سے روکاجاسکے جس کے بارے ایک عالمی حیثیت کی حامل ریاست بننے کی توقع کی جاسکتی ہے جواس کے ساتھ مقابلہ کرے یااس کے تسلط کواس سے خطرات پیداہوسکتے ہیں۔ امریکہ کی تمام کمپنیاں قومی ریاست ،اس کی ثقافت اوراقدارکی خدمت کرتی ہیں۔ یہ اس وقت بالکل واضح طورپرسامنے آیاجب تین سال قبل چین اورامریکن کمپنی Google کے درمیان اختلاف واقع ہوا۔ چینی نیوز ایجنسی Xinhua نے 2010/3/23 کو کہاتھا ''افسوس Google چین میں نہ صرف اپنی تجارتی سرگر میوں کی توسیع کی لئے کوشش کرتاہے ،بلکہ وہ امریکی اقداروافکاراورامریکی تہذیب وثقافت کوپھیلانے میں بھی مصروف ہے''۔ بلکہ امریکہ نے یورپ میں بھی اپنے مخصوص افکار ،اقدار اوراپنی اس مخصوص ثقافت کوترویج دی، جواس جیسے سرمایہ دارانہ افکاررکھتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا تاکہ امریکی شہریوں اورریاست کیلئے تحسین و تکریم کمائی جائے اور یورپ پرامریکی دھاک قائم رہے۔
5۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ یہ جوعالمی تسلط کی حامل خفیہ تنظیموں کانام لیاجاتاہے ،جوسرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی اساس پرقائم قومی ریاستوں کے وجود کاخاتمہ کرتی ہیں ،ایسی تنظیموں کاکوئی وجود نہیں۔ اوریہ کہ بلڈربرگ گروپ اورسہ فریقی کمیشن ان گروپوں سے عبارت ہے ،جنہیں امریکیوں نے دنیاپراپنے ملک کے تسلط کوبرقراررکھنے کیلئے قائم کیا۔ اوریہ کہ امریکہ کی بڑی مالیاتی، تجارتی، الیکٹرونک، پراپرٹی کمپنیاں یا فوجی اڈوں پر قائم ہونے والی بڑی کمپنیاں یا دیگر بڑے صنعتی ادارے ،بڑے بڑے تاجر ، ایکس چینج مالکان اور سٹاک ایکس چینج کے سٹے بازسب کے سب اپنے ملک کے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے مالی منافع کے تحفظ، اس میں اضافے اوربیرونی واندرونی سطح پراس کی توسیع کیلئے اپنے ملک کے اتھارٹیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور بیرونی سطح پردوسرے ممالک کے خلاف اپنے وطن کی پالیسی کی خدمت اوران پراپنے ملک کا اثرورسوخ بڑھانے کی ضمانت دینے میں کرداراداکرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ہرملک کے اندر فوجی اڈوں کے قیام اوراسٹریٹجک معاہدات کے ذریعے اپنے تسلط کوبرقراررکھنے کی کوشش کرتاہے ، نیٹو کو اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کیلئے استعمال کرتاہے اوراپنی قیادت میں اس کو مضبوط کرتا ہے۔ امریکہ نے یورپی فوج کے قیام کواس لئے ناکام بنایاتاکہ یورپ اس کی قیادت تلے رہے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے نقل وحمل کی نگرانی کیلئے ان کی جاسوسی کرتاہے ،خواہ وہ اس کے اپنے اتحادی کیوں نہ ہوں۔ امریکہ دنیاپراپنی اقتصادی اورمعاشی بالادستی کوبرقراررکھنے کیلئے ایک توڈالرکی عالمی کرنسی ہونے کی حیثیت کی حفاظت کرتارہتاہے ،دوسراعالمی بینک ،آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے عالمی مالیاتی اورتجارتی اداروں پراپناتسلط قائم کرکے استعمال کرتاہے۔ ریاست پرکنٹرول حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ بالخصوص عالمی امن کونسل پرتسلط اوردیگرممالک کے اندراپنے ایجنٹوں اور ان کے اندرنظام حکومت کواپنے ماتحت کرنے کے اقدامات کرتاہے۔ ان سب کامقصد امریکی ریاست ،اس کی قومی شناخت اوراسکی عالمگیر قیادت کی حیثیت کی حفاظت ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے برطانیہ اورفرانس وغیرہ جیسے اپنے ہی سرمایہ دارانہ برادرممالک کے ساتھ کشمکش شروع کی تاکہ ان کی نو آبادیات اوران کے اثرونفوذ کے علاقوں میں ان کی جگہ لے سکے۔ اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوااوران ممالک کوعالمی صورتحال سے دورکردیاتاکہ تنہااسی کودنیاکاآقامان لیاجائے جودنیاکی قسمت کافیصلہ کرے ،اس کی کہی ہوئی بات حتمی ہو،وہ اکیلاہی مغربی دنیاکاچیمپین اورسرمایہ دارانہ فکروالوں کی قیادت اورنگرانی کرے اوران کے خلاف جنگ کااعلان کرے جواس کی فکر سے متصادم کسی دوسری فکر کے علمبردار ہوں یااس کی بنیادپر کوئی ریاست قائم کرنا چاہیں خواہ وہ ریاست بڑی ہویا چھوٹی۔ اس لئے وہ ریاست خلافت کی واپسی کی طرف دعوت کوکبھی بھی برداشت نہیں کرتا، اس کے ریسرچ سنٹرز اوراسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ ابھی سے، یعنی خلافت کے قیام سے پہلےہی مطالعے اورمنصوبے ترتیب دے رہے ہیں تاکہ اس کیلئے کی جانے والی ہرکوشش بلکہ اس میدان میں کسی قسم کی فکرکاتوڑ کرسکےمگروہ جلد یابہ دیرجان لیں گے کہ خلافت موجودہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی طرح کی ریاست نہیں ہو گی جس پر معمولی سرمائے کانقصان کرکے امریکہ تسلط حاصل کرپائے گا ،بلکہ اللہ القوی العزیز کے اذن سے خود امریکہ کوہی زبردست نقصان اٹھاناپرے گا (واللہ غالب علیٰ امرہ ولٰکن اکثرالناس لایعلمون) "اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔