الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تفسیر سورۃ البقرۃ 101 تا 103

بسم الله الرحمن الرحيم

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (البقرة: 101)
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 102)
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 103)

"جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقے نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے " (البقرۃ:101)
"اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کررہے ہیں ، کاش کہ یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:102)
"اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ کی طرف سے انہیں بہترین ثواب ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:103)

 

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں:
1 ۔ یہود رسول اللہﷺ کی مخالفت کرتے تھے اور تورات کے ذریعے بحث کرتے تھے اور اس کے ذریعے سوال کیا کرتے تھے جیسا کہ آپﷺ سے روح، اہل کہف اور ذو القرنین کے بارے میں سوال کیے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی اور آپ ﷺ قرآن سے ان کو جواب دیتے، اور مزید براں ان کی بعض تحریفات کو بے نقاب کرتےجیسا کہ انہوں نے زانی کے سنگسار اور رسول اللہﷺ کے اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں، کو تبدیل کیا۔ تورات میں بھی رسول اللہﷺ کی بعثت کی بشارت دی گئی تھی۔ جس وقت وہ دیکھتے تھے کہ تورات کے ذریعے حجت بازی بھی ان کی خواہشات کے برعکس ہے تو اس سے بھی منہ موڑتے اور اس کو پس پشت ڈال دیتے (گویا وہ جانتے ہی نہیں ) یعنی وہ تورات کو بھی اس طرح پھینک دیتے کہ گویا وہ اس پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور اس میں موجود رسول اللہﷺ کے اوصاف کی سچائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ان کی جانب سے روگردانی میں حد سے زیادتی کا ذکر ہے کہ تورات میں رسول اللہﷺ کی نبوت کے جو دلائل ہیں، وہ جان بوجھ کر ان سے منہ پھیر لیتے تھے۔
جب ان کو علم ہو گیا کہ وہ تورات کے ذریعے حجت بازی کر کے رسول اللہﷺ کی مخالفت میں ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے تورات کے علاوہ دوسرے وسائل کی تلاش شروع کردی تاکہ ان کے ذریعے رسول اللہﷺ سے حجت بازی کی جاسکے۔
2۔ جب اللہ نے اپنے رسولﷺ پر یہ آیت نازل کی کہ سلیمان نبی تھے إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا " ہم ہی نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح کہ ہم نے نوح اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اوریعقوب اور ان کی اولاد پر اورعیسی اورایوب اوریونس اورہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی" (النساء: 163)، اس پر یہود نے کہا: سلیمان تونبی نہیں بلکہ جادوگر تھے،پھر انہوں نے وہ کتابیں جمع کیں جن کو جادوگروں نے شیاطین کی مدد سے سلیمان کے دور حکومت میں لکھا تھا۔ یہ کتابیں مدینہ منورہ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہود نے کہا کہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے ذریعے سلیمان حکومت کیا کرتے تھے اور انہی کو رسول اللہﷺ کے ساتھ حجت بازی کا مواد بنا یا وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَان "اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے"۔
مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ " جو شیاطین پڑھتے تھے" یعنی جو وہ پڑھتے یا وحی کرتےیا وسوسہ کر تے جادوگروں کو تاکہ وہ اس کو اپنی کتابوں میں لکھ لیں، يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا "ان میں سے بعض بعض کو دھوکے سے مزیّن کی گئی باتیں وحی کرتے ہیں (الانعام:112)۔ اسلام سے قبل شیاطین آسمان سے کچھ باتیں چھپ کر سنتے تھے اور اس میں کئی ایک قسم کی جھوٹی باتیں شامل کر کے اپنے اولیاء (دوستوں) کو وحی (القاء) کرتے تھے، آسمان والے ایک دوسرے سے باتیں پوچھتے تھے یہاں تک کہ کوئی خبر دنیا کے آسمان تک آتی تو جِن اس کو چھپ کر سن لیتے اور اس کو اپنے اولیاء تک پہنچاتے۔ اس میں جو کچھ حق اور سچ ہو تا اس میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرتے۔ اسلام کے بعد جنات کو اس طرح چھپ کر سننے سے منع کیا گیا، وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعْ الآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا "اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے، اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے" (الجن:9)۔
عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ "یعنی سلیمان کے عہد میں"۔
3۔ جادو کی ان کتابوں کوجادوگروں نے دوطریقے سے لکھا تھا:
پہلا:شیاطین سے جو جادو ان کو وسوسہ کرتے تھے،
دوسرا: جو دوفرشتوں، ہاروت اور ماروت نے لوگوں کو سِکھایا تھا۔ ان دونوں کو اللہ نے بابل میں اتارا تھا۔ یہ لوگوں کو سحر سِکھاتے تھے اور ان کو تنبیہ بھی کرتے تھے کہ اس پر عمل نہ کرنا۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کو لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے اتارا گیا ہے، وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ " وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سیکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔ اللہ ہی نے اس زمین پر خیر وشر کو نازل کیا تا کہ اپنے بندوں کو خیر اور شر کے ذریعے آزمائے، وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً " ہم امتحان کے لیے تمہیں خیر و شر سے آزمائیں گے" (الانبياء: 35)۔
لوگوں کو جادو سِکھانا بھی ان کی آزمائش کے لیے تھا چنانچہ جو جادو (سحر) پر ایمان لایا اور اس پر عمل کیا تو اس نے کفر کیا۔ جو جادو (سحر) پر ایمان نہیں لایا اور عمل نہیں کیا تواس نے نجات حاصل کرلی، إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ "ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر" (ابقرۃ: 102)۔
4۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کو یہود کے جھوٹ اور بہتان سے بری قرار دیتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ آپ جادوگر (ساحر) یا جادو پر ایمان لانے والے نہیں تھے اس وجہ سے کافر بھی نہیں تھے بلکہ اللہ کے نبی تھے، اللہ کی سلامتی ہو ان پر، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی آپ جادوگر یا جادو پر ایمان رکھنے والے نہیں تھے۔ ان دلائل میں اس بات کاتعین ہو گیا کہ یہود نے سلیمان علیہ السلام پر جادوگر ہونے کی تہمت لگائی تھی۔ ابن جریر نے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے کہ: "یہودیوں نے کہا کہ دیکھو محمد حق اور باطل کو خلط ملط کر رہے ہیں اور سلیمان کا ذکر انبیاء کے ساتھ کررہے ہیں حالانکہ وہ تو ایک جادوگر تھے جو ہوا پر سوار ہوتے تھے" انہوں نے سلیمان علیہ السلام کو کافر نہیں کہا تھا لیکن اللہ نے ان کو جواب دیا کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی جادو (سحر) نہیں کیا، لیکن اس آیت میں (کفر) کامجازی استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو جادو پر ایمان رکھتا ہے اور جادو کرتا ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ عربی لغت کے لحاظ سے اس تعلق (سبب ) کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ جنہوں نے کفر کیا وہ شیاطین ہیں، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ" سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھےاور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔
5۔ سحر(جادو) کسی شے کو اس کی حقیقت کے برعکس ظاہر کرنے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالٰی کے اس قول کا بھی یہی معنی ہے کہ، سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ "لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا" (الاعراف: 116)، يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى "ان کے سحر سے ایسال خیال کرنے لگا کہ وہ دوڑ رہا ہے" (طہ: 66)، یعنی لاٹھی حقیقت میں لاٹھی ہی رہی لیکن دیکھنے والے کی نظروں میں وہ ایک سانپ بن کر دوڑ رہی تھی۔ لغت میں جوہری نے کہا ہے کہ: سحر اخذ (یا پکڑ) کو کہتے ہیں اور ہر وہ چیز جس کا اخذ لطیف اور دقیق ہو وہ سحر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سحرت الصبي إذا خدعته "میں نے بچے پر جادو کیا جب اس کو دھوکہ دیا" عرب کے بعض دیوانوں میں سحر العضۃ کے معنی میں وارد ہے اور العضۃ عرب کے ہاں بہتان کی شدت اور جھوٹ کی انتہا کرنے کو کہتے ہیں،شاعر کہتا ہے کہ :
أعوذ بربي من النافثات من عضة العاضة المُعِضة
میں جھاڑ پھونک والیوں سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو بہتان تراش اور حد درجے کے جھوٹے ہیں۔
عربوں نے اسی طرح اس کا استعمال کیا ہے یعنی سحر کو خفاء (چھپانے)کے معنی میں کیونکہ ساحر بھی اس کو چھپاکے کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سحر کیا ہے تو سحر وہ علم ہے جس کے ذریعے اس علم کا ماہر لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کرتا ہے جس سے وہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس دیکھتے ہیں، یعنی چیز کی حقیقت تبدیل ہو کر کوئی اور حقیقت نہیں بنتی بلکہ چیز وہی پہلے والی ہی ہو تی ہے ۔ اس لیے اگر کوئی انسان اس سانپ کو پکڑتا ہے جو دراصل لاٹھی ہے لیکن جادو سے وہ سانپ بن کر دوڑ رہی ہے تو وہ لاٹھی ہی ہو گی اگر چہ وہ لوگوں کو سانپ دِکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیوں کو پھینکا تو وہ ان کو لاٹھیا ہی نظر آرہی تھیں لیکن انہوں نے چونکہ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا تھا اس لیے وہ ان کو سانپ سمجھ رہے تھے۔ اسی لیے جب موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو جادوگروں نے دیکھ لیا کہ وہ تو حقیقی سانپ ہے لاٹھی نہیں اور جب اس نے ان سب کو نگل لیا تو بلاآخر ان سب کی حقیقت آشکار ہوگئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ یہ جادو نہیں کیونکہ جادو اشیاء کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا اسی لیے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ جیسا کہ موسی علیہ السلام کہتے ہیں، یہ رب العالمین کی طرف سے حق ہے، اس وجہ سےوہ ایمان بھی لے آئے اور ان کا ایمان کیا حیران کن تھا۔
6۔ اللہ کا یہ فرمان کہ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ "انہوں نے اس کی پیروی کی جو شیاطین تلاوت کرتے تھے" اور اللہ کا یہ فرمان کہ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لیکن شیاطین نے کفر کیا کہ لوگوں کو سحر سکھایا" یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سحر کوئی کفریہ کلام پڑھنے سے ہی ہو تا ہے، یعنی سحر ایسا علم ہے جس پر عمل ارادتاَ َ کفریہ الفاظ کے استعمال سے ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز کو سحر عرفی (روایتی) معنی میں جادو کہا جاتا ہے وہ اس آیت میں مذکور سحر میں داخل نہیں جیسے فنکاری (فنی وسائل) کے ذریعے بعض امور کو غیر حقیقی دِکھا نا جیسے ہاتھ کو چھپانا وغیرہ یا بات چیت میں ایسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے جن میں کفرنہ ہو لوگوں وہم میں مبتلا کرنا جیسے کہ بعض پیروں کے چیلے کرتے رہتے ہیں یہ سحر کے مذکورہ معنی میں داخل نہیں۔
7۔ جہاں تک ساحر (جادوگر) کی سزا کا تعلق ہے ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس کی سزا وہی ہے جو مرتد کی سزا ہے کیونکہ سابقہ مذکورہ معنی کے لحاظ سے وہ بھی کافر ہےاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے انھیں سزائے موت دی ۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس جادوگرنی کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا جس نے جادوکرنے کا اعتراف کیا۔
رہی بات اس روایت کی جس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل کو مسترد کرنے کی بات ہے تو یہ اس وجہ سے تھا کہ ام المومنین نے خلیفۃ المسلمین سے اجازت لیے بغیر اس کو قتل کیا تھا، خلیفہ نے قتل میں اختلاف نہیں کیا بلکہ بلا اجازت قتل کرنے پر اختلاف کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی ساحر کو قتل کی سزادی گئی تھی،اسی لیے یہ اجماع صحابہ ہے کیو نکہ اتنا اہم کام ان کے سامنے کیا گیا اورکسی نے انکار نہیں کیا۔ احمد نے سفیان سے الاحنف بن قیس کے چچا کے حوالے جزء بن معاویہ سے روایت کی ہے کہ "عمر کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا کاتب یہ حکم لے کر ہمارے پاس آیا کہ ہر جادو گر کو قتل کرو، شاید سفیان نے کہا تھا کہ اور ہر جادوگرنی کو"۔
جہاں تک ان بعض خفیہ فنکارانہ اعمال کا تعلق ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ لوگوں کو اَن جانے میں دھوکہ دیتے ہیں اور پیروں اور ان کے شعبدہ بازیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان سب لوگوں کے ساتھ ان کے فراڈ اور لوگوں کے نقصانات کے لحاظ سے تعزیری سزائیں دی جائیں گی ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں تعزیر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے قتل تک ہو سکتا ہے ۔
لیکن حد میں قتل اور تعزیر میں قتل کے درمیان فرق یہ ہے کہ پہلا مرتد ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں نہیں دفنا یا جائے گا۔ جبکہ دوسرا مسلمان اپنے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے فاسق و فاجر ہے اس کی نماز پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا یا جائے گا۔
8۔ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ "تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ جادو سیکھتے ہیں اور اس کے ذریعے طرح طرح کے کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی کرتے ہیں جو ان سے واسطہ رکھتے ہیں اور وہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان مسائل پیدا کرتے ہیں یہاں تک کہ نوبت طلاق اور جدائی تک پہنچتی ہے، پھر اللہ سبحانہ وتعالٰی نے عقیدے سے متعلق ایک انتہائی اہم امر کو بیان کیا تاکہ اس بات کا زالہ کیا جاسکے جس کا لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہونے کا امکان ہے جو یہ ہے کہ ساحر کے پاس بھی اللہ تعالٰی جیسی کوئی قدرت ہے یا وہ اللہ کی مشیّت کے بغیر کچھ رونما کرسکتا ہے۔ اس لیے اللہ نے اس آیت میں یہ بیان کیا کہ اللہ کی مرضی کے بغیر اس کے قلمرو میں کچھ نہیں ہو سکتا ، یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف، اللہ کی مشیّت یا ارادے کا یہی معنی ہے، یعنی اس کائنات میں اللہ کی مرضی ، اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا وَمَا تَشَاءُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ "وہ نہیں ہو سکتا جو تم چاہتے ہو مگر وہی ہوگا جو اللہ رب العالمین چاہتاہے" (التكوير: 29)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اس عمل سے راضی ہے کیونکہ اللہ کفر اور معاصیّت پر راضی نہیں ہو تا، إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلاَ يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ "اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے کفر پر راضی نہیں ہو تا" (الزمر: 7)۔ یہ تو صرف ایک اصطلاح ہے جس کا ایک یہ معنی ہے جو نصوص کی چھان بین سے معلوم ہو تا ہے۔ اللہ کے اذن، مشیّت اور ارادے کی لغوی حقیقت کی تفسیر نہیں کی جاسکتی کیونکہ لغت میں اس کا معنی کسی کام کو کرنے کی اجازت ،مطالبہ یا رضامندی ہے۔ اس لیے اس کی تفسیر اہل لغت، اہل فقہ ، اہل اصول یا کسی بھی علم کی کسی بھی عرفی حقیقت کی طرح اصطلاحی دلالت سے ہی کی جائے گی۔
اور بِإِذْنِ اللَّهِ "اللہ کی اجازت سے" اس مقام پر اس کی دلالت بہت عظیم ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے جادوگروں کے بعض کاموں اور لوگوں کی آنکھوں کو دھوکہ دینے اور بعض امور کو ان کے حقائق سے ہٹ کر دیکھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ یہ لوگ (جادوگر) بھی کچھ پید ا کر سکتے ہیں یا ایسے کام کر سکتے ہیں جس سے اللہ بھی ان کو روک نہیں سکتا اس لیے اللہ نے اس کی تاکید کردی کہ یہ اللہ کے اذن سے ہی ہو تا ہے اور اس کے ارادے اور مشیّت کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا، اللہ چاہے تو ان کے سحر کو ناکام بنادے کیونکہ کائنات میں اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا ۔
یہاں کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ : پھر اللہ ان کے سحر کو ناکام کیوں نہیں کرتا؟!
اللہ سبحانہ نے خیر اور شر دونوں کو بیان کر دیا اور یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ انسان کو خیر پر خیر ہی کی شکل میں بدلہ دیا جائے گا اور شر پر شرہی کی صورت میں بدلہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھادیا کہ اگر اللہ چاہے تو ہم سب انسانوں کو ایک ہی امت خیر یا امت شر بنا دے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ "اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ تو اب بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے ہیں" (ہود: 118)۔لیکن اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت سے ، جس کو وہی جانتا ہے، ہمیں بااختیار چھوڑ دیا کہ ہم جو چاہیں اختیار کر لیں خیر یا شر، دونوں صورتوں میں ہمیں بدلہ دیا جائے گا کچھ لوگ جنت جائیں گے اور کچھ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دیتے لیکن میرا فرمان حق ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا" (السجدہ: 13)۔ اس لیے اس سوال کا کوئی جواز ہی نہیں کہ اللہ سحر کے اس شر انگیز کام کو باطل کیوں نہیں کرتا؟یا اللہ ہمیں اس خیر میں ہی لگا کر کیوں نہیں رکھتا جس کا ہمیں حکم دیا ہے ؟ یا اللہ ہمیں شر کے کاموں سے کیوں نہیں روکتا کہ ہم خیر کے علاوہ کچھ کر ہی نہ سکتے؟۔۔۔اللہ نے تو ہمارے سامنے خیر اور شر کو بیان کر دیا اور ہمیں چھوڑ دیا کہ ہم ان میں سے ایک کو اپنائیں یہی اللہ سبحانہ وتعالٰی کی حکمت کا تقاضا ہے لاَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ "اللہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا جبکہ یہ جوابدہ ہیں" (الانبياء: 23)۔ لیکن بہر حال ہمیں یہ عقیدہ رکھنا چا ہیے کہ اللہ کی حکمرانی میں کوئی بھی چیز اس کی مرضی ، ارادے اور مشیّت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔
9۔ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ " وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"
اس کا یہ معنی ہے کہ سحر شر ہی شر ہے یہ اس چیز کا وصف ہے جس کو یہ سیکھتے ہیں یعنی سحر يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لوگوں کو سحر سکھاتے ہیں" اس وصف کی دلالت واضح ہے کہ یہ سیکھنا ان کے لیے نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔ سحر سراپا شر اور نقصان ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں۔
پھر اللہ نے یہ بیان کیا کہ جو مذکورہ طریقے سے سحر کا عمل کرتا ہے آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کی آیات کا کافر (چھپانے والا) ہے۔
اشْتَرَاهُ "اس کو خریدا" یہ استعمال مجازی ہے یعنی اس کو اپنا پیشہ بنایا کیونکہ کسی چیز کو خریدنا اس کے عین کو استعمال کرکے یا اس کا معاوضہ لے کر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے، سحر کو پیشہ بنا کر ذریعہ معاش بنا نا گویا اس کو خریدنا ہے۔
وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "وہ جان چکے ہیں کہ جو بھی اس کو مول لے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا" یہ خبر بمعہ ترک طلب ہے یعنی نہی جازم کے معنی میں ہے جو سحر کے تباہ کن ہو نے دلیل ہے۔
وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اورکیا ہی بری چیز ہے جو انہوں نے خود خریدی ہے اگر یہ سمجھ دار ہو تے " (البقرہ: 102) یعنی کیا ہی بری چیز ہے وہ جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو بیچا کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کے لیے پیش کردیا اور جہنم کی آگ کے بدلے اس کو کھو دیا، مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"۔ اپنے آپ کو سحر کے بدلے بیچ ڈالنے کا جو معاوضہ ان کے لیے تیار کر کے رکھا گیا ہے وہ اللہ کا غضب، اس کا عذاب، جہنم کی آگ ہے اور یہ واقعی بری اور نقصان دہ تجارت ہے۔
لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر وہ سمجھ رکھتے" یعنی اپنے علم سے فائدہ اٹھانے والے ہو تے کیونکہ جو کوئی علم رکھتا ہے لیکن اس کی دلالت کی پابندی نہیں کر تا (عمل نہیں کرتا) تو گویا وہ علم ہی نہیں رکھتا۔ جس شخص کو سحر کے تباہ کن انجام کا علم بھی ہو اور وہ اس میں ملوث بھی ہو جائے تو گویا وہ جانتا ہی نہیں۔ یہ موضوع پر پُرقوت دلالت کا زبردست نمونہ ہے سبحان اللہ سبحان اللہ!
رسول اللہﷺ ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے جو بے فائدہ ہوفرمایا: أعوذ بالله من علم لا ينفع، وقلب لا يخشع، وعين لا تدمع "میں ایسے علم سے جو بے فائدہ ہے، ایسے دل سے جس میں خشوع نہیں اور ایسی آنکھ سے جو آنسو نہیں بہاتی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں"۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ قوت کا استعمال ہے اور کتاب اللہ میں یہ دیگر موضوعات میں بھی موجود ہے اور دوسری دلالت میں بھی مستعمل ہے جیسے کہ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ "کیا یہ لوگ زمین پر نہیں چلتے کہ اپنے دل و دماغ سے سمجھتے یا اپنے کانوں سے سنتے یہ تو آنکھوں سے نابینا نہیں بلکہ سینے میں موجود دل کے اندھے ہیں" (الحج: 46)،یا جیسے ومثل اللذین کفرو کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعا ونداء صم بکم عمی فھم لا یعقلون "اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا اس جانور کی طرح ہے جو سوائے بلانے اور پکارنے کے کچھ نہیں سنتا یہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں یہ سمجھتے ہی نہیں" (البقرۃ: 171)۔
جو شخص اپنی سماعت سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ سنتا ہی نہیں
جو شخص اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ دیکھتا ہی نہیں
جو شخص اپنے بولنے سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ بولتا ہی نہیں
جو شخص اپنی عقل سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے عقل
جو شخص اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے علم
اور اول و آخر اللہ ہی کا امر ہے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر یہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو اللہ کا اجر بہت بہتر تھا اگر یہ جانتے" یعنی اگر یہ ایمان لاتے، اطاعت کرتے اور سحر کو ترک کرتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا، لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یعنی اگر یہ لوگوں کو پہنچانے والے سحر کا دنیاوی تباہ کن ضرر اور نقصان اور اس کی سزا میں آخرت کے دن جہنم کی آگ کے عذاب کے بارے میں اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک