سوال کا جواب: یوکرائن میں جاری واقعات اور بین الاقوامی مفادات
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:
20/2/2014 کو ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ یوکرائن کی سکیورٹی فورسز، جو کیف (دارالحکومت) میں آزادی چوک سے نکل چکی تھیں، اور حکومت مخالف احتجاج کرنے والوں کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں میں کم ازکم 17 افراد ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوگئے، احتجاج کرنے والوں نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا جس کو اور وزارت عظمی ٰکی عمارت کو خالی کرا لیا گیا تھا.....بدھ19/2/2014 کو یوکرائینی حکومت نے "دہشت گردی" کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا جس کا ہدف حزب اختلاف تھا، جن کو انہوں نے 'سخت گیر' کے طور پر بیان کیا، اس کے سبب 26 افراد لقمہ اجل بن گئے اور آزادی چوک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا! لیکن کل 21/2/2014 کو یوکرائنی صدر اور حزب اختلاف نے معاملے کو دوطرفہ افہام وتفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کا اعلان کر دیا.....پھر آج 22/2/2014 کو یہ اعلان کیا گیا کہ یو کرائنی پار لیمنٹ نے صدر کو برطرف کرنے اور جلد ہی 25/5/2014 کو نئے سرے سے صدارتی انتخابات کرانے کے حق میں قرارداد پاس کی.....سوال یہ ہے کہ: کیا یہ واقعات مقامی ہیں، یعنی حکومت اور حزب اختلاف کے مابین؟ یا یہ بین الاقوامی ہیں کہ اس میں امریکہ، یورپی یونین اور روس کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ بالآخر نیا نارنجی انقلاب ہے جو یوکرائن میں روسی اثرو رسوخ کو امریکی مفادات کی خاطر ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا، جیسا کہ پہلے انقلاب میں رونما ہوا تھا؟ اور کیا روسی رد عمل کی توقع ہے جیسا کہ 2010 میں ہوا تھا؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
مندرجہ ذیل امور سے جواب واضح ہو جائے گا:
1۔ یوکرائن پر روس اور یورپ کے درمیان رسہ کشی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاریخ میں دوسرے ممالک جیسے روس اور خلافت عثمانیہ نے اسے، بالخصوص کریمیا اور پولینڈ کو آپس میں تقسیم بھی کر رکھا تھا.....پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب اور اس کے ایجنٹوں نے عثمانی ریاست کے خلاف سازشیں کیں جس کے نتیجے میں اس کا انہدام ہوا اور سوویت یونین کا ظہور ہو گیا.....پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نیٹو ممالک کاسر غنہ بنا جنہوں نے جنگ جیت لی اور یوں یوکرائن کے لیے رسہ کشی کرنے والے ممالک: مغرب اور سوویت یونین بن گئے، جس نے پولینڈ کو بھی اپنی جمہوریتوں میں ضم کر دیا اور یوکرائن کو بھی۔ یوکرائن ان 15اہم جمہوریتوں میں سے ایک ہے جو سوویت یونین کے سابقہ ممبر ریاستیں تھیں.....سوویت یونین کے زوال کے بعد یوکرائن کے لیے رسہ کشی کرنے والے ممالک: روس ، امریکہ اور یورپی یونین بن گئے۔ ان میں سے ہر ریاست یوکرائن کو بھر پور اہمیت دیتی ہے:
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو یوکرائن اس کے لیے اہم ترین علاقوں میں سے ہے اگر وہ اس کو کھو دے تو مغرب براہ راست اس کی سرحدوں پر ہو گا، اس لیے روس کے لیے یورپی سمت سے یہ حفاظتی ڈھال کی طرح ہے۔ اس کی اقتصادی اہمیت اس کے علاوہ ہے،جہاں سےمغرب کو جانے والی روسی گیس کی پائپ لائنیں گزرتی ہیں، اسی طرح یوکرائن روس کے لیے اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبے روسی اشتراک سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں، چونکہ یہ روس اور یورپ کو جدا کر نے والا خطہ ہے اس لیے روس کی جانب سے یو کرائن کو کھونے سے یورپ عملا َ َروس کے دروازے پر ہو گا کیونکہ یوکرائن ماسکو سے صرف 300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہے روس کی یوکرائن میں مداخلت کا سبب۔ ایک عامل اور بھی ہے جس کی وجہ سے روس یوکرائن کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ یہ کہ مشرقی یوکرائن کے باشندوں کی بھاری اکثریت تقلید پسندنظریے کی پیروکار ہے اور روسی زبان بولتی ہے۔ یہ تو ایک لحاظ سے تھا جبکہ ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ روس کے بحر اسود کے فوجی اڈے کے جنگی جہازوں کا بیڑہ یہاں موجود ہے۔
یورپ کا جہاں تک تعلق ہے تو یوکرائن روس اور مشرقی یورپ کو جدا کرنے والی دیوار ہے۔ اس کی سرزمین سے گزر کر 80 ٪ روسی قدرتی گیس یورپ جاتی ہے جوکہ یورپ کے ایندھن کا ایک چوتھائی ہے۔ اس لیے یہ یورپ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 2004 میں پولینڈ کے یورپی یونین کا رکن بننے کے ساتھ، جس کے بعد رومانیہ اور بلغاریہ بھی یونین میں شامل ہو گئے، یو کرائن یورپی یونین کے ممالک کا ہمسایہ بن گیا اور یورپ کے لیے بڑی اہمیت اختیار کرگیا۔ یہ ایک طرف یورپ اور روس کے درمیان پُل ہے اور دوسری طرف ان کے درمیان جدائی کر نے والا علاقہ ہے۔
امریکہ کا جہاں تک تعلق ہے، یوکرائن اس کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ روس کے زیر اثر خطے کا محاصرہ کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے، اسی طرح یو کرائن کی بندرگاہیں نیٹو اور اس کے بحری بیڑوں کے بحر اسود میں داخلے کے لیے بہت اہم ہیں۔ یوکرائن میں امریکی بالادستی کا مطلب خطے اور خصوصا مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبوں کو ناکام بنانے سے روس کو باز رکھنے کے لیے مسلسل اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور اس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
2۔ امریکہ کی جانب سے یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنانے کے اہتمام اور یورپ کی جانب سے یوکرائن کو یونین کا ممبر بنانے کے بندو بست کے نتیجے میں مغرب نے 2004 میں نارنجی انقلاب اور 2005 کے انتخابات کی پشت پناہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا.....اور چونکہ ابھی روس کو سوویت یونین کے سقوط کے زخموں سے چھٹکارا پانا تھا.....اس سب کے نتیجے میں مغرب نارنجی انقلاب کے اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں یانوکووچ (Yanukovych) کو شکست سے دوچار کیا، جو کہ 2005 کے انتخابات میں روس کا نامزد کردہ تھا۔ یوں مغرب، خاص کر امریکہ کا نامزد امیدوار یو شینکو (Yushchenko) جمہوریہ کا صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ پس مغربی بالادستی نے روسی بالادستی کی جگہ لے لی۔
3۔ پے در پے ایسے واقعات رونما ہو نے لگے جن کے پس پردہ یوکرائن کو نیٹو اور یورپی یونین میں شامل کرنے کے منصوبے تھے اور امریکہ نے موقع سے فائدہ اٹھایا ۔ روس 2005 کے انتخابات میں اپنے وفادار حکمران سے ہاتھ دھو بیٹھا اور یورپ اگر چہ یوکرائن کو یورپی یونین میں شامل کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے لیکن یونین بدستور مشرقی یورپ کے ان ممالک کی مشکلات سےدوچار ہے جن کو یونین میں شامل کیا گیا تھا.....یوں 2005 کے انتخابات کےنتائج سے فائدہ اٹھانے اور اپنے ایجنٹ وکٹر یو شینکو کو کامیاب بنانے کے لیے حالات امریکہ کے لیے ساز گار تھے۔ اسی لیے امریکہ نے اس کی حکومت کے دوران یوکرائن اور مغرب کے درمیان گٹھ جوڑ میں جلدی میں اس دورانیے سے فائدہ اٹھا یا۔ یو شینکو اپنی حکومت کے دوران روس کے بحر اسود کے بیڑے کو 2017 میں روس کے ساتھ فوجی معاہدے کے ختم ہونے پرSevastopol سے بھگا نے کی دھمکی دیتا رہا، یوشینکو یوکرائن کو مکمل طور پر مغربی اداروں جیسے یورپی یونین اور نیٹو میں مدغم کر نے کی اپنی خواہش کو چھپاتا بھی نہیں تھا،کیف (Kiev)نے یورپی یونین میں شمولیت کے معاہدے کے لیے مذکرات بھی شروع کر دیے، نیٹو میں رکنیت کے لیے لائحہ عمل دینے کا مطالبہ بھی کیا.....اس وجہ سے ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے نارنجی انقلاب کی پشت پناہی میں کس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا یا جس کے نتیجے میں یو شینکو اقتدار پر براجمان ہوا اور یوکرائن اس عرصے میں امریکہ کا اہم اسٹریٹیجک پارٹنر بن گیا، امریکہ اس کو معاشی امداد بھی دیتا رہا، یہاں تک کہ یوکرائن امریکہ سے امداد لینے والے ملکوں کی فہرست میں اسرائیل اور مصر کے بعد تیسرے نمبر پر آگیا۔ اس کا مقصد یوکرائن کا روس پر معاشی اعتماد کو ختم کرنا تھا.....
4۔ اس صورت حال کا روس پر گہرا اثر ہوا بلکہ وہ اپنے مفادات کو ضرب لگنے کی وجہ سے مشتعل ہوا۔ 2004 میں یوکرائن میں نارنجی انقلاب برپا ہو نے کے بعد یوکرائن کی جانب سے یورپی یونین اور نیٹو میں رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں سے روس کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ گئے تھے، اسی طرح یوکرائن کی جانب سے Sevastopol میں لنگر انداز روسی بحری بیڑے کے بارے میں مؤقف اور قدرتی گیس کے حوالے سے اختلافات بھی ان تعلقات کے بگڑنے کےاسباب تھے، لیکن روس دو بنیادی اسباب کی بنا پر 2005 کے انتخابات کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات کے سامنے ڈٹ جانے کے قابل نہیں تھا۔ پہلا سبب: وہ سوویت یونین کے سقوط کے زخموں سے مکمل طور پر شفایاب نہیں ہو پایا تھا، دوسرا سبب: امریکہ اور یورپ کو اپنی سیاسی اور معاشی صورت حال میں کسی مشکل کا سامنا نہیں تھا، مزید یہ کہ طرفین کی ترجیحات میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا: امریکہ چاہتا تھا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو اور یورپ کی خواہش تھی کہ یوکرائن یونین میں شریک ہو۔ اس وقت ان ترجیحات کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں تھا.....ان دو عوامل نے امریکہ اور یورپ کو مل کر یوکرائن کو روس سے دور کرنے کے اقدامات کر نے کی شہ دی جبکہ اس وقت روس اپنی دیگر گوں صورت حال کی وجہ سے مزاحمت پر قادر نہیں تھا.....
5۔ تاہم 2007 کے اواخرسے اور خاص کر 2008 میں صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی، جب امریکہ اور یورپ اقتصادی بحران میں ڈوب گئے جبکہ روس نے کسی حد تک سیاسی اور اقتصادی استحکام حاصل کر لیا، یوں اس صورت حال نے روس کو نارنجی انقلاب کے بعد بننے والی یوکرائن کی نئی حکومت کو تنگ کرنے، خاص کر گیس کے ذریعے اقتصادی طورپر اس کو ستانے کے لیے مہمیز دی،کیونکہ وہ مطمئن تھا کہ امریکہ اور یورپ اپنے بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ روس نے یوشینکو حکومت کے خلاف ماحول کو گرمانے ،خاص کر یوکرائن کے مشرقی علاقوں اور کچھ دوسرے روس نواز علاقوں میں بھر پور کوشش کی.....گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کو بند کرنے نے یوکرائن کی مغرب نواز حکومت کے خلاف موثر ہتھیار کا کام کیا، اس کے علاوہ مشرقی یوکرائن میں اپنے ہمنواؤں کو متحرک کیا یہاں تک کہ 2010 کے انتخابات تک یوکرائن میں لوگوں کی بڑی تعداد مغرب نواز حکومت سے بیزارہوچکی تھی، یوں انتخابات کے نتائج روس کے حق میں تھے اور یانوکوویچ دوبارہ حکمران بن گیا، تب روس نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ یانوکوویچ نے توانائی کے میدان میں ماسکو کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کر دیے، دوطرفہ اقتصادی تعاون پائیدار ہو گیا اور صحافت،نشر و اشاعت، تعلیم، زبان اور ثقافت کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط کیا ، یانوکوویچ نے قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی کے بدلے روس کے بحر اسود کے بیڑے سے متعلق نئے معاہدے کے اجراء کا اشارہ دیا، جس کو بعد میں عملی جامہ پہنایا گیا۔
یوں انتخابات کے نتائج روس کے حق میں نکلے اگر چہ فرق زیادہ نہیں تھا لیکن نتائج بہر حال یوشینکو سے لوگوں کی ناراضگی کی عکاسی کرتے تھے،پہلے مرحلے کے نتائج کے مطابق اس نے 5.33 ٪ ، یولیا ٹیمو شینکو نے تقریبا 25 ٪ اور وکٹور یانوکوویچ نے تقریبا 35.5٪ ووٹ لیا،چنانچہ اتخابات دوبارہ کر وائے گئے اور دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو اتو یا نوکوویچ نے 49 ٪ ووٹ کے ساتھ 3 ٪ کے فرق سے مغرب کی نامزدکردہ ٹیمو شینکو جس نے 46 ٪ ووٹ لیا تھا، پر برتری حاصل کی،یوں روس فروری 2010 میں یوکرائن میں اپنے آدمی ویکٹوریانوکوویچ کو برسر اقتدار لانے میں کا میاب ہو گیا، یہ ملک کا چوتھا صدر اور روس کا زبردست حامی ہے، تب سے امریکی اثرورسوخ زوال کا شکار ہو گیا اور یوکرائن روس کے ساتھ تعلقات استور کر نے کی راہ پر گامزن ہو گیا۔
معمولی فرق کے باوجود روس نے ان نتائج سے مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھا یا، صدر یانوکوویچ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصے میں خارکیف میں 21/4/2010 کو روسی صدر مید ویدیف سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں بحر اسود کے روسی بیڑے کے معاہدےکی مدت جو 2017 کو ختم ہو رہی تھی ،میں مزید 25 سال کی توسیع کر دی جو 2042 میں ختم ہو گی، جس کے بدلے روسی کمپنی گیس پروم نے 2009 میں انجام پا نے والے معاہدے کی باقی ماندہ مدت کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں 100 ڈالر فی ہزار مکعب میٹر کمی کر دی۔
6 ۔ یانوکوویچ بہت تیزی سے روس نوازی میں آگے بڑھتا رہا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ ووٹ کے 3 ٪ کے اس معمولی فرق کا یہ مطلب ہے کہ مغرب کے آلہ کاروں کا یوکرائن میں بدستور اسی طرح وزن ہے جیسا کہ روس نوازوں کا وزن ہے.....پھر وہ اس غلط فہمی کا بھی شکار رہا کہ امریکہ اور روس کے درمیان دوسرے عالمی مسائل میں ہم آہنگی، شاید امریکہ کی جانب سے یورپ کی تائید کی راہ میں حائل ہو جائے گی جب وہ اس مغرب نواز تجارتی معاہدے سے، جس کے لیے بات چیت جاری تھی، پیٹھ پھیر لے۔ ایسا ہی ہواکہ اس کا یہ گمان غلط ثابت ہوا، اس کے گمان نے اس کو دھوکہ دیا، امریکہ اگر چہ روس سے ہم آہنگی آگے بڑھا رہا تھا، لیکن وہ اسی وقت اس بات کو بھی اہمیت دے رہا تھا کہ یوکرائن میں نہ صرف قدم جمائے بلکہ نیٹو کے لیے اڈہ بھی قائم کرے! یعنی امریکہ اگر چہ یورپ کے لئے یوکرائن کواپنے ساتھ ضم کرنے کے راستے میں روکاوٹ بن جائے ، مگر یہ اس لیے نہیں کہ یوکرائن میں روسی اثرورسوخ کو جاری رکھا جائے بلکہ اس لیے کہ یوکرائن امریکہ کے گود میں جابیٹھے! اگر یانوکوویچ سیاسی اعتبار سے بیدار ہو تا، وہ اس بات کو اہمیت دیتا لیکن وہ ایسا نہیں تھا..... یوں یہ بحران شروع ہو گیا۔
7۔ قبل اس کے کہ ہم بحران پر بحث کریں پھر قتل و غارت کے رونما ہو نے اور پھر دوطرفہ حل .....اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی جانب سے صدر کو معزول کر نے پر بحث کریں.....وغیرہ وغیرہ۔ ہم یوکرائن میں دلچسپی لینے والے تینوں ممالک کے مؤقف کو بیان کریں گے تا کہ یہ بالکل واضح ہو جائے کہ یوکرائن میں پیش آنے والے واقعات میں ان ممالک کا کر دار کیا ہے اگرچہ ان میں ہر ایک کا حالات کے لحاظ سے سرگرم یا ہلکا پھلکا کردار ہے، ان میں سے ہر ملک کے مفادات کا تقاضا کیا ہے، یہ مؤقف مندجہ ذیل ہے:
ا۔ روس : روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے 25 جنوری 2014 کو یورپی سربراہ کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین پر تنقید کی، حکومت مخالف احتجاجات کے دوران یورپی یونین کی جانب سے اعلی سطحی وفد یوکرائن بھیجنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا "اس کو سیاسی مداخلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے" اور برسلز میں اس سربراہ کانفرنس کے اختتام کے موقع پر اس نےکہا: "اگر ہمارا وزیر خارجہ یونان یا کسی بھی ریاست کے بحران کے حوالے سے کسی ایسے اجتماع میں شرکت کر ے جویورپی یونین کے خلاف ہو اور لوگوں کو کسی بھی کام کے لیے اکسا یا جا رہا ہوتو میں اپنے یورپی شرکاء کے رد عمل کا تصور کر سکتا ہوں" (یاہو نیوز 18/1/2014)، اسی طرح انٹر فیکس نے روسی وزیر خارجہ لاروف کا یہ قول نقل کیا کہ: "جب جان کیری یہ کہتا ہے.....یوکرائن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کر ے کہ وہ کس کے ساتھ ہو نا چاہتا ہے - پوری دنیا کے ساتھ یا ایک ریاست کے ساتھ، کیری - اپنے تجربے اور درست حس کے ساتھ - وہ آخری شخص ہے جس سے میں اس قسم کے پرو پگینڈے کی توقع کر سکتا ہو"، 01/2/2014 کو برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا کہ روسی وزیر خارجہ لاروف نے کہا: "سڑکوں پر پُرتشدد مظاہروں پر اکسانے کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟.....کیوں اعلی پائے کے یورپی سیاست دان آخر اس قسم کے کاموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، وہ اپنے ملکوں میں اس قسم کی قانون شکنی پر فورا ً سخت سزائیں دیتے ہیں ؟" روس نے یوکرائن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو حکومت کے خلاف "انقلاب کی کوشش" سے تعبیر کیا اور وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے یوکرائن کے خونی واقعات کی ذمہ داری بعض یورپی ممالک پرڈال دی، اور مغرب سےاس بحران میں ثالث نہ بننے کا مطالبہ کیا، (19/2/2014 الجزیرہ)، 6/2/2014 کو رائٹرز ایجنسی نے روسی صدر کے مشیر اور یوکرائن کے ساتھ تعلقات کےذمہ دار گلازییف کا اخباری بیان نقل کیا جس میں اس نے زور دے کر کہا کہ امریکی "مداخلت " 1994 میں طے پانے والے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کی رو سے واشنگٹن اور ماسکو نے یوکرائن کے اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کی ضمانت دی ہے اور اس قسم کے ہنگامے پھوٹنے کی صورت میں لازمی مداخلت کریں گے، یہ سوویت دور کے اپنے ایٹمی شیلڈ سے دستبردار ہونے کے بعد تھا، روسی عہدہ دار نے کہا کہ "اب جو کچھ امریکی کر رہے ہیں یہ یوکرائن کے اندرونی معاملات میں کھلی یکطرفہ مداخلت اور اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے جو اجتماعی ضمانت اور مل کر کام کرنے کی بات کر تا ہے" (رائٹرز، الجزیرہ ایجنسیوں سے 6، 7 /2/2014 )۔
ب ۔ یورپی یونین : پولینڈکے وزیر خارجہ رادو سلاف نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ یورپی یونین کی جانب سے ذمہ داری ملنے پر کیف روانہ ہو چکے ہیں تاکہ وہاں کے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کریں، پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ پیوٹر سیرافن نے اعلان کیا کہ یورپی یونین کے اندر اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ یوکرائن کے عہدہ داروں پر پابندیاں عائد کی جائیں، فرانسیسی صدر فرانسو ہولاندی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران جرمن چانسلر میرکل نے کہا کہ "یورپی وزراء خارجہ جمعرات 20/2/2014 کو اس بات پر بحث کریں گے کہ کس قسم کی پابندیاں تجویز کی جائیں کہ جس سے اس بات کا اظہار ہو کہ یورپ یوکرائن میں سیاسی منزل کی واپسی چاہتا ہے" یورپی یونین نے دو ماہ سے زائد عر صہ سے جاری یورپ سے قرابت داری کے حامی مظاہروں کو ختم کرنے کی صورت میں یوکرائن کے لیے امدادی پیکج دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ یہ پیش کش یونین کی خارجہ سیاست کی ذمہ دار کیتھرائن آشٹن کی کیف میں صدر یانوکوویچ اور ان اپوزیشن راہنماوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کی ہے جو صدر کی برطرفی کے مطالبے پر ڈٹے ہو ئے ہیں۔
اس کی حمائت میں اپوزیشن لیڈر ویٹالی کلیچکو نے یورپی یونین کو اس گہرے سیاسی بحران میں، جس سے ان کا ملک دو چار ہے، ثالث بننے پر زور دیا۔کلیچکو نے مزید کہا کہ آشٹن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یورپی یونین اپوزیشن لیڈروں اور حکومت کے درمیان مذکرات میں ثالثی کے لیے اعلی سطحی وفد بھیجے گا، (5/2/2014 الجزیرہ)، 31 جنوری 2014 کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی امن سربراہی کانفرنس میں بھی یوکرائن کا موضوع چھایا رہا، یورپی کمیشن کے سربراہ ہرمان وان رومپوی (Herman Van Rompuy)نے کہا: "پیشکش بدستور قائم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ہمارے لیے سازگار ہے، یوکرائن کا مستقبل یورپی یونین کے ساتھ ہے"، رائٹرز ایجنسی نے خبر دی کہ جرمنی، پولینڈ اور فرانس کے وزراء خارجہ یوکرائنی صدر کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، سفارتی ذرائع کے مطابق ابھی وہ وہاں سے نہیں گئے ہیں، ایک سفارتکا رکا یہ قول نقل کیا کہ "وہ اب ان کے ساتھ ملاقات میں ہیں" یہ کئی ماہ سے جاری بحران کوختم کرنے کے لیے ان کی کوشش ہے۔ (رائٹرز 20/2/2014)۔
اسی سلسلے میں ارسینی جو کہ گرفتار اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم یولیا ٹیموشینکو کے حلیف ہیں اور قد آور اپوزیشن لیڈر اور باکسنگ کے سابق چیمپئن ویٹالی کلیچکو نے جرمن چانسلر انجیلا میرکل سے برلن میں ملاقات کی ، کلیچکو نے کہا کہ جرمنی اور یورپی یونین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران کے حل کی تلاش میں قائدانہ کردار ادا کریں،کلیچکو نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یوکرائنی عوام کی مالی امداد اور یورپ کے ساتھ ویزے کے نظام کو ختم کرنے یا اس میں نرمی کرنے کے مثبت پروگرام کے ساتھ مغرب کو چا ہیے کہ وہ یانوکوویچ پر دباؤبھی ڈالے، اس کے ساتھ میرکل نے کیف سے نئی حکومت تشکیل دینے اور دستور میں اصلاح کا مطالبہ کیا اور ایک بیان میں کہا "مظاہرین کو رہا کرنے پر اتفاق مثبت قدم ہے اور اس سمت میں مزید مثبت اقدامات کی ضرورت ہے" (الجزیرہ 18/2/2014)۔
ج ۔ امریکہ : رائٹر نے 7/2/2014 کو واشنگٹن سے خبر دی کہ : " یوٹیوب پر نشر ہو نے والی امریکی وزارت خارجہ کے عہدہ دار اور یوکرائن میں امریکی سفیر کے درمیان بات چیت سے اس ملک میں سیاسی انتقال اقتدار کے بارے میں امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے"، مزید کہا کہ "اس بات چیت میں جو 4/2/2014 کو یوٹیوب پر نشر ہوئی ، اس میں معاون امریکی وزیر خارجہ وکٹوریا نولینڈ نے کیف میں امریکی سفیر جیفری پایات کو پیغام دیا کہ ویٹالی کلیچکو جو کہ سابق باکسنگ چیمپئن ہے اوراب سیاست میں آیاہے اور اہم اپوزیشن لیڈر ہے ، وہ نہیں سمجھتی کہ اس کو نئی حکومت میں ہو نا چاہیے"، اس کے باوجود کہ کلیچکو کو یورپ میں خوش آمدید کہا گیا خاص کر وہ یورپی وفد جس نے یوکرائنی صدر اور اپوزیشن سے ملاقات کی اور اپوزیشن لیڈروں میں سے ایک یہی کلیچکو ہے ، مگر امریکی معاون وزیر خارجہ ویکٹوریا نولینڈ نے امریکی سفیر کے ساتھ اپنی بات چیت میں یورپی یونین کی رائے کو پسند نہیں کیا اور کہا "یورپی یونین بھاڑ میں جائے"، نولینڈ نے کیف کے بحران کے سیاسی حل میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کا اشارہ دیا، اگر چہ نولینڈ نے اپنی بات پر معذرت کی، لیکن اس کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ یورپ سے مکمل متفق نہیں۔
اوباما نے بھی یوکرائن میں پھوٹنے والے پرتشدد ہنگاموں کی مذمت کر تے ہوئے کیف حکومت کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا ذمہ دار قرار دیا، حکومت سےصبر سے کام لینے اور ایسے معاملات میں عسکری قوت استعمال نہ کرنےکا مطالبہ کیا، جن کو مہذب طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے، تاہم امریکی صدر نے مظاہرین سے بھی کہا کہ وہ پر امن رہیں اور یہ جان لیں کہ تشدد کوئی طریقہ کار نہیں، یہ اس وقت کہا گیا جب وائٹ ہاوس نے اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرائن میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر بین روڈس (Ben Rhodes) نے کہا کہ امریکی انتظامیہ ان ضروری اقدامات کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مشاورت کر رہی ہےجن میں سے یہ بھی ہے کہ یوکرائن پر پابندیاں لگائی جائیں، (البوابہ نیوز 20/2/2014)۔
اسی طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ : "جمہوری یورپ کے مستقبل کے لیے یوکرائن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے زیادہ اہم کشمکش کہیں نہیں ہو سکتی، امریکہ اور یورپی یونین اس معرکے میں یوکرائنی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں"، (بی بی سی: یوکرائینی انتشار-1/2/2014 )۔
ان مواقف اور بیانات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ :
روس یوکرائن کو اپنے لیے موت و حیات کا مسئلہ سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ صدر کی معاشی مدد میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ان احتجاجات کے دوران ہی روس نے منگل 17 جنوری کو یوکرائن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی روسے قدرتی گیس کی سپلائی میں 33 ٪ رعایت ملے گی جو ہر ہزار معکب میٹر پر 268 سے 400 ڈالر ہو گی، ماسکو نے 15 ارب ڈالر مالیت کے یوکرائن کے قرضوں کو خرید نے کی حامی بھر لی، (یاہو نیوز 18/1/2014)۔ یہ بات روسی نقطہ نظر سے یوکرائن کی اہمیت کو ثابت کرتی ہے کہ اس کے نمائندے نےجمعہ 21/2/2014 کو طے پانے والے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے شرکت نہیں کی حالانکہ یہ اس کی رضامندی سے طے ہو گیا تھا کیونکہ یانوکوویچ اس کی مرضی کے بغیر کسی معاہدےکو انجام نہیں دے سکتا تھا، لیکن روس نے اپنے نمائندے کو واپس بلا کر یہ تاثر دیا کہ معاملہ سنگین ہے اور وہ یوکرائن کے لیے اس کے علاوہ کوئی حل نہیں چاہتا کہ یوکرائن اس کا ہو.....! مزید برآں اس کا مقصد یوکرائن میں روس کے ان حامیوں کوبھی خوش کرنا تھا جو اس معاہدے سے خوش نہیں تھے.....
یورپی یونین تو اس موضوع میں مرکزی کر دار تھا، اس کے نمائندے آتے جاتے رہتے .....انہوں نے ہی معاہدے کے انتظام اور اس پر دستخط کی نگرانی کی، اپوزیشن کے ساتھ ان کے تعلقات عیاں ہیں اور اپوزیشن بھی واضح طور پر یورپ سے مدد مانگتی ہے بلکہ ان احتجاجات کا سبب ہی یانوکوویچ کی جانب سے یورپ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط سے انکار ہے۔
امریکہ کا مؤقف واضح ہے کہ وہ طرفین کو راضی کرنا چاہتا ہے: یعنی یورپ اور روس کو ۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ یوکرائن یورپی یونین سے باہر رہے مگر نیٹو میں شامل ہو کیونکہ نیٹو کی قیادت عملا ًامریکہ کے پاس ہے۔ یوکرائن کا یورپی یونین سے الگ رہنا روس کے جذبات کی ترجمانی ہے جبکہ یوکرائن ساتھ ہی روس - امریکی منصوبوں میں تعاون بالخصوص مشرق وسطیٰ میں روسی تعاون کو جاری رکھنے کے لیے امریکی دباؤ بر قرار رکھنے کاایک ذریعہ ہے۔
8۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ بحران کس طرح شروع ہوا ، کیا یہ نیا نارنجی انقلاب ہے جو مغرب کے مفاد میں روسی اثر و رسوخ کو ختم کر دے گا جیسا کہ 2004-2005 کے نارنجی انقلاب میں ہوا ، جب مغرب نے یوکرائن میں بالادستی حاصل کر لی؟ کیا روسی بالادستی کی واپسی متوقع ہے جیسا کہ 2010 کے انتخابات میں ہوا؟
اس مسئلے کو یوں سمجھا جاسکتا ہے:
ا۔ 21 نومبر کو فیلنیو (لیتوانیا) میں ہو نے والے ایسٹرن پارٹنر شپ سربراہی ملاقات میں یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے پر یوکرائن کی جانب سے دستخط طے شدہ بات تھی، لیکن یوکرائنی حکومت نے اس معاہدے پر دستخط سے انکار کر دیا اور اس کی جگہ سہ فریقی تجارتی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی جو یوکرائن، یورپی یونین اور روس پر مشتمل ہو، جس کی ذمہ داری تمام اطراف کے مابین تجارتی مسائل کو حل کر نا ہو، اس انکار کے نتیجے میں کیف کی سڑکوں پر احتجاج شروع ہو گیا.....پھر 15 دسمبر 2013 کو یوکرائن کے دار الحکومت کیف میں200,000 لوگ اکھٹے ہوئے اور حالات بے قابو ہو گئے.....
ب۔ اس کے بعد احتجاج میں اضافہ ہو تا رہا: مسلسل احتجاج..... آزادی چوک میں خیمے نصب کیے گئے.....بعض حکومتی عمارتوں پر قبضہ کیا گیا.....صدر سے استعفی یا اس کے اختیارات میں کمی کا مطالبہ سامنے آگیا.....2004 کے دستور کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا جوصدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیتا ہے.....گرفتار افراد کی رہائی خاص کر یولیا ٹیموشینکو کو رہاکرنے کا مطالبہ کیا گیا.....پھر 18، 19 ، 20 کو تشدد اور قتل و غارت کے واقعات رو نما ہوئے.....ساتھ ہی یوکرائنی حکومت نے 18/2/2014 کو "دہشت گردی" کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا جن کا ہدف حزب اختلاف تھا جن کو سخت گیر کہا گیا ، اس کے ساتھ سکیورٹی فورسز نے کیف میں احتجاجی مرکز پر دھاوا بول دیا، جس سے 26 افراد ہلاک ہو گئے.....
حکومت نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے مظاہروں سے روک دیا اس کے بعد اپوزیشن کو وزارت عظمیٰ کی پیش کش کر کے حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی..... اس کے بعد آزادی چوک پر ہلہ بول دیا گیا، جس کے نتیجے میں قتل وغارت ہوا یہاں تک کہ 21/2/2014 کو اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے دوطرفہ بات چیت کے نتیجے میں ایک تصفیہ تک پہنچنے کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات اور دستور میں ترمیم کی جائے گی.....21/2/2014 جمعہ کے دن ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ یوکرائنی اپوزیشن میں سے تین قائدین نے صدر وکٹور یانوکوویچ کے ساتھ صدارتی محل میں یورپی یونین کے ثالثوں کی موجودگی میں بحران کو ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے جبکہ یوکرائن کے مذکرات میں ماسکو کا نمائندہ اپنے ملک چلاگیا اور اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت نہیں کی .....پھر آج 22/2/2014 کو پارلیمنٹ نے صدر کو برطرف کرنے اور وقت سے پہلے انتخابات کر نے اعلان کر دیا.....
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ یورپی یونین نے ہی بات چیت کے اجتماعات کا انتظام کیا تھا اور معاہدہ بھی ان کی وساطت سے ہوا مگر معاہدے پر دستخط ہو نے کے بعد سب سے پہلے اوباما نے پیوٹن کو فون کیا، امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدہ دار نے کہا کہ دونوں صدور اوباما اور پیوٹن نے ٹیلیفون پر "تعمیری" رابطہ کیا ہے جس کے دوران دونوں نے یوکرائن میں امن معاہدے کو جلد از جلد نافذ کر نے اور یوکرائن میں معاشی استحکام کے حصول پر زور دیا۔ امریکی عہدہ دار نے ٹیلیفون پر پریس کانفرنس کے ذریعے صحافیوں کو بتا یا کہ طرفین نے اس معاہدے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے پر اتفاق کر لیا جو طے پا چکا ہے، یہ بات سب سے اہم ہے کہ تمام اطراف تشدد سے باز آئیں، پر امن نتیجے تک پہنچنے کے لیے یہ حقیقی موقع ہے، (الجزیرہ 22/2/2014 صبح 03:3 GMT)۔
ج۔ رہی یہ بات کہ کیا یہ احتجاج وہی نئی نارنجی انقلاب ہیں جیسا کہ 2004-2005 کو رونما ہوا؟ اور کیا 2010 کی طرح روسی رد عمل کی توقع ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ حالات 2005 اور 2010 سے مختلف ہیں تینوں اطراف میں سے کسی ایک کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ساری ڈوریاں تھام لے اور اپنی مرضی کا حل ڈھونڈے، تصویر کو مزید واضح کر نے کے لیے ہم یہ دہرائیں گے:
۔ نارنجی انقلاب کے وقت روس سوویت یونین کے زوال کے اثرات سے باہر نہیں آیا تھا اور سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے ایک بڑی ریاست کے طور پر مستحکم نہیں تھا، اس وقت امریکہ اور یورپ ایک ہو کر نارنجی انقلاب کی پشت پناہی کر رہے تھے، امریکہ اور یورپ کے لیے یہ بات اہم تھی کہ یوکرائن روسی پنجے سے نکل آئے اس کے بعد یوکرائن میں طاقتور "امریکہ اور یورپ" کا پلہ بھاری ہو، امریکہ اس بات سے بھی مطمئن تھا کہ اس کا ایجنٹ یوشینکو بلامقابلہ توازن اس کے حق میں کر دے گا، یوں رسہ کشی طاقتور فریق "امریکہ اور یورپ" اورکمزور فریق روس کے درمیان تھی، اس لیے روس اپنے حامی صدر کی حمایت نہ کر سکا اور وہ 2005 کے انتخابات میں شکست کھا گیا اور یو شینکو جو کہ امریکہ کا آلہ کار تھا یوکرائن کا صدر بن گیا.....
۔ جہاں تک 2010 کی بات ہے تو روس کسی حد تک سنبھل چکا تھا، وہاں سیاسی اور اقتصادی استحکام آچکا تھا، جبکہ امریکہ اور یورپ معاشی بحران میں ڈوب چکے تھے اور بحران کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہے تھے ۔ ایسی صورت حال میں روس یوکرائن میں مغرب نواز حکومت کو اقتصادی بحرانوں خاص کر گیس کے مسئلے میں پھنسانے میں کامیاب ہو گیا ساتھ ہی یوکرائن میں اپنے ہمنوؤں کو متحرک کیا ، اسی وجہ سے یوکرائن میں اس کا آدمی یانوکوویچ جیت گیا وہ بھی 3 ٪ ووٹوں کے فرق سے مگر روسی بالادستی لوٹ آئی۔
۔ اب تینوں طاقتیں داخلی بحران سے دوچار ہیں .....اس کے ساتھ امریکہ نہیں چاہتا کہ یوکرائن یورپ کے زیر اثر آئے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین سے باہر یہ اس کی بالادستی کا مرکز بن جائے، اس لیے وہ اس کو اپنے منصوبوں خصوصا مشرق وسطیٰ میں روس کا تعاون حاصل کر نے کے لیے دباؤ کے وسیلے کے طور پر استعمال کر تا ہے۔ یوں یوکرائین کا یورپی یونین میں مدغم نہ ہو نا روس کو راضی کرے گا خواہ وہاں بڑا حصہ روس کی بجائے امریکہ کا ہو!
۔ لہذا اس بات کی توقع نہیں کہ تینوں میں سے کوئی ایک فریق یوکرائن کو اپنے پاس رکھے، کم ازکم مستقبل قریب میں ایسا نظر نہیں آتا، بلکہ مفاہمتی تصفیہ کی توقع ہے کہ صدر استعفی دے یا اس کو برطرف کیا جائے ،یا وقت سے پہلے صدارتی انتخابات ہوں، جس کے نتیجے میں ایساصدر آئے جو سب کے لیے قابل قبول ہو جس کے اختیارات محدود ہوں اور 2004 کے ترمیم شدہ دستور کے مطابق ہوں، یہ سرمایہ د اریت کا حل ہے یعنی درمیانہ حل۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ بعید از امکان ہے کہ یوکرائن میں نئی صورت حال خالصتا کسی ایک فریق کے حق میں ہو، اس وجہ سے یوکرائن میں جو بھی صدر آئے تین اطراف سے جکڑا ہوا ہو گا کم ازکم موجودہ وقت میں.....
۔لیکن یہ تصفیہ بارود کی طرح ہو گا، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جس کے بعد ان تینوں میں سے کوئی ایک یوکرائن میں مکمل بالادستی حاصل کر سکتا ہے،یہ تینوں اطراف سرمایہ داریت کے حامل ہیں اور سرمایہ داریت منفعت پر قائم ہے،ان کے کوئی پائیدا ر اقدار نہیں، بلکہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو زیادہ خبیث، زیادہ پر تشدد اور زیادہ ظالم ہو گا وہی غالب آئے گا۔
۔یہی وجہ ہے کہ یہ مفاہمتی تصفیہ موجودہ حالات میں تینوں اطراف کو چپ کرنے کے سوا کچھ نہیں،جوں ہی صورت حال تبدیل ہو جائے گی معاملات پھربگڑ جائیں گے، یوکرائن میں استحکام اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک مسلمانوں کی خلافت قائم نہ ہو جائے جو کریمیا اور اس کے مضافات کو اپنے زیرنگیں کرے گی تب ہی معاملات میں استحکام آئے گا اور خیر دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلے گا۔ اسلام تمام عالم کے لیے رحمت ہے جس کےقلم رو میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا اور اللہ کے اذن سے کو ئی بھوکا یاننگا نہیں ہو گا، بلکہ ہر شخص باعزت ہو گا، کسی کی توہین نہیں ہو گی، ریاست کے تمام شہریوں کےاحکام شرعیہ کے مطابق فرائض اور حقوق ہیں چاہیں یہ رعایا مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔ ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ ناسمجھ ہیں"۔