سوال کا جواب: اوباما کا سعودی عرب کا دورہ اور شام پر اس کے اثرات
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: 8/3/2014 کو الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے ایک خبر شائع کی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو چیف آف سٹاف مقرر کر لیا ....." یہ "سپریم ملٹری کونسل کے ڈھانچے کو مکمل کرنے" کے ضمن میں کیا گیا.....اس تکمیل میں سٹاف کے دوسرے ممبران کی تقرری بھی شامل ہے.....ان واقعات کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی منظر عام پر آگئی کہ ترکی نے قومی کونسل دفاتر بند کر دیا اور ان کے قاہرہ منتقل ہو نے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ: کیا ان تبدیلیوں اور منظر عام پر آنے والی ان خبروں کا اس ماہ کے آخر میں اوباما کے خطے خاص طور پر سعودی عرب کے دورے کے ساتھ کوئی تعلق ہے کیونکہ سعودی عرب کا شام میں لڑائی کے محاذوں خصوصا جنوبی محاذ میں کردار ہے؟ان دفاتر کو بند کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: یقیناً اوباما کی جانب سے اس مہینے کے آخرمیں سعودیہ کے دورہ اور میجر جنرل سلیم ادریس کو برطرف کر کے بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر کو سپریم ملٹری کونسل کے چیف آف سٹاف مقرر کر کے اس کے ڈھانچے کو مکمل کرنا دونوں شام کے لیے امریکی پالیسی کے دوایسے راستے ہیں جو آخر کار یکجا ہو جاتے ہیں لیکن تفصیل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کے مخصوص اغراض ومقاصد ہیں اس کی وضاحت ہم اس طرح کریں گے:
اوّلاً: اوباما کی جانب سے اس ماہ کے آخر میں خطے بالخصوص سعودی عرب کے دورے کے حوالے سے:
1۔ امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ آئی آئی پی ڈیجیٹل نے 21/1/2014 کو ایک بیان شائع کیا جس کو وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری کے آفس نے جاری کیا تھا،جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما 24، 25 مارچ کو ایٹمی مواد کی سکیورٹی کی ضمانت کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور ایٹمی دہشت گردی کو روکنے کے لیے مستقبل کے اقدامات پر بحث کر نے کے لیے ایٹمی امن سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ہالینڈ میں ہوں گے.....جس کے فوراً بعد 26 مارچ کو امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز جائیں گے.....27 مارچ کو پوپ فرانسیس سے ملاقات کے لیے ویٹیکن کا دورہ کریں گے.....اٹلی کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریں گے.....3/2/2014 کو یعنی دس دن کے بعد وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ: "دونوں ملکوں کے درمیان انتظامی مشاورت کے حصے کے طور پر صدر اوباما مارچ میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس میں دوممالک کے مابین قائم مضبوط تعلقات پر تبادلۂخیال اور خلیج کی سکیورٹی، علاقائی امن اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی سے متعلق مشترکہ مفادات ، انتہا پسندی اور تشدد کی سرکوبی اور ترقی اور امن کے فروع سے متعلق معاملات زیر بحث آئیں گے،صدر کا سعودیہ کا دورہ اس کے یورپ کے دورے جس میں ہالینڈ،بلجیم اور اٹلی شامل ہیں کے بعد ہو گا "۔(آئی آئی پی ڈیجیٹل ویب سائٹ امریکی وزارت خارجہ 3/2/2014 )۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ سعودیہ کا دورہ اس ماہ کے آخر میں یعنی 27/3/2014 کو اٹلی کے دورے کے بعد ہو گا۔
2۔ سی این این سائٹ نے 3/2/2014 کو یہ خبردی کہ ان کو یہ رپورٹ ملی ہے کہ "امریکی صدر مارچ میں سعودی فرمانروا کے ساتھ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حال ہی طے پانے والے معاہدے کے بارے میں واشنگٹن اور ریاض کے درمیان اختلافات پر بات چیت کریں گے"سائٹ نے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا یہ بیان شائع کیا: "ہمارے درمیان نقطہ نظر کا جس قدر بھی اختلاف ہو لیکن اس سے کسی چیز میں تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ہمارا اشتراک بہت ہی اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
واشنگٹن پوسٹ نے 3 فروری کو یہ خبر نشر کی کہ وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ: "سعودی عرب امریکہ کا دوست ہے ہمارے درمیان وسیع اور گہرے دوطرفہ تعلقات ہیں جو ہمہ گیر ہیں، صدر کو اس دورے کا شدت سے انتظار ہے، ملاقات میں تمام مسائل پر بحث کی جائے گی .....ہمارے درمیان اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو لیکن یہ اس حقیقت کو ذرا برابر بھی تبدیل نہیں کر سکتے کہ یہ اشتراک اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
امریکی اخبار (وال سٹریٹ جرنل) نے 1/2/2014 کو خبر شائع کی کہ امریکی صدر باراک اوباما رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشرق وسطیٰٰ کے خطے کے لیے امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں خاص طور پر ایرانی ایٹمی پروگرام اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے بگڑتے تعلقات کو معمول پر لانے کو شش کریں گے، سائٹ نے ایک عرب عہدہ دار کے حوالے سے کہا کہ یہ سربراہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب کی پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اس نے مزید کہا کہ (اس کا مقصد بگڑتے تعلقات اور بے اعتمادی کو ختم کرنا ہے)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے کہ جس نے امریکہ کو اوباما کی جانب سے تین یورپی ملکوں کے اس مقررہ دورے، جس کا اعلان دس دن پہلے کیا گیا تھا، میں اسے شامل کرنے پر مجبور کیا !اس کو سمجھنے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ہم یہ پیش کرتے ہیں:
ا۔ 24 /11/2013 کو امریکہ اور ایران کے درمیان اس ایٹمی معاہدے، جس نے خطے میں ایران کا ہاتھ کھول دیا، کےبعد امریکہ اور ایران کے درمیان قربت، پھر شام میں رونما ہو نے والے واقعات میں امریکہ کے مؤقف جس سے واضح ہو تا ہے کہ وہ بشار کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کر رہا ہے .....اس سب نے خاص کر خطے میں ایران کے ہاتھ آزاد کرنے سے سعودی عرب کو متاثر کر دیا، ایران کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ وہ ہر ملک میں اس مسلکی پہلو کو استعمال کرتا ہے جس کا اس سے تعلق ہو اور وہاں افراتفری کو ہوا دیتا ہے،سعودی عرب نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے جو کچھ بحرین،عراق،شام، لبنان اور یمن میں ہو رہا ہے.....وہ سعودیہ کے مشرقی علاقوں میں ایران کی حرکات وسکنات سے بھی پریشان ہے جو ان کی حکومت کے لیے امن آمان کا مسئلہ پیدا کررہی ہیں.....اس سب کی وجہ سے سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری کے اقدامات سے ناراض ہو کر احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی نشست لینے سے انکار کر دیا، ظاہر ہے بین الاقوامی بردری سے ان کی مراد امریکہ ہی ہے۔یہ ان بیانات کے علاوہ ہیں جن میں بعض سعودی عہدیداروں کی جانب سے امریکی مؤقف پر تنقید بھی کی گئی.....
ب۔ سعودیہ شام کےجنوبی علاقوں میں انقلابیوں کو جو اسلحہ فراہم کر رہا ہے یعنی اردن کے راستے اور خاص کر وہ کھیپ جو شام کے جنوبی علاقوں کے انقلابیوں کے لیے اسلحے کی فراہمی پر نگران اردن میں امریکی چیک پوسٹوں کو بائی پاس کرتے ہیں یہ کھیپ امریکہ کو پریشان کر رہی ہیں .....فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے 28/10/2013 کو صحافی جارجز مالبرونو کی ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق (ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ فری سیریئن آرمی کے اسلحے کے گوداموں میں پہنچ جاتا ہے، اس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ سعودی سرمائے سے اسلحہ یوکرائن اور بلغاریا کہ بلیک مارکیٹوں میں خریدا جاتا ہے پھر سعود جہازوں کے ذریعے اس کو جنوبی اردن کے ہوائی اڈوں پر پہنچا یا جاتا ہے) اس رپورٹ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ (روان سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران چھ سو ٹن اسلحہ (شامی صدر بشار) اسد کےمخالفین کو اردن کے راستے پہنچایا گیا).....السفیر میگزین نے 21/2/2014 کو یہ خبر شائع کی کہ (.....گزشتہ 29 جنوری کو اسلحے سے لدے ہوئے تین سعودی ملٹری کارگو طیارے اترے ہیں، اس اسلحہ میں لاو راکٹ، ذرائع موصلات کے آلات، ٹینک شکن راکٹ، ہلکا اسلحہ اور بکتربند گاڑیاں شامل ہیں.....عرب ذرائع نے کہا ہے کہ امریکہ اب بھی شامی مسلح اپوزیشن کو چائنا ساختہ میزائل اور جدید اسلحہ فراہم کرنے میں تردد کا شکار ہیں.....) یہ بھی کہا کہ: (عرب اور مغربی متضاد سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ الغوطہ الشرقیہ کے معرکے کے دوران اور اس کے بعد کے ہفتوں میں سعودیوں نے المفرق ائرپورٹ کے ذریعے اسلحے کی بھاری کھیپ منتقل کر دی جس میں سے کچھ یوکرائن میں خریدا گیا تھا، ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ لے کر قافلے اردنی شامی سرحد سے صحرائی گزرگاہوں کے ذریعے ان مراکز تک پہنچے جن کی تعداد 15 سے زیادہ ہے جو الغوطہ الشرقیہ کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں) اسلحے کے پہنچنے کے حوالے سے 6/2/2014 کو 'السفیر' میں نشر ہو نے والی یہ خبر بھی دلالت کر تی ہے کہ "درعا کے اکثر مسلح گروپ کل اکھٹے ہوئے اور "فرقۃ الیرموک" کے جھنڈے تلے اکٹھےہونے کا اقرار کیا جس میں اس وقت 14 مختلف بریگیڈ اور بٹالین شامل تھیں جن میں سے نمایاں ترین 'درع الجنوب'، 'البراء بن مالک' اور ' کتیبۃ المدرعات' ہیں"، مزید یہ کہ: "مسلح گروپوں کی یہ وحدت جنوبی شام میں شروع کی جانے والی ایک لڑائی کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئی جس کو"حوران کے جنیوا" کا نام دیا گیا، جس کی قیادت پانچ آپریشن رومز کر رہے تھے جو پورے درعا صوبے میں پھیلے ہوئے تھے".....
اس سب نے امریکہ کو پریشان کر دیا کیونکہ اس کے ذریعے جنوبی محاذ کے بعض انقلابیوں کا اس کی حلقۂ اثر سے نکلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، خاص کر چونکہ سعودیہ میں ایسی قوتیں ہیں جو انگریز کے پیروکار ہیں اور اس کے نقش قدم پر چل کر امریکی منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں جو کہ انگریز کی پالیسی میں معروف ہے.....اس سب نے شام کے جنوبی محاذ میں سعودی سرگرمیوں سے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا.....اگر چہ امریکہ 13 دسمبر 2013 کو شام کے جنوب میں سعودی سرگرمیوں کے رد عمل میں جنوب میں فری سیرئن آرمی کے ماتحت شامی انقلابیوں کا محاذ قائم کر چکا ہے، تاہم امریکہ جنوب میں سعودی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے خاص کر ان سرگرمیوں کو جواردن میں امریکی نگرانی کو بائی پاس کرتی ہیں۔
ج۔ پھر ایک اور عامل بھی ہے؛ اگرچہ آل سعود کی قیادت اس وقت برطانوی وفادار عبد اللہ اور اس کے معاونین کے پاس ہے لیکن ان کی صفوں میں امریکہ کے وفادار بھی ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اقتدار تک پہنچانے اور حکومت کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کے طور پر، جیسا کہ فہد کے دور میں تھا، سعودیہ کے ساتھ دشمنی کا اظہار نہ کرے۔ ساتھ شاہی خاندان میں امریکی کارندے امریکہ کے ساتھ تعلقات سنوارنے کا اہتمام بھی کر رہے ہیں.....
3۔ یو ں فریقین اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں! اب دو نوں طرف سے یہ چاہتیں اس ماہ کے آخر میں اوباما کے متوقع دورے کی تمہید کے طور پر عملی اقدامات کی شکل اختیار کر چکے ہیں ، طرفین نے کے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔ سعودی عر ب نے "ملک سے باہر جا کر لڑنے والوں اور انتہا پسند گروہوں سےتعلق رکھنے والوں کو سزادینے کےقانون " کا اجراء کیا، (الاقتصادیہ 3/2/2014)، ظاہری بات ہے کہ اس سے مقصود شام کی لڑائی ہے، اس قانون کا اجراء 3/2/2014 یعنی اوباماکی جانب سے سعودیہ کو بھی اپنے دورے کی ترتیب میں شامل کر نے کے ساتھ ہوا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے! یہ سب امریکہ کو خوش کرنے کے لیے تھا.....اس کے ساتھ ساتھ شہزادہ محمد بن نایف (وزیرداخلہ) نے امریکی سی آئی اے اور واشنگٹن کی دوسری انٹلیجنس ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کی اور کئی مسائل، جن میں شام کا مسئلہ بھی شامل ہے، کے بارے میں گفت وشنید کی.....الرویہ نیوز نیٹ ورک نے 24/2/2014 کو خبر دی کہ: (نیشنل سکیورٹی کی مشیر سوزان رائس اور داخلی سکیورٹی کی مشیر لیزا موناکو نے گزشتہ بدھ سعودیہ کے وزیرداخلہ شہزادہ محمد بن نایف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہائیڈن نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تینوں عہدہ داروں نے "علاقائی مسائل پر تبادلۂخیال کیا اور مشترکہ مفادات کے کئی معاملات میں باہمی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا"۔
ب۔ امریکہ نے حالیہ مہینوں میں کیری کو دوبارہ بھیجا: نومبر 2013 اور جنوری 2014 میں یہ دورے ایران اور شام سے متعلق امریکی پالیسی کے حوالے سے سعودی عہدہ داروں کو مطمئن کرنے کے لیے تھے۔کیری نے امریکہ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ کیری نے میٹنگ سے تھوڑی دیر پہلے ہی کہا کہ سعودیہ خطے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے (بی بی سی ترکی 6/11/2013 )۔
4۔ پھر اوباما کی جانب سے سعودیہ کا دورہ جو کہ باہمی صلح کی اعلی سطحی کوشش کرنا، فریقین کے درمیان ناراضگی کو کم کرنے اور آل سعود کو ان کی کرسی، کہ جس کے حوالے سےوہ خوفزدہ ہیں، کے بارے میں مطمئن کرنا ہے۔ اس کرسی کے علاوہ ان کو کسی چیز کی فکر نہیں۔ صرف یہی چیز ہے جس کے لیے ان کو تشویش لاحق ہےورنہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہےاس سے ان کو کوئی پریشانی نہیں سوائے اس کے کہ کہیں اس کی بازگشت ان کی کرسی تو تہہ وبالا نہ کر دےگی۔ اسی وجہ سے وہ اہل شام کی مدد نہیں کرتے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ امریکہ جنیو -1 اور جنیو -2 کانفرنسوں میں جن کی آل سعود نے حمایت کی تھی شامی حکومت کے مسئلے کو حل کر دے تاکہ وہ شامی انقلاب کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ ہاں ان کی جانب سے یہ اہتمام اپنے تخت وتاج کو بچانے کے لیے ہے شام کے مسلمانوں کی مدد یا ان کے بہتے ہوئے خون کو روکنے کے لیے نہیں.....
یوں یہ دورہ سعودیہ کے ساتھ اختلافات کو کم کرنے اور ان کے سامنے یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ ایران کے ساتھ اس کی قربت یا شام کے بارے میں اس کا مؤقف سعودی حکومت کو پریشان کرنے کے لیے نہیں، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ آل سعود کے لیے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت متاثر نہ ہو، ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہی چیز ان کے لیے اہم ہے۔ یہ ان کے لیے شام کے زخمیوں یا مقتولین کی تعداد سے زیادہ اہم ہے.....
اس بات کا امکان ہے کہ اوباما خطے کے اپنے دورے کے دوران دوسرے علاقوں کا بھی دورہ کرے گا مگر توقع یہی ہے کہ سعودی عرب کا یہ دورہ ہی اس کا اہم سنگ میل ہے.....اوباما سعودی حکمرانوں کو باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ ان کی کرسیاں محفوظ ہیں اور ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات سعودی حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ نام نہاد "دہشت گردی" کے خلاف ہیں، وہ اس حوالے سے سعودیوں کو لڑائی کے لیے شام جانے سے روکنے کے فیصلوں پر سعودی اقدامات کی تعریف کرے گا.....
ثانیاً: جہاں تک سلیم ادریس کی برطرفی اور بعض دفتاتر کو بند کر کے ان کو قاہرہ منتقل کرنے کے موضوع کا تعلق ہے تو معاملہ کچھ یوں لگ رہا ہے:
1۔ 7/12/2012 کو 250 تا 260 عسکری قائدین اور مسلح شامی اپوزیشن کا اجتماع ہوا اس اجتماع میں مغربی اور عرب سکیورٹی عہدیداروں نے شرکت کی جس میں متحرک کردار امریکہ کا تھا،یہاں فری سیرین آرمی کے لیے نئی ملٹری کونسل کا انتخاب کیا گیا جو تین عسکری قائدین پر مشتمل تھی جس میں بریگیڈئر سلیم ادریس کو فری سیرین آرمی کا نیاسربراہ منتخب کیا گیا اور یوں وہ سپریم ملٹری کونسل (SMC) کا سربراہ بن گیا (ایسوسی ایٹڈ پریس 7 دسمبر 2012)۔
2۔ 7/5/2013 کو واشنگٹن پوسٹ نے خبر شائع کی کہ "باراک اوباما کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سلیم ادریس پر اعتماد کرتی ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "یہی امریکہ کی نئی پالیسی میں سنگ بنیاد ہے اس کا ذمہ دارانہ مؤقف اور اعتدال پسندی ہی انتظامیہ کےاس پر اعتماد کرنے کا محرک ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "اس (سلیم ادریس) نے صدر اوباما کو خط لکھا جس میں اس نے شام میں مداخلت نہ کرنے کے بارے میں امریکہ کے مؤقف کو سمجھنے کا اظہار کیا اور مالی، انٹلیجنس اور تربیتی مدد کا مطالبہ، ساتھ ہی جہادی جماعتوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنی تیاری کا عندیہ دیا" اس حال میں ان کے علم بلکہ اشارے کے بغیر سلیم کو برطرف کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسی نے اس کا تقرر کیا تھا، وہی اس پر اعتماد کر تھا اور اسی نے قومی کونسل کی طرح ملٹری کونسل بنائی ہے۔
3 ۔ سلیم ادریس انقلابیوں کے محاذوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی کوشش کے باوجود وہ کسی اندرونی محاذ کو اپنی طرف کر سکا، بلکہ وہ تو فری سیرین آرمی کے جنگجوؤں اور بعض بریگیڈز کو اسلامی جنگجووں میں شامل ہونے سے بھی نہیں روک سکا، رائٹرز نے 30/9/2013 کو اس شمولیت کے بارے میں کہا کہ: "جنگجو صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مکمل بریگیڈ جو کہ طاقتور تھے ان میں شامل ہوگئے" پھر جس چیز نے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا وہ اسلامی گروپوں کا دسمبر 2013 میں سرحدی چیک پوسٹوں اور مغرب کی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے اسلحے کے گوداموں پر قبضہ ہے ..... امریکی میگزین ٹائمزنے نے خبر دی کہ امریکی عہدہ داروں نے تصدیق کی ہے کہ فری سیرین آرمی کا سربراہ سلیم ادریس شام سے بھاگ گیا ہے، امریکی میگزین نے 12/12/2013 کو اپنی ویب سائٹ پر نشر کی جانے والی رپورٹ میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ "ادریس شام سے ترکی بھاگ گیا پھر وہاں سے قطر چلاگیا....." گویا سلیم ادریس کے اقدامات ان کو پسند نہیں آئے۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ امدادی گوداموں پر حملے کے واقع نے ان کو پریشان کر دیا کیونکہ امریکہ نے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ یہ ان انقلابیوں کے ہاتھ نہیں لگنے چاہیے جو ان کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے، قومی کونسل کو تسلیم نہیں کر تے اور اس کے منصوبے قبول نہیں کر تے۔
4۔ جہاں تک سلیم ادریس کا تعلق ہے اس کو امریکہ ہی نے مقرر کیا تھا جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے اور اسی پر اعتماد کر تا رہا کہ وہ کچھ قابل ستائش اقدامات کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی حیثیت قائم کرے اور کچھ گروپوں کو فری سیرین آرمی میں ضم کر دے.....لیکن اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ وہ شام کے اندر کسی گروپ کو فری سیرین آرمی میں ضم نہیں کر سکا، بلکہ وہ تو خود اس آرمی کو نقصان سے نہیں بچا سکا اور اس کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ ایک بڑی تعداد اس کو چھوڑ کر دوسرے گروپوں میں شامل ہو گئی! پھر جس چیز نے معاملے کو اور پیچیدہ کر دیا وہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دیے گئے اسلحے کو بھی محفوظ نہیں کر سکا اور اسلحہ گوداموں پر دوسرے گروپوں نے قبضہ کر لیا اسی لیے یہ افواہ پھیل گئی کہ سلیم ادریس قطر بھاگ گیا جس نے امریکہ کو پریشان کر دیا۔ یوں امریکہ سلیم ادریس کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں ناکام ہو گا، امریکہ اسی پر بھروسہ کرتا تھا کیونکہ کونسل میں اس کے آلہ کار بھی باہرتھے۔ وہ یہ گمان کر تا تھا کہ فری سیرین آرمی مؤ ثر آپریشن کے ذریعے اندرونی طور پر اپنا لوہا منوائے گی لیکن امریکہ کی یہ امید خاک میں مل گئی، جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں،اسی وجہ سے وہ ایک ایسا قائدتالاش کرنے لگا جس کی جڑیں نسب کے لحاظ سے کسی قبیلے یا خاندان کی وجہ سے مضبوط ہوں،میدان جنگ میں لڑائی میں بھی اس کی جڑیں پیوست ہوں۔ اسی لیے اس کی نظریں عبد الالٰہ البشیر پر مرکوز ہو گئیں اور اس کو 16/2/2014 کو سلیم ادریس کی جگہ متعین کر دیا اور ملٹری کونسل نے اس بارے میں فیصلہ کردیا، اسی طرح بریگیڈئر ھیثم افصیح کو شمال میں ادلب کے صوبے میں البشیر کے نائب کے طور پر کما ن سونپ دی گئی، امریکہ امید کر تا ہے کہ البشیر جنوب میں اور ھیثم شمال میں دونوں محاذوں کے درمیان نظم ونسق کو بہتر بنانے اور اندرونی طور پر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نئے تقرر کردہ یہ دونو ں قائدین سیرین انقلابی فرنٹ کے ساتھ پُر اعتماد طریقے سے کام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے قائد جمال معروف ہیں۔ امریکہ جنوبی علاقوں میں البشیر کے تعلقات کو باہر بیٹھی کونسل کے لیے اندر ونی طور پر ایک قوت تشکیل دینے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی جنوب میں سعودی حمایت یافتہ انقلابیوں کو بھی قابو کرنا چاہتا ہے۔
ابتدا میں سلیم ادریس نے انتہائی رد عمل کا مظا ہر کیا اور کونسل کے سربراہ الجربا پر آمر ہو نے کا الزام لگا یا۔ مختلف فرنٹوں اور ملٹری کونسل کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا اور الجربا کو سپریم ملٹری کونسل کے فیصلے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ: "فارمیشن لیڈران اس پر اعتماد نہیں کر تے اور اس پرکرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ اس نے فیصلے پر دستخط کرنے والوں کو رشوت دی ہے" (اے ایف پی 17/2/2014)۔ اگر چہ سب جانتے ہیں کہ الجربا اور جو بھی اس کے ساتھ ہیں وہ امریکہ کی مرضی اور اس کے اشارے کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے.....!
بہر حال اس کے بعد ادریس ٹھنڈے ہو گئے خاص کر 6/3/2014 کو اس خبر کے نشر ہونے کے بعد کہ (سیرین قومی کونسل سربراہ احمد الجربا، پانچوں عسکری قائدین،جنوبی محاذ کے قائدین اور درعا میں انقلابی کونسل کے سربراہ نے اتفاق کر لیا کہ وزیر دفاع اسعد مصطفی کونسل کے سربراہ کو اپنا استعفیٰ پیش کرے گا اور اس کے نائبین کو مستعفی سمجھا جائے گا.....اسی طرح بریگیڈیئر سلیم ادریس بھی سٹاف کے سامنے اپنا استعفی پیش کرے گا اور پھر اس کو کونسل کے سربراہ کے عسکری امور کا مشیر نامزد کیا جائے گا،ساتھ سپریم ملٹری کونسل کے ممبران میں اضافہ کیا جائے گا)۔
پھر اس کے بعد آج بتاریخ 8/3/2014 کو 6/3/2014 کی خبر کی تصدیق ہو گئی جب الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیو ز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے 8/3/2014 کو یہ خبر شائع کی تھی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے بریگیڈیر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ چیف آف سٹاف مقرر کر دیا ....."۔
5۔ "فری سیرین آرمی "کے نئے چیف آف سٹاف بریگیڈیرعبد الالہٰ البشیر النعیمی شام کے جنوب مغربی صوبے القنیطرہ کے علاقے الرفید سےتعلق رکھتا ہے، جو کہ گولان کی ان پہاڑیوں کے ساتھ ہے جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ النعیمی قبیلے جو کہ شام کے بڑے قبائل میں سے ہے کے سرداروں میں سے ہے۔ البشیر شامی حکومتی فورسز سے جون 2012 میں منحرف ہو گیا تھا، تب سے وہ القنیطرہ صوبے میں "فری سیرین آرمی" کی تاسیس اور تشکیل نو میں مصروف ہے۔ وہاں آپریشن کی قیادت، اس کے بعد ملٹری کونسل کی سربراہی قبول کرنے تک خود ہی آپریشن فارمیشن کی قیادت کی۔ ان عسکری منصوبوں کو ترتیب دیا جن سے صوبے کے جنوبی مضافات میں اس کی قیادت میں 90 ٪ سے زائدعلاقے پر قبضہ کیا گیا۔ ملٹری کونسل کے فیصلے پر قومی کونسل کے سربراہ احمد الجربا کا یہ بیان سامنے آگیا کہ کونسل "ملٹری کونسل کی جانب سے عبد الالہٰ البشیر کو فری سیرین آرمی کے چیف آف سٹاف اور بریگیڈئر ھیثم افصیح کو ڈپٹی چیف مقرر ہو نے پر خوشی محسوس کر تی ہے" (الجزیرہ- ایجنسیاں)۔
البشیر کی انہی خوبیوں کی وجہ سے کہ وہ جنوب کے ایک قبیلے سے ہےاور عملی طور پر میدان جنگ کا قائد ہے، امریکہ نے اس امید کے ساتھ اس کا تقرر کیا کہ وہ اس کے بیرونی آلہ کاروں کے لیے اندر ونی طور پر جڑیں مضبوط کر ے گا.....لیکن اللہ کے اذن سے اس کی یہ امید بھی خائب و خاسر ہو گی جیسا کہ پہلے بھی ہوئی ۔اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
ثا لثا ً: رہی بات ترکی میں بعض دفاتر کے بند ہو نے اور ان کو قاہرہ منتقل کیے جانے کی.....:
جی ہاں اس حوالے سے خبر ویب سائٹ "کلنا شرکاء" میں 12/2/2014 کو نشر ہوئی، سائٹ پینوراما مشرق وسطیٰ نے بھی 5/2/2014 کو ترکی میں بعض دفاتر کو بند کیے جانے کی طرف اشارہ کیا.....
لیکن ان خبروں کی بعد میں تردید بھی کی گئی جیسا کہ الشرق الاوسط اخبار نے 25/2/2014 کوخبر شائع کی کہ ".....'شامی کونسل'کے ترکی میں نمائندے خالد خوجہ نے 'الشرق الاوسط' سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کردی کہ 'ترک حکومت نے کونسل سے اپنے ہیڈ کواٹر کو قاہرہ منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے' اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا کہ 'کل ہی اسکے اور ترکی وزارت خارجہ کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہو ئی جس میں کہا گیا کہ کونسل کے ارکان کو تر کی میں خوش آمدید کہا جائے گا اور ہم اپنے اس بنیادی مؤقف پر قائم ہیں کہ ہم ایک آمر کے خلاف شامی عوام کی جدوجہد میں ان کی حمایت جاری رکھیں گے' "۔
جیسا کہ پیرس کی روزنہ ویب سائٹ میں 24/2/2014 کو یہ خبر آئی کہ "شامی اپوزیشن کونسل میڈیا ایڈوائزر محترمہ بہیہ ماردینی نے کہا کہ ترک حکومت نے ترکی میں کونسل کے دفاتر بند نہیں کئے، ماردینی نے روزنہ ریڈیو سے خصوصی بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ یہ خبر جنیوا-2 کے انعقاد سے قبل شامی حکومت کی پروپیگنڈہ مہم کے سلسلے میں اس کی زیر اثر ویب سائٹوں کی پھیلائی ہوئی ہے، ماردینی نے وضاحت کی کہ کونسل نے ترکی میں اپنے دفاتر "بر جلی" کے علاقے سے "فلوریا" میں منتقل کر دیاہے۔ یہ منتقلی داعش(ISIS) اور شامی حکومت کی جانب سے دھمکیوں کے اطلاعات کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ترکی حکومت نے کی۔ یہی مسائل وہ وجہ ہیں کہ یہ دفاتر پر ہجوم علاقوں سے کم خطرے والے عاقوں میں منتقل کیے گئے"۔
لگتا ہے اس موضوع کے حوالے سے جو کچھ شائع ہوا وہ درست ہے لیکن دفاتر ترکی کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے گئے پھر جان بوجھ کر اتحاد کو تر کی سے نکالے جانے کا شوشہ چھورا گیا تا کہ قومی اتحاد اور قومی کونسل دونوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ دونوں پھر یکجا ہوں ورنہ ان کو ترکی سے قاہرہ منتقل ہونا پڑے گا، ظاہری بات ہے کہ ان کا منتقل ہو نا ان کے لیے ڈراؤنا خواب ہو گا کیونکہ وہ شام سے دور ہوں گے اور پرانے اتحاد کو "دھتکارنے " کے بعد ترکی میں کوئی اور متبادل اتحاد قائم کیا جائے گا اور یہ ان کے لیے بمزلہ موت ہو گا! اس خبر کے آتے ہی قومی کونسل نے قومی اتحاد کے ساتھ یکجا ہونے کا اعلان کر دیا ! فرانس پریس نیوز ایجنسی نے 1/3/2014 کو خبر شائع کی کہ "شامی قومی کونسل کی مشترکہ قیادت نے اپنے 27، 28 فروری کے استنبول اجلاس میں شامی قومی کونسل کے تمام عناصر نے، انقلابیوں اور شامی اپوزیشن کے لئے، قومی اتحاد کی صفوں میں واپس آنے کا عندیہ دیا"۔
رابعاً: آپ کے سوال کے جواب میں ان تین نکات پر مشتمل میری یہی ترجیحی رائے ہے اور ہم نے اس موضوع پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اگر اس حوالے سے مزید کسی بیان اور وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو ہم انشاء اللہ کریں گے۔ اللہ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔