سوال کا جواب: کفریہ نظام میں شرکت
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: ہم اس پر بحث کررہے تھے کہ ایک مسلمان کا موجودہ غیر اسلامی حکومتی نظاموں کے اندر شمولیت حرام ہے توبحث کے دوران کسی نے کہاکہ اس نے ایک شیخ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شمولیت جائز ہے اور اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر پیش کیاکہ اُنہوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے ..... اور یہ کہ نجاشی کئی سالوں تک کفر کے ساتھ حکومت کرتا رہا جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان تھا اور رسول اللہﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ پھر یہ کہ مصلحت جو کہ ایک دلیل شرعی ہے، اس کاتقاضا کرتی ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ ایک مسلمان اگر حکومت میں شامل ہوگا تو وہ ایک سیکولر شخص سے زیادہ اچھے طریقے سے مسلمانوں کے مفادات کا انتظام کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ استدلال کہاں تک صحیح ہے؟ اور کیا یقینا ً کچھ شیوخ ایسے ہیں جواس طرح کی بات کرتے ہیں؟ امید ہے جواب دے کرمستفید فرمائیں گے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دیدے۔
جواب: جی ہاں! کچھ سرکاری شیوخ سے اس قسم کے اقوال سننے کوملتے ہیں لیکن ان کے اقوال ہمارے لئےحجت نہیں کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کرنے کے دلائل صریح، صاف و شفاف اور بالکل واضح ہیں اور ان کا ثبوت بھی قطعی اور دلالت بھی قطعی ہے اور اس میں آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ بلاشبہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنْ الْحَقِّ﴾"پس آپ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات ) کے مطابق فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے، اس کے مقابلے میں ان کے خواہشات کی پیروی نہ کریں" (المائدہ: 48)۔ اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿وَأَنْ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ﴾ اوران کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات ) کے بارے میں آپﷺ کو بھٹکا نہ دیں" (المائدہ:49)۔
یہی مضمون بہت سی دیگر نصوص میں آیا ہے۔ جہاں تک بات ہے اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت نہ کرنے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا سہار ا لینے کی تو اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر حکومت کرنے والا اس پر ایمان بھی رکھتا ہے تو یہ کفر ہے، ایمان نہ رکھے تو پھر یہ ظلم اور فسق ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے۔ ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)۔اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)۔اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ﴾"اور جو کوئی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق فیصلے نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ:47)۔
جہاں تک ان مشائخ سلطانی کے استدلال کی بات ہے تو جیسا کہ ہم نے کہا یہ حجت نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں:
1۔ یوسف علیہ السلام کے عمل کو دلیل بنا کر ان لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ بعض مسائل میں بادشاہ ِمصر کی شریعت کے تحت فیصلے کیاکرتےتھے، یعنی جس کو اللہ تعالی ٰ نے نازل نہیں کیا تھا، تو اس استدلا ل کا یہ محل نہیں، کیونکہ ہمیں اسلام کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جس کو محمد رسول اللہﷺ لےکر آئے اور یہ اللہ کی طرف سے وحی تھی۔ ہمیں یوسف علیہ السلام یا دوسرے انبیاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سے پہلے کی شریعت ہمارے لئے شریعت کا درجہ نہیں رکھتی کیونکہ اسلام نے آکر پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ "اور (اے رسولﷺ) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے اور جو حق تمہارے پاس آگیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔تم میں سے ہر ایک (امت ) کے لئے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے" (المائدہ:48)۔ اس آیت میں "مہیمناً" کا معنی ناسخاً (منسوخ کردینے والا)کے ہیں تو اسلام نے سابقہ تمام کتابوں کومنسوخ کردیا، اس لئے پچھلی قوموں کی شریعتیں ہمارے لئے شریعت کا حکم نہیں رکھتیں۔
کچھ دیگر آئمہ اصول نے ایک اور انداز میں اس قاعدہ کو لیا ہے یعنی (شَرْعُ مَنْ قبلَنا شرع لنا ما لم يُنْسَخ) "پچھلی اقوام کی شریعت کو جب تک منسوخ نہ کر دیا جائے وہ ہمارے لئے بھی شریعت ہوتی ہے"۔ یہ اصولی قاعدہ بھی گزشتہ شریعتوں کے صرف ان احکام سے استدلال کو جائز قرار دیتا ہے جو غیر منسوخ ہو۔ ان احکام کو جن کو ہماری شریعت نے آکر منسوخ کردیا، لینا درست نہیں بلکہ ہم سے مطالبہ ان احکام کا ہے جو ہماری شریعت میں وارد ہوئے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کا حکم اسلام کا ایک صریح اور واضح حکم ہے۔ اس سے زمانہ گزشتہ کی وہ تمام شریعتیں منسوخ ہوجاتی ہیں جو اس حکم میں اسلام کی مخالف ہوں۔ اس بناء پر معتبر علماء اصول الفقہ خواہ وہ پہلے قاعدے "شرع من قبلنا ليس شرعاً لنا" کو ماننے والے ہیں یا دوسرے قاعدے "شرع من قبلنا شرع لنا ما لم ينسخ" کو ماننے والے ہیں سب نے کہا ہے کہ حکم بما انزل اللہ فرض ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک واضح اور منصوص حکم ہے۔ یہ قطعی الثبوت والدلالۃ ہے اور پچھلی مخالف شرائع کو منسوخ کرتا ہے۔
یہ اس بناء پر ہے کہ جب ہم فرض کرلیں کہ یوسف علیہ السلام نے بعض مسائل میں مصر کے بادشاہ کی شریعت پر فیصلے کئے، اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلا م نبی تھے اور معصوم تھے، انہوں نے جتنے فیصلے کئے صرف اور صرف ما انزل اللہ کے مطابق کئے، جب اپنے جیل کے دو ساتھیوں کے ساتھ ان کی گفتگو ہوئی تو انہیں یہی کہا کہ فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ہے، ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اے میرے قیدے خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جس کا اقتدار سب پر چھایا ہواہے؟ اُس کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اُ ن کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے آباؤاجداد نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے اُن کے حق میں کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حاکمیت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اُسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لو گ نہیں جانتے " (یوسف:39-40)۔ اس آیت میں تو یوسف علیہ السلام یہی کہہ رہے ہیں کہ(ان الحکم الاللہ) کہ اللہ کے علاوہ کسی کو حاکمیت حاصل نہیں۔ لہذا حاکمیت صرف رب العالمین کی ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اورصرف اسی سے قوانین شریعت لیں گے۔ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں مانتے۔
اور یوسف علیہ السلام کے قول و عمل میں ایسا کوئی تضاد نہیں تھا کہ ایک طرف وہ اللہ کی حاکمیت کی دعوت دیں اور دوسری طرف کفر کے ساتھ حکومت کریں۔ اس کا مطلب ایک نبی کی عصمت پر طعنہ زنی کرنا ہے اوریہ ایک بہتان ہے جو یقیناً کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں.....اس لئے یوسف علیہ السلام کفر کے ساتھ حکومت نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے ایک سچے اور مخلص بندے کی طرح اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی کی۔ تو جیساکہ ہم نے کہا کہ اگر بالفرض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے حضرت یوسف علیہ السلام کوان کی شریعت میں یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض معاملات میں شاہ مصر کے قوانین پر فیصلے کریں تو بجا ہے، مگر اسلام آنے کے بعد گزشتہ تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور ہمارے اوپر رسول اللہﷺ کی نبوت کے بعد صرف اور صرف اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنا فرض کیا گیا ہے۔
2۔ جہاں تک نجاشی کے حوالے سے بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے کیونکہ اس مسئلے کے اندر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نجاشی قبول اسلام سے پہلے بھی بادشاہ تھااور خفیہ اسلام لایا اور اسلام لانے کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہا اور پھر اس کا انتقال ہو گیا اور چونکہ باقی ساری قوم کافر تھی تو اس کی اتنی قد رت نہیں تھی کہ اسلام کا نفاذ کرتا، اس لئے اپنے اسلام کا اعلان بھی نہ کرسکا..... اب اس کو ایک ایسے مسلمان پر منطبق نہیں کیا جاسکتا جسے لوگ بحیثیت ایک مسلمان کے جانتے ہوں اور اس کا اسلام مشہور ومعروف ہو ہم اس کو مزید تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں:
ا۔ نجاشی کا لفظ ملک حبشہ کے کسی مخصوص حکمران کا نام نہیں بلکہ یہ ہرحبشی حکمران کا لقب ہوا کرتا تھا جیساکہ فارس (ایران) کا حکمران کسریٰ اور روم کا حکمران قیصر کہلاتا تھا.....جس نجاشی کے مسلمان ہونے کی ہم بات کررہے ہیں جس پر رسول اللہﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی، توایسا نہیں تھا کہ اس کے اسلام لانے کے کئی سال گزرے تھے، جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے، بلکہ اس کے اسلام کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا جو چند دن یا ہفتے یا ایک دو مہینے سے زیادہ نہیں تھا۔ یہ وہ نجاشی نہیں تھا جس کے پاس مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے گئے۔ یہ وہ نجاشی بھی نہیں تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو صلح حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا یعنی جب آپﷺ نے حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے بلکہ یہ ایک دوسرا نجاشی تھا جس نے اس نجاشی کے بعد حکومت سنبھالی تھی جس کے پاس رسول اللہ ﷺ نے پیغام بھیجا تھا۔ بخاری و مسلم میں اس حوالے سے روایات موجود ہیں، لہذا جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ وہی نجاشی ہے جو حبشہ کا بادشاہ تھا جس نے اسلام قبول کرلیا تھا اورجس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، یا یہ وہ نجاشی تھا جس کے پاس رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ کے بعد بھیجا تھا تو یہ ایک واہمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ باقی رہی بخاری و مسلم کی روایات سے متضاد دیگر روایات، تو وہ مردود ہیں۔ ہماری ذکرکردہ باتوں پر ہمارے پاس کئی دلائل ہیں:
مسلم ؒ نے قتادہ سے، اس نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے («أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ تَعَالَى»، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ) " کہ نبیﷺ نے کسری ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی"۔
ترمذی ؒ قتادہ سے وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں («أَنَّ رسو ل اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ قبل موتہ إِلَى كِسْرَى، وَإِلَى قَيْصَرَ، وَإِلَى النَّجَاشِيِّ، وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللهِ» وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم) "کہ نبیﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور تمام جابروں کو خطوط لکھ کر ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، یہ وہ نجاشی نہیں جس کی نبیﷺ نے نمازجنازہ پڑھی تھی"۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
ب۔ چونکہ رسولﷺ نے حدیبیہ سے واپسی پر حکمرانوں کو خطوط بھیجے، یعنی ذی قعدہ 6 ہجری کو اور جس نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا یہ وہ نجاشی نہیں جس کو دیگر حکمرانوں کی طرح رسول اللہﷺ نے خط بھیجا بلکہ یہ اس کے بعد آنے والا دوسرا نجاشی تھا تو گویا اس بعد میں آنے والے نے سنہ 7 ہجری میں حکومت سنبھا ل لی تھی۔
ج۔ اور چونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو ان احادیث کے راوی ہیں، مسلمان ہونے والے نجاشی کی نمازجنازہ پڑھتے وقت آپﷺ کے ساتھ تھے جیسا کہ نجاشی کی نماز جنازہ والی احادیث میں ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے قبیلہ دوس کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ آئے، اس وفد میں ستر یا اسّی لوگ تھے اور اس وقت رسول اللہﷺ خیبر میں تھے۔ وفد والے وہاں جاکر آپﷺ سے ملے۔ آپﷺ نے ان کو خیبر کی غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور خیبر کا واقعہ سنہ 7 ہجری میں ہوا۔ ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ نجاشی جو مسلمان ہوا تھا، اس نے حبشہ کی حکومت ساتویں ہجری میں سنبھال لی تھی، اسی سال اس کی وفات بھی ہوئی، یعنی چند دن یا ایک مہینہ یا چند مہینے زندہ رہا۔
د۔ ان دنوں حبشہ کے لوگ کفر کی حالت میں اور عیسائی دین پر تھے۔ ان کا حکمران نجاشی تھا جس نے خفیہ طور پر اسلام قبول کرلیاتھا۔ لوگوں کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، حتٰی کہ رسول اللہﷺ کو بھی نجاشی کی وفات کی خبر وحی سے معلوم ہوئی جیسا کہ اس نجاشی پر نماز پڑھنے کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
أخرج البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ («أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى المُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا») "بخاری ؒ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے اسی دن نجاشی کی وفات کی اطلاع دی جس دن اس کی وفات ہوئی۔ آپﷺ عید گاہ کی طرف نکلے، صفیں بنائی گئیں اور آپﷺ نے چار تکبیریں کہیں"۔ دوسری روایت میں ہے کہ "آپﷺ نے نجاشی حبشہ والے کی وفات کے دن ہی اس کی موت کی اطلاع دی اور کہا کہ اپنے بھائی کیلئے اللہ سے دعائے مغفرت کرو"۔ بخاری ؒ نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا "آج حبش کے ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، آؤ اس کی نماز جنازہ پڑھیں"۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے صفیں بنائیں اور آپﷺ نے اس کی نماز جناز ہ پڑھی۔ ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں دوسری صف میں کھڑا تھا۔ ایک روایت میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نجاشی کی وفات کے وقت آپﷺ نے فرمایا "آج ایک نیک آدمی کی وفات ہوئی ہے، اٹھو اپنے بھائی اَصحَمَہ کی نماز جنازہ ادا کرو"۔
یہ جتنے الفاظ ان احادیث میں آئے ہیں مثلاً «نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، «نَعَى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الحَبَشَةِ، يَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ»، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ»"، «مات اليوم رجل صالح...» ان سب سے مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نجاشی کی وفات کے دن ہی آپﷺ نے اس کی اطلاع دی، جبکہ نجاشی حبشہ میں اور رسول اللہﷺ مدینے میں تھے۔ اور یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ علم آپﷺ کو وحی کی ذریعے دیا گیا۔ تو جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ "اپنے بھائی کیلئے دعائے مغفرت کرو" اور "آج ایک نیک بندے کا انتقال ہوا ہے" ان تمام کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کو اس کی موت کے بارے کوئی علم نہیں تھا۔
ھ۔ اس لئے اقتدار میں شرکت کے معاملے میں نجاشی والےحالات موجود نہیں۔ اُس نے تو خفیہ اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کی قوم کافر تھی۔ پھر تھوڑے عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور رسولﷺ کے علاوہ کوئی بھی اس کے اسلام کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ان تما م حقائق کو دیکھتے ہوئے ایک مشہور و معروف مسلمان اگر اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ دیگر نظاموں کے ذریعے حکمرانی کرے تواس کے اور نجاشی کی (اس غیر معروف ) زندگی کے درمیان کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے درمیان یکسانیت موجود ہے توان کے پاس اس بات پر کوئی دلیل یا شبہ دلیل موجود نہیں۔
3۔ جہاں تک مصلحت کو دلیل بنانے کی بات ہے تو یہ بھی بے محل ہے۔ ہم نے اس کا جائزہ لیا:
اصول فقہ کے علماء میں سے بعض مصلحت کو دلیل کے طور پر لیتے ہیں مگر انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ مصلحت کو دلیل تب ہی بنانا جائز ہوگا جبکہ شرع میں اس کے بارے کوئی امر یا نہی نہ آئی ہو، بصورت دیگر مصلحت پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ شرع میں وارد حکم کو لیا جائے گا۔ معتمد علماء ِ اصول فقہ میں سے کسی نے بھی مصلحت کے تقاضے کے پیش نظر وحی کی نصوص کو معطل کرنے کی بات نہیں کی ہے۔
مثلاً ربا حرام ہے۔ وحی کی ثابت شدہ نصوص اس کو حرام قرار دیتی ہیں۔ اب اگر مصالح کی تکمیل ربا کا تقاضا کرے تو شرع اس کو مسترد کرتی ہے اور یہ فعل حرام ہوگا اور اگر کچھ نام نہاد علماء اس پر فتویٰ دیں تو ان کافتویٰ ناقابل قبول ہو گاکیونکہ یہ شرعی نصوص کے مخالف ہے۔
ماانزل اللہ کے علاوہ حکمرانی قطعی طور پر حرام ہے۔اس کے بارے میں بھی آسمانی وحی کی نصوص آئیں ہیں، جیسے ربا ایک قطعی حرام ہے۔ تو مصلحت کو فیصلہ کن بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ شرعی احکامات کی تنفیذ ہی مصلحت ہے۔ اس کے برعکس یہ کہنا کہ جو مصلحت ہے وہی شریعت کا حکم ہے، ایسا ہر گز نہیں۔
چلوہم ان علماء کے ساتھ کچھ دیر کیلئے موافقت کرلیتے ہیں، جو اس معاملے میں سہولت پسند ہیں اور مصالح مرسلہ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے مذہب میں مصلحت کو دلیل بنانے کا یہ موقع نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مصالح مرسلہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہاں ان لوگوں کے ہاں ضرورموجود ہے جو کہتے ہیں کہ شرع نے کچھ امور ایسے چھوڑے ہیں جن کے بارے میں کوئی امر یا نہی نہیں کی۔ وہ ایسے مواقع میں مصلحت کو استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شرع نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جس کے بارے میں حکم نہ دیا ہو۔ شرع نے سب کچھ بیان کیا ہے، مثلاً ﴿تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ "جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے" (النحل:89)، ﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ﴾ "ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی" (الانعام:38)، ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ "آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پراپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا "(المائدہ:3).
4۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفریہ نظاموں میں حصہ لینا اور اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ سے حکمرانی کرنا کفر ہے جبکہ حکمران اس حکمرانی کا عقید ہ بھی رکھتا ہو اور بغیر عقیدے کے کفریہ نظاموں کےساتھ حکمرانی کرنا ظلم اور فسق ہے جیساکہ ان آیا ت کریمہ میں وارد ہے ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ﴾، ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ اور ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے علاوہ حکمرانی میں مسلمان کی شرکت جائز ہے تو ان کے پاس کوئی دلیل یا شبہ دلیل نہیں کیونکہ یہ عمل قطعی الثبوت والدلالۃ نصوص کی رو سے ممنوع ہے۔
امید ہے جواب سے تسلی ہوجائے گی، انشا ء اللہ۔