سوال کا جواب: امریکی پالیسی کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال : امریکی صدر نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے قائد مودی کو سب سے پہلے کامیابی پر مبارک باد دی اور اس کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ اس کے بعد 5 جون 2014 کو اعلان کیا کہ مودی ستمبر میں دورہ کرے گا۔ 26 مئی 2014 کو ہندوستان کے نئے وزیر اعظم کے طور پر مودی کی تقریب حلف برداری ہوئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس میں اس نے پارلیمنٹ کی 545 نشستوں میں سے دو کو چھوڑ کرجن کو براہ راست صدر مقرر کرتا ہے 282 نشتوں پر کامیابی حا صل کی۔ یوں کانگریس پارٹی کو تاریخ ساز شکست کا سامنا ہوا جو صرف 44 نشستیں ہی جیت سکی۔ پھر مودی کی جانب سے ملاقات کی دعوت دیے جانے پر پہلی بار پاکستانی وزیر اعظم نے اس قسم کی تقریب میں شرکت کی اور اس سے ملاقات کی۔ ان تمام باتوں کے کیا نتائج ہوں گے؟ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات امریکی پالیسی اور منصوبوں کے دائرہ کار میں کیسے آگے بڑھیں گے اور چین اور افغانستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
جواب :
1۔ انتخابات کے دوران امریکہ کی جانب سے مودی کی پشت پناہی قابل دید تھی.....مودی کا کردار بہتر بنا نے کی مہم ہندوستان تک محدود نہیں تھی بلکہ ملک سے باہر خاص طور پر امریکہ میں موجود ہندو انتہا پسند تنظیموں کو متحرک کیا گیا تھا، جن کے ذریعے مودی کو تمام ہندوستانیوں بلا استثناء تمام اقلیتوں کے لیے جدو جہد کرنے والے قائد کےطور پر پرچار کیا گیا۔ جو تنظیمیں "مودی " آلہ کار کے طور پر متحرک تھیں ان میں امریکہ انڈیا فاؤنڈیشن اور امریکہ انڈیاکمیٹی برائے پولیٹیکل ایکشن پیش پیش تھیں۔ ان تنظیموں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پشت پناہی، اس کی خارجہ تعلقات کے یونٹ اور سمندر پار بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوستوں کے ذریعے کی اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ وغیرہ میں ہزاروں ہندوستانی رہائش پزیر ہیں۔
اس پارٹی کی اس بھر پور حمایت کی تائید اس سے ہوتی ہے جو واشنگٹن میں "امریکن انٹر پرائز" سٹرپ نے شائع کی ہے کہ انتخابی مہم کے لیے ملک سے باہر جو بھی رقم اکھٹی کی گئی اس کا زیادہ تر حصہ "بھارتیہ جنتاپارٹی " کو ارسال کیا گیا۔ اسی طرح دس ہزار سے زائد امریکی اور یورپی شہریت رکھنے والے ہندوستانی تاجر وں اور کمپنیوں کے مالکان نے "مودی" کی انتخابی مہم کی مدد اور اس کو ووٹ دینے پر لوگوں کو ابھارا۔ ظاہری بات ہے کہ اس کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والوں اور "مودی" کے مدد گاروں اور پشت پناہوں کا اس کی مقبولیت میں اضافے اور اس کے کردار کو بہتر بنانے اور دوسری پارٹیوں اور ان کی انتخابی مہم پس منظر میں لیجانے میں بڑا کردار ہے.....
بہر حال یہ بات واضح ہے کہ متعصب ہندو مودی کی کامیابی کے پیچھے مشرق بعید میں امریکہ کا زبردست مفاد ہی ہے۔ 19 مئی 2014 کو "نقطہ نظر" کے عنوان سے ایک مقالہ جس کو بی بی سی عربی نے "مودی کس طرح بھارت امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہو گا ؟"کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ اس مضمون جو کہ لیزا کرٹیس نے تحریر کیا ہے ، میں کہا گیا ہے کہ " نئی دلی اور واشنگٹن دونوں کے اسٹرٹیجک اہداف مشترک ہیں خواہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ہوں یا بحری گزرگاہوں کی حفاظت کے لیے ہوں یا ابھرتے ہوئے چین کے خلاف ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بالخصوص چین کے حوالے سے سخت پالیسی امریکی عہدیداروں کو اس کے قریب ہو نے کے مواقع فراہم کرے گی"۔ جیسا کہ وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو فون کر کے کامیابی پر مبارک باد کے ساتھ اس کو امریکی دورے کی دعوت دی۔ اوباما نے مودی سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے جس کا ہدف "امریکہ اور انڈیا کے درمیان دوطرفہ اسٹرٹیجک شراکت" کے وعدے کو پوراکرنا ہے۔ 16 مئی 2014 کو بی بی سی عربی نے سے نشر ہونے والی رپورٹ کے مطابق "صدر نے مودی کو دعوت دی اور دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا "۔
2۔ یو ں ہم نے امریکہ کو مودی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی جیت پر انتخابات کے فوراً بعد اور نتائج کے سرکاری طور پر اعلان سے پہلے ہی خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے دیکھا۔ 12 مئی 2014 کو الشرق الاوسط اخبار میں آیا کہ "اوباما نے 12 مئی 2014 کو مکمل ہو نے والے ہندوستانی انتخابات کی تعریف کی 16 مئی 2014 کو ابتدائی نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی پر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نئی ہندوستانی حکومت کی تشکیل کو جلد سے جلد دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور نئی ہندوستانی انتظامیہ کے ساتھ اعتماد کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں تا کہ آنے والے سال بار آور ہوں'....." یہ امریکہ کی جانب سے مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی شدید خواہش اور اس کے ساتھ تعاون کے طرف اشارہ ہے جیسا کہ اٹل بہاری واچپائی کی قیادت میں اس پارٹی کے ساتھ اس وقت تعاون کیا تھا جب یہ 1998 تا 2004 حکمران تھی۔ اب بھی یہی حال ہے کہ جب16 مئی 2014 کو سرکاری طور پر اس پارٹی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو اوباما نے مودی کو فون کر کے اس کو مبارک باد دی اور اس کو واشنگٹن کے دورے اور ملاقات کی دعوت دی۔ امریکی صدر نے مودی کے ساتھ اپنی ٹلیٹ فونک گفتگو میں اس طرف اشارہ کیا کہ "وہ پر اعتمادی سے امریکہ اور ہندوستان کے درمیان اسٹریٹیجک شراکت کے لیے مودی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے" اور "دونوں نے تعلقات کو گہرے اور وسیع کر نے میں بھرپور تعاون پر اتفاق کیا "۔ (انڈیا ٹی وی 17 مئی 2014)۔ پھر 5 جنوری 2014 کو دو ہندوستانی اخبارات "ٹائمز آف انڈیا" اور "ہندوستان ٹائمز" نے ایک خبر شائع کی کہ جس کے مطابق مودی ستمبر میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ یہ سب اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کو اعتماد ہے کہ ہندوستان بی جے پی اور اس کے سربراہ مودی کی قیادت میں خصوصی اسٹریٹیجک شراکت کے نام پر امریکہ کا ہم رکاب ہو گا۔ اس سال پہلے بھی امریکی سفیر کے جنتا پارٹی کے سربراہ "مودی"کے ساتھ ملاقاتوں کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور یہ انتخابات سے بھی پہلے کی بات ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ امریکی پالیسی کے مطابق انتخابات کے بعد مودی کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کی گئی ہے جس پر مودی کار بند ہو گا۔
کانگریس کی دس سالہ حکمرانی کے بعد بی جے پی کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے پر امریکہ خوش ہے کیونکہ کانگریس کے دور میں امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات گرم جوشی پر مبنی نہیں تھے۔ اس نے امریکہ کی ہر بات نہیں مانی خاص کر چین سے ٹکر لینے کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما نے ہندوستانی انتخابات کے نتائج آنے پر اپنے ایجنٹوں کو حکمرانی کے مسند پر دیکھ کر خوشی کے اظہار میں جلد بازی کی۔ اس خوشی میں اوباما یہ بھی بھول گیا کہ امریکہ نے گجرات میں اس وقت مودی کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام پر "مودی" کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی جب وہ وزیر اعلٰی تھا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے جو امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے سے دھوکہ کھاتے ہیں۔ امریکہ اپنے مفاد کے لئےتمام انسانی حقوق کو پامال کر تا رہتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے "مودی" کے امریکہ داخلے پر پابندی انتخابات میں اس کی جیت کے ساتھ ہی آنے والے دنوں میں امریکہ آنے پر پرتپاک استقبال میں تبدیل ہو گیا ہے.....
یوں امریکہ جنتا پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے سے خوش ہے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں امریکہ کے وفادار بر سر اقتدار آچکے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اور ان کے سرغنہ نواز شریف سے ہندوستان کو مزید مراعات فراہم کرنے کا مطالبہ کرے تا کہ ہندستان کی پوزیشن مستحکم ہو یعنی چین کے مقابلے میں ہندوستان کی پوزیشن مستحکم ہو۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں لیکن پاکستان کی قیمت پر.....۔ دوطرفہ تعلقات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ کشمیر کا متنازعہ علاقہ ہے اس کے بعد ہندوستان میں مسلح اسلامی گروہوں کی موجودگی ہے اور نئی دلی ان کی مدد کا الزام پاکستان پر لگاتی ہے۔ اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ اپنے ایجنٹ نواز شریف پر ہندوستان کے مفاد میں کشمیر میں خطرناک تباہ کن مراعات کے لیے دباؤ ڈالے گا تاکہ انتہا پسند ہندو نریندر مودی اور اس کی پارٹی کو خوش کیا جاسکے۔ اوراسی طرح امریکہ نواز شریف سے دہشت گردی پر قابو پانے کے نام پر کشمیری مجاہدین کا صفایا کر نے کا بھی مطالبہ کرے گا۔ یہ سب اس لیے ہوگا تا کہ ہندوستان کو ابھرتے چین کا سامنا کرنے کے قابل بنا یا جاسکے.....
1998 سے 2004 کے درمیان بھی یہی ہوا تھا جب جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور پاکستان نے ہندوستان میں امریکی ایجنٹوں کو مضبوط کرنے اور اس کے اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لیے کشمیر میں ہندوستان کے مفاد میں پسپائی اختیار کی تھی۔ نوازشریف ہی نے پاک فوج اور مجاہدین کو کارگل کی ان چوٹیوں سے پسپا ہونے کا حکم دیا تھا جن کو فوج اور مجاہدین نے زبردست معرکے کے بعد آزاد کرایا تھا۔ یہ تب ہو جب نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے 4 جولائی 1999 کو ملاقات کی اور امریکہ نےپسپائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالا اور اس نےسر جکاق کر پسپائی کا حکم دے دیا.....اب پھر نواز شریف ہی پسپائی کو دوہرا رہا ہے جس کی ابتدا نواز شریف نے 26 مئی 2014 کو نئے ہندوستانی وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور ایک گھنٹے کی ملاقات سے کیا ہے۔ اس دوران مودی نے نواز شریف کو یاد دہانی بھی کرادی کہ "پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سرزمین کو ہندوستان پر حملوں کے لیے استعمال ہو نے سے روکے اور 2008 کے ممبئی حملے کے ذمہ داروں کو سزادے" (رائٹرز 27 مئی 2014 )۔ اس موقع پر نواز شریف نے کمزوری اور ذلت کا اظہار کیا اور کم ازکم برابری کی سطح پر بھی اس کا جواب نہیں دیا بلکہ صحافیوں کے سامنے یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ "اس نے مودی کے ساتھ دوطرفہ دوستانہ خوشگوار ملاقات کی"۔ وہ یہ بات کر رہا ہے جبکہ 2002 کے گجرات واقعات اب تک مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں جب نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلی بننے پر ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا تھا جس کے نتیجے میں 2000 سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے جو اب تک در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس نہیں آسکے۔ صوبائی یا ہندوستان کی مرکزی حکومت نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ نوازشریف نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں علیحد گی پسندوں کی مدد کا مسئلہ بھی نہیں اٹھا یا۔ یوں نواز شریف نے ہندوستان کے نئے وزیر اعظم مودی کو چیلنج کرنے یا کم ازکم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بجائے امریکی پالیسی کے مطابق ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے مودی کے سامنے رسوائے زمانہ جھکاؤ اختیار کیا!
3۔ دوسری طرف یہ نظر آرہا ہے کہ امریکہ ہندوستان کو افغانستان میں کردار دینا چاہتا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں استحکام لانے میں وہ پاکستان کا محتاج نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے والا پہلا صدر افغانستان کا کرزئی ہی تھا۔ ہندوستان میں جب بھی امریکہ کی پروردہ حکومت ہوتی ہے، امریکہ پاکستان سے زیادہ ہندوستان پر اعتماد کر تا ہے حالانکہ پاکستان میں بھی اس کی پروردہ حکومت ہے لیکن اس کو یہ خوف ہے کہ اس اسلامی ملک میں کسی بھی وقت کوئی بھی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، اس لیے وہ یہاں زیادہ دیر محفوظ نہیں کیونکہ یہاں کے لوگ تبدیلی کے لیے متحرک ہیں اور حقیقی اور سنجیدہ تبدیلی اور مغرب سے بالعموم اور امریکہ سے بالخصوص جان چھڑانے کا رجحان موجود ہے، جس کی وجہ سے وہ یہاں نظامِ حکمرانی پر حاوی رہتا ہے اور اپنے ایجنٹوں کو حکومت میں لاتا ہے اور ساتھ ہی فوج کی قیادت کو بھی اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ یوں امریکہ نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں اپنے مہرے رکھے ہوئے ہے.....امریکہ کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں امت اس کی بنی بنائی عمارت کو منہدم نہ کردے۔ اس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ امت اسلامی حکومت قائم کرے گی اور خلافت کا اعلان کرے گی۔ یہی وہ چیز ہے جس سے امریکہ تشویش میں مبتلا ہے.....یہی وجہ ہے امریکہ افغانستان سے فوج کو "واپس بلانے" کے بعد وہاں معاملات کو درست کرنے میں صرف پاکستان پر اعتماد پر اکتفا نہیں کر رہا ہے بلکہ وہاں حالات کو معمول پر لانے میں بھارت کو فعال کردار سونپنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لیے افغا نستان اور بھارت کے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔ مغربی اور امریکی فوج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد امن و امان کے لیے اس کا زیادہ اعتماد ہندوستان پر ہو گا ، اسی لیے کرسچئن سائنس مانیٹر نے یکم جون 2014 کو ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ "پچھلے ہفتے جب افغان صدر حامد کرزئی نے نئے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اس موقع پر اس نے ان اشیاء کی ایک فہرست پیش کی جن کو حاصل کرنے میں افغانستان دلچسپی رکھتا ہے جن میں ٹینک، اسلحہ، ٹرک، ہیلی کاپٹر وغیرہ شامل ہیں"۔ اخبار نے مزید کہا ہے کہ "کرزئی کا مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان کے حکومتی اور عسکری حلقوں میں یہ بحث عروج پر تھی کہ آیا نئی دلی کابل کی عسکری امداد میں اضافہ کرے گی یا نہیں....." اخبار نے یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ "ہندوستان کے افغانستان کے ساتھ روایتی اور مضبوط تعلقات ہیں اور ہندوستان کا بل کا اسٹریٹیجک شراکت دار اور دوست بھی بن چکا ہے، اگرچہ طالبان دور ِحکومت میں اس سے دور ہوگئے تھا"۔ یوں امریکہ کے وفادار مودی کے دور حکومت میں ہندوستان افغانستان میں امریکہ کی پشت پناہی میں بننے والی حکومت کے مفاد میں امن و امان کے حوالے سے متحرک کردار ادا کرے گا۔
4۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اپنے اثر ورسوخ کو بڑھا یا اور اپنے خطے میں اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ امریکہ چین کے ارد گرد ممالک کے ذریعے اس کے گرد گیرکا تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام اور ہندوستان۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے چین کو قابو کرنے کے لیے کئی ایک اتحاد اور پارٹنر بنا ئے تاکہ چین کے ہمسایہ ممالک کے ذریعے ہی اس کو لگام دے۔ امریکہ نے دیکھ لیا کہ برصغیر میں چین کا سامنا کرنے کے لیے ہندوستان مناسب ملک ہے کیونکہ اس کے چین کے ساتھ مختلف پرانے سرحدی تنازعات بھی ہیں۔
یوں امریکہ نے چین پر دباؤ میں اضافہ کرنے، اس کو اپنے آس پاس کےعلاقوں پر اثر انداز ہو نے سے روکنے، اپنی ہی سر زمین تک محدود رہنے اورہندوستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنے میں مشغول رکھنے کے لیے ہندوستان کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے دوسال قبل ایشات-بحر الکاہل سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کر دیا تھاجس کی رو سے وہ اپنی 60 فیصدبحری طاقت کو اس خطے میں چین کا راستہ روکنے اور خطے کے ممالک سے اتحاد قائم کر کے ان کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنے کے لئے منتقل کرے گا۔ ان ممالک میں سے ایک ہندوستان ہے جس کو بحرالکاہل میں مشرقی خطے خاص کر جنوبی چین کے سمندری علاقے کی طرف متوجہ کیا اور اس کو وہاں توانائی کے وسائل تیل اور گیس کی موجودگی کا جھانسہ دیا۔ اگرچہ ہندوستان کی کانگریسی حکومت نے امریکہ کے اس ترغیب پر زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، حالانکہ امریکہ نے ہندوستان کی کانگریسی حکومت کو قائل کرنے کے لیے اپنی بھر پور قوت استعمال کی اور اپنے نائب صدر جوزیف بائیڈن کو اور پھر گزشتہ سال کے وسط میں وزیر خارجہ جان کیری کو اس مقصد کے لیے بھیجا، آسٹریلیا کو ہندوستان کے ساتھ شرا کت پر مجبور کیا اور مراعات کے لیے پا کستان پر دباؤ ڈال کر اس کو ہندوستانی سرحد سے اپنی فوج ہٹانے پر مجبور کیا تاکہ انڈیا اپنی فوج چینی سرحد کی طرف منتقل کرے اور اس کی طرف توجہ دے۔ جارج بش نے مارچ 2006 میں کانگریس کے دور حکومت میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا اور ہندوستان کی مدد پر مبنی کئی معاہدات پر دستخط بھی کیے تھے، جس میں سول نیوکلئیر ڈیل بھی شامل تھی۔ اسی طرح اوباما نے نومبر 2010 میں ہندوستان کا دورہ کیا اور یہ سب ہندوستان کی کانگریسی حکومت پر اثر انداز ہو کر اس کو امریکی پالیسی کی طرف مائل کرنے کے لیے تھا، لیکن امریکہ اس پر اس قدر اثر انداز نہیں ہو سکا کہ اس کو خطے میں امریکی پالیسی پر گامزن کرسکے اور اپنی پالیسی نافذ کرنے کے لیے فعال شریک کار بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈین کانگریس پارٹی انگریز کی وفادار ہے اور امریکی پالیسیوں کی مخالف ہے.....2005 کے انتخابات کے موقعے پر کانگریس کا بیان اس کا غماز ہے جس میں کہا گیا تھا کہ "یہ افسوس ناک امر ہے کہ ہندوستان جیسا بڑا ملک اپنے تعلقات میں امریکہ کا دست نگر بن کر رہ گیا ہے اس حد تک کہ امریکی حکومت ہندوستان کی وفاداری پختہ قرار دیتی ہے، جس نے بی جے پی حکومت کو اپنی پالیسی میں امریکی پالیسی اور ترجیحات کے ضمن میں ہی رد وبدل کرنے پر مجبور کیا جس میں ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو بھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی تھی"۔
یوں امریکہ چین کے بارے میں اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کانگریس کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ امریکہ ہندوستانی فوجی قیادت کو بھی پاکستانی سرحد سے ہٹا کر چین پرتوجہ مرکوز کرانے کے لیے قائل نہیں کر سکا۔ ہندوستانی فوج کی توجہ اندرونی سکیورٹی، کشمیر اور پاکستان کی سرحد پر مرکوز ہے۔ ہندوستانی فوج کے سات کور اور اضافی تین بریگیڈ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ہیں اور80 فیصد مرکزی فرنٹ لائن اڈے بھی پاکستان کے خلاف ہیں۔
اب جب کہ مئی 2014 کے انتخابات میں جنتا پارٹی جیت گئی ہے جو نوے کی دہائی واجپائی کے زمانے سے ہی امریکہ کی وفادار ہے اس لیے امریکہ کے لیے ہندوستان کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا ہے، کیونکہ ہندوستان کو چین کے مد مقابل لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس پارٹی کا حکومت میں ہو نا تھا اب یہ رکاوٹ ختم ہو گئی ہے۔ اب امریکہ کے لیے اپنی وفادار بی جے پی کو اس بات پر قائل کرنا آسان ہے کہ فوج پاکستانی سرحد کی بجائے چین کی سرحد پر توجہ مرکوز کرے، خاص کر امریکہ بی جے پی کو یہ ضمانت دے رہا ہے کہ پاکستانی قیادت نے پاک فوج کا رخ شمالی علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے اور ہندوستانی سرحد سے فوج اور اسلحہ کم کر چکا ہے، پاکستانی عسکری اور سیاسی قیادت کا امریکی مطالبات کے سامنے سرنگوں ہو نا قابل ذکر ہے.....! یاد رہے کہ پاکستانی بری فوج بنیادی طور پر 13 کور پر مشتمل ہے جن میں سے نو ہندوستانی سرحد کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔ مشرف اور کیانی کے دور سے شمالی علاقوں اور وادی سوات میں آپریشن کی وجہ سے اس فوج کے کچھ حصے کو ہندوستانی سرحد سے ادھر منتقل کیا گیا ہے۔
جنوری 2013 میں جرنیل کیانی نے ملک کے نئی ملٹری ڈاکٹرائن کا اعلان کر دیا جس کی بنیاد پر عسکری پوزیشن میں تبدیلی کی گئی اور اس بات کا تعین کیا گیا کہ ملک کی سکوورٹی کو ہندوستان کے مقابلے میں اندر ونی طور پر زیادہ خطرہ ہے یوں پاکستان نے اپنی توجہ کا مرکز ہندوستان کی سرحد کی بجائے افغانستان سے ملحقہ شمالی علاقوں کو بنا یا۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستان نے پاکستان کی طرح کوئی قدم نہیں اٹھا یا بلکہ وہ اب بھی پاکستان کو ہی اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور پاکستان کی سرحد سے فوج کو مکمل طور پر ہٹانے سے انکار ی ہے۔
بہر حال اب پاکستان اور ہندوستان دونوں کی حکومتیں امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو امریکہ پاکستان کو افغانستان اور شمالی علاقوں میں ہی مصروف رکھے گا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے پاس پاکستانی سرحد کے ساتھ بہت بڑی فوج رکھنے کا جواز باقی نہیں رہے گا اور اس سے ہندوستان کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔ اس لئے امریکہ سوپارٹی معاہدوں کے ذریعے ہندوستان کو جنگی سازوسامان دے گا خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب بی جے پی کی صورت میں ایسی جماعت اقتدار میں آئی ہے جس کی ہمیشہ سے برصغیر میں پولیس مین کا کردار ادا کرنے کی خواہش رہی ہو۔ اس بات کی بھی توقع ہے کہ امریکہ ہندوستان کو اقتصادی معاہدات کی بھی پیش کش کرے گا جیسے ہندوستانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری، ہندوستانی معیشت کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی۔ اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی قوت کا اظہار کرنے کے لیے جنوبی چین کے سمندر میں اپنی قوت بڑھائے گی۔
امریکہ اس بات کا اہتمام کر رہا ہے کہ اسٹریٹیجک تعاون کو مضبوط کر کے چین کے گرد گیر ا تنگ کیا جائے اور اس کی سرگرمیوں کومحدود کرنے کے لیے اس پر حاوی ہوا جائے اور ہندوستان کو چین کے مد مقابل ایک قوت کا روپ دیا جائے۔ خاص کر انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے نتیجے میں اس کی تن تنہا حکومت ہو گی جس سے امریکہ کے لیے ہندوستان کو چین کے خلاف متحرک کرنا بالخصوص مندجہ ذیل میدانوں میں آسان ہو گا:
ا۔ تبت کے علاقے کی خود مختاری کے موضوع کو اچھالنے اور لداخ کے خطے کی حدود کے بارے میں چین اور ہندوستان کے درمیان موجود اختلافات کو ہوا دے کر.....
ب۔ تجارتی راستوں یعنی بحر چین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کی سکوارٹی کے حوالے سے جو کہ 50 فیصدبین الاقوامی نقل وحمل کا ذریعہ ہیں۔
یہ سب وہ مسائل ہیں جن کے حل میں چین مشغول ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ امریکی پالیسی کے مطابق اپنے ادر گرد علاقوں میں ہی محصور ہو کر رہے گا۔ ایسا لگ بھی رہا ہے کہ امریکہ مودی کو چین کے بارے میں متحرک کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ "مودی" نے فوج کے سابق سربراہ وی پی سنگھ کو شمالی مشرقی علاقوں کے سکو رٹی کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے شمالی علاقوں کا وفاقی وزیر بنا دیا ہے جن کے بارے میں مودی نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں چین کے ساتھ تعلقات اور یہاں امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی ہے۔ سنگھ نےاپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد گزشتہ جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "شمال مشرق کے علاقوں کی ترقی میری پہلی ترجیح ہو گی"۔ اس بات کی توقع ہے کہ سنگھ شمال مشرق میں چین کی سرحد کے ساتھ 80 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فورس کے بنانے کے ہندوستانی منصوبے کو دوبارہ زندہ کرے گا۔
یوں امریکہ پاکستان کی طرف سے ہندوستانی سرحد کی حفاظت کی ضمانت کے بعد ہندوستان کو چین کے خلاف متحرک کرنے کے اپنے منصوبے پر کاربند ہے۔ پاکستانی قیادت نے پاک فوج کو افغان سرحد اور شمالی علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں پر حملوں کے لیے منتقل کیا، بجائے اس کے کہ فوج کو کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے متحرک کرتے جیسا کہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو اسلامی علاقوں میں بالادستی نہ دیں ﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ "اور اللہ ہرگز مسلمانوں پر کافروں کو بالادستی نہیں دے گا" (النساء:141)۔
امریکہ اپنے جرائم، سازشوں اور ملکوں کو پامال کرنے میں تمام حدیں پار کر چکا ہے اور تمام استعماریوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے.....وہ اپنے استعماری مفادات کے لیے ہر جرم اور ہر سازش کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وہ چین کے خلاف کھلی سازش کر رہا ہے، ہند وستان کے خلاف خفیہ سازش کر رہا ہے اور اس کو یہ باور کرا رہا ہے کہ خشکی اور سمندر میں چین کے مد مقابل آنا ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ امداد اور اسٹریٹیجک معاہدوں کی آڑ میں اس کو دھوکے دے رہا ہےکیونکہ بالآخر اس سب کا نقصان ہندوستان کو ہو گا کیونکہ چین اس سے مادی اور فکری لحاظ سے طاقتور ہے.....اس کے باوجو چین اور بھارت میں کوئی قدر مشترک نہیں اگر دونوں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو تے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں امریکی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو یہ ہے کہ پاکستان میں اور افغانستان میں مسلمان آپس میں ہی لڑیں.....اس سے بھی تعجب کی بات ہے کہ یہ دونوں ظالم حکومتیں اب بھی مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہیں ! اس امت پرفرض ہے جس کو اللہ نے اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے کہ اس اسلام کو مضبوطی سے تھامے اور اس کے ذریعے حکمرانی کرے اور ان ظالم حکومتوں کو برطرف کرے اور ان کی جگہ اسلامی ریاست خلافت راشدہ کو قائم کرے جو امریکہ اور اس کی سازشوں کو پاوں تلے روندے گی، افغانستان، پاکستا ن اور تمام اسلای ممالک کو اللہ کے بندے اور ایک دوسرے کا بھائی بنادے گی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا مدد کرتا ہےاور وہی غالب اور رحیم ہے" (الروم:4-5)۔