الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوالات کے جوابات یمن کی پیش رفت - سعودیہ میں سلمان بن عبد العزیز کا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال :

سعودیہ اور یمن میں  انتہائی اہم واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ حو ثیوں نے صنعا پر قبضہ کر لیا ہے  حکومت اور جمہوریہ کے سربراہ نے 22 جنوری 2015 کو استعفی ٰدے دیا ۔۔۔ساتھ ہی جمعہ کی صبح23 جنوری 2015 کو سعودی بادشاہ عبد اللہ کا بھی انتقال ہوا اور اس  کے نائب سلمان بن عبد العزیز  تخت نشین ہوئے۔  میرے سوال کے دو حصے ہیں:

اول: کیا یمن کے واقعات  بدستور  اسی نہج پر رونما ہو رہے ہیں جو حزب نےیکم  اکتوبر2014 کو  یمن   کے حوالے سے اپنے پمفلٹ میں کہا تھا؟اور متوقع حل کیا  ہے؟

دوم: کیا سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے  عبد اللہ کے بعد زمام اقتدار  کا سنبھالنا  سعودیہ کی پالیسی کو تبدیل کرے گا یا معاملات اسی طرح ہی چلتے رہیں ہیں؟

معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے ایک سوال کی بجائے دو سوال پوچھ لیے، اللہ آپ کو بہترین اجر دے۔

 

جواب :

اول : یمن کے واقعات :

1۔  یمن کے واقعات کا جہاں تک تعلق ہے  تو ان پر غور کرنے والا  یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ ایسے ہی رونما ہو رہے ہیں جیسا کہ ہم نے اس سے قبل ہی یکم اکتوبر 2014 کو بتا یا تھا کہ امریکہ یمن میں  اپنے بدنام زمانہ غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے، یعنی  طاقت اور زبردستی سے ،حوثیین نے صنعاء  اور دوسری علاقوں پر قبضہ کر لیا  ہے اور وہ "عوامی انقلاب اور عوامی کمیٹی" کے نام پر  قتل و غارت اور گرفتاریاں کر رہے ہیں جبکہ انگریز  سیاسی مکاری سے یمن میں دو خطوط  پر کام کر رہا ہے : اول    ہادی  کی جانب سے  بحیثیت سربراہ جمہوریہ  سوچے سمجھے  منصوبے کے تحت  اپنے اختیارات کے استعمال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا ۔  جوں ہی حوثیوں نے  اس کو ہر طرف سے گھیر لیا  تو اس نے ان سے  معاہدوں کا وعدہ کیا  پھر ان کو عملہ جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کیا ۔۔۔اُس نے اِس کھیل کو اسی طرح جاری رکھا یہاں تک کہ  اس کی چالاکی کو حوثی سمجھ گئے اورایک بات پھر اسے ہر طرف سے  گھیر لیا  اور تمام معاہدوں  کو نافذ العمل  کرنے پر اصرار کیا  تو اس نے استعفی دے کر اُن کو حیران کر دیا ! اس لیے حوثی سنبھلتے سنبھلتے پھر ڈگمگا نے لگے۔۔

2۔ جہاں تک دوسری سطح کا تعلق ہے تو  وہ سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے ذریعے تھا،جس  نے حوثیوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا،ان کے پاس گیا، ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا  حالانکہ  پہلے وہ اُن کا دشمن تھا۔اس نے ان کی  طاقت کے ذریعے اس قدر مدد کی کہ اب حوثیوں کے لیے اُس سے جدا ہو نامشکل ہو گیا۔اس دوسری سطح کا مقصد یہ تھا کہ اگر  صدر ہادی کے اقدامات حوثیوں کو تنگ کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوئے اور وہ  حکومت  حاصل کرنے کے قریب ہوگئے تو پھر علی عبد اللہ صالح  اور اس کی پارٹی  حوثیوں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کر ے گی جس سے حکومت میں امریکہ کے ساتھ انگریز کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہو گا۔۔۔

3 ۔ یمن میں  یہ کچھ ہو رہا ہے۔  برطانیہ اب پہلے کی طرح  یمن پر اپنی بالادستی قائم کرنے  کے قابل نہیں رہا، ساتھ ہی وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں  کا عسکری طور پر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے  سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا :

ہادی اپنا داؤ پیچ اور ٹال مٹول سے ایک عرصے تک  کام لیتا رہا  پھر استعفی ٰدے بیٹھا جس سے  ملک کے طول و عرض میں مظاہرے شروع ہوئے  اور حوثیین پھنس گئے،جبکہ وہ  صدارتی فیصلوں  کے ذریعے   بالادستی  حاصل کرنا چاہتے تھے  ،جس سے  بغاوت یا انقلاب کی چھاپ  لگے بغیر اُن کو  اقتدار مل جا تا ۔  اب اُن پر بغاوت کی چھاپ لگ گئی ہے اور صدارت کا منصب خالی ہونے کی وجہ سے وہ  مشکل  صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں  خاص کر ریاستی مرکز صنعاء میں ۔۔۔

جہاں تک علی صالح  کا تعلق ہے  اس کا حوثیین کے ساتھ گٹھ جوڑ  بھی ہر دیکھنے والے شخص کو نظر آرہا ہے۔ برطانوی ایجنٹوں اور اس کے ذرائع ابلاغ  نے علی صالح کی حوثیوں کے ساتھ سودےبازی کو  سامنے لانے میں حصہ لیا جس سے  حوثی عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ عوام حوثیوں کے ساتھ ساز باز کرنے پر علی صالح کے خلاف بھی متحرک ہو ئے  اور یوں  وہ اور حوثی ایک ہی   پلڑے میں ہیں اور  حوثیوں کے لیے علی صالح سے الگ  ہونا مشکل ہے !انگریز کے میڈیا خصوصا الجزیرہ کو دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے۔ اپنے پروگراموں میں وہ اس پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ  حوثی  کرپٹ لوگوں کے خلاف  جنگ کی بات کرتے ہیں  جبکہ خود سب سے بڑے کرپٹ علی صالح  کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں۔ اس کے بعد  ان کے پیرو کار   ایسی خبریں شائع کر تے رہتے ہیں کہ جن سے  علی صالح اور حوثیوں کے تعلقات  کا انکشاف ہو تا ہے۔۔۔چنانچہ الجزیرہ نے 21 جنوری 2015 کو  علی صالح اور حوثیوں کے ایک لیڈر عبد الواحد حوثی  ابو راس  کے درمیان آڈیو گفتگو  نشر کی  جس کے بارے میں کہا گیا   کہ کہیں سے ملی ہے !اس آڈیو  کی تاریخ گزشتہ اکتوبر کی ہے  جبکہ صنعاء  گزشتہ ستمبر میں ہی  حوثیوں کے قبضے میں آگیا تھا ۔ اس گفتگومیں علی صالح اور حوثیوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اپنے بعض پروگراموں میں الجزیرہ  نے یہ سوالات اٹھا ئے کہ حوثی  کہتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف ہیں جب کہ انہوں نے کرپشن  کے بے تاج بادشاہ علی صالح  کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہوا ہے !

4 ۔ رہی یہ بات کہ حالات کیا رُخ اختیار کریں گے تو  کسی بھی  فریق کے لیے  یکطرفہ طور پر   معاملات کو سنبھالنا اور  یمن  پر بالادستی حاصل کرنا  آسان نہیں  بلکہ راجح یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ طریقے پر کوئی درمیانہ حل نکالا جائے گا، جس سے بحران ختم نہیں ہو گا بلکہ   متحارب فریقن کو سستانے کا موقع  ملے گا   یہاں تک کہ کوئی ایک فریق دوسرے کو پچھاڑ دے ۔۔۔اس بحران کو عدل اور احسان  کے ساتھ صرف خلافت ہی حل کرے گی  جس سے اسلام اور مسلمانوں کو عزت ملے گی  اور کفر اور کافر ذلیل ہوں گے  اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

5 ۔ یمن میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اختصار کے ساتھ ہم نے بتا دیا یہی وہ سیاسی رائے  ہے جس  کا اظہار ہم نے پہلے بھی یکم اکتوبر 2014  کے سوال کے جواب میں کیا تھا،تین مہینے پہلے ہم نے  جو کچھ کہا تھا  اسی میں  سے کچھ پیش کر رہا ہوں تا کہ  قاری کو ہماری رائے کی درستگی کا اندازہ ہو  :

بر طانیہ یہ جان چکا ہے  کہ امریکہ  یمن  کی حکومت    کو قابو کرنے کے لیے  طاقت کے استعمال میں سنجیدہ ہے،یہ بات بھی کہ حو ثیین  ایک موثر قوت ہیں جن کو امریکہ نے ایران کے ذریعے  اسلحہ اور کیل کانٹوں سے لیس کیا ہے۔۔۔ برطانیہ نے  یہ سمجھ کر  مزاحمت کے  لیے دو خطوط پر چلنا شروع کر دیا  : اول : ہادی بحیثیت صدر  حو ثیوں کو موثر  اقتدار حاصل کر نے سے روکنے کے لیے  اپنے عہدے  کا بھر پور استعمال کرے،دوم : صالح کو  حو ثیوں کا ایسا شریک کار بنانا کہ وہ  ہادی کی حکومت کا اپوزیشن لگے، اس کے بعض حمایتی   پہلے ہی حوثیوں میں شامل ہو گئے  تھے  جنہوں نے   عوامی نیشنل کانگریس "سابق یمنی صدر کی جماعت"  کا جھنڈا اٹھا یا ۔ جب برطانوی سفیر سے  سابق صدر علی عبد اللہ صالح  کے ساتھ رابطوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا : "میرے اور علی عبد اللہ صالح کے بلا واسطہ تعلقات نہیں  لیکن  عوامی نیشنل کانگریس کے ساتھ میرے تعلقات ہیں  جس میں اس کے قریبی  لوگ ہیں"  (27 نومبر 2014الشرق الاوسط)۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ برطانیہ ہی نے  اپنے ایجنٹ علی صالح  کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ وہ حوثیوں کے ساتھ  تعاون کرے،اسی لیے برطانیہ کے سفیر  نےعلی صالح  کی پارٹی سے رابطوں کا اعتراف کر لیا ۔ اس پارٹی کو چلاتا ہی علی صالح ہے وہی اس پارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک ہے اس کا کوئی مقابل  یا مخالف اس پارٹی میں نہیں ۔۔۔برطانیہ کا یہ اقدام کہ علی صالح کو  حوثیین کے ساتھ کرنا اس لیے تھا کہ اگر  ہادی  بحیثیت صدر  امریکہ کے آلہ کاروں کو عملی حکمرانی تک پہنچنے سے باز رکھنے کے لیے  اپنے منصب کو استعمال کرنے میں ناکام رہا تو علی صالح  حو ثیوں کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار ہو گا،  یوں یمن میں انگریز  کا اثرو نفوذ باقی رہے گا خاص طور پر  جب حوثیوں کو  اتنی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کہ وہ یمن میں اکیلے حکومت کر سکیں ۔۔۔ختم شد

پھر ہم   نے جواب کا اختتام    اس طرح کیا تھا اور ہم نے یہ کہا تھا کہ :

اس کا یہ مطلب ہے کہ  یمن میں متوقع حل  امریکہ اور برطانیہ کے درمیان  سرمایہ داروں کے طریقے کے مطابق درمیان کا راستہ نکالا جائے گا  اور حکومت   میں طرفین شریک ہوں گے۔۔۔ ان کے ہاں درمیانی حل مستقل نہیں ہوتا  بلکہ صرف دو لڑنے والوں  کی لڑائی  کے دوران سانس لینے کی طرح ہو تی ہے  یہاں تک کہ امریکہ یا برطانیہ میں سے کوئی ایک  غالب آئے،یعنی یمن کے واقعات   منقلب ہو تے رہیں گے  کبھی پُرسکون اور کبھی بر انگیختہ ،یہ لڑنے والوں کی عسکری یا سیاسی  قوت  کے توازن  کے مطابق بدلتے رہیں گے۔

اس  بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ یمن میں معاملات کے بگڑنے کا سلسلہ برقرار رہے گا  اس میں استحکام صرف دو صورتوں میں آئے گا : اول "امریکہ یا برطانیہ میں سے کوئی ایک   حالات کو  اپنے حق میں پلٹنے میں کا میاب ہو جائے،وہی یمن میں عملی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا،لیکن یہ آسان نہیں جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں،دوم : اللہ اس امت کو خلافت سے نوازے  تو خلافت استعماری کافروں  کے اثرو رسوخ کو روندد ے گی  اوراسلامی علاقوں  سے ان  کی جڑوں کو اکھاڑ دے گی ،بندوں  کے خلاف ان کے شرارتوں کا قلعہ قمع کرے گی ،جس سے کافر ذلیل اور مسلمان اور اسلام عزت مند ہو جائیں گے اور اس دن مومنین اللہ کی مدد سے مسرور ہوں گے  ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾  "اس دن مومن خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے  وہ جس کی مدد کر نا چاہے کر سکتا ہے وہی زبردست اور مہربان ہے" یہ بات اہل یمن جو کہ ایمان اور دانائی کی سرزمین ہے کے شایان شان ہے کہ وہ  خلافت کو قائم کریں  اور دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کریں اور اللہ ہی نیکو کاروں کا کارساز ہے۔

ختم شد

یو ں معاملات اسی نہج پر ہی آگے بڑھ رہے ہیں  جیسا کہ ہم نے یکم اکتوبر 2014  کو اپنے تجزئیے میں  بیان کیا تھا۔

 

دوئم : سعودیہ کے واقعات:

رہی بات سعودیہ میں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے تو اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ : کیا  نیا بادشاہ انہی  پرانی خطوط پر کاربند ہے جن پر عبد اللہ برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں  چلتا تھا  یا تبدیل کرے گا ؟ نئے شاہ سلمان کے لیے سیاسی صورت حال کیا ہے؟  جو کچھ ہوا اس کو سمجھنے کے لیے  مندرجہ ذیل امور کو  سمجھنا ضروری ہے :

1 ۔ سعودی شاہی خاندان میں  امریکی اور برطانوی  اثرو نفوذ موجود ہے۔ طرفین  کے پیرو کاروں کی قوت  کے مطابق ہی  سعودی حکومت  میں عملی  تاثیر  ہوتی ہے۔ اسی کے مطابق ہی سعودیہ کے برطانیہ یا امریکہ سے تعلقات ہو تے ہیں۔

2 ۔ ان تعلقات کو باریک بینی سے دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ  وزارت دفاع میں  امریکی نفوذ  بہت زیادہ ہے،خاص کر 1383 ہجری کے بعد جب سلطان بن عبد العزیز وزیر دفاع بن گیا ،وہ امریکہ کے آدمی ہونے کے لیے مشہور تھا ۔ اسی طرح سلمان بن عبد العزیز کی   طرف سے 9/12/1432 ہجری کو وزارت دفاع کا قلم دان سنبھالنے کے بعد بھی  وزارت دفاع میں یہی صورت حال رہی ۔  اس کے بعد اس کے بیٹے محمد بن سلمان بن عبد العزیز  اس وقت اس کا جانشین بنا جب 3/4/1436 ہجری کو جب  سلمان  بن عبد العزیز  سعودیہ کا بادشاہ بن گیا ۔

3 ۔ جبکہ سعودی عرب کے  نیشنل گارڈز میں انگریز کا اثر ونفوذ  نمایاں ہے، کم ازکم 1382 ہجری سے جب سابق شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز   نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ تھے اور یہ صورت حال 1431 ہجری تک برقرار رہی  ۔ا س کے بعد اس کے بیٹے متعب بن عبد اللہ بن عبد العزیز  1431 ہجری سے 1434 ہجری تک اس کے سربراہ رہے ۔ 1434 ہجری کے بعد  یہ ادارہ  وزارت میں تبدیل ہوگیا اور متعب ہی آج تک وزارت   نیشنل گارڈ  کا وزیر ہے۔

4 ۔ خاندانی ترتیب کے مطابق  کون بادشاہ بنے گا  تو اس ترتیب   کے مطابق  اسی ادارے سے بادشاہ بننا کو ئی لازمی نہیں ۔ بادشاہ یا اس کا ولی عہد وزارت دفاع،نیشنل گارڈ یا کسی اور جگہ سے آسکتا ہے ۔۔۔یہ بات گزشتہ کئی دہائیوں سے مشہور ہے کہ  ان دو اداروں سے آنے والا ہی حکومت میں موثر ہو تا ہے کسی اور کا اتنا اثر نہیں ہو تا۔۔۔

5 ۔ سابق بادشاہ عبداللہ   نیشنل گارڈ کے ادارے سے آیا تھا  اسی وجہ سے سعودیہ میں انگریز کا نفوذ ہی غالب تھا  مگر  امریکہ کو بھی راضی رکھنے کے اسالیب  اختیار کیے جاتے تھے۔  اس لیے کبھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے تھے، کبھی اس میں گرمجوشی دیکھنے میں آتی لیکن عمومی پالیسی  برطانوی رنگ میں رنگی ہوتی تھی  مگر  امریکہ   کی مخالفت بھی کھل کر نہیں کی جاتی تھی  بلکہ اس کو راضی کرنے کے لیے برطانوی اسالیب اختیار کیے جاتے تھے  جن  کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہو تا ہے۔۔۔

رہی بات موجودہ بادشاہ کی  تو یہ  وزارت دفاع سے آیا ہے اس لیے توقع اس بات کی ہے کہ اس کے عہد میں  امریکی اثرو رسوخ کا ہی غلبہ ہو گا۔ شاہ عبدا للہ یہ جانتا تھا  اس لیے  اس نے سعودیہ میں ایک نئی روایت بھی قائم کی تھی  اور وہ یہ کہ بادشاہ نے صرف ولی عہد مقرر نہیں کیا بلکہ  ولی عہد کا ولی عہد بھی مقرر کیا ۔  وہ یہ جانتا تھا کہ سلمان بن عبد العزیز  امریکہ کے ساتھ چلے گا ،اس لیے اس نے اس کے لیے ولی عہد کا انتخاب بھی خود کیا  حالانکہ  رواج یہ تھا کہ بادشاہ صرف اپنا ولی عہد مقرر کرتا تھا ۔مگر عبد اللہ نے  ولی عہد کے لیے ولی عہد مقرر کر کے  نئے بادشاہ  کے لیے امریکہ کے آدمیوں میں سے کسی کو ولی عہد بنا نے کا راستہ بند کر دیا ۔ یوں شاہ عبد اللہ نے  پیش بندی کرتے ہوئے  ولی عہد سلمان کے لیے ولی  عہد مقرن کو  مندرجہ بالا مقصد کے لیے  مقرر کیا۔

7 ۔مقرن انگریز کے ساتھ تعلقات کے لیے مشہور ہے۔ وہ برطانیہ کے  مشہور  کالج " کرن ویل  " سے  فارغ التحصیل ہیں۔   یہی شاہ عبد اللہ کے لیے قابل اعتماد  بلکہ اس کے مقربین میں سے تھے۔ سابق  شاہ نے امریکی  تسلسل کو روکنے کے لیے ہی ولی عہد سلمان بن عبد العزیز  کا ولی عہد بھی مقرر کر لیا ۔ شاہ عبد اللہ نے ولی عہد کے لیے اس ولی عہد کے تقررکو  کالعدم کرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے  ایک حکم نامہ بھی جاری کیا جس کی رو سے اس کو معزول نہیں کیا جاسکتا  !

8 ۔ اس بنا پر سیاسی صورت حال کچھ یوں ہے :

ا ۔ موجودہ بادشاہ امریکہ کا وفادار ہے مگر اس کا ولی عہد  انگریز کا وفا شعار۔

ب ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اثر ورسوخ امریکہ کا ہو گا مگر برطانیہ کی طرف سے مزاحمت جاری رہے گی۔

ج ۔ اس کے نتیجے میں امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات  میں  کشیدگی میں کمی آئے گی ،یہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے تسلسل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے  کیونکہ سابق بادشاہ  اور اس کا پشت پناہ انگریز  تیل کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے  امریکہ کی جانب سے شل آئل سے فائدہ اٹھانے کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ شل آئل  کی قیمت  نسبتا مہنگی تھی تقریبا 70 ڈالر فی بیرل تھی، اگر تیل کی قیمت میں کمی بر قرار رہے  تو شل آئل کی پیداوار   مہنگی ہونے کی وجہ سے جاری نہیں رہے گی جبکہ قدرتی تیل کی پیداواری لاگت تقریبا "7 ڈالر فی بیرل " ہے  ،اس کو ہم نے 7/1/2015 کے اپنے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

9 ۔ آخر میں  اس بات سے دل غمگین ہو تا ہے کہ  اسلام دشمن کفر ریاستوں کا   کس طرح اس  سرزمین میں اثرو رسوخ ہے   جہاں  مسلمانوں کا قبلہ ہے ، جہاں روح الامین وحی لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔۔۔جہاں دار الہجرہ ہے جو پہلی اسلامی ریاست  کا دار الحکومت ہے! لیکن اسلام  کے پاس بھی ایسے فرزند اور جواں مرد موجود ہیں  جو دن رات ایک کر رہے ہیں، اللہ کے اذن سے اسلامی ریاست  خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے لیے  اخلاص  اور صدق سے جدو جہد کر رہے ہیں،اللہ زبردست قدرت والے مہربان کے حکم سے وہ قائم ہونے ہی والی ہے ،اس دن مومن اللہ کی مدد سے مسرور ہوں گے ،کفار اپنے بلوں میں گھس جائیں گے اگر ان کا کوئی بل باقی رہا۔۔۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک