بسم الله الرحمن الرحيم
مقبوضہ کشمیر سے بے وفائی
محمد عاطف
مقبوضہ کشمیر میں بائیس سالہ حزب المجاہدین کے نوجوان رہنما برہان وانی کا بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں رمضان کی آخری دنوں میں قتل ہوجانے کے بعد بھارتی ریاست نے تشدد کی نئی مہم شروع کردی۔ کشمیری مسلمانوں کے مظاہروں کا جواب بھارت وحشیانہ طریقے سے دے رہا ہے۔ 8 جولائی سے اب تک سو سے زائد لوگ قتل جبکہ تقریباً ایک ہزار لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ کئی نوجوان کشمیری پیلٹ گن کے وحشیانہ استعما ل سے زخمی ہوئے جس میں سب سے زیادہ خطرناک زخمی وہ تھے جن کی آنکھیں زخمی ہوئیں تھیں جس کی وجہ سے کئی سو نوجوان جزوی یا مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔
بھارت نے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا بند کردیا تا کہ بھارتی وحشیانہ عمل کی خبریں پھیل نا سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ سری نگر اور باقی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا۔ اگرچہ پوری دنیا میں موجود مسلمانوں کے لئے یہ خبریں انتہائی تکلیف دہ ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کشمیر کئی سالوں سے وحشیانہ بھارتی قبضے میں تکالیف کا سامنا کررہا ہے۔ اس صورتحال کو دنیا بھر کے زیادہ تر میڈیا اور حکومتوں نے نظر انداز کیا ہے۔ درحقیقت کشمیر کا مسئلہ 1947 کے تقسیم ہند کا نامکمل باب ہے جب برطانوی راج کے خاتمے کے بعد ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
لاکھوں لوگوں نے 1947 میں موجودہ ہندستان سے موجودہ پاکستان کے جانب ہجرت کی تھی تا کہ اسلام کے سائے میں تحفظ حاصل ہو جو ان کا طرز زندگی ہے۔ کشمیر کے ہندو مہاراجہ، ہری سنگھ مسلم اکثریتی کشمیر کا مالک نہیں تھا جب اس نے آخری برطانوی وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ بھارت سے عارضی الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 3 نومبر 1947 کو آل انڈیا ریڈیو پر اعلان کیا کہ، "ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ آخر کار کشمیر کی قسمت کا فیصلہ اس کے لوگ ہی کریں گے۔ یہ وعدہ صرف کشمیر کے لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا سے ہے۔ ہم اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہٹ سکتے ہیں"۔ یہ چالاکی اگرچہ عارضی تھی اور کشمیر کی حیثیت کا حتمی تعین استصوابے رائے کے ذریعے ہونا تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں، لیکن اس وعدے کا پاس کبھی کیا ہی نہیں گیا۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینے کا بھارتی دعویٰ سرا سر غیر قانونی اور جھوٹ ہے۔
کشمیر اگرچہ 1947 سے بھارت کے جابرانہ قبضے میں ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کبھی بھی کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی خواہش کو کچل نہیں سکا۔ پانچ لاکھ سے زائد بھارتی افواج ،جن میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF)، باڈر سیکیورٹی فورس (BSF) اور انڈین آرمی شامل ہے، کشمیر میں تعینات ہیں۔ بھارت کا یہ دھوکہ کہ کشمیر میں سیاسی عمل جاری ہے اس وقت پارہ پارہ ہوگیا جب اس نے کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کے لئے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ(AFSPA)کا قانون بنایا ۔ اس قانون نے بھارتی ریاست کو دیکھتے ہی گولی مارنے ، بغیر کسی الزام کےگرفتار اور قید کرنے، کرفیو لگانے اور کسی بھی وقت گھروں کی تلاشی لینےکا اختیار دے دیا۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز جو پہلے ہی قانون سے بالاتر تھیں ، اس قانون کے بعد انہیں ظلم و جبر کرنے کا "قانونی اختیار" مل گیا۔
اس کا نتیجہ اغوا، تشدد اور غیر عدالتی قتل اور لاشوں کی صورت میں نکلا۔ کشمیری مسلمانوں کی تذلیل اور ان کے استقامت کو کمزور کرنے کے لئے اجتماعی سزا کے طور پر ان کے گھروں کو جلایا اور تباہ کیا گیا۔ لاکھوں کشمیری ہلاک جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ تشدد کا شکار ہوچکے ہیں۔ چند سو مسلح مجاہدین سے لڑنے کے نام پر بھارتی افواج نے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
یہ اعدادو شمار حقیقت پر مبنی ہیں جن کی کئی لوگوں نے تصدیق کی ہے۔ بھارتی صحافی ارن دتی رائے نے مارچ 2013 میں کہا کہ، "آج دنیا میں کشمیر سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ ہے۔ بھارت کی تقریباً سات لاکھ فوج وہاں موجود ہے۔ اور نوے کی دہائی ، بلکہ نوے کی دہائی کے شروع میں لڑائی شروع ہوئی جو مسلح تصادم میں تبدیل ہوگئی اور اس وقت سے تقریباً اڑسٹھ ہزار لوگ ہلاک، ایک لاکھ پر تشدد، دس ہزار غائب کردیے گئے۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں؟ میرا مطلب ہے ، ہم چلی کے پینوچٹ کے متعلق بہت بات کرتے ہیں۔ یہ اعدادو شمار اس سے کئی زیادہ ہیں"۔
لیکن بھارتی افواج کے ہاتھوں جو سب سے زیادہ پریشان کن اور شیطانی ظلم ہورہا ہے وہ ہزاروں کشمیری خواتین کی عصمت دری ہے۔ بھارتی حکمرانی کی خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لئے اجتماعی زیادتی کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ صرف 2015 میں بھارتی افواج کے خلاف ساڑھے تین ہزار(3500) عصمت دری کے مقدمات قائم کیے گئے ۔ حقیقی اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ کئی زیادتیوں کے واقعات شرم اور خاندان کی عزت کو بچانے کے لئےبتائے ہی نہیں جاتے۔ بھارتی افواج کی جانب سےخواتین کی عصمت دری کرنا وہ حقیقت ہے جسے بہت عرصے سے لوگ جانتے ہیں۔ ہیومن رائٹ واچ کی 1993 میں ایک رپورٹ"کشمیر میں عصمت دری: ایک جنگی جرم" میں یہ کہا گیا کہ، "عصمت دری کا نشانہ اُن خواتین کو بنایا جاتا ہے جن پر سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کا ہمدرد ہونے الزام لگاتی ہیں، ان کی عصمت دری کر کے سیکیورٹی فورسز پورے معاشرے کو ذلیل اور سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں"۔
یہ زیادتیاں مسلسل جاری ہیں کیونکہ بھارتی افواج کو اس بات کی مکمل اجازت دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ مینار پیمپل، سینئر ڈائریکٹر گلوبل آپریشنز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ،"5 جولائی 2015 کو جموں و کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ(AFSPA)کے قانون کو نافذ ہوئے پندرہ سال ہو جائیں گے۔ اب تک ریاست میں تعینات کیے گئے کسی ایک بھی سیکیورٹی فورس کے اہلکار کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ احتساب کے نہ ہونے سے دیگر سنگین زیادتیوں کو کرنے کا موقع فراہم ہوا ہے"۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں مسلمان کی زندگی ایک ظلم زدہ کی زندگی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال فوجی حکمرانی سےمشابہ ہے جہاں معاشی آسودگی ممکن نہیں اورجہاں ایک پوری نسل تشدد کے ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ بھارت ان وحشیانہ اعمال کو ریاست میں انتخابات کروا کر اور کٹھ پتلی حکومتیں بنا کر چھپانے کی کوش کرتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نےمقبوضہ کشمیر میں حالیہ مزاحمتی تحریک کے اٹھنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے سابقہ رہنما اٹل بہاری واجپائی کی نقل کرتے ہوئے یہ نعرہ"انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت" لگایا۔
صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں مسلمان مظالم کا شکار ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک عام ہے۔ 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کو گرانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی آج بھارت میں اقتدار میں ہے۔ اس کا موجودہ وارث اور رہنما نریندر مودی کے ہاتھ 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں کیونکہ وہ فسادات اس نے کروائے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ریاست کی تاریخ صرف مسلمانوں کے خلاف مظالم سے بھری نہیں ہوئی بلکہ دوسری اقلیتیں بھی اس کا شکار ہیں۔ سکھ جو بھارت سے آزادی حاصل کرکے "خالصتان" کی مملکت بنانا چاہتے ہیں انہیں 1984 میں وحشیانہ طریقے سے بھارتی پنجاب میں کچل دیا گیا اور ان کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں گھس کر چن چن کر قتل کیا گیا۔ بھارت میں آج مختلف صوبوں میں تیس سے زائد علیحدگی کی تحریکیں چل رہیں ہیں جس میں شمال مشرق میں مغربی بنگال،آسام ، ارونا چل پردیس، میگھالایا، منی پور، میزورام، ناگا لینڈ، تری پورا سے لے کر جنوب میں تامل ناڈو تک شامل ہیں۔
بھارتی حکمران اشرافیہ کی کشمیر کے متعلق رویے کو سمجھنا مشکل نہیں جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ بھارتی ریاست اقلیتوں کو عزت دینے اور ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔ یقیناً پانچ فیصد برہمنوں کی جانب سے ذات پات کے نظام کو لاگو کرنے کی وجہ سے اکثریتی دلت اور شودر کے خلاف امتیازی سلوک جائز ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی جمہوری نظام میں موجود بے انتہاء کرپشن، جسے سرمایہ دارانہ پالیسیوں نے ایک باقاعدہ شکل دے دی ہے ، نے حکمران اشرافیہ میں سو سے زائد ارب پتی اکٹھے کردیے ہیں جبکہ باقی آٹھ سو ملین (اسی کروڑ) لوگوں کو شدید غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ بھارت کی ثقافت اور سیاسی نظریہ حیات نے مذہب اور ذات پات کے نظام کی بنیاد پر معاشی و معاشرتی محرومیاں پیدا کیں ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان مظالم اور محرومیوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور ریاست ان کو دبانے کے لئے ظلم کا سہارا لیتی ہے۔ تو کس طرح مسلمان اس بات کی توقع کرسکتے ہیں کہ بھارتی ریاست کشمیری مسلمانوں سے عزت سے پیش آئے گی ؟
لہٰذا بھارتی افواج پیلٹ گن کو استعمال کرکے کشمیری نوجوانوں کو اندھا کررہی ہیں لیکن دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ مغربی حکومتیں جو عموماً انسانی حقوق کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کرتیں ہیں ، کشمیر کے مظالم کو نظر انداز کررہی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ فضول اور افسوس ناک رویہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نےاپنایا ہے۔ بھارت کی جانب سے شدید اور وحشیانہ مظالم دیکھنے کے باوجود پاکستانی رہنماوں کے پاس منافقت کے سوا دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ نواز شریف کا سب سے بہادرانہ عمل یہ ہے کہ پاکستان بھارتی افواج کے ہاتھوں زخمی ہونے والوں کی طبی امداد کا خرچہ اٹھائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی نریندر مودی کو اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دے دی۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس طرز عمل کا بھارتی قیادت یہ مطلب نہ نکالے کہ اسے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کا حق دے دیا گیا ہے؟
پاکستان کے آرمی سربراہ، جنرل راحیل شریف نے اپنے پیش رو آرمی سربراہوں کی پاکستان کے قبائلی علاقوں فاٹا میں امریکہ موافق پالیسیوں کو ہی جاری و ساری رکھ کر ان قبائل کو نشانہ بنایا جنہوں نے 1947 میں موجودہ آزاد کشمیر کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل راحیل نے بھی میڈیا پر رسمی بیانات جاری کرکے ثابت کیا کہ وہ بھی اس جواں مردی سے محروم ہیں جو کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے ضروری ہے۔ پاکستانی میڈیا میں جنرل راحیل شریف کی جس بہادری کے چرچے کیے جاتے ہیں وہ کشمیر اور بھارت کا ذکر آتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔ بلکہ یہ دیکھا گیا کہ پاکستان کی فضائیہ نے یہودی وجوود، اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں جوکہ ایک قابض وجود ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے معاملے میں بھارت کو تیکنیکی مشورے دیتا ہے۔ تو کیا کل ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کشمیری مسلمانوں کے قتل اور خواتین کی عصمت دری کے باوجود جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں پاکستان کی فضائیہ بھارتی فضائیہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں کررہی ہو؟
حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف کے وقت سے پاکستان نے امریکی ہدایات کے مطابق کشمیر کے مسلمانوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کردی تھی۔ یہ اس لیے کیا جارہا ہے تا کہ کشمیر کی وجہ سے بھارتی ریاست کو لگنے والے شدید زخم کو مندمل کیا جائے اور اس کے وسائل کا رخ چین کو محدود کرنے کے امریکی منصوبے پر لگائیں جائیں۔ یہی وجہ ہے مودی نے دہلی کے لال قلع میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ بھارت اب بلوچستان کے مسئلہ کو بھر پور طریقے سے اٹھائے گا۔ اسے یہ کہنے کی ہمت اس لیے ہوئی کہ بھارتی قیادت کو پاکستان کی شکست خوردہ حکمران سیاسی و فوجی اشرافیہ کی جانب سے کسی بھر پور رد عمل کی کوئی توقع نہیں جو کہ صرف اپنے مفادات اور امریکی ڈالروں کے حوالے سے ہی زیادہ پریشان ہوتی ہے۔ پاکستان کے سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے حال ہی میں روزنامہ ڈان میں لکھا کہ،" پاکستان نے کشمیر کے حوالے سےکبھی طویل مدتی پالیسی یا حکمت عملی بنانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔ بہت جوش و جذبے سے کشمیر کے لئے حمایت کی باتیں محض نعرے اور علامتی ہیں جبکہ ہمارے رہنما اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی منظم عوامی تحریک پیدا نہ ہو۔کیوں؟ کیونکہ حکمران اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ کوئی بھی ایسی تحریک اُس سیاسی نظام کے لئے خطرہ ہو گی جو انہیں سنبھالتی ہے"۔
ستر سال گزر جانے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے حکمران کشمیر کے لئے کچھ نہیں کریں گے۔ بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات دھوکہ ہوں گے جس کا مقصد کشمیر کے مسئلے کو غیر اہم بنا کر بھارت کو خطے کی طاقت بنانے کے امریکی منصوبے پر عمل کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ بھی کچھ نہیں کرے گی کیونکہ یہ ایک استعماری ادارہ ہے جو مغرب کی خارجہ پالیسی کی رسمی منظوری دیتا ہے۔ مغربی ممالک امریکہ اور برطانیہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے کوئی مدد فراہم نہیں کریں گےکیونکہ وہ خود دنیا کے صف اول کی استعماری طاقتیں ہیں اور اس وقت اسلام کے خلاف جنگ میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تا کہ چین کی ابھرتی طاقت کو محدود اور جنوب مشرقی ایشیا میں کسی اسلامی سیاسی نشاۃ ثانیہ کو ابھرنے سے روکا جاسکے۔ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق پاکستان کو مضبوط کرے گا اور یہ وہ چیز ہے جو امریکہ و برطانیہ دونوں ہی نہیں چاہتے۔ امریکی کے سیکریٹری خارجہ جان کیری نے اپنے حالیہ بھارت کے دورے کے دوران کشمیر پر بھارتی موقف کی تائید کی اور کہا کہ،" ہم اچھے اور برے دہشت گردوں میں امتیاز نہیں کرسکتے اور نہ کریں گے۔۔۔۔امریکہ دہشت گردی سے متعلق تمام امور پر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے چاہے ان کا کہی سے بھی تعلق ہو۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہم اس پر ایک ہی موقف رکھتے ہیں"۔
وہ کشمیری گروپ جو بھارتی قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں ، وہ بھی اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے۔ ان کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے درکار وسائل اور صلاحیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی قبضے کو ختم کرنے کا حقیقی حل ریاست پاکستان کی جانب سے کشمیر کی آزادی کے لئے فوج کشی ہے۔ پاکستان کے پاس فوجی صلاحیت بھی ہے اور اس پر یہ فرض بھی ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کرے لیکن سیاسی ارادہ موجود نہیں ہے۔ بھارت کشمیری مسلمانوں کی حمایت سے مکمل محروم ہے لیکن ننگی مسلح قوت کی بنیاد پر کشمیر پر قابض ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو بنگلادیش کے قیام سے مماثلت رکھتی ہے جب بھارت نے پہلے خفیہ طور پر اور پھر کھل کر بنگلادیش کی آزادی کے لئے کام کرنے والی تحریک کا ساتھ دیا اور پاکستان کی مشرقی بازو کو کاٹ ڈالا۔ وہ ریاست جو ایک علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے خواتین کی عصمت دری اور بچوں کو قتل کرنے کی اجازت دیتی ہو جیسا کہ بھارت کشمیر میں کررہا ہے وہ کمزور اور بزدل ریاست ہے۔
اسلام مسلمانوں کے قتل اور ان کی آہانت کو معمولی مسئلہ نہیں سمجھتا۔ روایت ہے کہ عبداللہ بن امر نے کہا :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ " مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو کعبہ کا طواف کرتے اور یہ کہتے سنا:''تم کتنے اچھے ہو اور تمہاری خوشبو کتنی اچھی ہے، تم کتنے عظیم ہو اور تمہارا تقدس کتنا عظیم ہے۔قسم اس کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، اللہ کے نزدیک مسلمان کی حرمت تم سے زیادہ ہے، اس کا خون اور اس کا مال "(ابن ماجہ)۔
آج ہم کشمیر میں مسلمانوں کے خون، مال اور عزتوں کی کھلم کھلابے حرمتی اور پامالی ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن پاکستان کی نام نہاد اسلامی قیادت ان مظالم کو نہ صرف نظر انداز کررہی ہے بلکہ اسی بھارت قیادت کے ساتھ تعاون کے طلبگار ہیں جو اس خونی قبضے کی ذمہ دار ہے۔ کوئی اس سے زیادہ کیا بے شرم بن سکتا ہے جب نواز شریف نے ہندو انتہا پسند مودی کو لاہور رائے ونڈ میں اپنی پوتی کی شادی میں خوش آمدید کہا؟
اس طرز عمل سے بالکل متضاد طرز عمل خلیفہ معتصم کا تھا کہ جب رومیوں نے ایک مسلمان عورت پر حملہ کیا اور اس نے پکارا
وا معتصماه"اے معتصم"۔
جب یہ الفاظ خلیفہ معتصم تک پہنچے تو اس نے پوچھا، أي بلاد الروم أمنع وأحصن؟ "روم کا کون سا شہر سب سے زیادہ محفوظ اور نا قابل شکست ہے؟ جب اسے بتایا گیا کہ "عموریہ" ہے تو اس نے منہ توڑ جواب ایک بہت بڑی فوج کی صورت میں اس شہر روانہ کیا جس سے رومی سلطنت کی بنیادیں تک ہل گئیں ۔
کمزوروں کو آزاد کرانا اور خلافت کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا دنیا میں مسلم حکمرانی کی روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ
"بے شک خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے"(مسلم)۔
ایک مخلص اسلامی قیادت کبھی کشمیر کے مسلمانوں کو بھول نہیں سکتی۔ بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ ریاست خلافت کشمیر کے مسئلے پر اپنی آنکھیں بند نہیں کرے گی جیسا کہ آج کی پاکستانی قیادت نے کررہی ہے۔
عالمی سطح پر مسلمانوں کی یکجہتی ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے جو انہیں رنگ، نسل، زبان سے قطع نظر ایک دیوار کی طرح جوڑ دیتی ہے۔ ایک عقیدے کی بنیاد پر مسلمانوں کا ایک وجود ان میں موجود زبردست صلاحیتوں کا مظہر ہے جسے آنے والے خلافت راشدہ بھر پور طریقے سے استعمال کرے گی۔ لیکن آج ہم پاکستان کے حکمرانوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ پوری استقامت کے ساتھ اللہ کے نافرمانی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان میں کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کرانے کی کوئی لگن نظر نہیں آتی۔ صرف مسلم علاقوں میں خلافت کی واپسی سے ہی کشمیری مسلمانوں کے بھارتی قبضے سے آزادی کا خواب حقیقت بنے گا۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ دوسری خلافت راشدہ کے احیاء کے لئے پاکستان کو نقطہ آغاز بنائیں خصوصاً حزب التحریر کو نصرۃ کی فراہمی کے لئے مسلح افواج کو پکاریں۔