بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے: "پہلے پاکستان"؟
تحریر: محمد عاطف
حالیہ سالوں میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات میں واضح اضافہ ہوا ہے جو کہ سرد جنگ کے زمانے سے ایک بالکل مختلف صورتحال ہے جب بھارت سوویت یونین کا اتحادی تھا۔ صورتحال میں یہ تبدیلی واضح ہےکیونکہ اب کئی امریکی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری اور اپنا کام منتقل کررہی ہیں ۔ صورتحال میں یہ تبدیلی خاص طور پر جارج بش کے "دہشت گردی کے خلاف" کے زمانے میں ہوئی جب امریکہ نے بھارت سے تعلقات بڑھانے کے لیے بہت توجہ اور مستقل مزاجی سے کام کیا۔ لہٰذا یہ کوئی حیران کن بات نہ تھی جب اگست 2016 میں امریکہ کے سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے اپنے بھارتی ہم منصب منوہر پاریکر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی دفاعی تنصیبات اور رسد کی نقل حمل کی سہولیات سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم معاہدے(LEMOA) کے تحت دونوں ممالک ایک دوسری کی فوجی تنصیبات کو استعمال کر سکیں گے جیسا کہ کارٹر نے کہا کہ، "یہ کیا کرتا ہے کہ یہ مل کر آپریشن کرنے کو ممکن اور مزید آسانی پیدا کرتا ہے جب ہم یہ کرنا چاہیں۔۔۔۔یہ مکمل طور پر دوطرفہ ہے۔ باالفاظ دیگر ہم نے اس معاہدے کے تحت ایک دوسرے کو مکمل اور برابر رسائی فراہم کی ہے"۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک پیغام رسانی اور انٹیلی جنس کے تبادلے کے معاہدے پر بھی کام کررہے ہیں۔
اس معاہدے کے پاکستان پر اثرات بالکل واضح ہیں۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد بھارت کی جارحانہ فوجی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ تعاون بڑھتے ہوئے تعلقات کی ابتداء ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اپنا اہم دفاعی ساتھی قرار دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم (MTCR)میں شمولیت کا خیر مقدم کیا ہے جس کے ذریعے جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کی بھارت کو منتقلی کی اجازت ہوگی۔ امریکہ بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ(NSG) میں شمولیت کی کوششوں کی بھر پور حمایت کررہا ہے جس میں تاخیر چین کی مخالفت کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اپنے ایف-16 طیاروں کی پیداوار دینے والی سہولیات کی بھارت منتقلی پر متعلق غور کررہا ہے جس کے بعد پاکستان کو ایف-16 طیاروں یا اس کے فاضل پرزہ جات کو بیچنے کی کسی بھی کوشش کو ویٹو کرنے کا اختیار بھارت کو خود بخود مل جائے گا۔ اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کی تعمیر و ترقی کے لیے مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے منصوبے بھی ہیں جیسا کہ جیٹ انجن اور ائر کرافٹ کیرئیر وغیرہ۔ ہوسکتا ہے کہ ان منصوبوں کایہ مقصد بھی ہو کہ امریکی دفاعی ٹیکنالوجی ایسے صارف کو بیچی جائے جو اس کی قیمت فوراً نقدی کی صورت میں ادا کرسکتا ہو۔
اس کے برعکس امریکی کانگریس کی جانب سے آٹھ ایف-16 طیاروں کی فنڈنگ روک دینے کے بعد موجودہ صورتحال میں پاکستان چند ایف-16 طیارے بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان سے اڈوں اور مواصلات کی سہولیات کا مطالبہ کیا تو کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا گیا جس کے تحت امریکہ کو اڈے فراہم کرنے کے بدلے میں پاکستان بھی امریکی اڈے استعمال کرسکے گا۔ لہٰذا یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا برصغیر پاک و ہند میں امریکہ اپنی سرپرستی اور حمایت پاکستان سے لے کر بھارت کو دے رہا ہے؟
اگر ایسا ہے تو یہ پاکستانی حکمرانوں اور ان کی خارجہ پالیسی کی تذلیل اور کھلی ناکامی ہے۔ اب سے کئی سال پہلے پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ کے سامنے اپنی مکمل غلامی کو درست ثابت کرنے یا اس پر پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ 1990 کی دہائی میں امریکہ نے مشہور زمانہ پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان پر پابندیاں لگائیں تھیں جس کے تحت پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد بند کردی گئی تھی جس کے بعد جنرل مشرف کے دور میں پاکستان نے امریکہ کو 2001 میں خوشی خوشی گلے لگایا۔ اس بات کے باوجود کہ سوویت یونین کے خلاف پاکستان امریکہ کا "ناگزیر اتحادی" تھا اور پاکستان کا قبائلی علاقہ دس سالوں میں سی آئی اے کے ذریعے جہادی فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا ، پھر بھی پاکستان پر پابندیاں لگائیں گئیں تھیں۔ ماضی میں امریکہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بھی اس کے مفاد میں ہوتا ہے وہ پاکستان کو دھوکہ دے دیتا ہے۔
مشرف کے دور میں "پہلے پاکستان" کےنعرے کے تحت پاکستان کی افغان پالیسی اور اسڑیٹیجک گہرائی کی پالیسی ایک طرف رکھ دی گئی جبکہ عوامی رائے ایسی کسی پالیسی کی تبدیلی کے خلاف تھی اور کئی پاکستانی تجزیہ نگاروں نے خبردار بھی کیا کہ امریکہ پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔مشرف نے اس اچانک اور بڑی تبدیلی کے خلاف رائے عامہ کو دبانے کے لیے دھونس، دھمکی اور لالچ کے حربے استعمال کیے جیسا کہ یہ کہا گیا کہ امریکہ پاکستان پر بمباری کر کے اسے "پتھر کے دور" میں پہنچا دے گا یا یہ کہ امریکہ بہت بڑی مالی امداد دے رہا ہے۔ پالیسی کی اس تبدیلی کے نتیجے میں امریکہ نے خطے میں اپنے قدم جمائے کیونکہ پاکستان نے اسے اہم ترین نقل و حمل کے لیے اڈے ، سپلائی لائن اور انٹیلی جنس فراہم کی۔ پاکستان کی فوج قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کرتی رہی تا کہ اُن پشتون مزاحمت کاروں کے اڈوں کا خاتمہ کیا جائے جو افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف لڑ تے ہیں۔ گزرے سالوں میں افغانستان پر امریکی قبضے نے خطے میں بھارتی اثرونفوذ کے خدوخال کو براہ راست تبدیل کیا ہے۔ اس بات کے باوجود کہ بھارت پاکستان کا روایتی حریف ہے ، امریکہ نے پاکستان کے خدشات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور بھارت کو افغانستان میں براہ راست کردار ادا کرنے کی دعوت دی تا کہ اس کے قبضے کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس عمل میں بھارت نے قدرتی طور پر افغانستان میں اپنا ایک حلقہ اثر قائم کرلیا ۔پاکستان میں موجود وہ لوگ جو خطے میں مضبوطی سے امریکی مفادات کی خدمت کرنے کی حمایت کرتے ہیں کسی صورت اپنے بے وقوفانہ رائے کا سامنا نہیں کرسکتے۔
آج کے دن تک راحیل-نواز حکومت کے دور میں بھی یہی پاکستان کو نقصان پہنچانے والی پالیسی جاری و ساری ہے۔ آج پاکستان کی قیمت پر بھارت نے افغانستان میں اپنا حلقہ اثرو رسوخ کئی گنا بڑھا لیا ہے۔ آج بھارت کے کم از کم پانچ اعلان شدہ سفارتی مشنز افغانستان میں موجود ہیں اس بات کے باوجود کہ افغانستان سے کوئی بہت بڑی ہجرت بھارت نہیں ہوئی تھی، لیکن اب افغانستان نے بھارت کو پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیاں کرنے کے لیے ایک زبردست مقام فراہم کردیا ہے اور بھارت اب بلوچستان اور خصوصاً چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی گوادر بندر گاہ کونشانہ بنا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ بھی بھارت حاصل نہیں کرسکتا تھا اگر امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں داخل ہونے کی حوصلہ افزائی نہ کی ہوتی اور امریکہ یہ سب کچھ کبھی نہیں کرسکتا تھا اگر پاکستان نے افغانستان پر قبضے کے لیے امریکہ کو وسائل فراہم نہ کیے ہوتے۔
اس غلط پالیسی(یو ٹرن) کی صرف یہی قیمت نہیں جو پاکستان نے ادا کی ہے بلکہ آج پاکستان اپنے ہی لوگوں کے خلاف فاٹا کے قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ناختم ہونے والے فوجی آپریشنز کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔ دہشت گردی کے حملوں میں ، جس میں ستمبر 2001 میں ہمارے خطے میں امریکہ کی آمد کے بعد زبردست اضافہ ہوا، فیزیشن فار سوشل رسپونسبیلیٹی کی رپورٹ کے مطابق 80 ہزار پاکستانی جاںبحق ہو چکے ہیں اور معاشی لحاظ سے پاکستان نے چودہ سال میں 120 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اس بات کو خود حکومت پاکستان کے سالانہ اکنامک سروے میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ لہٰذا لوگ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کے لیے پاکستان کا امریکی مفاد میں کام کرنے کا کیا جواز ہے؟
پاکستان کی امریکہ کے حوالے سے ناکام پالیسی اور بڑھتے ہوئے امریکہ و بھارت کے تعلقات اس وقت بھی سامنے آئے جب بھارت نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار "سرجیکل سٹرائک" کرنے کا دعوی کیا۔ اُڑی میں بھارتی اڈے پر حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا، اس نام نہاد "سٹرائک" کے خلاف امریکہ نے اس کی مذمت نہیں کی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے بھارتی موقف کی حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے یہ موقف اپنا کر کشمیر میں جاری وحشیانہ تشدد کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جس میں ایک لاکھ لوگ شہید اور ہزاروں کشمیری مسلمان خواتین کی منظم عصمت دری کی گئی ۔ کل اگر پاکستان و بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا امریکہ بھارت کے ساتھ ہونے والے دفاعی معاہدے کی تکریم کرے گا اور بھارت کو اس بات کی اجازت دے گا کہ افغانستان میں موجود امریکی اڈے پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے اور پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ کھول دے ؟
سچائی یہ ہے کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ نام نہاد اتحاد کا مقصد کبھی بھی پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں رہا بلکہ اس اتحاد نے پاکستان کے اہم ترین مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معاشی و فوجی امداد جو کہ رشوت ہوتی ہے اور آئی ایم ایف کے قرضوں کے بدلے جس کے نتیجے میں ملک کے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، امریکہ کے احکامات سنتا ہے اور اطاعت کرتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور بھارت کے مقابلے میں اس کی پوزیشن کمزور ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جولوگ امریکی اطاعت کی اس پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، اس بات کا ادراگ کرنے میں ناکام ہیں کہ امریکہ کا خطے کے متعلق سیاسی نقطہ نظر وسیع ہے جس میں پاکستان صر ف ایک ٹکڑا ہے۔ امریکہ ایک لمبے عرصے سے اپنی "ایشیا مرکوز" پالیسی کے تحت بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتا تھا تا کہ چین کی بڑھتی فوجی طاقت کا مقابلہ کرسکے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یوریشا میں اس کے علاوہ کوئی دوسری بااثر طاقت کھڑی نہ ہوسکے۔
اگرچہ بھارت کے لیے "سی پیک"(چین-پاک معاشی راہ داری) ایک سرخ لکیر ہے اور اس نے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے چینی مصنوعات زیادہ بڑی تعداد میں اور زیادہ تیزی سے اور کم قیمت میں عالمی بازاروں میں پہنچ سکیں گی اور یہ عمل بھارت کے لیے نقصان کا باعث ہوگا کیونکہ اس کی مصنوعات چینی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔ اس کے علاوہ "سی پیک" میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ درحقیقت بھارت اس علاقے پر اپنا دعوی کرنے کا کوئی حقیقی موقع نہیں پاسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ اس تاثر کو بھی تقویت دے گا کہ چین اپنی "موتیوں کی لڑیوں" کے ذریعے بھارت کو گھیر رہا ہے جس کے تحت وہ خطے میں اہم فوجی اڈے بھی قائم کررہا ہے۔ جہاں تک اس منصوبے کے متعلق امریکہ کا نقطہ نظر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر "سی پیک" نہیں بھی ہوتا تب بھی چین خطے میں فوجی اڈے بنا لے گا اگرچہ اس کے بنانے کی رفتار سست ہوگی۔ لیکن "سی پیک" کے ظہور نے روایتی طور پر غیر وابستہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ شدت اختیار کرتا گیا ہے اس لیے بھارت مجبور ہوگیا ہے کہ وہ بل آخر امریکہ کا فوجی اتحادی بن جائے جس کو امریکہ خوش آمدید ہی کہے گا۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے وینزویلا کے شہر مرگاریتا میں ہونے والے غیر وابستہ ممالک کی تحریک"نام"(NAM) کے اجلاس میں شرکت میں ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ، "اگر وزیر اعظم مودی 'نام' کو عزت بخشنا نہیں چاہتے تو اس کا مطلب یہ ہے حکومت پچھلی خارجہ پالیسی کو یکمشت دفنا رہی ہے"۔
امریکہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کی عالمی اور علاقائی بالادستی کو چیلنج یا مقابلہ کرنے والی کوئی طاقت کھڑی نہ ہو۔ اسی لیے امریکہ چین کو سیاسی و فوجی لحاظ سے انتہائی محدود کر کے بھارت کو اس کی جگہ لینے کا موقع فراہم نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی بھارتی سیاست دان یا پالیسی ساز یہ سمجھتا ہے تو یہ بے وقوفانہ سوچ ہے۔ چین کی کُل پیداوار بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے، چین کا فوجی بجٹ 214 بلین ڈالر جبکہ بھارت کا 51 بلین ڈالر ہے۔ چین کے شہر، بندر گاہیں، سڑکیں اور صنعتی ڈھانچہ بھارت سے بہت آگے ہے۔ حقیقت میں بھارت چین کے ہم پلہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ چین کی طرح وہ بھی یہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ وہ ایک بڑی طاقت بن جائے اور اسی وجہ سے بھارت امریکہ کے لیے ایک تیار کھلاڑی ہے۔
آج یہ حقیقت بہت واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ ہولی وڈ کی فلموں میں دیکھائی جانے والی اس کی طاقت کے برعکس اتنا طاقتور نہیں ہے اور اسی لیے اہم علاقوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اسے بھارت جیسے ممالک سے اتحاد کی ضرورت ہے جیسا کہ شام اور مشرق وسطی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے امریکہ نے روس اور ترکی کو اپنا اتحادی بنایا ہے۔ لیکن امریکہ یہ بھی دکھا چکا ہے کہ وہ بہت کم عرصے میں اپنے اتحادیوں کو چھوڑ یا بدل دیتا ہے اور عام پاکستانی اس حقیقت سے بہت اچھی طرح آگا ہ ہے۔ کل اگر تبدیلی آتی ہے جیسا کہ ایک مضبوط خلافت تو امریکہ کے پاس تو یہ آپشن ہوگا کہ وہ خطے سے نکل جائے اور بھارت کو اکیلے ہی خطے میں خلافت اور چین کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دے۔
آج امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین اس کے بنائے ہوئے عالمی نظام کا ایک لازمی حصہ رہے اور اس میں اچھے طریقے سے کام بھی کرے۔جب سے چین نے کمیونزم کی جگہ فری مارکیٹ اکانمی کے نظام کو اختیار کیا ہے وہ اندرونی مسائل اور تضاد ات کا شکار ہے کیونکہ اب اس کے پاس کوئی ایک مخصوص نظریہ حیات باقی نہیں بچا بلکہ محض قوم پرستی کا نعرہ ہی رہ گیا ہے جس کے گرد وہ اپنے لوگوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے آمرانہ طرز حکومت اپنائی ہوئی ہے۔ چین آج کئی ایک مصنوعات برآمد کرسکتا ہے لیکن جو شے برآمد کرنے کے لیے اس کے پاس نہیں ہے وہ ایک نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) ہے۔ لہٰذا اگر لمبے عرصے تک چین کو فوجی لحاظ سے محدود نہ بھی کیا جائے تو بھی وہ امریکہ ، اس کے سیکولر ازم اور سرمایہ داریت کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتا۔
امریکہ کو جس چیز سے سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور وہ اقدار ہیں جنہیں یہاں کے مسلمان اپنے دلوں میں بسائے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ سیکولر جمہوریت پاکستان میں بری طرح سے ناکام ہورہی ہے لہٰذا پاکستان خلافت کے قیام کے لیے بالکل تیار ہے۔ بھارت بھی اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ آج بھارت میں دائیں بازو کی جماعت ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسراقتدار ہے جو نظریاتی لحاظ سے راشٹریہ سیوگ سنگھ (RSS)سے بہت قریب ہے جس کا خواب "اکھنڈ بھارت" کا ہے۔ نریندر مودی آر ایس ایس کا تا حیات رکن ہے اور مسلمانوں سے اس کی نفرت کا اظہار سامنے آچکا ہے جب اس نے بحثیت وزیر اعلیٰ بھارتی گجرات مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا۔ آج امریکہ نے اس شخص کو اپنا اتحادی بنایا ہے جسے وہ ایک عرصے تک امریکہ کا ویزہ نہیں دیتا تھا اور جسے بھارتی کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے "موت کا سوداگر" کا خطاب دیا تھا۔
امریکہ کا بھارت سے اتحاد کا مقصد صرف چین کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس اتحاد کا ایک مقصد پاکستان، وسطی ایشیا اور پوری مسلم دنیا میں اٹھنے والی اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تحریک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر چہ امریکہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے کیس ٹو کیس کی بنیاد پر معاملات طے کرتا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ زیادہ وسیع اور گہرے اسٹریٹیجک تعلقات چاہتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھی حکومت کمزور ہے جسے کسی بھی وقت اٹھا کر کوئی پھینک سکتا ہے۔ اسلام کے خلاف جنگ میں سیاسی و فوجی لحاظ سے بھارت امریکہ کا فطری اتحادی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کی جانب سے انتہائی بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کو جمع کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کررہا ہے جس میں زمین اور سمندر سے مار کرنے والے سیکنڈ سٹرائیک ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کوئی نظریہ بلکہ اصول تک نہیں ہیں۔ اس کی فیصلے محدود وقت کے مفادات کے حصول کے لیے ہوتے ہیں جس کے تحت سیکولر حکومت کے لیے کام کیا جائے اور بدلے میں چند ہتھیار اور آئی ایم ایف کا قرضہ مل جائے تا کہ اس کا گزارا چلتا رہے۔ اس عمل کے دوران وہ جانتے بوجھتے اپنے لوگوں کی ضروریات کو نظر انداز کرتا ہے جو مسلسل غربت کا شکار ہیں۔ آج پاکستان کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ "سی پیک" نے اس کے چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عبوری گزر گاہ کا کام کرے گی اور جن 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ڈھول پیٹا جارہا ہے ،اتنے پیسے تو ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا ایک سال کا محصول (revenue) ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خلافت کی طرح اپنے صنعتی اور زرعی شعبے کی تعمیر ترقی میں سرمایہ کاری نہیں کی جارہی جس کی ذریعے حقیقی معاشی ترقی ہوتی ہے۔ آج پاکستان کو امریکہ حکم دے رہا ہے کل کو یہی کردار چین ادا کررہا ہوگا۔
پاکستان کے بے وقوف حکمرانوں نے ،چاہے وہ فوجی ہوں یا سیاسی، یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بڑی طاقت کے لیے صرف ایک ایجنٹ حکومت کا کردار ادا کرنے کی ہی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور کیونکہ دنیا کی سیاست میں مفادات اور اتحاد ایسے بدلتے ہیں جیسے صحرا میں ریت اپنی جگہ بدلتی رہتی ہے، تو یہ بڑی طاقتیں لازمی اپنی ترجیحات، اتحادیوں اور حکمت عملی کا جائزہ لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز کر کے جنونی قاتل مودی کی قیادت میں بھارت کی بنیاد پرست حکومت سے ہاتھ ملا سکتا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے موقع کو استعمال کرنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں کرے گا۔ پاکستان کے سابق سفارت کار ضمیر اکرم نے کچھ دن پہلے لکھا کہ، "حقیقت میں امریکہ بھارت کی استعداد کو بڑھانے میں مدد اور معاونت کررہا ہے جس میں جدید ترین روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کے ساتھ بی ایم ڈی، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ایٹمی صلاحیت کے حامل کروز میزائل بھی شامل ہیں۔ یہ امر لازمی ہے کہ امریکہ حقیقت میں بھارت کے منصوبوں 'کولڈ سٹارٹ' یا ' پروایکٹیو ڈاکٹرائن'کو نافذ کرنے کے لیے درکار صلاحیت پیدا کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے تا کہ وہ پاکستان پر روایتی حملہ کرسکے"۔
اس صورتحال کا ذمہ دار پاکستان خود ہے۔ ایک طرف دو لاکھ مسلم پاکستانی افواج کو مغرب کی جانب قبائلی علاقوں میں امریکہ کی جنگ میں مرنے کے لیے جھونک دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی سرحد پر پاکستان کی طاقت کمزور ہوئی جبکہ امریکہ بھارت کی فوجی صلاحیت بڑھانے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ کروانے کے لیے امریکہ کو بغیر سوچے سمجھے اندھی حمایت فراہم کرنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔ پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ افغانستان پر امریکہ کو قبضہ کرنے کے لیے معاونت فراہم نہ کرتا۔ امریکی سیاست دان اور پالیسی ساز بھی اس حقیقت سے واقف تھے۔ ستمبر 2016 میں ڈینیل مارکی نے امریکی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے پاکستان کے حوالے سے بیان دیا تھا کہ، "ہوائی راستے آسانی سے بند کیے جاسکتے ہیں اور ڈرونز کو آسانی سے گرایا جاسکتا ہے، تو اگر پاکستان واقعی ختم کرنا چاہتا جس کے متعلق 2009 میں اس وقت کے سی آئی اے ڈائریکٹر لئین پانیٹا نے کہا تھا کہ،'القائدہ کی قیادت سے لڑائی اور انہیں پریشان صرف وہی کررہے ہیں' یا ' افغانستان میں امریکی جنگ کو مزید پیچیدہ کرسکتا تھا، وہ بہت آسانی سے یہ کرسکتا تھا اور اب بھی کرسکتا ہے'۔"۔
امریکہ پر انحصار کرنے کی پالیسی نے پاکستان کی آزادی کو مفلوج کردیا ہے اور پاکستان اب بھی امریکہ کے مفادات کی تکمیل کے لیے کام کررہا ہے جبکہ امریکہ اس کے ازلی دشمن کو طاقتور کررہا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے بے کار حکمرانوں کی نہ تو کوئی صلاحیت ہے اور نہ ہی کوئی خواہش ہے کہ اس تباہی کے راستے پر چلنا بند کردیں۔ یہ حکمران اب بھی بیرونی طاقتوں سے جڑے ہیں اور ان کی نہ تو کوئی عزت ہے اور نہ ہی کوئی اصول سوائے بے وقوفی اور غدارانہ پالیسی کے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی "پہلے پاکستان" پالیسی بھی نہیں ہے بلکہ ناکام سیکولر حکومتیں پاکستان اور اس کے لوگوں کو ہمیشہ سب سے آخر میں رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ خطے میں امریکہ کی فوجی، سفارتی، انٹیلی جنس اور سیاسی موجودگی کے لیے فراہم کی جانے والی پاکستان کی حمایت ختم کی جائے۔ امریکہ کا سفارت خانہ بند کیا جائے ، امریکہ اور دیگر مغربی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا جائے۔ لیکن یہ اقدامات پاکستان کے موجودہ حکمران نہیں اٹھا سکتے۔ پاکستان کو نئے نظام حکمرانی کی ضرورت ہے، خلافت کی، جو ایسے مسلم حکمران پیدا کریں گی جن کی ترجیح صرف مسلمانوں کے مفاد ہونگے اور جو نہ صرف مسلم علاقوں سے حملہ آور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو نکال باہر کریں گے بلکہ مسلم امت کو دنیا کے امور میں عالمی مقام دلا دیں گے بالکل ویسے ہی جیسے وہ اس سے پہلے ایک ہزار سال تک دنیا کی عالمی طاقت تھی۔