بسم الله الرحمن الرحيم
خبر اور تبصرہ
واشنگٹن کی غلامی کی وجہ سے راحیل بھی کیانی و مشرف کی طرح پاکستان آرمی کی قیادت کا حقدار نہیں ہے
خبر:
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بدھ 17 نومبر 2016 کو کہا کہ 14 نومبر کو ہندوستانی فوج کے 11 سپاہی مارے گئے جب پاکستان آرمی نے ان کی بلااشتعال فائرنگ کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ، “بھارتی فوج مرد بنے اور اپنے نقصانات کو تسلیم کرے”۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی فوج کے برخلاف پاکستان آرمی اپنی ہلاکتوں کو قبول کرتی ہے۔
تبصرہ:
لائن آف کنٹرول پر 13 نومبر کی رات دو طرفہ فائرنگ کے دوران سات پاکستانی سپاہی شہید ہوگئے۔ یہ پاکستان کے فوج کے منہ پر تھپڑ تھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے مسلمان شہید غم و غصے کا شکار ہو گئے اور وہ چاہنے لگے کہ کوئی شہیدوں کے خون کا بدلہ شیروں کی طرح لے۔ لیکن امریکی آقاوں کے احکامات کو تسلیم کرکے اپنے ہاتھ باندھ لینے والے جنرل راحیل شریف نے ثابت کیا کہ وہ بھی اپنے پیشرو کیانی و مشرف کی طرح بزدل، غدار اور امریکہ کا وفادار ایجنٹ ہے۔ اور جب لوگوں کا غم و غصہ کم نہ ہوا تو راحیل نے تین دن بعد یہ دعویٰ کیا کہ بھارتی جارحیت کا برابر جواب دیا گیا ہے جبکہ منہ توڑ جواب وقت کی شدید ضرورت تھا۔
مشرف و کیا نی کے دور میں جب کبھی امریکہ پاکستان میں داخل ہوا اور ہمارے فوجی و غیر فوجی شہریوں کو قتل کیا تو افواج پاکستان کو یہ کہہ کر امریکی جارحیت کو روکنے کے لیے حرکت میں آنے کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ سپر پاور ہے اور ہم اس سے لڑ نہیں سکتے۔ تو پھر چاہے مشرف کے دور میں 30 اکتوبر 2006 کو باجوڑ میں ایک مدرسے پر امریکہ کے ڈرون حملے میں 82 افراد کی ہلاکت ہو یا کیانی کے دور میں 26 نومبر 2011 کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہو جس میں 28 پاکستانی سپاہی شہید ہوئے اور 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے بالکل پاس امریکہ کا سرجیکل حملہ ہو، مشرف اور کیانی نے ان حملوں کا کبھی منہ توڑ جواب نہیں دیا۔ ان تمام واقعات پر باخبر طبقات میں موجود مخلص عناصر نے یہ بات کہی تھی کہ حملوں پر خاموشی کا طرز عمل ایک انتہائی خطرناک مثال قائم کررہا ہے کیونکہ کمزور پوزیشن اختیار کرنے کی وجہ سے بھارت کو شہہ مل رہی ہے کہ وہ بھی امریکہ کی طرح “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے نام پر پاکستان میں حملہ کرنے کی اپنی خواہش کو پورا کرسکتا ہے۔ ایبٹ آباد حملے کے فوراً بعد 4 مئی 2011 کو اس وقت کے بھارتی آرمی کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے یہ کہا تھا کہ، ” جب بھی ضرورت پڑی تو تمام تینوں شعبے(آرمی، بحریہ اور فضائیہ) اس قسم کے آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں”۔ لیکن فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ہمیشہ پاکستان میں موجود اس مسئلے پر “تحمل” و برداشت ” کی پالیسی کے خلاف دوسرے موقف کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا کہ بھارت ایسی حرکت کرنے کی کبھی ہمت نہیں کرے گا اور اگر اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ہم اسے ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ لیکن یہ دعوے محض خالہ خولی دعوے ہی ثابت ہوئے کیونکہ باتوں سے زیادہ عمل اثر رکھتا ہے۔
اب جبکہ بھارت نے صرف ایک رات میں ہمارے سات سپاہیوں کو شہید کردیا ہے تو جنرل راحیل پہلے تین دنوں تک خاموشی اختیار کرتے ہیں اور پھر اس دعوے کے ساتھ سامنے آئے کہ ہم نے بھی برابر جواب دیا ہے۔ لیکن ان کے اس دعوے کے بعد بھی بھارتی جارحیت رکنا تو دور کی بعد کوئی کمی تک نہیں آئی ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت کی اس مسلسل جارحیت کی وجہ بالکل سادہ ہے: جنرل راحیل نے امریکی حکم کی اطاعت میں ہمارے فوجیوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بھارتی جارحیت کے خلاف کوئی حقیقی منہ توڑ جواب نہیں دیکھ رہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بڑی تعداد میں فوج اور ہمارے حقیقی ہیروز کو بھارتی فوجوں کو تباہ برباد کرنے کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ مسلمان اس طرح کا طرز عمل صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی اجازت امریکہ نے دی ہوتی ہے اور اس کا مقصد ان مجاہدین کو قتل کرنا ہوتا ہے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑ تے ہیں۔
لہٰذا جنرل راحیل کسی بھی طرح اپنے پیشرو جنرنیلوں کیانی ومشرف سے مختلف نہیں کیونکہ وہ بھی انہی کی طرح امریکہ کا وفادار ایجنٹ ہے۔ اپنی انہی خدمات کے عوض یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں دو سال کے اضافے کی توقع کررہا ہے کیونکہ صرف واشنگٹن ہی اس کے آنے اور جانے کا فیصلہ کرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے اس سے قبل مشرف و کیانی کے سلسلے میں بھی واشنگٹن نے ہی فیصلہ لیا تھا۔ یقیناً واشنگٹن اپنے وفادار ایجنٹ کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا جب وہ اپنے لوگوں کے غصے کی وجہ سے یا کسی بھی اور وجہ سے ناکارہ ہوجائے۔ لہٰذا راحیل نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھر پور غداری کر کے امریکہ پر یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ اس کا آدمی ہے۔ راحیل نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی تباہی بربادی کے عمل کو مکمل کیا تا کہ قبائلی مسلمانوں کو ان کی اسلام اور جہاد سے محبت اور ان لوگوں کی حمایت کرنے پر اجتماعی سزا دہی جائے جو امریکہ کے خلاف افغانستان میں لڑتے ہیں۔ اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تا کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی مضبوط و مستحکم ہوسکے۔ اس نے امریکہ کے ساتھ فوجی اشتراک ختم نہیں کیا جب امریکہ نے بھارت کے ساتھ لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم معاہدے(LEMOA) پر دستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی دفاعی تنصیبات اور رسد کی نقل وحمل کی سہولیات سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ کل اگر پاکستان و بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو بھارت افغانستان میں موجود امریکی اڈے پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے گا اور پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ کھول دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل نے پاکستان و کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بھارتی جارحیت کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ تو کیا یہ آدمی اس بات کا حقدار ہے کہ مسلمانوں کی سب سے طاقتور فوج کی سربراہی کرے یا اس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے؟ یقیناً وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے۔ جلد ہی نبوت کے طریقے پر آنے والی خلافت میں فوج کے کمانڈر وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اسلام کی بالادستی اور مسلمانوں کی عزت، مال اور جان کی حرمات کے تحفظ کے لیے جان تک لڑائی ہو گی۔ تو ایسے لوگ ہی اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے سب سے آگے ہوں گے جو اللہ سے کامیابی یا شہادت کی آرزو کرتے ہوں گے۔
لاَ يَسْتَأْذِنُكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ بِٱلْمُتَّقِينَ
“اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم سے چھٹی نہ مانگے گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے”(التوبۃ:44)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان