بسم الله الرحمن الرحيم
استعماریت کی نئی جدید صورت سیکولر ریاست ہے
تحریر : انجینئر معیز، پاکستان
اگر آپ 70 کی دہائی کے آخر یا 80 کی دہائی میں یا 90 کی دہائی کے شروع میں پیدا ہوئے ہوں، اور 2000 کے شروع میں سیاسی اگاہی اور شعور حاصل کیا ہو، تو ہماری آنکھوں کے سامنے افغانستان میں ہم وہ دیکھ رہے ہیں جسے روایتی استعماریت کی جدید شکل، یعنی سیکولر ریاست کہتے ہیں۔ استعماریت کی پیدائش سے اس کی بلوغت تک کا مشاہدہ کرنے اورتجربہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ افغانستان سے حاصل ہونے والے تجربے کی روشنی میں ہمیں مسلم دنیا بشمول پاکستان کی سیاست کو دیکھنا اور اس پر بحث کرنی چاہیے۔
جمعرات4 مئی 2017 کو امریکی سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے جنرل ریمنڈ تھامس ، کمانڈر امریکی سپیشل آپریشنز نے سینیٹر جان مکین کے اصرار کرنے پر کہا کہ، "میں یہ سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں جو اہم عنصر تھا وہ امریکہ کا وہاں ایک مستحکم ریاست کے قیام کا ارادہ تھا"۔ اس نے کہاں کہ اس امریکی ارادے کوماضی میں "صحیح سے بیان نہیں کیا گیا" ۔ اس نے کہاں ، "میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نئی حکمت عملی اس ارادے کو بیان کردے گی"۔
یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے استعماریت نے مسلم دنیا میں جگہ بنائی اور اپنی جڑیں مستحکم کیں۔ وحشیانہ فوجی قوت کے استعمال کے ذریعے اس نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا اور پچھلے حکمرانی کے نظاموں کو ہٹا دیا، چاہے مشرق وسطی اور زیادہ تر مسلم دنیامیں خلافت ہو یا برصغیر پاک و ہند میں مغل ہوں یا افغانستان میں ایک جدید سیکولر ریاست اور روایتی قوانین ،جس کی بنیاد مذہبی اور قبائلی روایات ہیں، کا ملغوبہ ہو۔ اس کی جگہ مغربی استعماریت نے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی ، سیکولر ریاست، جو مغربی روایات کی امین ہے، جس کی تعمیر مغرب کے تاریخی اور سیاسی تناظر میں ہوئی ہے اور جو اس طرح بنائی گئی ہے کہ مغربی طرز زندگی کو نافذ کرے اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مغربی تہذیب کو پروان چڑ ھائے۔
یہ جدید ریاست ایک درآمدی اور غیر فطری شےہے اور اسی وجہ سے ابتدائی طور پر اسے مغربی استعماریت کی فوجی، معاشی اور سیاسی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ جنرل تھامس نے کہا کہ ایسا ہی افغانستان میں بھی ہونا چاہیےکیونکہ ابھی تو اسے وہاں صرف 16 سال ہی ہوئے ہیں۔ نئی ریاست کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے مغرب نے ایک "براون یورپین طبقہ" پیدا کیا جب ابھی مسلم علاقے اسی کے زیر قبضہ تھے۔ جہاں اس نئی ریاست کا قیام مقصود تھا وہاں کے مقامی مرد و خواتین کو مغربی تہذیب اور نظریہ حیات کی تعلیم دی گئی جس نے انہیں اس قدر متاثر کردیا کہ وہ اس پر اعتماد کرنے لگے اور اس میں ایک کرشمہ کو دیکھنے لگے۔ انہی مرد وخواتین کے ذریعے ، جنہیں مغرب نے خود چنا تھا، ایک نئی سیاسی،معاشی اور دانشور اشرافیہ نئی ریاست کے لیے بنائی گئی۔
یہی وہ نیا حکمران طبقہ تھا جس نے نئی ریاست کی جڑیں ان علاقوں میں بنانی تھیں جہاں ریاست کے لیے نئے حکومتی اصولوں کے لیے رائے عامہ تیار کر کے اسے متعارف کرایا گیا۔ ایک نیا نظریہ حیات جس پر ریاست تعمیر کی گئی اور نئی پالیسیاں جسے نئی ریاست نافذ کرے گی جو فطری طریقے سے استعماری مفادات کی حمایت کرے گی۔ مغرب اس بات سے پریشان نہیں ہوتا کہ اگر کبھی کبھی نئے حکمران طبقے کی جانب سے مغرب مخالف جذبات کی حمایت یا مغربی اہداف کی مخالفت مختصر عرصے کے لیے کی جائے کیونکہ یہ نیا حکمران طبقہ، جس کی تعلیم و تربیت مغربی تصورات کی بنیاد پر کی گئی تھی، جو مغربی تہذیب اور حکمرانی کے اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو مغربی سیکولر ریاست کو ایک طریقہ کار کے طور پراستعمال کرتے ہیں ، کبھی بھی مغربی مفادات کے لیے حقیقت میں خطرہ نہیں بن سکتے۔ اور اس طرح استعماریت کی نئی صورت یعنی سیکولر ریاست وجود میں آئی ۔
افغانستان میں استعماریت کے ہاتھ واضح ہیں۔ امریکی کی فوجی موجودگی واضح ہے۔ نئے افغانستان کے لیے امریکی معاشی امداد واضح ہے۔ اور مغربی استعماری ریاستوں کے اہلکاروں کے بیانات اپنے استعماری منصوبوں کی حمایت میں بھی واضح ہیں۔ پاکستان میں سیکولر ریاست 70 سال پرانی ہے۔ اور اسی وجہ سےاس ریاست کی تعمیر میں استعماری ہاتھوں کے کردار کو لوگ بھول گئے ہیں یا وہ اب اتنے واضح نہیں ہیں۔ لیکن استعماریت سیکولر ریاست، اس کے اداروں اور سیکولر حکمران اشرافیہ کی صورت میں باقی رہتی ہے ۔
پاکستان میں سیکولر اداروں کے فیصلوں ، جیسا کہ سپریم کورٹ ، یا عوام میں مقبول جارح فوجی جنرلز یا اپوزیشن کے سیاست دانوں کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ان میں سے کوئی بھی سیکولر ریاست کو تباہ اور اس کو ہٹنا نہیں چاہتا۔ افغانستان کی مثال ہمیں بتا تی ہے کہ کس طرح استعماری اس سیکولر ریاست کے ذریعے ہماری روزمرہ کی زندگی کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ ہماری زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے پاکستان اور مسلم دنیا میں سیاست کو ایک بالکل نیا موڑ لینا ہے اور وہ یہ کہ سیکولر ریاست کو مسترد کریں اور ایک ایسی ریاست کے نمونے کو اختیار کریں جس کی بنیاد ہمارے اپنے تصورات، تاریخ اور تہذیب ہو، یعنی نبوت کے طریقے پر خلافت۔
إِنَّآ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ ٱلْكِتَابَ بِٱلْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَاكَ ٱللَّهُ
"یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تمہیں شناسا کیا ہے"(النساء:105)