بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 2 جون 2017
۔ مہنگی بجلی اور بجلی کا بحران عوامی اثاثوں کی نجکاری کا"پھل"ہے
۔ اسلامی عدلیہ کی غیر موجودگی میں حکمران کے احتساب کے لیے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل ن کا ٹکراؤ بے معنی ہے
تفصیلات:
مہنگی بجلی اور بجلی کا بحران عوامی اثاثوں کی نجکاری کا"پھل"ہے
30 مئی 2017کو کراچی کے روزہ دار ایک اور سحری پر بجلی نہ ہونے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کے طور پر ٹائر جلائے۔ اس سے پہلے ایک روز قبل پشاور میں اس طرح کے مظاہرے میں دو مظاہرین گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف چار سال قبل اس وعدے پر اقتدار میں آئے تھے کہ لوڈ شیڈنگ کو ختم کردیں گےجس نے کئی سالوں سے روز مرہ زندگی اور معیشت کو مفلوج کر رکھا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری میں روکاٹ بن گئی ہے۔
بجلی کا بحران ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ پاکستان میں اسلام کو فوری طور پر نافذ کیا جائے کیونکہ اس کے عدم نفاذ نے زندگی ایک مصیبت بنا دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانیت کو یہ کہتے ہوئے خبردار کیا،
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا
"جس کسی نے میرے ذکر (قرآن) سے منہ موڑا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی"(طہ:124)۔
پاکستان میں بجلی کے بحران کی ذمہ دار حکومت ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے غیر اسلامی معاشی نظام، سرمایہ داریت، کو نافذ کرتی ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام اس سے محروم رہیں۔ نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے تا کہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کرسکیں۔مثال کے طور پر ورلڈ بنک نے بجلی کی قیمتوں میں سال 2000 سے 2004 تک اپنی نگرانی میں اضافہ کروایا اور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کاجتنا بل دیتے ہیں اتنا بل بڑے پیمانے پر بجلی کے کارخانوں کی نجکاری سے پہلے گرمیوں کے اُن دنوں میں جمع کرایا کرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک طرف نجی کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں وہیں باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت خود ان نجی بجلی پیدا کرنے والوں کی اربوں روپے کی قرض خواہ ہوگئی ہے جو فروری 2017 میں 414 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ نجی مالکان بجلی کی پیداوار کم کردیتے ہیں جب انہیں بجلی کے پیسے ادا نہیں کیے جاتے اور وہ اپنا شرح منافق برقرار نہیں رکھ پاتے۔ یہ "گردشی قرضہ" وہ بنیادی وجہ ہے جس کہ وجہ سے پورا سال کُل پیداواری صلاحیت کا 75 فیصد سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کی جاتی جو کبھی کبھی 50 فیصد سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قدر شدید گرمی میں روز روز طویل لودشیڈنگ کی وجہ پیسوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے بجلی اپنی پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق پیدا نہیں کی جارہی۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کو کاروبار بنادیا گیا ہے نہ کہ لوگوں کا حق۔
اسلام سرمایہ دارانہ معیشت کو ختم کر کے اسلام کا معاشی نظام نافذ کرے گا۔ اسلام کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرتی رہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے وسائل کے ساتھ ساتھ کوئلہ، تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔ اسلام نے توانائی کو نہ ہی نجی اور نہ ہی ریاستی ملکیت قرار دیا بلکہ اسے تمام مسلمانوں کی ملکیت یعنی عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
المسلمونشرکاءفیثلاثالماءوالکلاءوالنار
"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)" (ابو داؤد)۔
اگرچہ ریاست خلافت عوامی اثاثوں اور ریاستی اثاثوں دونوں کی دیکھ بحال کرتی ہے لیکن اسے اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ عوامی اثاثے کو کسی کی فرد یا کمپنی کی نجی ملکیت میں دے دے کیونکہ وہ مسلمانوں کا اثاثہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ریاست ان وسائل کے امور کو منظم کرتی ہے تا کہ اس کے فوائد تمام مسلمانوں تک پہنچ سکیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب ، رنگ، نسل کیا ہے۔ خلافت بجلی اور تیل پر سے ٹیکسوں کا خاتمہ کردے گی جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ غیر مسلم غیر جارح ریاستوں کو ان وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے رقم کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ اسلام کی بجلی کے حوالے سے پالیسی سستی اور مسلسل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی اور خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔
حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 137میں اعلان کیا ہے کہ ''تین طرح کی اشیاء عوام کی ملکیت ہوتی ہیں:
١) ہر وہ چیز جو اجتماعی ضرورت ہو جیسے شہر کے میدان۔
ب) ختم نہ ہونے والی معدنیات جیسے تیل کے کنوئیں۔
ج) وہ اشیاء جو طبعی طور پر افراد کے قبضے میں نہیں ہوتی جیسے نہریں''۔دستور کی دفعہ 138میں لکھا ہے کہ ''کار خانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت ہے، تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد (پیداوار) کا ہے۔ اگر یہ مواد فردکی املاک میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں داخل ہو گا۔ جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹری) اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہوگا تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے (Steel Mill)''۔ اسی طرح دستور کی دفعہ 139 میں لکھا ہے کہ ''ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیو نکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی طبیعت اور فطرت اور اس کی صفت میں پائیدار طور پر ہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں''۔ اور دستور کی دفعہ 140 میں لکھا ہے کہ ''امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے ۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے ۔اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے''۔
اسلامی عدلیہ کی غیر موجودگی میں حکمران کے احتساب کے لیے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل ن کا ٹکراؤ بے معنی ہے
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی نے ڈرامائی انداز میں اپنی ایک ویڈیو31 مئی 2017 کو میڈیا پر آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی سینٹ کی نشست سے استعفی دے دیا۔ اس ویڈیو میں وہ ان لوگوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے عدلیہ پر حملہ کرتے نظر آرہے ہیں جو وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کی تفتیش کررہے ہیں۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ہاشمی کے بیان کا سو موٹو نوٹس لیا اور انہیں یکم جون 2017 کو اُس بینچ کے سامنے طلب کرلیا جو پانامہ پیپرز کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کررہی ہے۔
پاکستان کے مسلمانوں نے پچھلے کئی سالوں میں لانگ مارچز، دھرنے اور عدالتی و سیاسی لڑائیاں دیکھیں ہیں لیکن جب تک کرپشن کی سرپرست جمہوریت موجود ہے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ جمہوریت ایک کرپٹ نظام ہے جو قانون بنانے کے لیے قرآن و سنت کو نظر انداز کرتا ہے اور جمہوری اسمبلیوں کی خواہشات اور مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ جمہوریت اس چیز کے مطابق قوانین نہیں بناتی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ، جو علیم و خبیر ہے، نے نازل فرمائی ہے بلکہ انسان ، جس کی دماغی صلاحیتیں محدود ہیں، کے اکثریتی فیصلے کے مطابق قوانین بناتی ہے۔ ایک ایسی عدلیہ جواسلام کی جگہ خود کو جمہوریت کے بنائے قوانین کی پابند کر کے مفلوج کر لیتی ہے کبھی مسلمانوں کو انصاف فراہم نہیں کرسکتی۔ جمہوریت میں اس قسم کے فضول سیاسی ڈرامے ٹی وی مباحث کے لیے تفریح کا ذریع بن جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اور ایسا اس وقت رہے گا جب تک نبوت طریقے پر خلافت قائم نہیں ہو جاتی۔
نبوت کے طریقے پر قائم خلافت کے پہلے خلیفہ راشد کے مثال دیکھیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد کی حیثیت سے پہلے خطبے میں فرمایا، "اگر میں درست عمل کرو ں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر میں غلط کرو ں تو میری تصحیح کردو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے جوکمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے جب تک کہ میں انشاء اللہ اس کا حق اسے نہ دلادوں۔ اور تم سے جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ انشاء اللہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں۔ کوئی بھی قوم جو جہاد کو ترک کردے اللہ اسے ذلیل و رسول کردے گا۔ اور جس قوم میں فاحش امور عام ہوں جائیں اللہ اسے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔ اس وقت تک میری اطاعت کرو تک جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم میری اطاعت نہ کرنا"۔