بسم الله الرحمن الرحيم
خبر اور تبصرہ
باجوہ-نواز حکومت بھی پچھلی غدار حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے
خبر:
12 جون 2017 کو سیکیورٹی ذرائع نے یہ بتایا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ حقانی نیٹ ورک کے رہنما ابو بکر اور ان کے ایک ساتھی اس وقت جاں بحق ہوئے جب پیر کی رات کو ہنگو کے علاقے سپین تل میں ان کے گھر پر ڈرون طیارے نے دو میزائل فائر کیے۔
تبصرہ:
20 جنوری 2017 کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پاکستان میں یہ پہلا ڈرون حملہ تھا۔ ماضی میں جب بھی پاک-افغان سرحد سے متعصل پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملہ ہوتا تھا تو دفتر خارجہ چاہے رسمی ہی سہی اس کی مذمت ضرورکرتا تھا کیونکہ اب یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی مرضی کے بغیر پاکستان میں ڈرون حملے نہیں ہو سکتے۔ اس حالیہ حملے کے بعد باجوہ-نواز حکومت کے دفتر خارجہ نے سرکاری طور پر اس ڈرون حملے کی مذمت کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ 14 جون 2017 کو پشاور میں فوجی کمانڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہنگو میں ہونے والے ڈرون حملے کا نام لیے بغیر اس پراپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انہوں نےکہا، "یکطرفہ حملے ،جیسا کہ ڈرون حملہ، نقصان کا باعث ہوتے ہیں اور جاری تعاون کے جذبے کے خلاف ہے اور پاکستان بھر پور طریقے سے انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتا ہے"۔ باجوہ-نواز حکومت کا موجودہ طرز عمل ایک اہم بات کی نشان دہی کرتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت اب نہ تو ڈرون حملے کی تصدیق کرے گی اور نہ ہی اس کی مذمت کرے گی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب نئی امریکی انتظامیہ جلد ہی افغانستان کے حوالے سے اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے جارہی ہے۔ کچھ امریکی تجزیہ نگار جیسا کہ ولسن سینٹر ریسرچ گروپ کے میچل گگلیمن یہ کہتا ہے کہ آنے والی نئی حکمت عملی میں پاکستان میں موجود مزاحمت کاروں پر ڈرون حملوں میں اضافہ ایک اہم نقطہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے مسلمان اور ان کی افواج خودمختاری کی اس واضح خلاف ورزی پرشدید غصے میں ہیں جبکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی و فوجی قیادت نے اس ڈرون حملے کی مذمت تک نہیں کی۔ لہٰذا اس طرح باجوہ-نواز حکومت بھی امریکی غلامی کے اس اندھے کنویں میں گر گئی ہے جس میں اس سے پہلے مشرف-عزیز، کیانی-زرداری اور راحیل-نواز حکومتیں گر چکی ہیں۔
پاکستان کے مسلمان اور خصوصاً افواج میں موجود مخلص افسران کو یہ سوچنا چاہیے کہ باجوہ-نواز حکومت پاکستان کو کس جانب لے جارہی ہے؟ مشرف کے وقت سے ہر آنے والی سیاسی و عسکری قیادت نے پاکستان کو ایسے پیش کیا ہے جیسا کہ یہ کوئی انتہائی کمزور ملک ہے جبکہ یہ ایک ایٹمی قوت ہے اور دنیا کے چھٹی بڑی آرمی ا س کے پاس ہے۔ یہ غلام اور بزدل قیادت ہمیشہ ہمیں امریکہ کی معاشی و فوجی طاقت سے ڈراتے ہیں تا کہ کوئی بھی ان کی غداری کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش نہ کرے اور خطے میں امریکہ کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ کافر استعماری ریاست کی خدمت گزاری میں کوئی عزت نہیں چاہے وہ امریکہ ہو یا کوئی بھی دوسری کافر ریاست۔ ہمیں ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ نہ تو افغانستان پر حملہ کرسکتا تھا اور نہ ہی اس پر قبضہ کرسکتا تھا بلکہ سولہ سال گزر جانے کے بعد بھی امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ بھارت، روس، چین یا کوئی بھی دوسرا علاقائی یا بین الاقوامی کھلاڑی افغانستان میں امریکہ کے لئے کچھ نہیں کرسکتا سوائے پاکستان کے۔ تو پھر کیوں نہ افواج میں موجود مخلص افسران آگے آئیں، غداروں کو پکڑ لیں اور اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے خطے کی قسمت کو بدل ڈالیں اور پاکستان کے پاس اس خطے کو نئی شکل دینے کی طاقت بھی ہے اور صلاحیت بھی۔ اور ایسا بہت آسانی سے ہوسکتا ہے اگر پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہوکردی جائے۔
يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا"(محمد:07)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان