بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 22 ستمبر 2017
- "پُرتشدد انتہاپسندی" کی اصطلاح کو بیرونی قبضے کے خلاف کسی بھی
مسلم مزاحمت کو کالعدم قرار دینے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے
- پاکستان کا استحکام اور خوشحالی چین یا امریکہ سے نہیں بلکہ خلافت سے مشروط ہے
- اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ "منی پینٹاگون" ہے لہٰذا اس کی بلندی سے قطع نظر اسے ہر صورت بند ہونا چاہیے
تفصیلات:
"پُرتشدد انتہاپسندی" کی اصطلاح کو بیرونی قبضے کے خلاف کسی بھی
مسلم مزاحمت کو کالعدم قرار دینے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے
18 ستمبر 2017 کو قومی اسمبلی اور سینٹ کی دفاعی کمیٹی کے وفد نے سنیٹر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبد القیوم کی قیادت میں آرمی جنرل ہیڈکواٹر (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا۔ اس وفد کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی ایک ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا اختتام اس عزم کی تجدید پر ہوا کہ پُرتشدد انتہاپسندی کے عفریت کے خلاف ہم آہنگی کے ساتھ جدوجہد جاری رہے گی اور یہ جدوجہد اجتماعی صلاحیت اور مشترک ذمہ داری کے اصول کے تحت پوری قوم پر لاگو ہو گی۔
سیاسی و فوجی قیادت میں موجود جمہوریت کے داعی "انتہاپسندی"، "دہشت گردی" اور "پُرتشدد انتہاپسندی" کی مغربی اصطلاحیں ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے طوطا رٹے ہوئے الفاظ اور جملے ادا کرتا ہے۔ ان کی ذہنی غلامی اس قدر گہری ہے کہ جیسے ہی ان کے مغربی آقا انہیں یہ اصطلاحات عنایت فرماتے ہیں یہ بغیر کسی سوال و جواب کے ان اصطلاحات کو استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ استعماری اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شیطانی فرقہ وارانہ تشدد کو استعمال کر کے مغربی حکومتوں نے "پُرتشد انتہاپسندی" کی اصطلاح ایجاد کی تا کہ بیرونی قبضوں کے خلاف مسلمانوں کی کسی بھی مزاحمت کو کالعدم قرار دیا جاسکے۔ ان کی تعریف کے مطابق افغان طالبان کی سولہ سال کی لڑائی اور اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی ساتھ دہائیوں پرمبنی مسلح مزاحمت بھی "پُرتشددانتہاپسندی" کی ہی شکلیں ہیں۔ اس کے علاوہ صلاح الدین ایوبی کا مسجد الاقصیٰ کو صلیبیوں سے آزاد کرانا یا رسول اللہ ﷺ کی افواج کا مکّہ کو فتح کرنا بھی مغربی نقطہ نظر کے مطابق "پُرتشدد انتہاپسندی" ہے۔ سورۃ التوبہ اور سورۃ الانفال ، جن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، بھی "پُر تشدد انتہاپسندی" کی ضمن میں آتی ہیں۔ لیکن عراق و افغانستان پر امریکی حملے یا یہودی وجود اور ہندو ریاست کی جانب سے مسلم علاقوں پر قبضے کو منافق مغرب "پُرتشدد انتہاپسندی" قرار نہیں دیتا۔
مسلمانوں کو جمہوریت کے داعیوں سے منہ موڑ لینا چاہیے اور نئی سیاسی قیادت جو خلافت کی داعی ہے کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ان کے علاقوں کا بیرونی قبضے کے خلاف اور مسلمانوں کے تحفظ کے حق کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
"پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پرنہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے، ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کردے"(محمد:35)
پاکستان کا استحکام اور خوشحالی چین یا امریکہ سے نہیں بلکہ خلافت سے مشروط ہے
19 ستمبر 2017 کو پاکستان کے وزیر اعظم نے امریکہ کے نائب صدر مائک پینس سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات نیویارک میں اقوام متحدہ کے بہتروے سالانہ اجلاس کے دوران انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس ملاقات کے حوالے سے جاری ایک بیان میں کہا کہ، "یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک خطے کے امن، استحکام اور معاشی ترقی کے مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تعمیری نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق برقرار رکھیں گے"۔ پاکستان کے حکمران اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی، خوشحالی اور مضبوطی کی کنجی غیر ملکی طاقتوں کے پاس ہے لیکن درحقیقت یہ یہ فہم گمراہ کن اور اس کا لازمی نتیجہ ذلت و رسوائی ہے۔
دہائیوں پر مشتمل امریکہ کے ساتھ اتحاد نے پاکستان کو صرف کمزور ہی کیا ہے۔ امریکہ ایک ناقابل اعتبار استعماری ریاست ہے جو دنیا کی سب سے بڑی اور مالی وسائل سے مالا مال دہشت گرد تنظیم سی آئی اے کو چلاتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ہی "فالس فیلگ" آپریشنز یعنی بم دھماکے، قتل و غارت گری کے واقعات کاذمہ دار ہے جس کے ذریعے وہ پوری دنیا میں جنوبی امریکہ سے جنوب مشرقی ایشیا تک اپنے خارجہ پالیسی کے اہداف کو حاصل کرتا ہے۔ امریکہ ایک ناقابل عزت سرمایہ دار ریاست ہے جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے مالیاتی اداروں کے ذریعے قدرتی وسائل سے مالامال اقوام کو ان کے وسائل اور صنعتی صلاحیتوں سے محروم کرتا ہے اور انہیں سودی قرضوں اور بھاری ٹیکسوں کی دلدل میں ڈبو دیتا ہے۔ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے امریکہ نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا اور اپنے بزدل فوجیوں کو لوگوں کی املاک، عزتوں اور جانوں سے کھیلنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو وہ بھی پاکستان کی کمزوری کا باعث بن رہاہے۔ سی پیک نے پہلے ہی پاکستان کے اہم وسائل کو چین کی ملکیت میں دے دیا ہے جو کہ پاکستان کے لیے" گیم چینجر" (Game Changer) نہیں بلکہ" گیم لوزر"(Game Loser) ہے۔ سی پیک نے پاکستان کو مزید غیر ملکی سودی قرضوں کی دلدل میں دھکیل کر اس کے سر پر پڑے استعماری طاقتوں اور ان کے اداروں کے قرضوں میں اضافہ کردیا ہے۔ سی پیک کے ذریعے حکومت نے پاکستان کے معاشی مستقبل کو چینی درآمدات اور لیبر کے ساتھ مشروط کردیا ہے جس کی وجہ سے مقامی زرعی اور صنعتی شعبے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جو پہلے ہی خود کو زندہ رکھنے کے لیے شدید کوششیں کررہا ہے۔ چین مسلمانوں اور پاکستان کے لوگوں کا دوست ملک ہونے کے اعزاز سے بہت بہت دور ہے۔ چین ایک لالچی اور ظالم ریاست ہے جو اندرون اور بیرون ملک مسلمانوں پر شدید مظالم روا رکھتی ہے۔ اس کے اس کردار کا واضح اظہار میانمار کی قصائی حکومت کی حمایت کرنے اور مشرقی ترکستان (سینکیانگ) میں مسلمانوں کے خلاف شدید مظالم سے ہوتا ہے جہاں مسلمانوں کو رمضان کے روزے ، مساجد میں جانے اور داڑھیاں رکھنے سے روکا جاتا ہے۔مسلم خواتین کو اسلامی لباس پہننے سے روکا جاتا ہے اور اب مسلمان اپنے بچوں کانام اپنے پیارے نبی ﷺ کی نسبت سے "محمد" بھی نہیں رکھ سکتے۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا میں مغربی استعماری طاقتوں کے منصوبوں کی چین حمایت بھی کرتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حکمران غیر ملکی طاقتوں کے اتحادی بنتے ہیں جو مستقل ہماری صورحال کوخراب سے خراب تر کررہاہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ مسلمان اس ناکام قیادت کو مسترد کردیں اور اُس منصوبے پر کام کریں جو غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کرنے کی تباہ کن پالیسی کے اس عہد کا خاتمہ کرے گا ، اور یہ منصوبہ نبوت کے طریقے پر ریاست خلافت کا قیام ہے۔ اس کے بعد ہی مسلمانوں کو وہ قیادت ملے گی جو مسلمانوں اور ان کے علاقوں کو ایک ریاست خلافت کے تحت یکجا کرنے کے لیے کام کرے گی اور تمام مسلم علاقوں کو سڑکوں، مواصلات اور توانائی کے منصوبوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دے گی۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ٹیکنالوجی اور سرمائے پر انحصار کی پالیسی کی جگہ خلافت خود بھاری صنعتوں کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کرے گی جس میں انجن سازی،بھاری مشینری اور اسلحے کی فیکڑیاں شامل ہوں گی۔ اس طرح معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو گی اور اس میں دنیا کے صف اول کی طاقت اور ریاست بننے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہمارے دشمنوں کے سامنے ہماری کمزور صورتحال کی وجہ صرف اور صرف مخلص اسلامی قیادت کی عدم موجودگی ہے جو ہماری ڈھال بن سکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ
"یقیناً امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر مسلمان لڑتے ہیں اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل کرتے ہیں"۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ "منی پینٹاگون" ہے
لہٰذا اس کی بلندی سے قطع نظر اسے ہر صورت بند ہونا چاہیے
20 ستمبر 2017 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سنیٹر حافظ حمداللہ نے اسلام آباد کے سفارتی علاقے میں موجود امریکی سفارت خانے کی سات منزلہ عمارت کی تعمیرکے حوالے سے سوالات اٹھائے۔ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈولیپمنٹ ڈویژن کے وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمارت منظور شدہ بلو پرنٹ کے مطابق تعمیر کی گئی ہے اور یہ کہ وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جاسوسی یا نگرانی کے آلات عمارت میں یا اس کی چھت پر نصب نہیں کیے گئے ہیں۔ طارق چوہدری نے یہ بھی کہا کہ بنگلادیش کو آٹھ منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے اور اب نگرانی کے آلات لگانے کے لیے چھتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقامی انٹیلی جنس ایجنسی کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے شہر کے منتظمین نے نئے امریکی سفارت خانے کی عمارت کی بلندی کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عمارت کی بلندی سے قطع نظر مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کے دارالحکومت کے دل میں دنیا میں امریکہ کے دوسرے بڑے سفارت خانے کی تعمیر کے حوالے سے اٹھنے والے خدشات بلا جواز نہیں ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے سیکریٹری خارجہ جان کیری نے 5 جنوری 2017 کو "کیبنٹ ایگزٹ میمو" میں اس بات کاانکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر جدید ترین ٹیکٹیکل سیکیورٹی آپریشن سینٹر موجود ہے جبکہ امریکہ نے اس قسم کے سینٹر اس سے پہلے ان علاقوں میں قائم کیے تھے جہاں پر اس نے حملہ کرکے قبضہ کیا تھا جیسا کہ عراق اور افغانستان۔ اس میمو میں میرین سیکیورٹی گارڈ (ایم ایس جی) کی موجودگی کی بھی تصدیق کی گئی تھی جو کہ امریکہ کو اس بات کا حق اور اختیار دیتا ہے کہ وہ سفارتی مشنز کے حفاظت کا بہانہ کر کے امریکی افواج کو تعینات کرسکتا ہے۔ ہمارے دارالحکومت میں نیا امریکی سفارت خانہ درحقیقت ایک قلع ہے جس کا افتتاح 31 جولائی 2015 کو گیا گیا تھا ۔ اس کی تعمیر پر امریکی حکومت کے مطابق 85 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔
اس قسم کے امریکی "منی پینٹاگون" اور جاسوسی کے اڈے امریکی دہشت گرد نیٹ ورک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے پاکستان کو اس وقت سے عدم استحکام کا شکار کررکھا ہے جب مشرف نے امریکہ کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیے تھے۔ یہ نیٹ ورک امریکہ کے لیے آنکھ، کان اور ہاتھوں کاکردار ادا کرتا ہے کہ وہ ان کے ذریعے ہماری سرزمین پرافراتفری پھیلانے کے منصوبے بناتا اور ان پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ یہ عمل امریکہ کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے خصوصاً چھوٹے نوعیت کے تنازعات پیدا کرنا اور "فالس فلیگ" آپریشنز ۔ اس نوعیت کے چھوٹے تنازعات اندرونی استحکام کو تباہ ، ہماری صلاحیتوں کو محدود اور امریکہ کی جانب سے مستقل "ڈومور" کے مطالبات کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں امریکی سفارت خانے اور اس کی انٹیلی جنس ان "فالس فلیگ" آپریشنز کی نگرانی کرتے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ ملک ان تنازعات میں ہی الجھا رہے اور کمزور سے کمزور تر ہوتا چلاجائے۔ لیکن پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کے دروازے امریکہ کے لیے پورے کے پورے کھلے رکھے ہیں اور اس دہشت گرد ملک کے اتحادی بنے ہوئے ہیں اور اپنی غداریوں کی ہر روز نئی سے نئی تاویل پیش کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ
"ایسا کوئی غلام نہیں جسے اللہ لوگوں کے امور پر نگران مقرر کرے اور وہ اس حال میں مر جائے کہ وہ ان کے ساتھ خیانت (ان کے امور سے لاپرواہی) کررہا تھا، تو اللہ اس کے لیے جنت کو حرام کردے گا"(مسلم)