بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت اور مہدی
تحریر: عبدالمؤمن الزیلعی
اسلام کی حقیقت سے بے خبر اور اس کے احکامات کے مزاج سے ناواقف کچھ لوگ کہتے ہیں " خلافت صرف امام مہدی کے ہاتھوں قائم ہوگی، اس کے لیے کسی کوشش اور جد و جہد کی ضرورت نہیں"۔ یہ فکرایک بھٹکی ہوئی اور تباہ کن فکرہے ۔ ان جیسے افکار کی بدولت کتنے ہی لوگ اقامتِ خلافت کے عظیم فرض کے لیے کوشش سےراہِ فرار اختیار کر کے گناہ کے مرتکب ہوئے اورخلافت کو مؤخر کرنے اور سیکولر ازم کے استحکام کے کفریہ مقاصدکی تکمیل میں معاون بنے۔ میں اس غلط فکر کے جواب میں کہتا ہوں :
1۔ اسلامی ریاستِ خلافت جو اسلامی احکامات کو نافذ کرتی ہے ،یعنی ریاست کے اندر اسلام کی حکمرانی کو قائم کرتی ہے اور دعوت و جہاد کے ذریعے انسانیت تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں تمام مسلمانوں کی قیادت کرتی ہے، اس ریاست کے قیام کے لیے عملی جد و جہد وہ عظیم فريضہ ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ امام القرطبی ؒکے بقول اس کے فرض ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں سوائے بے بہرے شخص کے، کیونکہ ایسا شخص شریعت سے ہی بےبہرہ ہے۔ فرض حکم پر عمل کا ایک متعین طریقہ ہوتا ہے،از خود کوئی طریقہ گھڑ لینے سے انسان گناہ کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ یعنی ایک شرعی فريضہ کے قیام کاانتظار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے اسی طرح کام کیا جائے گا جیسا کہ شرع نے اس کا حکم دیا ہے،رہا نتائج کا حصول ، تو وہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ کے سپرد ہے۔
2۔ چونکہ فرض حکم کے قیام کا طریقہ بھی شریعت سے ہی لیا جاتا ہے اس لیے اس کی ادائیگی میں انہی خصوصیات اور طور طریقوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جو شرع سے ثابت ہوں(ورنہ وہ غیر شرعی طریقہ ہوگا)۔ مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی کے معنی ہیں ،مال کا نصاب پورا ہونے اور سال گزرنے کے بعد اس میں سےاڑھائی فیصدنکالنا۔ اسی طرح نماز قائم کرنے کے معنی ہیں وہ کیفیت جس کے ساتھ ہم نماز پڑھتے ہیں ۔ ایک فرض عمل ہونے کے ناطے خلافت کے قیام کا طریقہ شرع میں بیان کیا گیا ہے ، یعنی مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کا اختیار کردہ منہج اور طریقہ کار۔
3۔ یہ فريضہ اس کے اپنے مخصوص شرعی طریقہ کے علاوہ کسی دوسرے طریقہ سے ادا تصورنہیں ہوگا، جس طرح ایک شخص نماز پڑھے ، روزہ رکھے ، حج ادا کرے اور زکوٰۃ دے، اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس کے ذمہ سے نماز و روزہ ، حج اور زکوٰۃ اُتر گئے، مگر ان فرائض کی ادائیگی سے اقامت خلافت کا فريضہ بھی ادا ہوا ، ایسا بالکل نہیں۔ سو جس طرح نماز کی ادائیگی سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا فرض پوراا نہیں ہوتا ، اسی طرح تما م دیگر فرائض کی ادائیگی خلافت کے قیام کے فرض کو پورا نہیں کرتی۔ اور جس طرح جہاد کرنے سے نماز کا فرض ادا نہیں ہوتا اسی طرح جہاد کرنے سے خلافت کے قیام کے فرض بھی ادا نہیں ہوتا۔
4۔ خلافت کا شرعی طریقہ رسول اللہﷺ کا طریقہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے مدینہ منورہ میں دار الاسلام کے قیام کے لیے اپنایا تھا، اب اگر کسی کے پاس اس مذکورہ طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے کی کوئی دلیل ہو تو وہ لے کر آئے۔
5۔ خلافت کا اولین قیام ایک علاقے میں ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ اس میں توسیع ہوتی ہے،ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ تمام کے تمام علاقوں میں یہ یکدم قائم ہوگی۔ یہ ایسی ریاست ہوتی ہے جو مقامی طور پر شرع کے احکامات کا نفاذ کرتی ہے اور دنیا بھر میں اس کی دعوت لے کر جاتی ہے، اس کا نام خواہ کچھ بھی رکھا جائے یا اس کے سربراہ کو کسی بھی لقب سے پکارا جائے۔ مسئلہ اس کے نام یا اس کے سربراہ کے نام اور لقب میں نہیں۔ اسے آپ خلیفہ ، رئیس ، امام یا امیر المؤمنین کہہ سکتے ہیں ،اصل اعتبار نظام حکومت ، نظام ہائے زندگی اور جہاں یہ قائم ہو ، وہاں پر اس کے جواز کی شرائط کے موجود ہونے کا ہے۔
6۔ خلافت فرشتوں کے پروں پر اترکر نہیں آئے گی، بلکہ انسانوں میں سے کچھ لوگ اس کو قائم کرنے کے لیے کام کریں گے اور یہ پوری امت کا مسئلہ ہے، اللہ کی طرف سے کسی معین شخص کو اس کا حق دار نہیں بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ خلافت کے لیے کام فرض اور ضروری ہے۔
7۔ اگر امام مہدی وہی شخص ہیں جو خلافت قائم کریں گے تو وہ ایک آدمی ہی ہوں گے ، ان کے ماتھے پر یہ نہیں لکھا ہوگا کہ یہ خلیفہ ہے، لوگوں کو ان کے مہدی ہونے کے بارے میں اس وقت ہی پتہ چلے گا جب وہ اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنے لگیں گے اور اس کو ایسے احسن انداز سے نافذ کریں گے جس سے عدل و انصاف کا بول بالا اور ظلم و شر کا خاتمہ ہو گا۔ لوگ یوں ہی ان کے پیروکار نہیں بنیں گے ، لوگوں نے تو اس ہستی کو بھی جھٹلایا تھا جس کا مقام و مرتبہ مہدی سے نہایت اعلیٰ و برتر ہے ، یعنی رسول اللہ ﷺ۔ اللہ کے ہاں مہدی کا مقام رسول ﷺ سے بڑھ کر نہیں ۔ اس لیے مہدی کے بارے میں بھی امت کے پاس آگاہی ہوگی اور اہل قوت کے لیے ان کا ساتھ دینا اور ان کی حفاظت کرنا ضروری ہوگا۔
8۔ شرع نے اسلامی احکامات کو کسی شخص کے وجود کے ساتھ نہیں جوڑا ۔ اس لیے مہدی کے انتظار میں خلافت کے لیے عمل کو چھوڑ ے رکھنادین و شریعت کو معطل کرنا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ"خلافت کا قیام اور دین کا نفاذ ظہوری مہدی پر منحصر ہے ، اس سے پہلے فرض نہیں !!"۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ایک فرض کے قیام کے لیے کام کریں۔ اگر یقیناً مہدی ہی وہ شخص ہیں جو اسے قائم کریں گے، ہم سے پھر بھی جس چیز کا مطالبہ ہوگا وہ اس کے لیے کام کاہے، مہدی کی تلاش کا سوال ہم سے نہیں ہوگا، ہمارا اصل مسئلہ خلافت کی قابل کسی شخصیت کی تلاش نہیں، جبکہ ابھی یہ قائم ہی نہیں ہوئی۔ ہمارا مسئلہ سنگ ِبنیاد رکھنا اور امت کی نشاَۃِ ثانیہ ہے ، خدارا! ذرا سوچیے ! کیابے عملی پر اُکسانے والے مذکورہ بالا افکار سے امت کی نشاۃِ ثانیہ ہوگی؟
9۔ محض غیب پر توکل کر کے بیٹھے رہنااور شرعی لحاظ سے مطلوب عمل سے جی چرانا اسلام میں جائز نہیں، مسلمانوں کی تباہی و ہلاکت جس فرقے کے افکار کے ہاتھوں ہوئی وہ قدریہ غیبیہ فرقہ ہی تھا ۔ اس فرقے نے مسلمانوں کو اس حد تک نکمّا بنایا تھا کہ وہ بہت سے فرض اعمال کی ادائیگی میں سستی دکھانے لگے تھے، ہم کیوں سطحی ذہن کے لوگوں اور درویشوں کی طرح سوچنے لگتے ہیں؟کیا اس قسم کے نامراد افکار عثمانی خلافت کے خاتمے کی وجوہات میں ایک وجہ نہیں بنے تھے؟
10۔ جیسا کہ اصولِ فقہ میں تفصیلاً واضح کیا گیا ہے کہ پیشن گوئی والی احادیث میں اگر طلب کا قرینہ(کسی عمل کو کرنے کا مطالبہ)موجود نہ ہو تو وہ صرف اور صرف اِخبار یعنی پیشن گوئی کہلاتی ہیں۔ چنانچہ ایسی احادیث سے عملی احکامات اخذ نہیں کیے جاتے۔ مہدی کے بارے میں جو احادیثِ صحیحہ وارد ہوئی ہیں ان میں کسی ایک حدیث میں بھی طلب کا قرینہ موجودنہیں ، سوائے یہ کہ مہدی کا ساتھ دیا جائے اور ان کی پیروی کی جائے ، اس کا تعلق تو اس وقت سے ہے جب اُن کا ظہور ہوجائے۔
11۔ رسول کریم ﷺ سے کچھ ایسی احادیث روایت کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مہدی ایک خلیفہ کی موت کے بعد آئیں گے ، اس کا مطلب ہے کہ خلافت مہدی کے ظہور سے پہلے قائم ہوچکی ہوگی ، اس کو پہلی مرتبہ قائم کرنے والے مہدی نہیں ہوں گے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:((يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَيَأْتِي مَكَّةَ، فَيَسْتَخْرِجُهُ النَّاسُ مِنْ بَيْتِهِ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، فَيُجَهَّزُ إِلَيْهِ جَيْشٌ مِنَ الشَّامِ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ، فَيَأْتِيهِ عَصَائِبُ الْعِرَاقِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ، وَيَنْشَأُ رَجُلٌ بِالشَّامِ، وَأَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيُجَهَّزُ إِلَيْهِ جَيْشٌ، فَيَهْزِمُهُمُ اللَّهُ، فَتَكُونُ الدَّبْرَةُ عَلَيْهِمْ، فَذَلِكَ يَوْمُ كَلْبٍ، الْخَائِبُ: مَنْ خَابَ مِنْ غَنِيمَةِ كَلْبٍ، فَيَسْتَفْتِحُ الْكُنُوزَ، وَيُقِسِّمُ الْأَمْوَالَ، وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ إِلَى الْأَرْضِ، فَيَعِيشُ بِذَلِكَ سَبْعَ سِنِينَ أَوْ قَالَ: تِسْعَ سِنِينَ)) ( رواه الطبراني في الأوسط، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، وقال (رجاله رجال الصحيح)
(( میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ایک خلیفہ کے انتقال پر اختلاف ہوجائے گا ، پھر بنی ہاشم میں سے ایک شخص کھڑا ہوگا اور مکّہ آجائے گا، لوگ اس کو اس کے مکان سے زبردستی نکال لائیں گے، پھر وہ ان کو رکن ( یمانی) اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت دیدیں گے۔ پھر ملک ِ شام سے ایک لشکر ان سے جنگ کے لیے روانہ ہوگا ،( مہدی تک پہنچنے سے پہلے) جب وہ ایک چٹیل میدان میں پہنچ جائیں گے ، ان کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ،( اس عبرت خیز ہلاکت ) کے بعد اس کے پاس عراق کے بہترین لوگ اور شام کے مخلص عبادت گزار آجائیں گے، بعد ازاں ایک قریشی شخص (یعنی سفیانی) جس کی ننہال قبیلۂ کلب میں سے ہوگی، خلیفۂ مہدی اور ان کے اعوان و انصار سے جنگ کے لئے ایک لشکر بھیجے گا۔ یہ لوگ اس حملہ آور لشکر پر غالب ہوں گے یہی (جنگ) کلب ہے۔ اس دن وہ شخص ہی گھاٹے میں ہوگا جو کلب سے حاصل شدہ غنیمت میں شریک نہ ہو (اس فتح و کامرانی کے بعد) خلیفہ مہدی خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں کو ان کے نبی ﷺ کی سنت پر چلائیں گے اور اسلام مکمل طور پر زمین میں مستحکم و غالب ہو جائے گا۔ بحالتِ خلافت، مہدی دنیا میں سات سال اور بعض روایات کے مطابق نو سال رہ کر وفات پاجائیں گے ))" (اس حدیث کو امام طبرانی نے الاوسط میں اور امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں)"۔
اس حدیث کے راوی اور شارحین اس پر متفق ہیں کہ حدیث میں مذکورہ خلیفہ ہی مہدی ہیں۔ حدیث کے آغاز ہی میں راوی کہتا ہے،
«اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ»
"خلیفہ کی موت ہونے پر اختلاف ہوگا"
اس کا مطلب ہے کہ خلافت مہدی کے ظہور سے پہلے قائم ہوچکی ہوگی۔
12۔ سابقہ حدیث میں خلیفہ کا لفظ ایک شرعی اصطلاح ہے ، اس کو اس کے حقیقی معنی کے علاوہ کسی اور معنی کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں سوائے یہ کہ اس دوسرےمعنی کی طرف اشارہ کرنے والا کوئی قرینہ پایا جائے ۔شرعی اصطلاح میں خلیفہ وہ حکمران ہوتا ہےجسے شرعی بیعت کی بنیاد پرتمام مسلمانوں کی عمومی سربراہی حاصل ہو ، مسلمانوں نے اس کو اسلام کے ذریعے حکمرانی کی شرط پر بیعت دی ہواور یہ کہ وہ دعوت اور جہاد کے ذریعے اسلام کو دنیا میں پھیلائے گا۔ اس لیے بعض لوگوں کا یہ پروپیگنڈاغلط ہے کہ حدیث میں خلیفہ کی موت کے معنی ہیں آج کل کے حکمرانوں میں سے کسی حکمران کی موت ،جو نہ تواسلام کو نافذ کرتے ہیں اورنہ ہی ان کی کوئی شرعی بیعت ہوتی ہے، نہ ہی ان کو تمام مسلمانوں کی عمومی قیادت حاصل ہوتی ہے۔
13۔ مہدی کے لیے انتظار سے خلافت کے قیام میں تاخیر ہوگی اور ظالم کفار کو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے بے تحاشا مواقع فراہم ہوں گے ، اس لیے خلافت کو مہدی کے ساتھ خاص کرنے کا تصور کفار اور منافقین کو تقویت فراہم کرتا ہے ، یہ ایک مدہوش رکھنے والا گمراہ کن تصور ہے جس کی وجہ سے بہت سے شیعہ اور سنی مسلمان بے عملی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اہلِ تشیع حضرات سرداب کے مقام سے ان کے ظہور کے منتظر بنے بیٹھے ہیں اور اہلِ سنت میں سے کچھ لوگ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں!!!! چنانچہ جو مسلمان اس عظیم فریضے کے قیام کے لیے کام نہیں کرتا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر بہر حال کفار کی خدمت میں لگا ہوا ہے ، کفار اسی طرح کے افکار کو مسلمانوں کے اندر مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں، ایسے مسلمان کفار کے اس دعوے کو ثابت کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کہ سیکولر ازم ہی مسائل کا حل ہے ، بلکہ ایسا شخص ان کی اس بات میں بھی ان کا ساتھ دے رہا ہے کہ خلافت ایک پاپائیت نما ریاست ہوتی ہے اور خلافت ایک خدائی منصب ہےجس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
ایسے احادیث نبوی بھی آئی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ نبوت کے نقش قدم پر دوبارا خلافت قائم ہوگی اور ایسا اللہ کی مرضی سے ہوگا ،ان احادیث کی تصدیق واجب ہے:
1۔ ثوبا ن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا...»
"بے شک اللہ سبحانہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ کر دکھایا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا ، اور بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پھیلے گی جہاں تک مجھے دکھائی گئی"۔ اس کو مسلمؒ، ترمذیؒ اور ابن ماجہ ؒ نے روایت کیا ہے۔
آپ ﷺ کا یہ فرمان،
«وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا»
"اور بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پھیلے گی جہاں تک مجھے دکھائی گئی"
ابھی تک پورا نہیں ہوا ، کیونکہ مسلمان ابھی مشرق و مغرب کے مالک نہیں بنے ۔ ظاہر ہے کہ مستقبل میں ہی ایسا ہوکر رہے گا، اس میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے مشرق و مغرب میں فتوحات حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی ریاست قائم ہونے والی ہے۔
2۔ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ البَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ»
"میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرماتے ہوئے سنا: جب تم عینہ( یعنی کسی چیز کو ادھار زیادہ قیمت پر بیچ کر قیمت وصول کرنے سے پہلے کم قیمت پر نقداً خریدنا) کے ساتھ خرید و فروخت کرنے لگوگے اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لوگے، کھیتی باڑی کو پسند کروگے اور جہاد کو چھوڑ دوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اس وقت تک اس کو دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہیں پلٹ آؤگے"(اس کو ابوداؤد ؒنے روایت کیا)۔
آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ
«حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ»
"جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس نہیں پلٹ آؤگے"
اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک تم اپنے دین پر عمل اور کارزارِ حیات میں اس کی بالادستی کی طرف پھر سے رجوع کرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایک خوشخبری ہے کہ مسلمان اپنے دین کی طرف دوبارہ لوٹیں گے ، جبکہ وہ اس سے پہلے اسلام کی حکمرانی کو چھوڑ بیٹھے ہوں گے۔
3۔ ابی قبیل سے روایت ہے
(( كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، وَسُئِلَ: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا: الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بِصُنْدُوقٍ لَهُ حَلَقٌ، قَالَ: فَأَخْرَجَ مِنْهُ كِتَابًا، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّه بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَكْتُبُ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا: قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ((مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ)) (رواه أحمد.)
" ہم عبد اللہ بن عمرو بن العاص کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،کسی نے ان سے پوچھا : قسطنطنیہ اور روم میں سے کونسا شہر پہلے فتح کیا جائے گا؟ یہ سن کر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایا جس کے ساتھ حلقے جڑے ہوئے تھے: روای کہتا ہے آپ نے اس میں سے ایک کاغذ نکالا ، پھر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے لکھ رہے تھے کہ اس دوران رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: قسطنطنیہ اور روم میں سے کونسا شہر پہلے فتح کیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہرقل کا شہر پہلے فتح ہوگا، راوی کہتا ہے اس سے آپ ﷺ کی مراد قسطنطنیہ تھا"( اس کو امام احمدؒ نے روایت کیا )۔
پس رسول اللہ ﷺ سے جب قسطنطنیہ اور روم کے حوالے سے سوال کیا گیا ،تو آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا "روم نہیں فتح ہوگا "، بلکہ یہ کہا کہ قسطنطنیہ پہلے فتح کیا جائے گا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد روم بھی فتح ہوگا۔ چونکہ روم کو آج تک مسلمانوں نے نہیں فتح کیا ، اس لیے یہ حدیث بھی ایک خوشخبری ہے کہ مسلمان اٹلی کی دار الحکومت روم کو فتح کریں گے ، یہ نہ سوچیں کہ خلافت کے قیام کے بغیر مسلمان اس کوفتح کرسکیں گے ، کیونکہ یہ جہاد کے بغیر نہیں ہوگا ، اور خلافت ہی جہاد کو اصل شکل میں زندہ کرکے ملک کے ملک فتح کرے گی۔
4۔ نعمان بن بشیر نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں
((قال رسول الله صلى الله عليه وسلم(( تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ ))
"آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تک اللہ چاہے گا تمہارے اندر نبوت رہے گی، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو ختم کرنا چاہے گا،تو اس کو ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہوگی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، یہ قائم رہے گی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس کو ختم کردےگا۔ پھر موروثی حکومت کا دور ہوگا، ( جو اس وقت تک ) رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کردے گا۔ پھر جابرانہ حکومت کا دور ہوگا، جو ( اس وقت تک ) باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اس کو باقی رکھنا چاہےگا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی۔ (حدیث کے) راوی کہتے ہیں ، اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔"
پس یہ حدیث بتاتی ہے کہ موروثی اور جابرانہ دورِ حکومت کے بعد خلافت قائم ہوگی، جو نبوت کے نقشِ قدم پر ہوگی، یعنی اس کے خدو خال بعینہٖ وہی ہوں گے جو خلفائے راشدین کی حکومت کے تھے، انشاء اللہ آنے والی خلافت خلافت علی ٰ منہاج النبوۃ ہوگی۔
لہٰذا خلافت شریعت کی رو سے فرض ہے ۔ خلافت ایک حقیقت تھی ، تاریخ کی کتابیں اس کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں، مغرب اس کی واپسی سے لرزہ بر اندام ہے، اور اس کے قیام کو مؤخر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ مغربی ریسرچ سنٹر کس طرح اس کے نزدیک ہونے کا واویلا مچارہے ہیں ، وہ کہتے ہیں امت اب خلافت کے راستے پر چل پڑی ہےجبکہکچھ مسلمان یا تو غفلت میں ڈوبے پڑے ہیں یا پھر مایوسی (Frustration) کا شکار ہوچکے ہیں۔سو خدارا، اس کے لیے عمل نہ چھوڑنا ، کیونکہ تب اگر ہماری ہلاکت ہوگی تو ہمارا پاس کوئی عذر نہیں ہو گا۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب
ربنا وآتنا ما وعدتنا على رسلك ولا تخزنا يوم القيامة إنك لا تخلف الميعاد…
اللهم صل على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
عبدالمؤمن الزیلعی
ولایہ یمن میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ