بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 17 نومبر 2017
- حکمرانوں کے احتساب کے لیے جمہوریت کا خاتمہ اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ضروری ہے
- پیراڈائیز پیپرز نے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی مزید کرپشن کو بے نقاب کردیا
- خلیفہ راشد کشمیر کے مسلمانوں کو شہید ہوتا دیکھتا نہیں رہے گا بلکہ ان کا بدلہ لے گا
تفصیلات:
حکمرانوں کے احتساب کے لیے جمہوریت کا خاتمہ اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ضروری ہے
9 نومبر 2017 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے قومی احتساب کمیشن بل 2017 کی پارلیمانی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا جب ان کی جماعت نے اس نئے قانون کے تحت ججز اور جرنیلوں کا احتساب کرنے کی تجویز واپس لے لی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی اہم سیاسی جماعتوں ، حکمران پاکستان مسلم لیگ-ن، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی ، میں اس تجویز کے حوالے سے اختلافات سامنے آئیں ہیں کہ آیا ججز اور جرنیلوں کا احتساب بھی اس نئے قانون کے تحت کیا جائے یا نہ کیا جائے۔
اپنی مرضی کا احتساب کرنے کی کوشش اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ جمہوریت ہے جس کی وجہ سے قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندگان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ قانون سازی کا یہ اختیار ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے کرپٹ افراد کو قانونی تحفظ مل جاتا ہے۔ طاقتور ہمیشہ قانون کے دائرے سے باہر رہتے ہیں جس کا ایک مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب نااہل نواز شریف ایک نئی قانون سازی کے ذریعے اپنی جماعت کے سربراہ بننے کے اہل ہوگئے۔ اور اب طاقتور ججزاور جرنلز کو احتساب کے دائرے سے باہر رکھا جارہا ہے۔
اگر آج پاکستان میں ہم بلا تفریق احتساب دیکھنا چاہتے ہیں تو جمہوریت کا خاتمہ اور اس کی جگہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام لازم ہے۔ اسلام میں تقویٰ اور امر بل المعروف (خیر کے کاموں کا حکم)اور نہی عن المنکر(برے کاموں سے روکنا) معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔اسلامی تعلیم کے ذریعے اسلامی اقتدار لوگوں میں ان کے بچپن سے ہی ڈالی جائیں گی جس کی وجہ سے ایک فرد میں مضبوط اسلامی شخصیت پیدا ہوگی۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں گے، عوامی زندگی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور برائیوں سے دور رہنے میں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں گے اور یہ یاد دہانی کروائیں گے کہ اگلے جہاں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے ان کے اعمال پر ان کا حتساب ہوگا۔
ریاست خلافت میں قانون سازی کا اختیار صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے جو تمام کائینات کا خالق ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا،
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ للّه
"حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے"(یوسف:40) ۔
اسلام میں خلیفہ بھی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اسے اپنی مرضی اور خواہشات کے مطاب قوانین بنانے کی اجازت نہیں۔ اسلام خلیفہ پر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ ریاست کے تمام شہریوں پر ان کے مرتبے سے قطع نظر اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرے۔ اس طرح یہ تصور، کہ حکمران کو استثنی حاصل ہے، کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ
"اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو"(النساء:58)۔
پیراڈائیز پیپرز نے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی مزید کرپشن کو بے نقاب کردیا
دنیا کو ہلانے کے لیےپانامہ پیپرزکے انکشافات کم نہ تھے کہ 5 نومبر 2017 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسیٹی گیٹو جرنالسٹس (ICIJ)نے مزید دستاویزات کا خزانہ جاری کردیا جس میں دنیا کے چند طاقتور ترین سیاست دانوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان دستاویزات کو پیراڈائیز پیپرزکا نام دیا گیا جس میں 13.4ملین فائلز موجود ہیں جن میں کئی کمپنی رجسٹرار اور دنیا کے ان چند ممالک کا ذکر ہے جو آف شور کمپنی کی سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (FBR) نے باضابطہ طور پر ان پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہے جن کے نام پیراڈائیز پیپرز میں آئے ہیں۔ اس تازہ ترین انکشافات میں جس سب سے مشہور پاکستانی کا نام آیا ہے وہ شوکت عزیز ہے جو مشرف کے دور میں وزیر خزانہ اور اس کے علاوہ 2004 سے 2007 تک ملک کے وزیر اعظم بھی رہے اور وہ ان لوگوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے مشرف کے ڈوبتے جہاز سے سب سے پہلے چھلانگ لگائی تھی۔
جمہوریت میں یہ انکشافات قطعاً حیران کن نہیں ہیں کہ طاقتور افراد ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی دولت کو آف شور اکاونٹس میں چھپاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے طاقتور افراد سیاسی بندبست سے باہر ہوجاتے ہیں تو یہ طریقہ کار درحقیقت ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی دولت سے پُرتعیش زندگی گزارنے کا اسلوب ہے۔ اس حقیقت کے باوجود یہ کرپٹ حکمران عوام کو طویل لیکچر دیتے ہیں کہ ٹیکس دینا اچھے شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ کرپٹ حکمران عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں جبکہ خود نظام میں موجود خامیوں ، جیسا کہ آف شور کمپنی، کے ذریعے ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں۔ یہی حقیقت پاکستان میں بھی ہے۔دنیا بھر میں جمہوریتیں شہریوں کو ریاست کے خرچے پر عیاشیاں کرنے کے لیے عوام کو ٹیکس دینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور عوام خصوصاً درمیانی طبقے کے لیے سانس بھی لینا محال ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاست دان ایسے قوانین بناتے ہیں جس کے ذریعے طاقتوروں کا ٹیکس بچانا قانونی قرار پاتا ہے۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں شہریوں پر کمر توڑ ٹیکس عائد نہیں کیے جاتے کہ جس کے بعد وہ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ کرسکیں۔ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے مجوزہ دستور کی شق 146 میں لکھا ہے کہ، "مسلمانوں سے وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کی شرع نے اجازت دی ہے اور جتنا بیت المال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ شرط یہ ہے کہ یہ ٹیکس اس مال پر وصول کیا جائے گا جو صاحب مال کے پاس معروف طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد ہو اور یہ ٹیکس ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی بھی ہو"۔ اسلام کا منفرد نظام محاصل ، جو قرآن و سنت سے اخذ کیا گیا ہے، لوگوں پر کمر توڑ بوجھ ڈالے بغیر بہت مال جمع کرلیتا ہے اور دولت کو چند لوگوں کے درمیان جمع ہونے سے بھی روک لیتا ہے۔ اسلام کے دور میں یورپ بھر سے یہودیوں نے اسپین اور ترکی کی خلافت کی جانب ہجرت کی، وہاں رہائشاختیار کی، کاروبار کیا اور خوشحال زندگی گزاری۔ بھارت، جہاں ہندووں کی اکثریت تھی، میں اسلام کی حکمرانی نےدنیا بھر کے کاروباری حضرات اور تاجروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ
"تا کہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے"(الحشر:7)
خلیفہ راشد کشمیر کے مسلمانوں کو شہید ہوتا دیکھتا نہیں رہے گا بلکہ ان کا بدلہ لے گا
14 نومبر 2017 کو آزاد جموں و کشمیر میں ایک بوڑھی خاتون لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے بھارتی افواج کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں ۔ وہ پولاس کا کوٹہ کے علاقے میں شہید ہوئیں جو کہ انتہائی مسلح لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔ ایک سال کے زائد عرصے سے لائن آف کنٹرول پر بھارت جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔ ایک حکومتی اہلکار جناب ارسلان کے مطابق حکومت آزاد و جموں کشمیر کا فیصلہ ہے کہ جو بھی شہری بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے شہید ہوں گے انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا جائے گا ، لہٰذا جانب بی بی کو 15 نومبر کو پولیس سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنائے گی۔ 12 نومبر 2017 کو تحصیل حاجیرا کے بٹل سیکٹر میں واقع ایک گھر کے صحن میں کھیلتا دس سالہ بچہ بھارتی افواج کی فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوگیا۔ اس واقع سے بھی پہلے 24 اکتوبر 2017 کو مظفر آباد ڈویژن کی وادی لیپا میں دوخواتین شہید اور چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اسلام کی حکمرانی کے غیر موجودگی میں دشمن کی جانب سے مسلمانوں کی جانیں بغیر کسی ردعمل کے خوف کے لینا ایک معمول بن گیا ہے۔ حکمران شہید اور زخمی ہونے والوں کے اعدادوشمار بناتے اور شہید ہونے والوں کو سرکاری اعزاز سے دفنانے میں ایسے مصروف ہیں جیسا کہ یہی ان کی واحد ذمہ داری ہے۔ لیکن اسلام کی حکمرانی کے دور میں بنو قینقاع کے ایک یہودی نے بازارمیں موجود ایک مسلمان عورت کے لباس کے ایک حصے کو اس طرح سے باندھ دیا تھا کہ جب وہ عورت نشست سے کھڑی ہوئیں تو ان کا لباس کھل گیا اور چیخی چلائیں۔ ایک مسلمان آگے آیا اور اس نے اُس یہودی کو قتل کردیا جس نے مسلمان عورت کے بے حرمتی کی تھی۔ اس کے بعد یہودیوں نے اُس مسلمان پر حملہ کردیا اور اسے شہید کردیا۔ اس مسلمان کے خاندان نے مسلمانوں کو یہودیوں کے خلاف مدد کے لیے پکارا۔ اور اس کے نتیجے میں بنو قینقاع کو مدینے سے بے دخل ہونا پڑا۔ بنو قینقاع کا اسلام قبول نہ کرنا ان کی بے دخلی کا باعث نہیں بنا بلکہ حقیقی وجہ ان کی جانب سے امن و امان کو خراب کرنا اور کھلی جارحیت تھی جس نے رسول اللہﷺ کو یقین دلادیا کہ ان کے ساتھ امن سے رہنا ممکن نہیں۔
جب تک مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط رہیں گے جو امریکی ہدایت کے مطابق بھارت کے خلاف "تحمل" کی پالیسی پر کاربند ہیں، مسلمان بھارت کے تکبر اور جارحیت کے مظاہرے دیکھتے رہیں گے۔ افواج پاکستان میں موجود مسلمان افسران اور سپاہیوں پرلازم ہے کہ وہ ان گمراہ حکمرانوں سے منہ موڑ لیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کریں جو انہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر وحی کی تھی جب مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن وہ کامیاب ہوئے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا تھا،
قُلْ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ - قَدْ كَانَ لَكُمْ ءَايَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَـتِلُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَأْىَ الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَآءُ إِنَّ فِى ذَلِكَ لَعِبْرَةً لاوْلِى الاٌّبْصَـرِ
"کافروں سے کہہ دیجئے! کہ تم عنقریب مغلوب کیے جاؤ گے اور جہنم کی طرف جمع کیے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ یقیناً تمہارے لیے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھی، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں (مسلمانوں کو) اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لیے بڑی عبرت ہے "
(آل عمران: 13-12)