بسم الله الرحمن الرحيم
لوگوں کی نگاہ میں دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نگاہ میں بلند ترین مرتبے کے حصول کے لیے کوشش کرو
تحریر : مصعب عمیر، پاکستان
دنیاوی مرتبہ اور مقام دولت، حسب نصب اور طاقتور لوگوں تک رسائی سے ملتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والا شخص مفلوج ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک خطرناک کرپشن ہے اور اس بندے کی راہ میں روکاٹ کھڑی کرتی ہے جو اسلام سے وفادار اور اس کے احکامات کی پابندی کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص خود کودوسروں سے افضل سمجھتا ہے، دنیاوی مرتبہ اس کو دوسروں کی نصیحت سننے سے روکتا ہے۔ اسی طرح یہ اُس شخص کو دوسروں کے غلط کاموں پر ان کا کا احتساب کرنے سے روکتا ہے جو خود کو دنیاوی مرتبے میں دوسروں سے کم تر سمجھتا ہے۔ دکھاوا، استحقاق کا اظہار اور وی آئی پی پروٹوکول اُن لوگوں کی جانب سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ بلند مرتبے کے حامل لوگ ہیں۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ جب نئی قیادت آتی ہے تو ان میں منصب ان کے قبیلے، خاندان، تعلیم اور دولت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں تا کہ معاشرے میں ان کے "رتبے " کا تعین ہوسکے۔ کچھ لوگ تو اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی دکھاوے اور رتبے کے حصول کے لیے کرتے ہیں۔ دنیا پیمانوں پر رتبے کے حصول کو مسترد کیا جانا چاہیے جیسے ہندوں میں ذات پات کا نظام، انگریزی حسب نصب کا نظام،جن سے نفرت کی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں ناانصافی اور امتیازی سلوک کی غلاظت پیدا ہوتی ہے بلکہ لوگ میرٹ یعنی انصاف کو نظر انداز کرنے کی بھی شکایت کرتے ہیں، اور یہ چیزیں معاشرے کو اسلام کے پیمانوں سے بہت دور لے جاتی ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اس پریشان کن اور تباہ کن بیماری، دنیاوی رتبے، کا علاج فراہم کیا ہے۔ اسلام انسان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت کے سامنے انکساری کو اختیار کرنے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عنایتوں کا شکر ادا کرنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام مسلمان میں اس خواہش کو پیدا کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے جو کچھ عطا ءفرمایا ہے اسے حق کی راہ میں استعمال کرے نہ کہ وہ نعمتیں حق کی راہ پرچلنے میں دیوار بن جائیں۔ اسلام مسلمان میں علم کے حصول کی خواہش کو پیدا کرتا ہے۔ اسلام مسلمان میں اس خواہش کوپیدا کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ان نعمتوں کو قربان کرے نہ کہ ان نعمتوں کے حصول کے لیے اسلام کو قربان کردے جو کہ ایک تباہ کن اور فضول جدوجہد اور کوشش ہے۔ اسلام مسلمان میں اس خواہش کو پیدا کرتا ہے کہ وہ آخرت کے بلند ترین درجے کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جائے اور ایسا بن جائے جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ خوش ہوجائیں۔ اسلام خصوصی طور پر یہ کرتا ہے کیونکہ اسلام اپنے ماننے والوں کے دلوں میں مضبوطی سے رتبے کا پیمانہ تقویٰ کو بنادیتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
"اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مردو عورت سے پیدا کیا ہے، اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کنبے اور قبیلے بنادئیے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانوکہ اللہ دانا اور باخبر ہے"(الحجرات:13)۔
ہمیں یہ یاد کرنا چاہیے کہ یہ آیت اس معاشرے کے لیے نازل ہوئی تھی جو دنیا میں رتبے کے حصول کے لیے پاگل ہوچکا تھا۔ تعلقات، انصاف اور رتبے کی بنیاد قبائلی حسب نسب تھا۔ ہمارے آج کے دور کے مقابلے میں اس وقت قبائلی حسب نسب دولت سے زیادہ دنیاوی رتبے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا،کیونکہ آج کا دور گھٹیا مغربی مادیت میں ڈوب چکا ہے جسے نام نہاد "تہذیب" کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں یاد دلایا کہ یہ وہ سبحانہ و تعالیٰ ہے جس نے ہم سب کو ایک بندے آدم ؑ سے پیدا کیا اور پھر اس بندے کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ساتھی" حوا" کو پیدا کیا۔ ان کے اولادیں مختلف قومیں، اورقبائل بن گئے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو قبائلیت کا شکار ہو گئے ہیں ، یہ یاد دلایا ہے کہ وہ سب برابر ہیں کیونکہ تمام لوگ آدم ؑ اور حوا کی اولاد اور اس اعزاز کے برابر کے حق دار ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دنیاوی رتبے کے لحاظ سے دوسروں کوکم تر کہنے یا بڑا بزرگ و برتر کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت پر ثابت کیا ہے کہ حقیقت میں انسان ہونے کے ناطے وہ سب برابر ہیں اور پھر اگر کوئی بزرگ و برتر ہے تو صرف اور صرف اپنے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ قبائلی حسب نسب کا مقصد فخر کرنا یا بڑا رتبہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف پہچان کے لیے ہے۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ کا یہ کہنا، لِتَعَارَفُوا "تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو" ایک کہاوت کی جانب اشارہ ہے، "فلاں فلاں کابیٹا، فلاں فلاں قبیلے سے"۔ تقوی ہی رتبے کا معیار ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی ایک معیار ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
"یقیناً اللہ کی نظر میں تم میں سے سب سے زیادہ عزت دار وہ ہے جو متقی ہے"
یعنی تم اللہ کی نظروں میں عزت خاندانی یا قبائلی حسب نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف تقوی کی بنیاد پر ہی حاصل کرتے ہو۔
ہمارے عظیم دین میں اعلیٰ اور بلند رتبے کا معیار وہ ہے جو انسانوں کے دلوں میں تو چھپاہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نگاہوں کے سامنے ہے، یعنی تقوی۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکّہ کے دن لوگوں سے خطاب کیا جس میں آپ ﷺ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَاظُمَهَا بِآبَائِهَا فَالنَّاسُ رَجُلاَنِ رَجُلٌ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى اللَّهِ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ هَيِّنٌ عَلَى اللَّهِ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَخَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ
"لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا فخرو غرور اور خاندانی تکبر ختم کردیا ہے، اب لوگ صرف دو طرح کے ہیں، اللہ کی نظر میں نیک متقی اور فاجر و بدبخت اللہ کی نظر میں ذلیل و کمزور، لوگ سب کے سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے"(ترمذی)۔
البخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ"کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا، 'لوگوں میں سب سے زیادہ عزت دار کون ہے؟'، آپ ﷺ نے فرمایا، أكرمهم عند الله أتقاهم ' یقیناً اللہ کی نظر میں تم میں سے سب سے زیادہ عزت دار وہ ہے جو متقی ہے '۔ انہوں نے کہا کہ ،'ہم نے آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھا تھا'، آپﷺ نے فرمایا، فأكرم الناس يوسف نبي الله ، ابن نبي الله ، ابن خليل الله 'سب سے عزت دار شخص یوسف ہیں، اللہ کے پیغمبر، اللہ کے پیغمبر کے بیٹے، اللہ کے خلیل(دوست) کے بیٹے'۔ انہوں نے کہا، ' ہم نے آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھا تھا'۔ آپﷺ نے فرمایا، فعن معادن العرب تسألوني ؟ 'تو تم عربوں کے حسب نسب کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو؟ '، انھوں نے کہا، 'جی ہاں'۔ آپ ﷺنے فرمایا،
فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا
''تم میں سے جو جاہلیت کے زمانے میں بہترین تھے وہ اسلام میں بھی بہترین ہیں اگر وہ دین کا فہم حاصل کرلیں"۔
رسول اللہﷺ نے اس امت کو ظاہری صورت یا دولت کو اعلیٰ رتبے کا معیار بنانے سے خبردار فرمایا ہے۔ آج دولت لوگوں کو دنیاوی رتبہ دیتی ہے کیونکہ لوگ دولت مندوں کے گرد جمع ہوتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں،ان کی تعریف اور خدمت کرتے ہیں، اور جب کسی شخص پرمشکل وقت پڑتا ہے تو اسے فوراً چھوڑ دیتے ہیں جیسے اسے جانتے ہی نہ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا
، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ
"اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھے گا لیکن تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھے گا "(مسلم)۔
لہٰذا رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی کہ وہ اس چیز پر توجہ مرکوز کریں جو حقیقت میں ان کے رتبے کو بلند کرے گی کہ ان کے دل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خوف سے بھر جائیں اور وہ ہمیشہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خوشنودی کے حصول کے لیے اعمال انجام دیں۔
اسلامی معاشرے میں تقوی ہی اعلیٰ رتبے کا معیار ہے اور جن کے پاس دولت کے ڈھیر ہوں ان سے حسد کرنا مسترد اور بے بنیاد ہے۔ بلکہ اس کی جگہ وہ حسد کا حقدار ہے جو اپنی ڈھیروں دولت کو اسلام کی راہ میں خرچ کرتا اور جس کے پاس دین کی دولت ہے اور دوسروں تک اس کو پہنچاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا
"دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں حسد کرنا جائز نہیں(1) کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اسے حق کی بلندی کے لیے پوری طرح سے خرچ کرتا ہو، اور (2) وہ شخص جسے اللہ نے حکمت(دین کا علم) عطاء کیا ہو اور وہ اس کے ذریعے فیصلے کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو"(مسلم)۔
اسلامی ریاست میں اعلیٰ رتبے کامعیار تقوی ہے اور اس طرح کسی دولت مند یا خاص خاندان سے تعلق والے کو کوئی خصوصی فائدہ نہیں ملتا جیسا کہ آج کل نبوت کے طریقے پرخلافت کے عدم موجودگی میں ہم مسلم دنیا میں دیکھتے ہیں۔ جب ایک عورت کو اس وجہ سے معاف کرنے کی درخواست کی گئی کہ اس کا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے تو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر خبردارکیا،
إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا
"پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کا کوئی عزت دار (بڑا ) آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پرحد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں" (بخاری)۔
اور ان پر افسوس ہے جو اپنے نیک اعمال کو دنیاوی فائدے اور رتبے کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یقیناً دیکھاوا "ریاء" نیکی نہیں کیونکہ نیکی کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ ریاء کا مقصد لوگوں کو خوش کرنا ہوتا ہے اور سوائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضی کےاس سے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
يكون في آخر الزمان ديدان القراء، فمن أدرك ذلك الزمان فليتعوذ بالله من الشيطان الرجيم ومنهم، وهم الأنتنون، ثم يظهر قلانس البرود فلا يستحيا يومئذ من الرياء، والمتمسك يومئذ بدينه كالقابض على جمرة، والمتمسك بدينه أجره كأجر خمسين، قالوا: أمنا أو منهم؟ قال بل منكم
"آخری دور میں (قرآن) پڑھنے والے سنڈیوں کی طرح ہوں گے۔ تو جس کسی نےوہ زمانہ دیکھا تو اسے چاہیے کہ شیطان مردود اور ان جیسوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، اور وہ سب سے زیادہ بدبو دار ہوں گے۔ پھر ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جنہوں نے لمبے چوغے پہن رکھے ہوں گے، اور اس وقت ریاء (دیکھاوا) کرنے پر کوئی شرم محسوس نہیں کرے گا۔ تو جو اس زمانے میں اپنے دین سے جڑا رہے گا اس کی مثال ایسے ہو گی کہ جیسے اس نے جلتا ہوا کوئلہ تھام رکھا ہو اور جس نے اپنے دین کو پکڑے رکھا تو اس کا اجر اُس جیسے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ہو گا۔ پوچھا گیا: کیا ان جیسے یا ہمارے جیسےپچاس ؟ آپﷺ نے فرمایا: تم جیسے پچاس"(الحاکم)۔
جو کوئی بھی اللہ کی نگاہ میں بلند رتبے کا خواہش مند ہوتا ہے تو وہ لوگوں کو دیکھانے کے لیے نیک اعمال نہیں کرتا کہ دنیاوی رتبہ حاصل ہوسکے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو اس بات سے قطع نظر کہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض صرف تقوی کے لیے نیک اعمال کرتا ہے، نیکی کا حکم اور برائی سے روکتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو پوری استقامت کے ساتھ جابروں کے جبر سے بے خوف ہو کر حق بات کرتا ہے۔
اسلام لوگوں کو دیکھانے کے لیے دنیاوی رتبے کے حصول کی بیماری کو ختم کرتا ہے۔ یہ انسان کو اس مختصر سی زندگی کے لیے سستے اور ختم ہو جانے والے دنیاوی رتبے کی خواہش سےآزاد کرتا ہے۔ یہ مسلمان کے دل میں اُس نہ ختم ہونے والی زندگی، جنت، میں اعلیٰ رتبے اور مقام کے حصول کی خواہش کو جِلا بخشتا ہے۔ لہٰذا جو عقلمند ہے وہ شہیدوں میں شامل ہونے کی خواہش اور کوشش کرتا ہے کیونکہ ان کا جنت میں مقام سب سے بلند تر ہوگا۔ تو مسلمان شہداء میں سے بھی اعلیٰ ترین مقام کے حصول کی دعا کرتا ہے، اس مقام کے حصول کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بھر پور اطاعت کرتا ہے اور آخرت کے اعلیٰ مقام کے لیے دنیا کے اعلیٰ رتبوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا اور انہیں ٹھکرا دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ
"جو شخص اللہ سے سچائی سے شہادت مانگے، اللہ اسے شہیدوں کا درجے دیں گے اگرچہ اسے اپنے بستر پرہی موت آئے"(مسلم)۔
لہٰذا مسلمان دنیاوی خواہشات کو مسترد اور آخرت پر اپنی توجہ پوری مضبوطی سے مرکوز کرتا ہے، تعلقات اور اعمال کو اسلام کے کسوٹی پر طے کرتا ہے اور حسب نسب اور دولت کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى " . قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ . قَالَ " هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاَ أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لاَ يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلاَ يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ " . وَقَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ { أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ }
"اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہدا تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہوگا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہوگا لیکن وہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے، اللہ کی قسم ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے، وہ خود پُرنور ہوں گے، انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا جبکہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہوگا جبکہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی،
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ،
'یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں(یونس:62) "(ابو داؤد)۔
لہٰذا اگرچہ ایسے ایمان والے انبیاءؑ اور شہدا ءسے بہتر تو نہیں ہوں گے لیکن انہیں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہو گا کہ انبیاءؑ اور شہداء ان کے بلند مرتبے کی تعریف کریں گے۔ تو ہر ایمان والے کو اسلام کی بالادستی کے نئے دور کی بنیاد انتہائی مضبوطی سے رکھنے کے لیے اپنا کردار اداکرنا چاہیے، ایک ایسی نسل جو صرف اورصرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نظر میں اعلی و عرفہ مقام کے حصول کی خواہش رکھتی ہو۔