بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 29 دسمبر2017
- دہشت گرد بدمعاش ریاست امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد ختم کرو
- جمہوریت ایک جال ہے تا کہ مسلمان نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کی جدوجہد سے دور رہیں
- سرمایہ داریت اور استعماری قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے جمہوریت کا خاتمہ کرو
تفصیلات:
دہشت گرد بدمعاش ریاست امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد ختم کرو
24 دسمبر 2017 کو پاکستان کی سینٹ کے چیرمین رضا ربانی نے اعلان کیا ، " دو دن قبل پینس نے یہ کہنے کی ہمت کی کہ ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس دے دیا ہے۔۔۔۔دنیا واضح طور پر جان لے کہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور وہ امریکہ سمیت کسی سے نوٹس لینے کا عادی نہیں"۔
اس معاملے کو صرف بیان بازی تک ہی کیوں محدود رکھا جائے؟ کیوں نہ اس بیان بازی کو عمل کی شکل دے دی جائے تا کہ بلاآخر امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلادی جائے جس کا وہ پورا پورا مستحق ہے؟ یہ وقت ہے کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد کا خاتمہ کردیا جائے۔ امریکہ کے ساتھ اتحاد کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آخرت میں۔اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 9/11 کے بعد سے امریکہ کے ساتھ اتحاد کی پاکستان نے123.1 ارب ڈالر کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس مالی سال میں بھی اب تک 3.9 ارب ڈالر مزید نقصان اٹھا چکا ہے۔ مالی نقصان کے علاوہ شہریوں اور افواج پاکستان کا جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے مقابلے میں پچھلے پندرہ سال میں امریکہ نے پاکستان کے نقصان کی تلافی کے لیے صرف 33.4ارب ڈالر دیے ہیں جس کا 44فیصد اسلام آباد کی جانب سے افغانستان میں امریکی آپریشنز کے لیے فراہم کی جانے والی معاونت کے ضمن میں دیا گیا ہے۔ جہاں تک آخرت کی بات ہے تو حکمرانوں نے افغانستان میں امریکی قابض افواج سے لڑنے کی فرضیت کوبھلا دیا ہوا ہے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے،
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ
"اور ان کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑو جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں"(البقرۃ:190)۔
لڑنا تو دور کی بات اس سے بھی بڑھ کر بدبختی کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے حملہ آوروں کے ساتھ فوجی اتحاد قائم کرلیا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لاَ تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِينَ
"ہم مشرکین کی آگ سے روشنی نہیں لیتے"(احمد)، حدیث میں آگ سےمراد فوجی مدد ہے۔
پاکستان کے مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے اور اس وقت تک اٹھاتے رہیں گے جب تک جمہوریت کے داعی ہمارے معاملات کو دیکھتے رہیں گے۔ جمہوریت اسلام کے احکامات کو پارلیمنٹ کے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر مسترد کردیتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی رستہ ہے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کاقیام عمل میں لائیں۔
جمہوریت ایک جال ہے تا کہ مسلمان نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کی جدوجہد سے دور رہیں
اس بات کے باوجود کہ وزارت داخلہ کالعدم تنظیموں کے بطن سے پیدا ہونے والی تنظیموں کی ملکی سیاسی میدان میں داخل ہونے کی مخالفت کررہی ہے 24 دسمبر 2017 کو جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید نے لاہورمیں جماعت الدعوۃ کی ذیلی تنظیم کے دفتر کا افتتاح کیا۔ انہوں نے جماعت الدعوۃ کے سیاسی بازو ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کے دفتر کا افتتاح کیا جو قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کے دوران سامنے آئی تھی اور اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس ضمنی انتخاب میں ملی مسلم لیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں کے مجموعی ووٹوں سے دوگنا زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب تک یہ جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ مسلمان جمہوریت کے جال میں ہی الجھے رہیں تا کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دور رہیں۔ مسلمانوں کو جمہوریت میں کسی بھی صورت میں شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی نظام ہے۔ انہیں امیدوار کی صورت میں بھی کھڑا نہیں ہونا چاہیے کہ جیت کی صورت میں جمہوریت کے تحت حکمرانی کرے اور نہ ہی کسی امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے۔ جمہوریت میں قوانین اسمبلیوں میں بیٹھے مرد و خواتین کی مرضی اور خواہشات کے مطابق بنتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ،
وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ
"اور یہ کہ (آپﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں"(المائدہ:49) ۔
خلافت میں، جو کہ اسلام کا نظام حکمرانی ہے، کوئی قانون نافذ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ قرآن و سنت سے اخذ کردہ نہ ہو۔
مسلمانوں کو حقیقی تبدیلی کی تلاش میں غلط جگہ پر اب مزید اپنی توانائی سرف نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان کیسے ایک ایسے نظام سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں، امن، تحفظ اور خوشحالی کی امید لگاسکتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کی بنیاد پر کھڑا ہے؟ مسلمانوں کو لازمی اپنی پوری توانائی نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے ذریعے دین اسلام کے نفاذ کے لیے لگا دینی چاہیے۔ جمہوریت کے گڑھے میں گرنے کی جگہ مسلمانوں کو حقیقی تبدیلی لانے کے لیے حزب التحریر کے شباب کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے جو کہ پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں، وہ پاکستان جو اگست 1947 میں اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔
سرمایہ داریت اور استعماری قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے جمہوریت کا خاتمہ کرو
26 دسمبر 2017 کو سینٹ آف پاکستان کے چیرمین میاں رضا ربانی نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ایف پی سی سی آئی)کے زیر اہتمام اکتالیسویں برآمدات ایوارڈز کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ بیرونی قرضے کے ساتھ جڑے قرض دینے والوں کی شرائط سے قومی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، "اگر ہمارے پاس برآمدات اور بیرونی قرضوں میں سے کسی ایک کو چنّے کا اختیار ہو تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ ہمیں برآمدات کی جانب جانا چاہیے تا کہ اپنی خودمختاری کا تحفظ کرسکیں"۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرضے حاصل کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جب انہیں واپس کرنے کا وقت آتا ہے تو ہمیشہ اصل قرضہ تو دور کی بات محدود وسائل میں سے ان کا سود ادا کرنے کے لیے پیسے نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ عالمی سطح پر قرض دینے والے ہمیشہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جس سے ہماری خودمختاری پر حرف آتا ہے۔ وہ ہمارے نظام پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح پاکستان جیسے ممالک اس عمل کے دوران اپنی خودمختاری پرسمجھوتہ کر بیٹھتے ہیں۔
جمہوریت کے داعی رضا ربانی ایک واضح حقیقت بیان کررہے ہیں۔ استعماری طاقتوں کے ساتھ معاشی اتحاد کا مقصد ہمیشہ کمزور اقوام کا استحصال کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل نے پاکستان کی معیشت کو پچھلی کئی دہائیوں سے مفلوج کررکھا ہے۔ لیکن صرف استعماری قرضوں کا خاتمہ کافی نہیں اگر جمہوریت اپنی جگہ قائم و دائم رہتی ہے۔ جمہوریت سب سے پہلے انسانوں کے بنائے قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سود اور استحصالی قرضے لینا جائز ہوتا ہے بلکہ وہ سرمایہ داریت کو نافذ کرتی ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں محدود کردیتی ہے۔ سرمایہ داریت میں معاشی نظام استعماریوں اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا ستحصال ہوتا ہے۔ "ملکیت کی آزادی" کے نام پر یہ نظام استعماریوں اور ان کے ایجنٹوں کو عوامی اثاثوں کامالک بننے اور پھر ان اثاثوں کے فوائد عوام کو مہنگے داموں فروخت کر کے ان کا استحصال کرتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ توانائی کا بحران اس کی ایک واضح مثال ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس اور اس کے ساتھ ساتھ تیل و گیس کے شعبے کی نجکاری کی گئی اور ان کا انتظام استعماریوں، ان کی کمپنیوں اور ان کے ایجنٹوں کے حوالے کردیا گیا۔
خلافت کے نظام میں عوامی اثاثوں کی کبھی نجکاری نہیں کی جاسکتی کیونکہ عوام ان کے اصل مالک ہوتے ہیں جبکہ ریاست عوام کی جانب سے ان کا نظم و نسق سنبھالتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
"مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ"(احمد)۔
اس حدیث کے مطابق توانائی کے تمام وسائل، جس میں تیل و گیس کے کنویں، کوئلے کی کانیں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس شامل ہیں، کی کبھی بھی نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا خلافت ان عوامی اثاثوں پر کبھی کوئی ٹیکس نہیں لگائے گی اور نہ ہی اسے کمائی کاذریع بناکر عوام کا ستحصال کرے گی۔ اس کے نتیجے میں توانائی اور تیل و گیس کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی، عوام کو زبردست آسانی میسر ہو گی اور مفلوج صنعتی اور زرعی شعبے کو نئی زندگی مل جائے گی۔ اس کے علاوہ اسلام نے یہ لازم کیا ہے کہ ان عوامی اثاثوں کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بیت المال میں رکھا جائے اور رنگ، نسل، زبان، اور مذہب سے بالاتر ہو کرخلافت کے تمام شہریوں پر خرچ کیا جائے۔
خلافت کے محاصل بھی سرمایہ دارانہ نظام سے بالکل مختلف ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ
"ٹیکس جمع کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا"(احمد) ۔
اس حدیث کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں پر اپنی مرضی سے ٹیکس عائد کرے بلکہ خلافت کے خزانے کے لیے صرف وہی ٹیکس عائد کیے جاسکتے ہیں جن کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس وجہ سے حکمران کو اپنی مرضی سے ٹیکس عائد کرنے کا "حق" نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان کا موجودہ نظام جمہوری اور آمرحکمرانوں کو اس بات کا مکمل اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے محاصل جمع کریں جس کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ پچھلے ساٹھ سال میں استعماریوں کے ایجنٹ حکمرانوں نے مسلسل ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے یہاں تک کہ آج مجموعی محاصل کا آدھے سے زیادہ حصہ جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر بلواستہ ٹیکسوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ اسلام میں لوگوں کی نجی املاک اور دولت کی ایک حرمت ہے اور ریاست خلافت اپنی شہریوں کو "ٹیکس" کے نام پر ان کی دولت سے انہیں محروم نہیں کرسکتی۔ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سے محاصل مناسب ہیں اور کن سے یہ محاصل لیے جائیں گے۔ اسلام کا اپنا منفرد محاصل جمع کرنے کا نظام ہے جس میں عوامی اثاثے جیسا کہ تیل و گیس، زرعی پیداوار جیسا کہ عشر اور خراج، اور صنعتی اشیاء پر زکوۃ شامل ہے۔ان محاصل کے ذریعے اتنے وسائل جمع ہوجاتے ہیں کہ ان سے لوگوں کے امور کی دیکھ بحال، ان کا استحصال کیے بغیر ،کی جاسکتی ہے۔