بسم الله الرحمن الرحيم
- 12 رمضان
- مشکلات کے دوران کس طرح بہادر ابھر کر سامنے آتے ہیں!
-
ایک مسلمان کے لیے بہادری کی صفت حاصل کرنا قابل عزت صفات میں سے ہے، چاہے وہ خلافت کا داعی ہو ، اسلا می طرز زندگی کے احیاء کے لیے جدوجہد کررہا ہو، یا فوج کا مخلص افسر ہو جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینے والا ہو۔بہادری طاقت کی نشانی ہے اور امت کے کھوئے ہوئے عزت و مرتبے کو بحال کرنے کا انحصار اسی صفت پر ہے۔ بہادری ان لوگوں کی صفت ہوتی ہے جو مضبوط ہوتے ہیں اور جو دوسرے لوگوں یا صورتحال سے متاثر نہیں ہوتے، وہ جو کمزور نہیں ہوتے نا ہی تذبذب کا شکار ہوتے ہیں، اور وہ جو مال و دولت اور جان کے جانے سے نہیں ڈرتے۔ ۔ انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،
كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ وَهْوَ يَقُولُ«لَنْ تُرَاعُوا، لَنْ تُرَاعُوا»
“رسول اللہ تمام لوگوں میں ( شکل وصورت اور کردار کے لحاظ سے) بہترین تھے اور سب سے بڑھ کر سخی تھے اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ کے لوگ خوفزدہ ہوگئے (ایک آواز کی وجہ سے)، لہٰذا لوگ اس آواز کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جگہ آپﷺ پہنچ چکے تھے اور کہہ رہے تھے: ڈرو مت، ڈرو مت” (بخاری)