بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز یکم جون 2018
۔ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے کیونکہ جمہوریت اپنی جگہ برقرار رہے گی
- پاکستان و افغانستان سے امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے
- صرف ریاست خلافت ہی پاکستان کی معیشت کو سودی بینکاری سے پاک کرسکتی ہے
تفصیلات:
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے
کیونکہ جمہوریت اپنی جگہ برقرار رہے گی
26 مئی 2018 کو صدر ممنون حسین نے ملک میں 25 جولائی کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 مئی 2018 کو صدر مملکت کو ایک سمری بھیجی تھی جس میں عام اتنخابات 25 سے 27 جولائی کے درمیان کرانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ایوان صدارت میں موجود ذرائع نے ڈان اخبار کو بتایا کہ صدر ممککت نے 25 جولائی کو عام انتخابات کرانے کی سمری پر دستخط کردیے ہیں۔ اگرچہ حکمران طبقے انتخابات کے انعقاد کے حواے سے پُرجوش ہیں اور اس معاملے پر انہوں نے غیر معمولی سرگرمی کامظاہرہ کیا ہے لیکن عوام اس حوالے سے اتنے پُرجوش نہیں ہیں۔ لوگوں کا جوش کم ہوچکا ہے اور زیادہ تر ووٹ ڈالنے کے لیے "بدترین میں سے بہتر" یا "دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی"کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ ان کے سامنے جو امید وار ہیں وہ کمزور ہیں۔ ایک طرف پاکستان مسلم لیگ-ن ہے جو اس بات کا پرچار کررہی ہے کہ کرپشن پاکستان میں ایک حقیقت ہے اور اسی لیے اس کا سپریم اور نااہل قائد یہ بات کہتا پھر رہا ہے کہ "مجھے کیوں نکالا؟"۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ہے جو دوسروں کو کرپٹ کہہ کر مکمل طور پر مسترد کررہی ہے لیکن کئی کرپٹ سیاستدانوں کو محض اس لیے اپنی جماعت میں قبول کررہی ہے کیونکہ وہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیساکہ شاہ محمود قریشی جس نے چالاک زرداری کی حکومت میں اس کے ساتھ کام کیا اور جہانگیر ترین جس نے سازشی مشرف کی حکومت میں اس کے ساتھ کام کیا۔
درحقیقت پی ٹی آئی اور پی ایل ایل-ن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یعنی کے جمہوریت کے جو کہ انسانوں کابنایا نظام ہے۔ جب تک ہم جمہوریت کے نظام حکمرانی میں رہتے رہیں گے ہمیں ایسی ہی پریشان کن صورتحال اور فضول امیدواروں کا سامنا کرتے رہیں گے۔ پاکستان میں مخلص اور وفادار مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جمہوریت کرپشن کا آلہ ہے جس کی وجہ سے کرپٹ ایسے اس نظام سے چمٹ جاتے ہیں جیسے مکھیاں شہد پر۔ تمام کرپٹ جمہوریت کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے قانون سازی ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور وہ صحیح اور غلط ، یا حلال و حرام کا تعین کرتے ہیں۔ یوں جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کرپٹ لوگ قانون سازی کے ذریعے اپنی کرپشن کو "حلال" اور قانونی بنا لیں۔ سترہویں ترمیم ، قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) اور اقتصادی اصلاحات کے تحفظ کا ایکٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل یہ کرپٹ عناصرجوش و خروش سے ہمارے گھروں اور علاقوں کادورہ کرتے ہیں اور ہمارے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جمہوری نظام میں داخل ہونے کے بعد وہ ہم سے منہ پھیر لیتے ہیں اور انتخابات میں اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
پچھلی سات دہائیوں سے جمہوریت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں کرپشن برقرار رہے اور اگر جمہوریت باقی رہی تو اگلی سات دہائیوں تک کرپشن کو ہی یقینی بنائے گی۔ پانامہ پیپرز نے یہ واضح کردیا ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ روس سے لے کر جنوبی امریکہ تک ،جمہوریت پوری دنیا میں کرپشن کو یقینی بناتی ہے۔ کئی دہائیوں سے جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی رہی ہے کہ کرپٹ حکمران لوٹ کھسوٹ کی دولت کو بیرونِ ملک قائم کمپنیوں (آف شور کمپنیوں) میں اس طرح چھپا سکیں کہ نہ تو اس کا پتہ چلے ، نہ ہی اس کی تحقیق ہو سکے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ چل سکے۔ یہ جمہوریت کی بدولت ہی ہے کہ وسائل سے مالامال ممالک کے عوام بھی غریب اور ستم رسیدہ ہیں جبکہ ان کے حکمران انتہائی امیر اور کرپٹ ہیں۔لہٰذایہ بات بالکل واضح ہے کہ جمہوریت کے ذریعے کرپشن کے خاتمے کی کوشش کرنا لاحاصل ہے ،بلکہ یہ ایسا ہی ہے کہ بیماری کا علاج بیماری سے کیا جائے۔
پاکستان و افغانستان سے امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے
پاکستان و افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیروں نے اس بات پر اتفا ق کیا کہ امن ان کا مشترکہ ہدف اور و قت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کو افغانستان-پاکستان ایکشن پلان برائے امن اور یکجہتی پر اخلاص اور مضبوطی سے عمل درآمد کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔دونوں ممالک اس بات پر متفق 27 مئی 2018 کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والی ملا قات میں ہوئے۔ افغان وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے پاکستان کے وعدے اور غیر متزلزل ارادے کا اعادہ کیا جس کے تحت افغانستان کے ساتھ مختلف مشترکہ امور پر تعاون میں اضافہ کیا جائے گا جس میں سیاسی، سفارتی،فوجی،انٹیلی جنس ، علا قائی رابطوں، معاشی، تجارت،ثقافت اور لوگوں کے درمیان روابط شامل ہیں۔
جب تک خطے سے امریکی موجودگی ختم نہیں کی جاتی پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے لیے کوئی امن نہیں ہوسکتا۔ افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ سے اس کے خلاف شدید مزاحمت کھڑی ہوئی جس نے پاکستان و افغانستان کو ایک بحران میں مبتلاکردیا۔ پاکستان میں امریکہ کی نجی فوجی اور انٹیلی جنس موجودگی نے ہماری افواج پاکستان پر "فالس فلیگ" حملے کروائے تا کہ انہیں امریکی حملے کے خلاف کھڑی ہونے والی مزاحمت سے لڑنے پرمجبور کیا جائے۔ یہ امریکی فوجی موجودگی ہے جس نے بھارت کوافغانستان میں غیر معمولی موجودگی رکھنے کامو قع فراہم کیا اور اب وہ وہاں سے بیٹھ کر بلوچستان اور پاکستان بھر میں حملے کروارہا ہے۔ اب پاکستان و افغانستان میں موجودامریکی ایجنٹس بات چیت اور مزاکرات کاماحول بنا رہے ہیں تا کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کو سیاسی ڈھال فراہم کی جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا ہے،
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَمِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّالْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
"وہ جو ایمان والو کوچھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں ، کیا ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟ یقیناً عزت تو ساری کی ساری اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہے"(النساء:139)۔
مسلمانوں کے لیے صرف ایک ہی یقینی راستہ ہے جس پر چل کر انہیں امن مل سکتا ہے اور وہ ہے اسلام اور نبوت کے طریقے پر اس کی خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سیاسی لحاظ سے خلافت استعماری طا قتوں سے تعلقات ختم کردے گی اور موجودہ مسلم ممالک کو یکجا کرے گی، ان کے درمیان موجود سرحدوں کو ختم کرے گی جس نے انہیں اپنے دشمن کے سامنےتقسیم ا ور کمزور کررکھا ہے۔ معاشی محاذ پر خلافت استعماریوں سے قرضے لینے کے سلسلے کو ختم کردے گی اور امت کے زبردست معاشی وسائل کو ایک بیت المال کے تحت جمع کردے گی۔ اور خلافت مسلم علا قوں سے امریکی موجودگی کا خاتمہ کردے گی اور مسلم افواج کو یکجا کرے گی جو ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اور طا قتور فوج ہو گی۔
صرف ریاست خلافت ہی پاکستان کی معیشت کو سودی بینکاری سے پاک کرسکتی ہے
28 مئی 2018 کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی ) کے صدر غضنفر بلور نے ایک بیان میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے دو ماہ کے لیے جاری ہونے والی مالیاتی پالیسی کے تحت پالیسی شرح سود کو 6.5فیصد تک بڑھانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس اضافے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی شرح سود میں اضافہ مختلف بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاروں کی شمولیت کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گا اور معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا جبکہ افراط زر میں اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ اس سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اہم شرح سودمیں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ کرکے اسے 6.5فیصد کردیا جس کے بعد شرح سود تین سال کی بلند ترین شرح پر کھڑی ہے۔ جنوری 2018 کے بعد شرح سود میں یہ دوسرا اضافہ ہے جب مرکزی بینک نے شرح سود کو 5.75 فیصد سے بڑھا کر 6 فیصد کیا تھا۔ اس طرح مرکزی بینک نے موجودہ مالی سال کے دوسرے حصےمیں شرح سودمیں 75 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے۔
شرح سودمیں اضافہ معیشت کو متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ بینکوں میں پیسے رکھوانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جبکہ قرضوں کی لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کو حقیقی معیشت یعنی صنعت و زراعت اور دیگر پیداواری شعبوں سے دور لے جاتا ہے اور لوگ سودی بینکاری میں سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں جس سے صنعتی اور معاشی شرح نمو پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود میں اضافہ افراط زر میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔ حکومت مقامی سطح پر سود پر قرضے سرکاری و غیر سرکاری بینکوں اور مرکزی بینک سے لیتی ہے۔ حالیہ سالوں میں حکومت نے مرکزی بینک سے بھاری قرضے لیے ہیں جسے خسارے کو پیسے میں بدلنا بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس طریقے سے مالیاتی حد بڑھتی ہے جس سے مارکیٹ میں پیسے کی رسدمیں اضافہ ہوتا ہے اور بلا آخر عمومی افراط زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اس عمل کو اکثر "نوٹ چھاپنا" بھی کہاجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ حکومت نے ایک ایسے نقصاندہ عمل کو اختیار کیا ہے جب اکثر مغربی حکومتوں نے شرح سودمیں کمی کی ہے تا کہ حقیقی معیشت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو۔ صنعت و زراعت کے لیے مہنگے شرح سود پر قرضوں کی وجہ سے ہمارے یہ شعبے بیرونی ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں کم شرح سود پر قرضے مہیا ہورہے ہوتے ہیں۔
ریاست خلافت معیشت کو سود کی لعنت سے پاک کردے گی۔ سود دولت کے ارتکاذ کا باعث ہوتا ہے اور دولت چند نجی بینکاروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور اس طرح دولت حقیقی معیشت سے دور چلی جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے،
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
"وہ کہتے ہیں کہ سود تجارت ہی کی شکل ہے۔ لیکن اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے"(البقرۃ:275)۔
تو اسلام نے عمومی افراط زر سے ایک عام آدمی کو بچایا ہےجبکہ حقیقی معیشت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست خلافت نجی بینکوں کے "کاروبار" کو ہی ختم کردے گی۔ ریاست خلافت بیت المال کے ادارے کو قائم کرے گی جو سود سے پاک قرضے فراہم کرے گا اور ایک متحرک معیشت کے لیے ایندھن فراہم کرے گا ، زرعی و صعنتی شعبوں کے لیے پیسے فراہم کرے گا اور اس طرح ہماری مصنوعات عالمی سطح پر بہت بہتر مقابلہ کرسکیں گی۔