بسم الله الرحمن الرحيم
نارملائزیشن کے منصوبے کو آگے بڑھانا
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
واضح طور پر حکومت بھارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر نارملائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے پر پوری سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ کام کررہی ہے۔ اس نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ اگر بھارت ایک قدم اٹھائے گا تو وہ دو قدم اٹھائی گی۔ اس حکومت نے کارتارپورراہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ کو عوت دی جس کو ہندو ریاست نے مسترد کردیا ۔ اس حکومت نے یکترفہ طور پر یہ اعلان کردیا ہے کہ جنگ کسی صورت نہیں کی جائے گی جبکہ بھارت نے ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ کولڈ اسٹارٹ پرمبنی ایٹمی فوجی حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اس کے علاوہ یہ حکومت ہندو تہواروں پرمبارک باد پیش کرتی ہے جبکہ بھارتی آرمی چیف نے سختی سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان امن چاہتا ہے تو سیکولر ریاست بنے۔ اس حکومت نے بھارت سے افغانستان کے مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی التجاء بھی کی ہے جہاں بھارت پہلے سے ہی کافی اثرورسوخ اور موجودگی رکھتا ہے اور اسے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس حکومت نے بھارت کے ساتھ کھلی تجارت اور سرحدوں کو کھولنے کی بات کی ہے جبکہ دوسری جانب اس پر یہ الزام بھی لگا یا جاتا ہے کہ وہ پاکستا ن کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔
بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کے عمل میں یکترفہ مفاہمت کی جارہی ہے جبکہ اسے ایک کامیابی کی صورت میں پیش کیا جارہاہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے ا قدامات کا مثبت جواب نہ دے کر بھارت بین الا قوامی برادری کے سامنے بے نقاب ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت لوگوں کو یہ یقین دلارہی ہے کہ بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کا عمل خطے میں امن و خوشحالی کیلئے اہم ہے۔
بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کی پالیسی پر نظر ثانی اور اس پالیسی سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ نارملائزیشن کی پالیسی پر چلتے ہوئے حکومت بھارت، علا قائی صورتحال اور بین الا قوامی برادری کے کردار کو بالکل بھی صحیح طور پر نہیں سمجھ رہی۔ اگر حکومت ان معاملات کو سمجھ پاتی تو وہ ہتھیار پھینک دینے کی اس پالیسی سے دستبردار ہو جاتی۔
بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کی پالیسی سے دستبرداری کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ بھارت یقینی طور پر مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی درندگی اور گجرات میں بے جے پی کی سپرستی میں مسلمانوں کا قتلِ عام اس کی مسلم دشمنی کا منہ بولتاثبوت ہے۔ اس بات کا مزید ثبوت یہ ہےمودی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کررہا ہے۔ پاکستان کو بنجر بنادینے کے لیے مودی کا ڈیموں کی تعمیر کامنصوبہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے۔ بھارت کا اپنی سرحدوں میں موجود لوگوں کو انصاف اور خوشحالی فراہم کرنے کی عدم صلاحیت مزید اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ وہ خطے میں وسیع کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یقیناً پاکستان کا کئی دہائیوں سے بھارت کو ایک جارح ریاست کے طور پر دیکھنا بغیر کسی وجہ اور دانش کے نہیں تھا۔ متکبرانہ طور پر دہائیوں پر پھیلی اس پالیسی سے مکمل دستبرداری اور اس کے بالکل الٹ پالیسی کواختیار کرنا تا کہ "نیا پاکستان" بنایا جائے، حکومت کی خطے میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے منافقت اور عدم اخلاص پر مبنی رو یے کی عکاس ہے۔
جہاں تک خطے کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس کا تعین خطے کے لیے امریکی پالیسی سے ہوتا ہے جسے خطے کی ریاستیں نافذ کرتی ہیں۔ مودی کی قیادت میں بھارت امریکی منصوبے میں مکمل طور پر شریک ہے جس کے تحت بھارت کو علا قائی طا قت بنایا جانا ہے تا کہ وہ چین اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوسکے۔ امریکا نے افغانستان اور بنگلادیش میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے بھارت کی اسٹریٹیجک گہرائی میں اضافہ اور پاکستان کو کمزور کردیا ہے۔ امریکا پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپنا اثروسوخ استعمال کررہا ہے تا کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی طا قت کے جواب میں پاکستان کوئی مزاحمت نہ کرپائے اور بھارت کی زیرِ قیادت خطے میں اپنا ثانوی کردار قبول کرلے۔ بھارت کی حقیقت کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات کیسے ممکن ہے کہ اس کی بالادستی خطے کے لیے امن اور خوشحالی کا باعث ہو گی؟
جہاں تک بین الا قوامی برادری کا تعلق ہے تو وہ کسی کام کی نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی بین الا قوامی برادری وجود ہی نہیں رکھتی۔ بین الا قوامی برادری کی حقیقت یہ ہے کہ یہ پانچ بڑی طا قتوں:امریکا، روس، فرانس، برطانیہ اور چین، کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے اور اس میں سے بھی چین بین الا قوامی سطح کی نہیں بلکہ صرف خطے کی بڑی طا قت ہے۔ جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہ تمام کی تمام پانچ بڑی طا قتیں اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہیں اور وہ اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرتی رہتی ہیں اور اس حوالے سے ان پانچ طا قتوں کے مفادات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ اگرچہ چین کی بھارت کے ساتھ سخت دشمنی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے ملک میں موجود مسلمانوں کے خلاف اس کا رویہ انتہائی سخت اور سفاکانہ ہے جہاں وہ با عمل مسلمانوں کو کیمپوں میں قید کردیتا ہے۔ چین وحشی میانمار حکومت کی حمایت کرتا ہے اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ خطے کے مسلمانوں کے خلاف چین دشمنی رکھتا ہے۔
خطے کے مسلمانوں کا تحفظ اور خوشحالی صرف اسلام سے منسلک ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس کی بدولت یہ خطہ صدیوں تک تر قی و خوشحالی کے دور دیکھتا رہا۔ اور یہ صرف اسلام ہی ہے جو اس خطے کے ماضی کو حال بنا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے حوالےسے پاکستان کا کلیدی کردار ہے کیونکہ وہ اگر پوری امت کی نہیں تو یقینی طور پر خطے کی سب سے طا قتور مسلم ریاست ہے۔ دشمنوں کو مراعات،رعایتیں دینے اور التجائیں کرنےکی بجائے پاکستان کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام کا نقطہ آغاز بننا چاہیے، جو مسلمانوں کے مفادات کے حصول کو یقینی بنائے گی اور ان کے تحفظ کے لیے اپنی فوجی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کرے گی تا کہ اس کے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملایا جاسکے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَإِنِ ٱسْتَنصَرُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ فَعَلَيْكُمُ ٱلنَّصْرُ
"اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے"(الانفال:72)۔