الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تیمور بٹ کی نوید بٹ کے متعلق گواہی

 

اکثر لوگوں کے لیے نوید بٹ، ایک متاثر کن رہنما، سیاست دان اور حزب التحریر کے ترجمان ہیں۔ لیکن میرے لیے وہ میرے دل کے سب سے قریب اور پیارے ماموں ہیں۔ اگرچہ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں لیکن ہمارے خاندان میں وہ ہم سب کے رہنما ہیں ۔ چھ بہنوں کے بھائی ہونے کے ناطے ان سے ان کے تمام بھانجے اور بھانجیاں بہت محبت کرتے ہیں ۔ میں کزنز میں عمر کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہوں اور میں نے ان کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ خاندان میں جس کسی سے بھی ملتے ، وہ اسے رہنمائی فراہم کرتے کہ وہ کس طرح اسلام پر بہترین طریقے سے چل سکتا ہے اور کن چیزوں میں اُسے اپنے اندر بہتری پیدا کرنی ہے۔ میں حیران ہوتا تھا  کہ ان کے پاس اتنا وقت اور توانائی کہاں سے آتی تھی کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے سوچتے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے خاندان کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ذمہ داری اپنے سر لی ہوئی تھی جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ تحریم آیت 6میں فرمایا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ

"مومنو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں"

 

یہ وہی تھے جنہوں نے میرے تاریک دنوں کو اسلام کی روشنی سے منور کردیا تھا۔ یہ 1990کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب وہ امریکا سے ہمیں ملنے کے لیے پاکستان آئے جبکہ ابھی ان کی تعلیم جاری تھی۔ مجھے اب بھی ان کی مجھ سے شدید محبت کی بنا پر کی جانے والی نصیحت یاد ہے  جب انہوں نے کہا، "تم عمر کے اس حصے میں ہو جہاں تم اپنے مستقبل کا تعین کرو گے"۔ ان کی اسلام سے شدید محبت بہت واضح تھی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ مجھے بتاتے تھے  کہ وہ اسلام کے حوالے سے  رہنمائی کی تلاش میں ہیں اور مختلف اساتذہ کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کررہے ہیں اور جونہی وہ کسی نتیجے پر پہنچیں گے تو وہ مجھے  بھی بتائیں گے۔ پھر وہی تھے جنہوں نے مجھے نصیحت کی کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام اور اسلام کے نفاذ کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر جدوجہد کرو۔

 

جب وہ اس عظیم مقصد کے حوالے سے کام کرنے کے لیے پاکستان واپس آئے تو انہوں نے اس بات کو ایک مرکزی نقطہ بنالیا اور پورے خاندان کو اس بات سے آگاہ کیا۔ وہ خوشی اور غمی کے ہر موقع کو خاندان والوں سے ملاقات کے لیےاستعمال کرتے تھے اور صورتحال کے مطابق پیغام پہنچاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ خاندان والے عید کی چھٹیوں میں جب سیر و تفریح کے لیے نتھیا گلی جارہے ہوتے تھے تو وہ اس دورے کو اپنے پورے خاندان تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے ایک بہترین موقع کے طور پر دیکھ رہے ہوتے تھے۔ وہ اکثر لاہور سے اسلام آباد آتے رہتے تھے تا کہ خاندان والوں سے ملاقات کے لیے تقاریب منعقد کی جائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مندرجہ ذیل حکم کے مطابق ان تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جائے،

وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَۙ

"اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو"الشوریٰ  26:214))

 

ان کے اغوا کے بعد مجھے ان کے کچھ دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کے پاس ان کے حوالے سے مجھے بتانے کے لیےکئی باتیں تھیں۔ ان کے ایک دوست نے 1990کی دہائی کے اوائل میں لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں گزرے وقت کی یادیں بیان کیں۔ اس دوست نے بتایا کہ نوید کو ہم"نیڈو"کہتے تھے، اور اس کے متعلق سب کا یہ خیال تھا کہ وہ ایک ماڈل بنے گا۔ پھر اس دوست نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس نے اپنے لیے کیسا بہترین میدان منتخب کیاہے۔ ایک اور دوست نے، جو کہ اسی دور سے تعلق رکھتا تھا، بتایا کہ نیڈو خون کے عطیات جمع کرنے کی مہم کی قیادت کیا کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ نوید ساتھی طلبا ء کو اس مقصد کے لے اس قدر مجبور کیا کرتا تھا کہ کچھ تو اس کے مسلسل پوچھنے سے بچنے کے لیے اس سے چھپنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اخلاص اور دوسروں کے درد کو محسوس کرنا ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے یہی بتایا کہ وہ کیسے ان کے ساتھ مسلسل رابطہ کرتا رہتا تھا تا کہ انہیں اسلام اور خلافت کا پیغام پہنچا سکے۔ اُن کے دوست جس طرح سے ماموں کا ذکر کرتے ہیں اُس سے یہ بات واضح تھی کہ ان کے دلوں میں نوید بٹ کی کس قدر عزت و احترام موجود ہے۔

 

وہ جب بھی اپنے دوستوں، خاندان والوں اور خود سے پیار کرنے والوں سے ملتے تھے، تو یہ سب ہمیشہ ان سے یہی کہتے تھے کہ اپنا خیال رکھو اور خلافت کے اپنے اس مشن میں محتاط رہو۔ ایسی تمام نصیحتوں کا جواب وہ جس پر اعتماد مسکراہٹ سے دیتے تھے وہ مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ ان کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل اور ان کی ایمانی طاقت ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کو مطمئن کردیتی تھی۔ وہ اپنے طریقہ کار میں ضدی نہیں تھے لیکن حق بات پر مضبوطی سے کھڑے رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ ان کی بھی عزت کرتے رہے جو بزرگ تھے اور اس خطرناک مقصد کو اختیار کرلینے کی وجہ سے ان پر تنقید کیا کرتے تھے اور وہ ہمیشہ انہیں بتاتے کہ ہمارے پیارے رسول اللہاور ان کے صحابہؓ نےتو اس سے بھی بہت زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کیا تھا۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اس آیت کی مثال تھے،

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَۖ ۚ

"سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے " (یونس، 10:62

 

ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے خاندان کے کئی افراد کی زندگیوں میں پیدا ہونے والے خلا کو کوئی پُر نہیں کرسکتا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم انہیں یاد نہ کرتے ہوں اور ہماری آنکھیں آنسوؤں سے نم نہ ہوجاتی ہوں۔ ان کے بچے، تین بیٹے اور ایک بیٹی، باپ کے سائے سے محروم رہ کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں جبکہ وہ  یتیم  نہیں  ہیں۔ اور ہم کیا بات کریں اُن کی بیوی کی زندگی کے بارے میں کہ انہوں نے آج تک صبر اور امیدکا دامن نہیں  چھوڑا اور وہ کہتی ہیں کہ جلد ہی ہم خوشیاں منائیں گے جب نوید واپس آئیں گے۔ بہت کچھ ہے بتانے کو کہ ہم نے اس آٹھ سال کے عرصے میں انہیں کس کس طرح یاد کیا اور ان کی کمی کو محسوس کیا۔ اس رمضان، میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں ان کے گھر والوں سے ملا دیں اور میں جنت میں ان کی رفاقت چاہتا ہوں کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پیارے بندوں میں سے ایک ہیں۔ اور ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے نوید بٹ، ہمارے پیارے ماموں کو اغوا کیا ہے، میں اپنا مقدمہ اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی عدالت میں پیش کرتا ہوں۔

 

Last modified onبدھ, 20 مئی 2020 23:54

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک