الأربعاء، 04 جمادى الأولى 1446| 2024/11/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ریاست خلافت کے تحت صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہی معاشی عدل و انصاف مہیّا کر سکتا ہے

 

دور ِ حاضر کے انسان کی زندگی میں معاشی پہلو نہایت درجہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب یہ اتنا اہم ہو گیا ہے کہ قومیں اپنی اقتصادی طاقت کو اپنی قوت کا معیار سمجھتی ہیں کہ جو دنیا کے معاملات کے متعلق فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ بعض ملکوں کا تو یہ ماننا ہے کہ سابقہ سویت یونین(USSR) کی ناکامی اور بالآخر اُس کی ٹوٹ پھوٹ بھی اس کی اقتصادی کمزوری کے سبب ہوئی جس کے نتیجے میں وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوت ہونے کی حیثیت کھو بیٹھا۔ بین الاقوامی سیاست اور اقتصادیات کا آپس میں اس قدر گہرا ربط و تعلق ہے کہ استعماری طاقتیں کمزور ریاستوں کے وسائل کو لوٹ لینا چاہتی ہیں اور اس کےلئے اُنھوں  نے GATTجیسی مختلف تنظیمیں تیار کر رکھی ہیں۔

 

اس کی سب سے اہم مثال امریکہ ہے جس کا ساری دنیا پر بے پناہ اثر و رسوخ، اس کی اپنی بے انتہااقتصادی قوت کے باعث ہوا ہے کیونکہ امریکہ ساری دنیا کے کمزور ممالک کے سرمائے پر قابض ہے جس سے وہ تجارت، صنعت اور اس سے متعلقہ تمام معاشی سرگرمیوں پر اپنا شکنجہ کس سکتا ہے اور اُنھیں اپنے مفاد کے مطابق طے کرتا ہے۔

 

موجودہ دور میں ہم حالیہ مالی بحران جیسے بحرانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اورمالیاتی، مانیٹری Monitoryاور ہر طرح کی گلوبلائیزیشن،نجی کاری ،معیشتی اتحاد اور یونینزUnionsبھی آج کے دور کےمظاہر Phenomenaہیں۔ دنیا کے بڑے حلیفی اتحاد جیسے یورپی اتحاد ی اے یو(EU)،آٹھ بڑے صنعتی ممالک کا اتحاد جی ایٹ (G8)، نارتھ ساؤتھ کانفرنس،بحر ِاوقیانوس کے ممالک کی سربراہی کانفرنس اور متعدددیگر اقتصادی کانفرنسیں اورGATT سبھی اس رجحان کی مثالیں ہیں۔ پھر ان سب کے علاوہ ملٹی نیشنل Multinational اور ٹرانس نیشنلTransNationalکمپنیاں  بھی اسی پہلو کا مظہرہیں۔

 

تاہم سرمایہ دارانہ نظا  م (Capitalism)کی وجہ سے ہونے والی متعدد تباہیوں کے باوجود مغربی ممالک کو اس نظام کی کامیابیوں اور طرزِ زندگی پریقین ہے اور وہ اس نظام کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہیں ، ان کی آنکھیں اِس نظام کی چمک دمک سے چندھیا  چکی ہیں اور انہوں نے اپنے اذہان کو اس کی تہذیب اور نظاموں سے بھر رکھا ہے اور وہ اندھا دھند اس کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو اس نظام کا کوئی حریف ہے اور نہ ہی اس کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے۔ اس خیال نے انہیں صحیح موقف کو پہچاننے سے عاری کر دیا ہے اور وہ غیر جانب داری سے سوچنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔

 

سرمایہ دارانہ نظام پرایک گہری نظر رکھنے والا مبصّر صاف دیکھ سکتا ہے  کہ وہ لوگ جو اس فکر کی زد میں آگئے ہیں، اُنھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے

 

ولھم  اٰذان لا یسمعون بھا٘ ولھم  اعین  لا یبصرون بھا٘لھم قلوب لا یفقھون بھا ٘

"ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں"(سورۃ الاعراف: 179)

 

اگر اس سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو صرف موجودہ مالیاتی بحران ہی نہیں بلکہ جب سے یہ نظام وجود میں آیا ہے اس وقت سے اب تک اس نظام کی تمام ترناکامیاں دکھائی دیں گی۔ ایک شخص اس بات کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ اس نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہیں اور اس کی مثال سلیمانی عصاءکے مانند ہے جو صرف اس وجہ سے کھڑا ہے کہ کسی نے اسے ہلایا نہیں !

 

معزز حاضرین !

آپ نے اس سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کے بارے میں سناکہ کس طرح اس کی تباہی اور ناکامی کی جڑیں خود اسی نظام میں پائی جاتی ہیں، خاص کر جب اسے کسی بحران کا سامنا ہو تو کیسے یہ لڑکھڑانے لگتاہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ حکومتیں کس طرح اس نظام کی ناکامی سے گھبرا کر اس کے اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کررہی ہیں، جو خود اس نظام کے ان اصولوں سے متناقض ہے ، جو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ حکومتیں معاشی سرگرمی میں مداخلت کریں۔ یہ نظام فری مارکیٹ اور لبرل اکانومی کی بنیاد پر استوار ہے اوراس نظام کا سب سے پرانا اور اصل (کلاسیکل) موقف یہی ہے کہ معاشی مارکیٹ حکومتی دخل اندازی سے بالکل پاک ہو۔ یہ موقف ایک ”اَن دیکھے“ ہاتھ کی بات کرتا ہے جوخود بخودمعیشت کے توازن کو برقرار رکھتا ہے اورایڈم اسمیتھ (Adam Smith)کے بقول اس نظریہ کا نام Laissez Faireہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ حکومتیں بازار سے چھیڑ چھاڑ یا اس میں دخل اندازی نہ کریں۔ جب 1929 ءکے بحران نے اپنا سر اُٹھایا تو مشہور ِ زمانہ ماہرِ اقتصادMilton Keynesنے اس کلاسیکل نظریہ میں تبدیلی کی پُر زوروکالت کی اور کہا کہ حکومتیں مارکیٹ اکانومی میں نہ صرف مداخلت کر سکتی ہیں بلکہ یہ اُن کی ذمہ داری بھی ہے، اور حکومتوں نے پھر مداخلت بھی کی۔ پھر پچھلی صدی میں اسّی کی دہائی کے دوران یہ نظریہ تبدیل ہوا اور حکومتوں نے مارکیٹ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور آج پھردوبارہ وہی صورت ِ حال ہے کہ اپنے نظام کے بنیادوں اصولوں کے برخلاف حکومتیں بازار میں مداخلت کرنے پر مجبور ہیں۔ ماضی کی طرح اس باربھی مغربی ماہرین ِ اقتصاد اور مفکرین حضرات نے حکومتوں کی جانب سے مداخلت کی نہ تو مخالفت کی اور نہ ہی کوئی مزاحمت پیش کی۔ اس کے برعکس اُنھوں نے اس مداخلت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ حکومتی مداخلت سے معیشت کو بحران کی زد سے بچایا جا سکتا ہے۔ جبکہ در حقیقت مغربی مفکرین کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام موجودہ بحران سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے، لیکن وہ اب بھی اس کی حمایت کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہی نظام بہترین نظام ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر اور کون سا نظام ہونا چاہیے؟ یہ لوگ یا تو اسلام کے اقتصادی نظام سے واقف نہیں ہیں یا پھر اس نظام سے واقف نہ ہونے کا تائثر دے رہے ہیں ۔ یہ اپنے اوپر نافذ نظام کاموازنہ کمیونزم کے بوسیدہ اور ناکام نظام سے کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی سب سے بہتر ہے۔ جب تک یہ اپنے نظام کا فاسد اور ناکام کمیونزم سے مقابلہ کریں گےتو اُن کا یہ موقف بجا ہوسکتا ہے، لیکن اگر وہ اس مسئلہ کو اس مسئلے کی حقیقت کی روشنی میں طے کریں، تو خواہ وہ مذہب ِ اسلام کو تسلیم نہ بھی کرتے ہوں، وہ یقیناً اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہی ایسی معیشت کو جنم دے سکتا ہے جو بحرانوں اور تباہیوں سے پاک ہو۔ بے شک اسلام کا یہ عظیم اقتصادی نظام اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے جو خالق بھی ہے اورمدبر بھی، جو سب کچھ جاننے والا ہے اور اپنی مخلوق کی ہر حاجت کا علم رکھنے والاہے اوراس بات سے بھی آگاہ ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کیا چیز خیر کا باعث ہے۔ وہ لوگ باآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اسی نظام میں انسان کےلئے خوشحال زندگی کی ضمانت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 

اَلَا يَعلَمُ مَن خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيفُ الخَبِير

"بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے"(سورۃ الملک: 14)

 

چونکہ دنیا کے حکمران طبقے نے جو پوری عالمی معیشت پر قابض ہیں اور اپنی پالیسیوں کو نافذ کرتے اور کرواتے ہیں،نیز سیاست دانوں نے چونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کو فراموش کرکے اپنی نظر کو بس دو ہی نظریات تک محدود کررکھا ہے، یعنی ایک کمیونزم جو ناکام ہو چکا ہے اور دوسرے ناکامی کے دہانی پر کھڑا سرمایہ دارانہ نظام تواُن کی یہ کوتاہ نظری  ان کا اپناہی کا نقصان کرے گی نہ کہ اسلام کے نظام کا جو کہ بہرحال حق کو بیان کرتارہے گا اور اس بات کا منتظر رہے گا کہ ایک دن اسلام کی ریاست ِ خلافت پھر اللہ کے حکم سے معرض ِ وجود میں آجائے اور اس نظام کے احکام پھر دنیا بھر میں اسی طرح جاری اور نافذ کیے جائیں جیسے یہ ریاست اس سے پیشتر تیرہ سو سالوں تک کرتی رہی تھی۔ تب ہی انسان ایک خوشحال اور محفوظ معاشی زندگی بسر کر سکیں گے۔

معزز حاضرین !اس کانفرنس کا مختصر سا وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو کما حقہ ادھر بیان کر دیا جا ے، لہذٰا میں یہاں صرف اس کے ایک عمومی خاکے پر اکتفاء کروں گا کہ جس سے اسلام کے معاشی نظام کی جھلک سامنے آ   جائےاور یہ واضح ہو جائے کہ اسلام کا اقتصادی نظام ہی وہ تنہا نظام ہے جو انسانیت کے لیے خوشحال زندگی کا ضامن اور بحرانوں سے نجات کی واحد سبیل ہے۔

 

اسلام کی معاشی پالیسی :

معیشت کا انتظام کرنا ان احکامات کا مطمع نظر ہے جو انسان کے معیشتی مسائل کے حل سے متعلق ہیں۔ اسلام کی معاشی پالیسی اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ انسان کی تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل ہو اور فرد کو ایک مخصوص انسانی معاشرے کے رکن ہونے کی حیثیت سے اس قابل بنایا جائے یا وہ اس کا مجاز ہو کہ اپنی زندگی میں بنیادی ضروریات کے علاوہ مزیدآسائشیں حاصل کرسکے جو اس کی دسترس میں ہوں۔ اسلام کی معاشی پالیسی کا مقصد محض یہ نہیں ہوتا کہ بس اُس ملک کی مجموعی پیداوار یعنی GDP-GROSS DOMESTIC PRODUCT کو بڑھا دینے پر اکتفاءکرکے بیٹھ جایا جائے اور اسے اس بات سے کوئی سروکار نہ ہو کہ کیا ملک کا ہر فرداس بڑھی ہوئی پیداوار اور آمدنی میں اپنا حصہ وصول کر رہا ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسلامی نظام ِ معیشت اس پر بھی ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ جاتا کہ پورے ملک کا بحیثیت ِ مجموعی معیارِ زندگی بڑھا دیا جائے اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود بخود اس نئے بڑھے ہوئے معیار ِ زندگی سے اپنا حصہ اپنی زور ِ بازو کے بل بوتے پر حاصل کریں، بلکہ اس بات کا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ہر شخص کو اُس کا حق اور جائز حصہ مہیا ہو۔  اسلام کی معاشی پالیسی انسان کے ایک مخصوص معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے اس کے بنیادی مسئلہ کو حل کرتی ہے اور اسے اس قابل بنانے پر توجہ دیتی ہے کہ فرد خود اس قابل ہو کہ وہ اپنی زندگی کے معیارمیں اضافہ کرسکے اور اپنے مخصوص طرزِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے آپ کوخوشحال بنا سکے۔ اسلامی اقتصادیات کا یہ امتیازی پہلو ہے جو اسے کسی بھی دوسرے نظام سے جدا ایک منفرد حیثیت دیتا ہے۔

 

نسل ِ انسانی کےلئے معاشیات کے احکام وضع کرنے میں اسلام کی توجہ فرد پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ فرد خوشحال ہونے کی قابل بنے اور وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے  کہ وہ فرد اس چیز کوایک مخصوص معاشرے میں ایک مخصوص طرز ِ زندگی کے تحت حاصل کرے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں شریعت کے احکام اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر فرد ِ واحد، جو ریاست ِ اسلامی کا باشندہ ہو ، اپنی تمام بنیادی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرے ، یہ بنیادی ضروریات، خوراک، لباس اورمکان ہیں۔ اسلام اسے مندرجہ ذیل انداز سے ممکن بناتا ہے:

۱۔اسلام یہ فرض قرار دیتا ہے کہ ہر شخص جو کام کرنے کی قابلیت رکھتا ہو، وہ محنت کرکے اپنی بنیادی ضروریات خود اپنے لیے اور اپنے زیر ِ کفالت خاندان کےلیے مہیا کرے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 

فَامشُوا فِى مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزقِهٖ‌ وَاِلَيهِ النُّشُورُ

"اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا (دیا ہو) رزق کھاؤ اور تم کو اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے"(سورۃ الملک: 15) ‏

 

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ  ﷺنے سعد بن معاذؓ  سے مصافحہ کیا اور دیکھا کہ اُن کے ہاتھ بہت کھردرے اور سخت ہیں، آپ ﷺ نے اُن سے دریافت کیا تو سعدؓ نے بتایا کہ وہ کدال سے محنت کرتے ہیں تاکہ اپنے اہل ِ عیال کی پرورش کرسکیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اُن کے ہاتھ چومے اور فرمایا کہ یہ وہ دو ہاتھ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ اسی طرح عمر ؓ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو قرآن کے قاری کہے جاتے تھے، یہ لوگ اپنا سر جھکائے بیٹھے تھے۔ آپ ؓنے اُن کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ یہ مُتَوَکِّلُون ہیں یعنی اللہ پر انحصار کرتے ہیں۔ عمر ؓنے فرمایا نہیں،یہ تو مُتَاَکِّلُون یعنی کھانےوالے لوگ ہیں جو دوسروں کا مال کھاتے ہیں ، تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاوں کہ متوکلون کون ہوتے ہیں؟ لوگوں نے کہا:جی ہاں، عمرؓنے فرمایا،متوکل وہ ہے جو بیج کو زمین میں بوتا ہے اور اللہ عزّ و جل پر توکل و انحصار کرتا ہے۔

 

اسی طرح والد اور اگر وہ محنت نہیں کر سکتا تو اُس کے وارث پر اس کی کفالت واجب کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

وَعَلَى المَولُودِ لَهٗ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعرُوفِ‌لَا تُكَلَّفُ نَفسٌ اِلَّا وُسعَهَالَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌبِوَلَدِهَا وَلَا مَولُودٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖوَعَلَى الوَارِثِ مِثلُ ذٰلِكَ

"اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے"(سورۃ البقرۃ: 233)

 

اس کے علاوہ اسلام بیت المال پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی کفالت کرے جن کا کوئی قانونی وارث نہ ہو جس پر اُن کی اعانت واجب ہوتی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

((الاِمام راعٍ وھو مسؤول عن رعیتہ))

"امام (خلیفہ) گلہ بان ہے جو اپنی رعایا پر ذمہ دار ہے"۔

 

مزید آپ ﷺ فرمایا:

 

((من ترک مالاً فلوورثتہ ومن ترک کلاً فاِلینا))

"اگر مسلمانوں میں سے کوئی فوت ہوجائے اور کچھ مال چھوڑ جائے ، تو وہ مال اُس کے ورثاءکےلیے ہے اور اگر اس حال میں فوت ہو کہ پیچھے قرض چھوڑا ہو، تو ہم اُس کے ذمہ دار ہیں"

 

اس کے علاوہ آپ ﷺ فرمایا:

 

((من ترک مالاً فلیرثہ عصبتہ من کانوا، ومن ترک دیناً او ضیاعاً فلیاتنی فاَنا مولاہ))

" اگر کوئی مسلمان مال چھوڑ کر فوت ہوجائے تو یہ مال اُس کے جو بھی وارث ہوں اُن کےلیےہے، اور اگر کوئی قرض اور عیال چھوڑ جائے، تو یہ معاملہ میرے پاس لایا جائے، میں اس کا ذمہ دار ہوں"۔

 

اس طرح اسلام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر فرد ِ واحدایک انسان ہونے کی حیثیت سے اپنی  خوراک، لباس اور مکان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے۔ پھر اسلام نے انسان کو رغبت بھی دلائی کہ وہ زندگی کی آسائشوں اورتعیشات میں سے جس قدر اُس کی دسترس میں ہوں اپنا حصہ حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰہِ الَّتِی اَخرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ)

"آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے کپڑوں کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے"( الاعراف:32)۔

 

اور مزید فرمایا:

 

(وَکُلُوامِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلاَلاً طَیِّباً)

"اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں اِن میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ"(المائدہ:88)۔

 

یہ اور قرآن مجید کی دیگر آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ شریعت اس بات پر زوردیتی ہے کہ انسان اِن اقتصادی احکام کے دائرے کے اندر مال کمائے اور اس مال سے لطف اندوز ہو۔ اسلام نے انسان کو رغبت دلائی کہ وہ محنت کرے، مال کمائے اور اس مال سے لطف اندوز ہو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں معاشی خوشحالی کا ماحول پیدا ہو، لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ہو اور وہ لوازمات اور آسائشوں کو حاصل کرنے کے قابل ہوں۔

 

ایک مسلمان کو مال کمانے کےلئے اسلام نے اصول و ضوابط وضع کیے ہیں جو ملکیت کی کیفیت سے متعلق ہیں اور اسلام نے اِن قواعد و ضوابط کو پیچیدہ نہیں بنایا بلکہ  اِنھیں نہایت سہل و سلیس رکھا ہے۔ اس طرح اسلام نے ملکیت کے قانون وضع کیے،اور ملکیت کی منتقلی سے متعلق اُن معاہدوں کی حد بندی کی جو جائز ہیں۔ اسلام انسان کے ملکیت حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا بلکہ اس نے انسان کو اس راہ میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کےلیے راہ فراہم کی ہے اور اس طرح یہ انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بناتا ہے۔ پھر اسلام نے انسان کو کمانے کی جانب راغب کردینے پرہی اکتفاءنہیں کرلیا، یا اپنی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اسے صرف اُس کی کمائی کے دائرے میں مقید بھی نہیں کیا ، بلکہ بیت المال کےلیے واجب رکھا کہ ریاست بیت المال سے اُن لوگوں کی کفالت کرے جو اپنی بنیادی ضروریات کےلیے کمانے کے قابل نہ ہوں۔ بخاری میں عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:((الاِمام الذی علی الناس راع وھو مسؤول عن رعیتہ))" وہ امام (خلیفہ) جسے لوگوں پرمقرر کیا گیا ہو، وہ گلہ بان ہے اور ان لوگوں پرذمہ دار ہے جو اس کی رعیت میں ہوں"۔ مزید آپﷺ  فرمایا:

 

((من ولاہ اللّٰہ شیئاً من امر المسلمین فاحتجبدون حاجتھم و خلتھم و فقرھم احتجب اللّٰہ عنہ دون حاجتہ و خلتہ و فقرہ))

" جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنایا جائے اور وہ اُن کی ضروریات کو پورا کیے بغیر اور اُن کی تنگدستی کودور کیے بغیر اُنھیں چھوڑ دے، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے اس کی ضروریات پورا کیے بغیر اور اس کی تنگ حالی رفع کیے بغیر چھوڑ دے گا"۔

 

اس تعلق سے علی ؓکی وہ نصیحت جو اُنھوں نے مصر کے والی مالک ابن حارث الاشترؓ کو کی تھی، وہ ریاست کے صحیح کردار کےلیے مثال ہے۔ آپؓ نے والی کو ٹیکس عائد کرنے اور وہاں کے دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کا حکم بھیجا اور لوگوں کی صحیح تربیت، نیز ضرورت کے وسائل بنانے کےلیے کہا تھا، فرمایا کہ تمہاری نظر زمین کےلیے وسائل تیار کرنے پر زیادہ ہونا چاہئے نہ کہ ٹیکسوں کی وصولی پر،جو شخض ٹیکس تو وصول کرلے لیکن وہاں کی ضروریات پر دھیان نہ دے اور زمین کو برباد کرے اور لوگوں کو فقیر بنائے، اُس کی حکومت خاتمے کے قریب ہے۔

 

اس کے علاوہ اسلام نے تقوی کے کاموں میں تعاون پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

 

وَفِى اَموَالِهِم حَقٌّ لِّلسَّآٮِٕلِ وَالمَحرُومِ

٘"اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور سوال سے بچنے والوں کا حق ہے"(الذاریات:19 ) ۔

 

رسول اللہ ﷺ نے بھی اس پر زور دیا اور فرمایا:"ایسے لوگ جن کی صبح ایسے ہوتی ہو کہ اُن کے درمیان کوئی بھوکا رہ گیا ہو،اُن پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہوگی"۔ مزید تاکید کےلیے فرمایا:((لیس الممن الذیبیت و جارہ الی جنبہ جائع))" وہ شخص مومن نہیں جس کا پیٹ بھراہو اور اُس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے"۔ رسول اللہ ﷺنے اُن لوگوں کی تعریف و مدحت فرمائی جو قحط اور تنگ حالی کے دنوں میں اپنے مال میں لوگوں کو شریک رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:"جب بنی اشعر کے لوگوں کے پاس جنگ کے وقت غذاءکی کمی ہوجاتی ہے، یا مدینہ میں غذائی قلت ہوجاتی ہے، تو یہ لوگ اپنا سارا مال ایک چادر میں جمع کرکے اور ایک کٹورے میں بھر کر آپس میں بانٹ لیتے تھے،لہٰذا یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور میں اِن میں سے ہوں"۔

 

مال و ثروت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر :

عام طور پر مال و دولت تین امور کے لیے استعمال ہوتاہے :جمع کرکے ذخیرہ کرنے کےلیے،کسی مصرف میں لگانے کےلیے یا خرچ کرنے اور اُس کے وسیلے سے خرید وفروخت کرنے کےلیے۔

 

اسلام نے اِن میں ہر ایک استعمال کےلیے اس طرح احکام وضع کیے ہیں تاکہ مال و دولت انسان کی بھلائی کےلیے استعمال ہو، وہ خود اس سے فائدہ اُٹھائے اور دوسرے بھی مستفید ہوں۔ ان احکام میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ انسان محض دولت کا غلام بن کر نہ رہ جائے جس سے خود اُس کا اور دوسرے انسانوں کا نقصان ہو۔

مثال کے طور پر انسان اپنا گھر تعمیر کرنے ، کچھ خریداری کرنے یا حج کے سفرکی غرض سے مال جمع کرتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر وہ انسان اس مال پر سال گزرنے اور نصاب ِ زکوٰة پورا ہونے کی صورت میں زکوٰة ادا کردے۔ البتہ اگر کوئی شخص محض ذخیرہ اندوزی کرنے کےلیے مال و دولت جمع کرتا ہے تو اسلام نے اس کی ممانعت کی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِ پاک ہے:

 

(وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّھَبَ وَالفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللّہِ فَبَشِّرھُم بِعَذَابٍ اَلِیمٍ)

"اور جو لوگ سونے چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے"(التوبہ:34)۔

 

اسلام نے مال کو کسی مصرف میں لانے کی غرض سے جمع کرنے اور اسے خرچ کرنے کے بھی احکام وضع کیے، مال کو صدقات میں یا اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرنے کی اجازت رکھی اور اس پر زکوٰة واجب کی، اللہ کی راہ میں جہاد پر خرچ کرنے کو روا رکھا، اور حرام جگہوں میں جیسے شراب،نشہ اور جوئے میں خرچ کرنے سے روک دیا۔

پھر جہاں تک اس دولت کو تجارتی مصرف میں لگانے کا تعلق ہے ، تو اسلام نے دو مختلف پہلو وں سے اس کو منظم کیا :

سب سے پہلے اسلام نے اجرت اور قیمتوں کے پیمانے متعین کیے جو نقد رقم ہوتی ہے اور اس کو صرف سونے اور چاندی تک مقید کر دیا۔دوسرے اسلام نے صحیح اور قابل ِ قبول شرعی معاملات کی واضح طور پرحد بندی کی جیسے کمپنیوں کی بناوٹ اور ساخت کیا ہو، اور اس تعلق سے یہ پانچ قسمیں متعین کر دیں: الوجوہ؛المفاوصہ؛المضاربہ؛الابدان اور العنان۔ اس کے بعد وہ ضوابط وضع کیے جو کرائے داری،تجارت،زراعت اور کاشت کی زمین پر کاشت میں حصہ داری کی شکلیں،فارورڈ ٹریڈنگ،مالی معاملات، ایجنسیوں کے اصول معاملات کی نیابت وغیرہ کے متعلق ہیں۔ ممنوعہ اشیاءکےلیے صنعتی مشینوں اور کارخانوں پر پابندی عائد کی کیونکہ مشینوں کو اُن کے ذریعہ بننے والی اشیاءکے حوالے سے دیکھا گیا ہے،لہٰذا جو اشیاءممنوعہ ہوں اُن کے کارخانے بھی ممنوعہ ہوں گے۔ اس تعلق سے شراب بنانے کے کارخانے ممنوعہ ہیں کیونکہ شراب حرام ہے۔ ملکیت ِ عامہ کے دائرے میں آنے والی اشیاءکی صنعت کاری کو انفرادی ملکیت میں دینا جائز نہیں رکھا جیسے پٹرول نکالنا اور اس کی صفائی وغیرہ کے کارخانے،کیونکہ ایسی صنعت کاری ملکیت ِ عامہ میں آتی ہیں اور اِن کا انفرادی ملکیت یا تحویل میں دیا جانا جائز نہیں، یا ایسی مشینیں جو کانوں سےمعدنیات نکالیں اور اس سے خام مال تیار کریں، کیونکہ یہ مواد دراصل ملکیت ِ عامہ کے دائرے کے ہیں۔ ایسی صنعتیں ملکیت ِ عامہ ہی میں ہوسکتی ہیں جن کی ملکیت عوامی ہو اور ریاست اُن پر نگراں رہ کر اُس سے ہونے والی آمدنی کو اُس پر ہونے والے اخراجات نکالنے کے بعد نفع کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔ یہ صورتِ حال جو اشیاءکے تعلق سے ہے، اس کا اطلاق سہولیاتservice  پربھی ہوتا ہے ۔

 

شریعت ِ اسلام نے ایسے معاملات کو ممنوعہ قرار دیا ہے جو اُن کمپنیوں کے حوالے سے ہوں جن کی ساخت شریعت کی وضع کردہ ساخت سے میل نہ کھاتی ہو جیسےلمیٹیڈ کمپنیاں،Riskیا انشورنس کمپنیاں اور مزید یہ کہ اُن کے حصصShares اور دیگر مالیاتی مصنوعات (Financial Products) ۔ اس کے علاوہ سود پر مبنی  قرض اور قرض کی کمپنیاںmortagage companies، کریڈٹ کارڈ، جو بینک اپنے گاہکوں کو دیتا ہے تاکہ وہ اُن کارڈز کے توسط سے خرید اری کریں اور بینکوں کو سود ادا کریں، یہ تمام بھی ممنوع ہیں۔ پھر اسلام نے ذخیرہ اندوزی اور اجارہ داری یا Monopolies کو ممنوع رکھا ہے جہاں اشیاءکو چھپا کر رکھا جاتا ہے تاکہ قلت پیدا کر کے اُنھیں بڑھی ہوئی قیمتوں پر فروخت کیا جا سکے۔

پھر اسلام نے اُن اشیاءکی خرید و فروخت کی اجازت نہیں دی جو بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہوں اور اُس نے اُن اشیاءکو اپنی تحویل میں نہ لے لیا ہو،جیسا کہ کموڈیٹی ایکس چینج کا ضابطہ ہوتا ہے جہاں اشیاءکو متعدد بار خریدا اور بیچا جاتا ہے جبکہ نہ تو بیچنے والے کے پاس اس کے مالکانہ حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ اشیاءاُس کی تحویل میں منتقل ہو چکی ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ خریدنے والے کی تحویل میں دی جاتی ہے۔

اسی طرح اسلام نے سونا ، چاندی اور نقد ی کی موجل ادائیگی کی شکل میں خرید و فرخت کرنے سے روک دیا ہے، اِن میں لین دین فوری ادائیگی کی صورت ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ نیز سٹہ بازاری (Speculative Trading) کو بھی منع کیا ہے جس کے ذریعہ اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ حقیقی تجارت نہیں ہوتی۔

 

اسلام نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرگرمیوںاور اسٹاک ایکس چینج کے وجود کو ممنوع قرار دیا ہے اور فقہہ کے ابواب میں ان کے تفصیلی احکام وارد ہوئے ہیں جن میں تین کلیدی اہمیت کے حامل ہیں :

 

اُن اشیاءکی تجارت پر پابندی جو بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہوں،جو بیچنے والے کی تحویل میں نہ ہوں اور اُن چھ اشیاءکی ایک دوسرے کے درمیان تجارت کی ممانعت جو فوری ادائیگی اور فوری منتقلی کی بنیاد پر نہ ہوں، اور اگر ایک ہی شئے کی تجارت کا معاملہ ہو تو اِن کی مقدار میں مساوات اور فوری منتقلی نہ ہو ۔ یہ چھ اشیاء ہیں:سونا، چاندی،گندم، جَو،کھجور اور نمک۔

سود کی ہر ایک شکل کو حرام قرار دیا گیا ہے اور نتیجتاً بینکوں کا اسلام میں وجود نہیں ہوتا،یہاں تک کہ اُن بینکوں کا بھی نہیں جو فی زمانہ اسلامی بینکوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جو ایسی اشیاءفروخت کرتے ہیں جو خود اُن کی ملکیت میں ہوتی ہی نہیں ۔ یہ بینک اپنے اثاثوں کی سرمایہ کاری پبلک لمیٹیڈ کمپنیوں اور مکان و اراضی کی رہن کمپنیوںمیں کرتے ہیں ۔ ان کی بجائے اسلامی ریاست میں مخصوص محکمہ ہوگا جو تجارت،صنعت کاری اور کاشت کاری کےلیے ایسے قرضے مہیا کرے گا جن پر کسی قسم کا سود نہیں ہو گا۔

 

اسلام میں زرِّ مبادلہ کا نظریہ :

رسول اللہ ﷺ  نے سونے اور چاندی کونقد کا معیار(Monetary Standard) قرار دیا اور یہ متعین کر دیا کہ یہی دو اصناف اشیاءاور اجرت کا اندازہ لگانے کا پیمانہ ہوں۔ تمام لین دین اور تجارت اِن ہی کی بنیاد پر طے ہوا کرتی تھی اور اس کے وزن کی اکائیاں یہ ہوتی تھیں:اوقیہ یا Ounce ،درہم،دانق جو درہم کا آٹھواں حصہ ہے،قیراط،مثقال اور دینار۔ یہ تمام عہد ِ رسالت میں معروف تھے، لوگ اِنہی کو استعمال کرتے تھے اور یہ بات قطعی طورپر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِن کے استعمال کو منظور فرمایا۔ تمام تجارت اور مہر کی رقم اسی سونے اور چاندی کے پیمانے پر ناپی جاتی تھیں اور یہ بات صحیح احادیث کی روشنی میں ثابت شدہ ہے اور اِن کے اوزان اہل ِ مکہ کے ایک خاص پیمانے پر ناپے جاتے رہے، اور خودرسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وزن کا پیمانہ وہ ہے جواہل ِ مکہ کا پیمانہ ہے۔ نقد کے پیمانوں یا اکائیوں کی نسبت سے، اسلام میں کرنسی کے پیمانے کی بنا پر دور ِ حاضر میں یہ اوزان یوں ہوں گے:1دینار= 4.25 گرام سونااور 1 درہم= 2.975 گرام چاندی۔ اس طرح شریعت کے حکم میں نقد کا پیمانہ سونا اور چاندی مقررہے اور کرنسی کے اس معیار کے تحت کبھی کوئی مالیاتی بحران پیدا نہیں ہوا جیسا کہ آج کا عالم ہے کہ ایک ملک کی کرنسی سونے اور چاندی کے بجائے کسی اور ملک کی کرنسی سے منسلک ہے۔ یہ صورتحال جب  شروع ہوئی جب بریٹن ووڈزBretto Woods  معاہدے کے تحت سونے کو تنہامعیار کی حیثیت سے ختم کیا گیا اور اس کی جگہ سونے کے ساتھ صرف ڈالر کو بھی جوڑ دیا گیا۔ یہ واقع دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا ہے۔  پھر 1970کی دہائی میں اس کو بھی تبدیل کرکے سونے کی معیاری حیثیت یکسر ختم کردی گئی اور مکمل طور پر ڈالر نے اس کی جگہ لے لی۔ اب اس کے نتیجے میں امریکہ کی معیشت میں اگر ذرا بھی خرابی پیدا ہو تو اس کے اثر سے ساری دنیا کی معیشت زلزلے کی زد میں آجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ملکوں کےزر مبادلہ کے ذخائرForex Reserves اگر مکمل طور پر نہیں تو ایک بڑی حد تک ڈالر میں ہیں اور اس ڈالر کی حقیقی قدر Intrinsic Value در حقیقت اُس کاغذ اور اس کی چھپائی سے بھی کمتر ہے جس پر یہ ڈالر چھپا ہوا ہے۔ حال یہ ہے کہ جب یورپی اتحاد کی کرنسی یورو Euro بھی منظر ِ عام پر آئی اور ملکوں نے اسے خریدنا شروع کیا تب بھی ڈالر اپنی عروجی حیثیت پر برقرار رہا۔

لہٰذا جب تک سونے کو اس کی اصلی حیثیت پر بحال نہیں کر دیا جاتا، ایسے اقتصادی بحران ختم نہیں ہوں گے۔ اور بات اس حد تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ امریکی معیشت میں ذرا بھی خرابی ہوگی تو تمام ملکوں پر اس کا خاطر خواہ اثر مرتب ہوگا۔ امریکہ اپنے بحران سے نمٹنے کےلئے جو بھی اقدام کرے گا ، تمام عالم اس سے متاثر ہوگا۔ یہ بات صرف ڈالر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سونے کے سوا کسی بھی کاغذی کرنسی Fiat Currency کی یہی داستاں ہوگی۔

 

سود کی شد ّت سے مذمت :

نصوص ِ شرع میں سود کی حرمت نہایت شدید الفاظ میں وارد ہوئی ہے اور یہ حرمت قطعی الدلالہ بھی ہے اورقطعی الثبوت بھی۔ اس تعلق سے اس میں کسی قسم کے اجتہاد اور تاویل کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ سود کا لین دین فی الحقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ اسے اعلانِ جنگ کے مترادف ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِن كُنتُم مُّؤمِنِينَ۔فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ۚ۔‏

"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اورجو سود باقی رہ گیا ہے، وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے، تو اللہ سے اور اس کے رسول ﷺ سے لڑنے کےلئے تیار ہو جاؤ"(البقرة: 278,279) ۔

 

سود کی حرمت اس قدر شدید ہے کہ رسول اللہ ﷺنے سود اور اس کا لین دین کرنے والوں لعنت فرمائی،حدیث ِ صحیح میں آتا ہے کہ:

 

((لعن رسول اللّہ آکل الربا وکلہ و شاھدیہ))

"حضور اکرم ﷺنے سود کھانے والے، ادا کرنے والے ، سودی معاہدہ لکھنے والے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت کی" (مسلم)۔

 

اس لعنت سے مراد یہ ہے کہ ملعون شَخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوا۔ سود کے نظام پر مبنی اس سرمایہ داری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد عوام کا استحصال کرنا ہے جو لوگوں کی بدحالی اور مصائب پر منتج ہوتا ہے۔ اس طرح ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجانا آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔ اب تو یہ بات مغرب کا سرمایہ دار بھی سمجھنے لگا ہے کہ موجودہ بحران کے پسِ پردہ اصل محرک بے پناہ سودی شرح ہے اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ اس شرح کو کم از کم کیا جائے تا کہ اقتصادی سرگرمی پیدا ہو۔ کاش کہ یہ لوگ حق کو پہچانتے اور اس نظام سے یکسر تائب ہو جاتے!

 

ان تمام اسباب سے اسلام کی ریاست ِ خلافت کا نظام بینکوں اور سودی مالیاتی اداروں سے پاک ہوگا جو موجودہ سرمایہ داری کے علمبردار اور اس کی شناخت ہیں۔ مسلمانوں کےلیے ایک پر امن اقتصادی زندگی کے تین پہلو ہیں۔

 

پہلا پہلو: اس کے تحت مسلمانوں کی توجہ پیداواری معیشت یا حقیقی معیشت کی جانب دلائی جائے گی جس سے ریاست کی پیداوار میں اضافہ ہو اور حقیقی مقابلہCompetition ہو اور بازاروں میں تیزی آئے جو کمیونسٹ /سوشلسٹ نظام کے سبب سست روی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس طرح ریاست خلافت کی کاروباری مارکیٹ ایک خوشحال مارکیٹ ہو گی۔

 

دوسرا پہلو: یہ معاشی نظام ریاست کے مسلم اور غیر مسلم عوام کو سود کے سبب اُن کے مال میں خسارے سے محفوظ رکھے گا۔ اسلامی نظامِ معیشت  افراط ِزر، مہنگائی،کوختم کردے گا جس کے سبب لوگ اپنے اثاثے رہن رکھتے ہیں کہ اس پر اُنھیں کچھ سودی رقم مل جائے گی جس سے افراطِ زر، مہنگائی، کا کچھ اثر زائل ہو۔ پھر بینک اِن پیسوں سے مقامی اور عالمی سطح پر دوسروں کو سودی قرض دے کر اُنھیں فقیر بناتے ہیں اور خوب منافع حاصل کرتے ہیں۔ نیز مقروض افراد اِن قرضوں کے بوجھ تلے ان کی ادائیگی میں اپنی عمر کا طویل عرصہ بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرنے والے کسی بھی ملک میں بے بسی اور ابتری کی حالت دیکھی جاسکتی ہے جہاں بینک معیشت کے ہر شعبہ کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے اور ایک خدشہ بنا رہتا ہے۔ یہ تمام ناگہانی اندیشے اور خدشات ایک اسلامی ریاست میں موجود نہیں ہوں گے اور نہ ہی ایسے بے پناہ امیر لوگ جو دوسروں کا مال ہڑپ کرکے اس مقام کو پہنچے ہوں۔مسلم اور غیر مسلم عوام کے مال کی حفاظت اس نظام کی ذمہ داری ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور جہاں سود کو اور سودی بینک کاری کو حرام قرار دیا ہے۔ اِن کا چھپا ہوافریب بے نقاب  کیا جائے گا اور اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔

 

تیسرا پہلو: کئی سرمایہ داریانہ بینکوں کے سامنے آپ نے لوگوں کی قطاریں دیکھی ہوں گی جو کسی ممکنہ خدشہ کے پیش ِ نظر وہاں سے اپنی رقم واپس لینے کےلیے کھڑے نظر آرہے ہیں، لیکن انہیں پتہ چلتا ہے کہ بینک دیوالیہ ہوگیا اور اُن کی رقوم دھواں ہو گئیں ، اب اِن افراد کا نہ تو کوئی پرسان ِ حال ہے نہ سنبھالنے والا، یہ مایوس اورمفلس ہو چکے ہوتے ہیں۔ اسلامی ریاست کی حقیقت اس کے برخلاف ہوگی کیونکہ وہاں سودی کاروبار کے یہ مرکز یعنی بینک ہی نہیں ہوں گے۔ اس طرح عوام کی رقم سود اور سودی نظام کی نا گہانیوں سے محفوظ رہتی ہے۔ ریاست ِ خلافت میں سودی بینکوں کی حفاظت کےلیے کوئی قانونی شق نہیں اور نہ ہی اُن باطل کمپنیوں کی حفاظت کےلیے جو خود تو دیوالیہ ہونے کا اعلان کرکے ختم ہو جاتی ہیں لیکن اُن کا فساد قائم رہتا ہے۔

اس طرح سود کو قطعی طور پر حرام قرار دے کر اسلام نے ایسی اقتصادی آفات اور مصائب کا داخلہ اسلامی ریاست میں یکسر بند کردیا ہے اور اس طرح مسلمانوں کی اقتصادی زندگی اِن غیر یقینی خطرات اور اندیشوں سے محفوظ کردی ہے۔

تاہم اسلام نے مسلمانوں کو رغبت دلائی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو قرضے دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب کوئی مسلمان کسی اور مسلمان کو دو بار قرض دیتا ہے تو یقیناً  اس کے لیے ایک صدقہ (کا ثواب ) ہے"۔یہ بات محض انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاست ِ خلافت کے اقتصادی محکمہ میں ایک مخصوص دفتر ہوگا جو کاشت کاروں اور تاجروں کو قرضے مہیا کرے گا جن پر کوئی سود نہیں ہوگا۔ اس طرح اُنھیں نفع بخش روزگار مہیا ہوگا۔ ایسے قرضوں کا مقصد نفع کمانا نہیں ہوگا کیونکہ ریاست ِ خلافت کوئی ”ٹیکس ریاست“ نہیں بلکہ ”دیکھ بھال کرنے والی ریاست“ ہوتی ہے۔

 

اسلام میں تقسیم ِدولت اور ملکیت کا تصور:

اسلامی احکام میں دولت کی تقسیم میں ایک منفرد قسم ہے جو اس کی امتیازی حیثیت ہے اور یہ ہے ملکیت ِ عامہ۔ ریاست ِ خلافت میں تمام املاک تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے:انفرادی ملکیت ؛ملکیت ِ عامہ اور ریاستی ملکیت۔ شرعی احکام کے مطابق اِن کی حفاظت ریاست ِ خلافت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

 

ملکیت ِ عامہ:

اس قسم میں محض سڑکیں اور شاہراہیں ہی نہیں آتیں،بلکہ وہ تمام چیزیں بھی آتی ہیں جو اس حدیث میں شامل ہیں ۔

 

المسلمون شُرَکَاءفی ثلاث:الماءوالکلاء والنَّار

"تمام مسلمان تین اشیاءمیں حصہ دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)"۔

 

یہاں آتش یا آگ سے مراد وہ تمام ایندھن بھی ہیں جو صنعت کاری، مشینوں اور گیس کارخانوں میں استعمال ہوتے ہیں جیسے گیس اور کوئلہ۔ یہ تمام ملکیت ِ عامہ میں داخل ہیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے ابیض بن حمال کو نمک والی ایک زمین کی ملکیت اس وجہ سے دینے سے منع کردیا تھا کہ اُس زمین پر نمک کثیر اور ناقابل ِ حساب مقدار میں تھا۔ اس حدیث میں ناقابل ِ حساب کےلئے لفظ "العُد" آیا ہے جس سے مراد ایک ایسا منبع ہے جوختم ہونے پر پھر بھر جائے۔ اس ملکیتِ عامہ میں وہ تمام معدنیات شامل ہوتی ہیں جو خواہ تانبے،لوہے اور سونے وغیرہ کی مانند ٹھوس Solid شکل میں ہوں؛یا پٹرول وغیرہ کی طرح سیال (liquid) ہوں یا پٹرولیم گیس کی طرح ہوں۔اس صنف میں وہ معدنیات بھی شامل ہوتی ہیں جو با آسانی کھودی جاتی ہوں جیسے سرمہ اور یاقوت، یا وہ زمین کے شکم میں ہوں اور با آسانی نہ ملتے ہوں جیسے زیر ِ زمین کانیں، یہ تمام ملکیت ِ عامہ کا ہی حصہ ہوتی ہیں اور ریاست ِ خلافت اُن کی مہتمم ا ور نگراں ہوتی ہے، وہی اُن کی کھدائی، صفائی فروخت اور تقسیم کا اجراءکرتی ہے۔ پھر ریاست ِخلافت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر ایک مسلمان کو اس ملکیت ِ عامہ سے اُس کا جائز حصہ پہنچے۔ جس طرح کمیونسٹ نظام میں تھا کہ یہ تمام املاک ریاستی ملکیت ہوتی تھیں، لیکن  ریاست ِ خلافت میں اس کے برعکس یہ عوامی ملکیت ہی رہتی ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کا حال یہ ہے کہ یہ ملکیت ِ عامہ افراد یا کمپنیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو اِن وسائل پر قابض و غاصب ہوتے ہیں اور اس سبب خود اتنا مال بٹور لیتے ہیں جو بعض ممالک کی کُل حیثیت سے بھی متجاوزہوتا ہے۔

 

ملکیت ِ عامہ کی نوعیت ریاستی ملکیت سے مختلف ہوتی ہے جسے حاکم اپنے تصرف اور دانست سے ریاست کے مفاد پر خرچ کرتا ہے۔۔۔جبکہ ریاست ِ خلافت میں ملکیت ِ عامہ کی املاک مسلمانوں کی ہوتی ہیں اور اِن سے حاصل ہونے والی آمد ن کو اس پر ہونے والے اخراجات نکالنے کے بعدمسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، چونکہ اس پر مسلمانوں کا حق ہوتا ہے اور یہ حق پیدائش کے وقت سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس آمدنی کو مسلمانوں کی حفاظت کےلیے یعنی ریاست کی عسکری قوت اور اس کےلیے اسلحہ وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اب آپ سوچئے کہ یہ اتنی کثیر رقم جو خام تیل اور دیگر معدنیات کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے، جب اسے اس ریاست ِ خلافت میں فقر کو ختم کرنے کےلیے استعمال کیا جائے گا تو ریاست کی خوشحالی کیسی ہوگی!

 

احکام شرعیہ کا ایسا فہم،اوراس کے ساتھ دیگر تصو ّرات ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کی اقتصادی زندگی کو مستحکم کریں گے اور اُن کے حکمران کو نوآبادیاتی کفار کے فریب وسازشی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھیں گے جو آج خلیج کے ملکوں کے پٹرول کے ذخائر کی آمدنی کو بڑی چالاکی سے اپنے ملکوں میں منتقل کر رہے ہیں اور یورپ کی ترقی میں ان کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس منتقلی کا ذریعہ بھی مالیاتی اداروں کے پیچیدہ فنڈز ہیں۔ اس وقت ان ذخائر سے یورپ اور امریکہ مستفید ہو رہے ہیں اور امت اس سے محروم ہے۔اس خزانے کی رقم اب کھربوں دینا رتک جا پہنچی ہے جن سے  امریکہ اور یورپ فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور اس کے فائدے سے محروم امت امریکہ کے پیداکردہ مالیاتی بحران کو جھیل رہی ہے!

 

پھر ریاستی املاک کا معاملہ ملکیت ِ عامہ اور انفرادی املاک سے جدا ہے۔ ریاستی املاک کو خلیفہ اپنے اجتہاد اور صوابدید سے استعمال کرسکتا ہے، اس میں فئے اور خراج کے اموال شامل ہوتے ہیں نیز اُ ن لوگوں کا ترکہ جو کوئی وارث نہ چھوڑ جائیں۔ یہ وہاں ہو سکتا ہے جہاں شریعت نے اس املاک کے مصارف متعین نہیں کیے، لیکن جہاں یہ متعین ہوں تو پھر یہ اموال وہیں خرچ ہو سکتے ہیں، جیسے زکوٰة کا معاملہ ہے کہ یہ رقم صرف اُن آٹھ مدوں ہی میں خرچ ہو سکتی ہے جو شریعت نے طے کر دی ہیں۔ خلیفہ اپنی صوابدید سے اس رقم کو ریاست اور شہریوں پر خرچ کر سکتا ہے، مثال کے طور پر یہ ایسی جگہ خرچ ہوں کہ معاشرے میں ایک توازن قائم ہو اور دولت بس ایک طبقے کی تحویل میں نہ رہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

کَی لَا یَکُونَ دُولَةً بَینَ الاَغنِیَاء مِنکُم

"تاکہ دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے" (الحشر:7) ۔

 

لہٰذا خلیفہ ان اموال کو مسکینوں اور فقرا میں تقسیم کرسکتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے اموال مہاجرین میں اورصرف دو مسکین انصاریوں میں تقسیم فرمائے تھے اور تمام انصار کو اس تقسیم میں شریک نہیں کیا تھا، یہ دو انصاری صحابہ حضرت ابو دجانہ ؓاور حضرت سہل ابن حنیف ؓ تھے۔ یہ تقسیم عین اس آیت کے مطابق تھی تاکہ دولت کی گردش کو صرف چند لوگوں میں نہیں بلکہ تمام لوگوں میں عام کیا جائے۔

آخر میں انفرادی ملکیت کا معاملہ ہے، یہ املاک ِ عامہ سے مختلف ہے اور اس پر فرد کا تصرف ہوتا ہے نیز ریاست اس کے خلاف کسی بھی دست درازی سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔کسی بھی دوسرے انسان یا ریاست کو اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اسے طاقت کے بل پر ہڑپ کرجائے۔ چنانچہ املاک کو حکومتی اور ریاستی تحویل میں لینے کےلیے جو قومیانے (Nationalisation)کے نام سے حربہ استعمال کیا جاتا ہے، یہ ریاستی استحصال ہے اور ایک نہایت سنگین جرم ہے۔

 

ظاہر بات ہے کہ ملکیت ِ عامہ اور ریاستی ملکیت کو ضم کرکے ایک ہی صنف  ریاستی تصرف میں رکھنا فاش غلطی ہے جس کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ کمیونسٹ نظریہ میں یہی غلطی ہوئی اور تمام املاک ریاستی تحویل میں رہیں۔ تاہم کمیونزم میں بھی بعض صنعتیں جیسےبھاری صنعتیں Heavy Industry اور پٹرولیم جو ریاست کے زیر نگرانی تھیں، وہ نہایت کامیاب رہیں؛جبکہ وہ صنعتیں جنہیں انفرادی ملکیت اور انفرادی تصرف میں ہونا چاہئے، وہ بھی کمیونسٹ نظام میں ریاستی تحویل میں رہیں اور بری طرح ناکام ہوئیں اوربالآخر اِن ناکامیوں کے نتیجے میں کمیونزم نے دم توڑدیا۔ اب سرمایہ دارانہ نظام کی باری ہے جو ناکام تو ہوچکا ہے لیکن اپنے اختتام کے دہانے پر کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے! اس کا سبب یہ ہے کہ وہ املاک جو ملکیت ِ عامہ میں ہونی چاہئیں، اس نظام میں اُنھیں بازار کی آزادی Free Market کے نام پر افراد اور کمپنیوں کی تحویل میں سونپ دیا گیا ہے،جیسے پٹرول، گیس اور توانائی کی دیگر صنعتیں۔ اس کے نتیجے میں بار بار بحران اپنا خبیث سر اُٹھاتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری کمپنیاں منہ کے بل زمین بوس ہو رہی ہیں!

اس طرح کمیونسٹ نظام اپنی قبرمیں پہنچا اور اب اسی نہج پر یہ سرمایہ داری کا نظام اپنی ہی قبر کے دہانے پر بیٹھا اپنے گورکن کا منتظر ہے

!

اسٹاک بازار اور ان پر اسلامی موقف:

سرمایہ داری کے نظام میں جو کردار سود کا ہے وہی اسٹاک اکس چینج کا بھی ہوتا ہے،یعنی دولت کو سمیٹ کر ایک مخصوص طبقے کی تصرف تک محدود کر رکھنا۔بلکہ یہ اسٹاک اکس چینج اور بھی شدید ہوتے ہیں کیونکہ ان کے توسط سے معیشت حقیقی اشیاءمیں تجارت کے بجائے محض نمبروں اور کاغذی لین دین بن جاتی ہے جس میں کچھ لوگ نفع کماتے ہیں اور باقی کا مقدر خسارا ہوتا ہے۔ اس نظام میں بغیر کسی حقیقی صنعت کاری اور اشیاءکے بننے کے، دولت کی مقدار میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر مارکیٹ چڑھتی ہے تو لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ اقتصاد کی شرح میں اضافہ ہوا ہے،لیکن جب مارکیٹ گرتی ہے تو لوگوں کی جمع پونجی ڈوب جاتی ہے ۔ ایسے ماحول میں سٹہ کرنے والوں کو Short Term Selling نام پربے پناہ فائدہ ہوتا ہے جو شیئر خرید کر کچھ ہی مد ّت میں اُنھیں بیچ دیتے ہیں تاکہ قیمتیں نیچےآئیں ۔

بے شک یہی اسٹاک ایکسچینج اور مالیاتی بازار اس سرمایہ دارانہ نظام کے اہم رکن ہیں اور ان میں پیسہ لگانے کے سبب بے شمار لوگ مفلس ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام میں خرید و فروخت کے بازارمتعلقہ شرعی احکام کے پابند ہوتے ہیں اور یہی پابندی اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ معاشرہ ناگہانی مالیاتی آفات و بحران کی غیر یقینی سے محفوظ رہے اور کوئی کسی دوسرے کا مال ناجائز اور غیر شرعی طریقوں کے ذریعے ہڑپ نہ  کرجائے،اِن احکام ِ شرع میں سے بعض یہ ہیں:

 

پہلا: کوئی بھی شے جو بیچنے والے کی ملکیت نہ ہوں اور اُس کی تحویل میں نہ آئی ہوں ،اُس کے بیچے جانے پر شرعی پابندی ہوتی ہے اور وہ بیچی نہیں جاسکتی۔ لہٰذا کوئی چیز جو کسی نے خرید لی لیکن اپنے قبضے اور تحویل میں نہیں لی،اس کا بیچا جانا ممنوع ہوگا۔ جبکہ شیئر بازاروں اور وعدہ بازاروں میں اشیاءاپنی جگہ پڑی رہتی ہیں، نہ بیچنے والے کے پاس ہوتی ہیں نہ خریدنے والا اُنھیں اپنی تحویل اور قبضہ میں لیتا ہے ، لیکن وہ ایک ہی چیز کئی کئی بار فروخت ہو چکی ہوتی ہے۔

 

دوسرا: اسلام میں سٹہ بازاری ممنوعہ ہے ، اسی سٹہ بازاری کے سبب قیمتوں میں بے وجہ اضافہ ہوتا ہے جبکہ اُن اشیاءکی طلب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کی خرید و فروخت ہوئی ہوتی ہے۔ اس سٹہ بازاری کا مقصد ہی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنا ہوتا ہے اور یہی کچھ شیئر بازار میں ہوتا ہے۔ پچھلے مہینوں میں پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اسی کی مثال اور ثبوت ہے۔

 

تیسرا: اسلام کے شرعی احکامات درج ِ ذیل چھ اشیا ءمیں خرید و فروخت کو ممنوعہ قرار دیتے ہیں اگر اُن اشیا ءمیں ایک سے دوسری میں سودا ہو لیکن فی الفور ادائیگی نہ ہو اور نہ فوراً اشیاءکی منتقلی عمل میں آئے۔ اگر سودا ان اشیا ءمیں سے کسی ایک ہی شئے کا سودا ہو تو فوراً منتقلی اور مقدار میں برابری نہ ہونے کی صورت میں سودا باطل ہوجاتا ہے ۔ یہ چھ اشیا ءیوں ہیں:سونا؛چاندی؛گندم؛جَو؛ کھجور اور نمک۔

 

لہٰذا اِن اشیاءمیں ایک کی خرید دوسری کے عوض اُس وقت تک صحیح نہیں ہوتی جب تک کہ اشیاءکی منتقلی خریدار کو فوراً نہ ہو اور اگر ایک ہی جنس میں سودا ہوا ہے ،تو فوراً منتقلی کے ساتھ مقدار میں برابری بھی ہو۔ اس کے برخلاف ہونے پر  اِن اشیا ءکے سودے حرام ہو جاتے ہیں۔ آج کے بازاروں میں معاملہ اس کے برخلاف ہے لہٰذا یہ باطل ہوگا۔ فوراً سودا مکمل نہ ہونے اور فوراً مال کی منتقلی نہ ہونے ، اور اس وقفہ میں قیمتوں میں فرق پیدا ہونے سے بحران پیدا ہوتے ہیں اور نتیجتاً سودے سٹے کے جیسے ہوجاتے ہیں جن کے تباہ کن اثرات ظاہر ہیں۔

 

چوتھا: احکام شریعت میں شیئر کا لین دین حرام ہے کیونکہ لمیٹیڈ کمپنیاں اپنی ساخت کے حوالے سے ہی باطل ہیں۔ یہ شیئر ایک سند(سرٹیفیکیٹ) ہوتے ہیں جن کے دو اجزاءہیں: ایک اُن کا اصل جو حلال ہے اور دوسرا اُن پر ہونے والاحرام نفع اور اِن کے سودے کا عہد نامہ Contractجو کہ باطل ہوتا ہے۔ ہر شیئر اُس کمپنی کا حصہ ہوتا ہے جس کی بنیادی ساخت ہی باطل ہے اور یہ تمام اثاثے ایسے ہی باطل لین دین سے عمل میں آئے ہیں جنہیں شریعت نے حرام رکھا ہے۔ اس طرح کمپنی کے شیئر کے حصہ میں حرام شامل ہوگا جس سے پورا کا پورا شیئر حرام ہوگا جس کا خریدا جانا، بیچا جانا اور لین دین سب حرام ہوں گے۔ یہ بات عام شیئر پر بھی صادق آتی ہے اور اُن خصوصی شیئرز Preferential Shares پربھی جو ہر حال میں نفع کماتے ہیں اورکمپنی کے تحلیل ہونےکی صورت میں ادائیگی اور منافع کا پہلا حق ان کا ہوتا ہے۔

اسی طرح شیئرز کا اُن سودی قرضوں پرخریدا جانا بھی حرام ہے جو شیئر بروکرپیش کرتے ہیں یا یہ شیئر کے رہن کے بدلے قرض کسی اور کی طرف سے ہو۔ کیونکہ یہ سود کے مثل ہے اس قرض میں یہ شیئرز رہن کے طور پر رکھے جاتے ہیں، یہ سودا اس بناءپر حرام ہے کہ واضح نصوص میں سود کے کھانے والے، دینے والے، اس کا حساب لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے کے عمل کوحرام بتایا گیا ہے۔

 

اس طرح یہ بھی اجازت نہیں کہ جن شیئر کی ملکیت بیچنے والے کے پاس نہ ہو اور اُس نے ان شیئروں کو محض بروکر کی اس یقین دہانی پر اپنی تحویل میں لے لیا ہوکہ شیئر کا سودا ہوجانے پر وہ اس کے مقابلے قرض دلوا کر اس سودے کو مکمل کردے گا۔ ایسی صورت میں یہ سودا وہ ہوا کہ بیچنے والے کے پاس چیزکی ملکیت اور تحویل نہیں تھی۔ یہ حرمت اور بھی شدید ہوجا تی ہے کیونکہ اس میں ایک اضافی شرط ہوتی ہے کہ شیئر کی قیمت بروکر کو ادا کی جائے جو کہ اصل مالک نہیں تاکہ وہ نفع حاصل کرے ۔

شیئر کی تجارت اس لیے بھی حرام ہے کہ فی الواقع شیئر اُس کمپنی پر ایک قرض ہوتا ہے جسے کمپنی سودی کاروبار میں لگاتی ہے اور قرض کو قرض سے اداکرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں خرید و فروخت کی مارکیٹ حلال کاروبار میں سودا کرتی ہے جہاں تجارت میں بحران، سٹہ بازی، تنازعات اور دھوکہ وغیرہ سے مکمل حفاظت ہوتی ہے۔ یہ پاکیزہ بازار ہوتے ہیں جو تمام لین دین اور کاروبار میں احکام شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔

 

ریاست ِ اسلامی کی معاشی رفاہ: economic welfare

اسلامی ریاست اپنے ہر ایک شہری کو روز گار کی ضمانت دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:((الاِمام راع وھو مسول عن رعیتہ)) " امام(خلیفہ) گلہ بان ہے اور اپنے ریوڑ کا محافظ و ذمہ دار ہے) اور آپ ﷺ فرمایا:((من ترک مالاً فلورثتہ ومن ترک کلاً فاِلینا))"جو مسلمان کچھ مال چھوڑ کر فوت ہو جائے تو وہ مال اس کے وارثوں کےلیے ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ جائے ، تو وہ ہم پر ہے"۔ اورآپ ﷺ فرمایا:جو مسلمان کچھ مال چھوڑ کر وفات کرجائے تو وہ اس کے وارثوں کےلیے ہے اور جو قرض چھوڑ جائے اور اس کے عیال پر ہو تو یہ معاملہ میرا ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں"۔

 

اس طرح اگر ایک شخص نادارہے اور وہ کام نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے قریبی رشتہ دار ہیں جن پر اس کی کفالت واحب ہوتی ہو؛ اور دوسرا ایک اورنادارانسان ہے جو کام کر سکتا ہے لیکن اسے روزگار مہیا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر اس کی کفالت واجب ہو،تو اِن دونوں کےلیے مذکورہ احادیث سے ریاست ِ اسلامی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کی کفالت کرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جو شخص کام کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو ، اسے بیت المال سے کفالت دی جائے اورجو کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن روزگار مہیا نہ ہو ،وہ اس کےلیے روزگار مہیا کرائے۔ حدیث صحیح میں آتا ہے کہ ایک انصاری مسلمان رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور مدد کاسوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کچھ ہے، تو اُس نے کہا ہاں ، کپڑے کا ایک ٹکڑا جس کا ایک حصہ ہم اوڑھ لیتے ہیں اور دوسرا بچھا لیتے ہیں اورایک لکڑی کا کٹورا جس سے پانی پیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ یہ چیزیں لے کر آؤ۔ جب وہ شخص لے کر آیا ، تو حضور ﷺ نے کہا کہ اِن اشیا ءکو کون خریدتا ہے؟، ایک صحابی نے کہا کہ میں ایک درہم میں لیتا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے دو یا تین بار پوچھا کہ کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟ ایک صحابی نے کہا میں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ اشیاءاُنھیں دے دیں اوردو درہم لے کر اُس شخص کو دیے اور فرمایا کہ ایک درہم سے اپنے اہل و عیال کےلیے غذاءلے لو اور دوسری سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ پھر حضورﷺ نے اس کےلیے اپنے دست ِ مبارک سے دستہ بنایا اور اس شخص سے فرمایا کہ جاؤ لکڑیاں جمع کرکرکے بیچو اور میں تمہیں پندرہ دن تک نہ دیکھوں۔ وہ شخص چلا گیا اور وہی کرتا رہا ،پھر پندرہ دن بعد حضوﷺسے ملا اس کے پاس دس درہم تھے جس سے اس نے کچھ کپڑے اور غذائی اشیاءخریدیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے بجائے یہ کہ تم بھیک مانگو جو قیامت کے دن تم پر ایک داغ کے مانند ہوگی۔

 

اسلامی ریاست کا ایک ذمی شہری بھی اسی حکم میں آتا ہے اور ریاست کی رفاہwelfare میں اس کا بھی وہی حصہ ہوتا ہے۔ ذمی وہ ہوتا ہے جس کا مذہب اسلام کے سوا کچھ اور ہو لیکن وہ اسلامی ریاست کا شہری ہو۔ لفظ ذمی ،ذمہ سے بنا ہے جس کے معنوں میں عہد ِ حفاظت ہوتا ہے۔ ذمی کا یہ حق ہوتا ہے کہ ہم اُن سے جائز  اور اچھابرتاؤ کریں اورشرعی احکام کے تحت ان کے امور کی دیکھ بھال کریں۔ اسلام میں ذمیوں سے متعلق متعدد احکام آئے ہیں جس میں اُن کے حقوق کی ضمانت ہے  اوران کے حقوق مسلمانوں ہی کی طرح ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((اطعموا الجائع و عودوا المریض، و فُکُّوا العان))"بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور غلام کی رہائی کا سامان کرو"۔ اس حدیث کے ضمن میں مسلمان اور ذمی دونوں شامل ہیں۔

 

ملازمین ِ ریاست کا اُن کے غیر شرعی املاک پر محاسبہ کرنا:

اسلامی ریاست اپنے ملازمین کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی ملازمت کا ناجائز معاشی فائدہ اُٹھائیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنے والیوں اور عاملوں کا اُن کی آمدنی پر محاسبہ فرماتے تھے اور اس تعلق سے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

((مَن استعملناھ علی عملٍ فرزقناہ رزقاً فما اخذ بعد فھو غلول))

"جس شَخص کو ہم نے کسی کام پر مقرر کیا اور اس کی تنخواہ متعین کردی، پھر اس نے اس سے بڑھ کر جو حاصل کیا تو وہ غبن ہے"۔

 

واقعہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺنے ابن لُتبِیہ کو بنی سلیم سے صدقات کی وصولی پر عامل مقرر فرمایا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺکے پاس واپس آئے اور حسا ب کتاب کیا ، تو اس نے کہایہ آپ کے لیے ہے اور یہ میرے لیے (لوگوں کی طرف سے)ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا : کیوں نہ تم اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھو اور پھر دیکھو کہ تمہیں کوئی تحفہ ملتا ہے یا نہیں، اگر تم واقعی سچے ہو۔ پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد کہا: میں تم لوگوں کو چند معاملات میں مقرر کرتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار بخشا ہے۔ پھر تم میں کوئی میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپ کے لیے ہے اور یہ میرے لیے تحفہ ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی بیٹھا رہے تاکہ اسے گھر میں ہی تحفے پہنچ جائیں اگر وہ سچا ہے۔ اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی نہیں جو ان (صدقات) میں سے ناحق لے اور قیامت کے دن وہ اللہ کے پاس اس کا بوجھ اٹھاتا  ہوا نہ آئے۔ میں اس شخص کو قیامت کے دن پہچان لوں گا جو اللہ کے پاس اس حالت میں آئے گا کہ اس کی گردن پر اونٹ بڑبڑاتا  ہوا ہو گا ،یا گائے ڈکرا رہی ہو گی، یا بکری منمناتی ہوئی ہو گی۔ پھر آپ  نے اپنے ہاتھوں کو اتنا بلند کیا کہ ہم نے آپ  کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا: کیامیں نے( پیغامِ حق) پہنچا نہیں دیا؟

 

روایت میں آتا ہے کہ عمر ؓ اپنے عاملوں کو مقرر کرنے سے پہلے اور اُ ن کی مدت پوری ہو جانے کے بعد اُن کی املاک کا محاسبہ کیا کرتے تھے اور جو کچھ اُن کے پاس ناجائز ہوتا ، اسے اُن سے لے کر بیت المال میں جمع کرادیتے تھے۔ اُنھوں نے کچھ والیوں کا محاسبہ کرکے اُن کے پاس جو مشتبہ مال تھا ، اسے اُن سے لے لیا تھا کیونکہ شبہ تھا کہ اُنھوں نے اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کیا ہوگا۔

اس طرح ملازمین کو سب سے پہلے اُن کے تقوے کی بنیاد پر رغبت دلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے فرائض شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ ادا کریں۔پھر اُن پر شرعی احکام کی قوت سے محاسبہ ہوتا ہے تاکہ امت کے مال کی حفاظت کی جا سکے اور اس پر کسی کی ناجائز دست درازی نہ ہوسکے۔

 

اسلام کے معاشی نظام کی نگرانی:

ریاست ِ خلافت میں نگرانی کےلیے اداروں کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

بازار کا قاضی جسے محتسب کہا جاتا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ بازار میں ہونے والے ناپ تول میں کمی بیشی اور دھوکہ دہی کو روکے اور دیگر قسم کی دست درازی اور مخالفات کا سد ِ باب کرے۔

قاضی: لوگوں کے درمیان ان کے روز مرہ کے معاملات میں ہونے والے تنازعات، بشمول اقتصادی اور مالی تنازعات میں شرعی حکم بیان کرے جو قابل ِ نفاذ ہوتا ہے۔

انتظامی ڈھانچہ:اس کے ذریعے ریاست بیت المال کے اموال کی مختلف اصناف میں تصرف کو منظم کرے جس میں ریاستی اموال، زکوٰة کے اموال اور ملکیت ِ عامہ کے اموال شامل ہوتے ہیں۔ اس نظم کا مقصد یہ ہے کہ اموال اپنے جائز مصرف میں استعمال ہوں۔

عدالت ِ مظالم:یہ وہ عدالت ہے جہاں ناجائز حرکات اور مظالم کی شکایتوں کی سنوائی ہوتی ہے جو حاکم یا ریاست کے خلاف ریاست کے شہری اپنے حقوق میں کوتاہی کے حوالے سے پیش کریں۔یہ معاملات اقتصادی نوعیت کے بھی ہو سکتے ہیں۔

یہ اسلام کے نظام میں نگرانی اور محاسبہ کے حوالہ سے تھاجس سے یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ اقتصادی اور دیگر امور میں احکام ِ شریعت کے مطابق پابندی ہو۔

 

عزیز برادران!

یہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک خاکہ ہے۔

آپ دیکھیں کہ اگر ریاست ِ خلافت ملکیت ِ عامہ سے ہونے والی آمدنی کو شہریوں میں اُن کی پیدائش کے وقت سے تقسیم کرے؛

اگر ریاست ِ خلافت فقیروں اور مسکینوں کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، لباس اور گھر کی کفالت کرے اور ان میں سے کام کی اہلیت رکھنے والوں کو روزگار مہیا کرے اور جو کام کی اہلیت نہیں رکھتے اُن کی زکوٰة اور ملکیت ِ عامہ کی آمدنی سے کفالت کرے ؛

پھر ریاست ِ خلافت ملکیت ِ عامہ کے اموال کو اُن لوگوں میں تقسیم کرے جو بہت دولت مند نہیں ہیں تاکہ معاشرے میں توازن قائم ہو؛

ریاست ِ خلافت بنا سودکے ضرورت مندوں کو قرضے دے تا کہ وہ کاشت، تجارت یا صنعت کر سکیں؛

ریاست ِ خلافت ایسے باطل لین دین پر پابندی لگائے جن کی شریعت نے ممانعت کی ہے جیسے ملٹی نیشنل کمپنیاں،لمیٹیڈ کمپنیاں یا بیمہ کمپنیاں؛

اگر ریاست ِ خلافت ایسی اشیاءکی خرید و فروخت پر پابندی لگائے جنہیں بیچنے والا اُن کا مالک نہیں اور نہ ہی وہ اشیاءاس کی تحویل میں ہوں اور سٹہ بازاری کو روکے؛

اگر ریاست ِ خلافت سونے اور چاندی ، نیز دیگر نقود میں فوری تحویل کی شرط کے بغیر لین دین کو روک دے اور اُن چھ مذکورہ اشیاءکے سودوں کو احکام شریعت کے مطابق منظم کرے، نہ کہ اس طرح جو آج اسٹاک بازاروں میں ہو رہا ہے؛

اگر ریاست سودی کریڈٹ کارڈ اور دیگر مالیاتی مصنوعات اور باطل شیئر کے سودوں پر پابندی لگا دے؛

اگر ریاست کا نگراں عملہ اور ادارے اُن لوگوں پر پابندیاں عائد کریں جو ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوں،ذخیرہ اندوزی کرتے ہوں یا سٹہ بازاری کرتے ہوں؛

 

اگر ریاست ِ خلافت اس نظام کے نفاذ و اجراءمیں کوتا ہی نہ کرے اور اِنہیں حاکم کے مزاج پر منحصر کرکے تبدیل نہ کرے، بلکہ اس نظام کو کما حقہ جیسا اللہ یعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے ، اسی طرح نافذ و جاری کرے، تقوی کی بنیادپر اور انصاف شناسی کے ساتھ اور ایک محصولی ریاست کی بجائے ایک خیر خواہی ریاست بنے۔

کیا ایک شخص پر فرض نہیں کہ وہ اس ریاست کے قیام کے لیے اٹھ کھڑا ہو ،کہ صرف یہی بحران سے پاک ایک محفوظ اور خوشحال اقتصادی زندگی مہیا کرسکتی ہے ؟

 

عزیز برادران!

یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ نظام ایک عادل اور تحفظ بخشنے والا نظام ہے،تاہم یہ کتابوں کے صفحات میں بند ہے اورموجودہ حالات میں ریاست ِ خلافت کو قائم کرنا ایک محال اور ناقابل ِامر ہے یا کم از کم بہت مشکل کام ہے۔ پھر کیوں کسی اونچے درخت سے پھل توڑ نے کا مشکل کام کیا جائے ، کیوں نہ گرے ہوئے پھلوں کو اُن پر سے گرد و غبار صاف کرکے کھالیا جائے اور باقی بچی ہوئی گرد و غبار سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ پھر ایسا ہی کیوں نہ کیا جائے؟

 

عزیز برادران!

جہاں تک پہلے بہانے ، یعنی اس کام کے مشکل و محال ہونے کا تعلق ہے ، تو ایک خوش نظر مبصر آسانی سے دیکھ سکتا ہےکہ یہ کام بہت زیادہ مشکل بھی نہیں، بلکہ یہ تو اب ہوا ہی چاہتا ہے ، اور اس کے دلائل حسب ِ ذیل ہیں ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ ہے :

 

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِىۡ ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ؕ يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡـًٔـا‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏"

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ اُنھیں ضرور ملک کا خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کےلیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کےلیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے ،میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں، وہ یقیناً فاسق ہیں"( سورہ النور:55)۔

 

2۔ رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ ظلم و جبر کی حکومتوں کے بعد خلافت پھر لوٹ کر آئے گی، آپ ﷺ  نےفرمایا،

 

تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ۔

"تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی کہ نبوت رہے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا، پھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا، پھر کاٹ کھانے والی موروثی حکمرانی ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا، پھرجبری اور استبدادی حکومت ہوگی تو وہ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر عین نبوت ہی کی طرز پر خلافت ہوگی"۔

 

3۔ یہ فعال اور با شعور امت تیار بیٹھی ہے اور اس کام کو سمجھ رہی ہے جس کے ذریعے ریاست ِ خلافت کا احیاءہونا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو، اس کے بعد یہی امت اس ریاست کی حفاظت میں لگ جائے گی، یہ امت اسی اصلی راہ کی جانب گامزن ہے جس کےلیے اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا :

 

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ۔

"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کےلیے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو" (آل عمران:110)۔

 

4۔ حزب اس معاملے میں پوری طرح مخلص ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ مخلص ہے اور دن رات اسی کام میں لگی ہوئی ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ جائے۔ اس راہ میں حزب ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوف زدہ نہیں اور نہ ہی اس راہ کی مشکلات اس کی ہمت کو پست کرتی ہیں، ہم اسی راہ پر ثابت قدم رہیں گے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ    ایک گروہ یقیناً حق پر ثابت قدم رہے گا:

 

((لا تزال طائفة من امت ظاھرین علی الحق لا یضرھم من خذلھم حتی یت مر اللّٰہ وھم کذلک))

"جب تک میری امت کا ایک گروہ حق پر ثابت قدم رہے گا، اُنھیں راہ ِ حق میں کسی سے نقصان نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا امر پورا کردے اس حال میں کہ وہ اس وقت حق پر ثابت قدم ہوں گے"۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اِن تمام میں سے ایک بھی ریاست ِ خلافت کے پھر احیاءکی ضمانت کےلیے کافی ہے، ریاست ِ خلافت کا دوبارہ قائم ہونا کوئی محال اور غیر ممکن امر نہیں، بلکہ اب تو یہ بس کچھ وقت کی بات ہے اور ہوا ہی چاہتا ہے۔پھر جہاں تک اس دوسرے بہانے کا تعلق ہے کہ گرے ہوئے پھلوں کو دھو کر کھا لیا جائے،جس طرح یہ سرمایہ دارانہ نظام کے حمایتی اپنے نظام کی ناکامیوں کو چھپا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ یہ ایک مسلم کا مزاج ہی نہیں کیونکہ مسلمان تو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی چاہتا ہے۔

 

بے شک اسلام کا معاشی نظام تمام لوگوں کے لیے ، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، ایک خوشحال اقتصادی زندگی کا ضامن ہے، پھر یہ لوگ کسی بھی نسل کے ہوں ، کسی بھی خطے کے ہوں یا کسی بھی مذہب کے ہوں۔جو کوئی اس نظام کی اتباع کرے وہ راہ ِ حق کو پہنچتا ہے اور جو کوئی اس سے رو گردانی کرے ، بدنصیبی اس کا مقدر ہے، اور ان کی بد نصیبی کو کیا  روئیں!اللہ تعالیٰ نے حق فرمایا:

 

فَاِمَّا يَاۡتِيَنَّكُمۡ مِّنِّىۡ هُدً ى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشۡقٰى‏٘ وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا٘٘

"اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے، تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے، تو وہ نہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا، اور ہاں! جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی معیشت تنگ ہو جائے گی" (طہ:123,124 )

 

والسَّلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

7 محرم ،1430 ہجری

3 جنوری،2009 میلادی

Last modified onمنگل, 05 فروری 2019 22:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک