بسم الله الرحمن الرحيم
شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے
تحریر: بلال المہاجر
اگر اسلامی تاریخ کو پڑھا جائے تو ایسی کتنی ہی ہستیاں ہیں جو نبی ﷺ کی اس بشارت پر پوری اُترتی ہیں،
مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَوْ آخِرُهُ’
"میری اُمّت بارش کی طرح ہے، معلوم نہیں کہ اس کے اوّل میں خیر ہے یا آخر میں"(ترمذی)۔
نبی ﷺ کے دور سے لے کے اب تک کتنی ہی بار یہ خیر ظاہر ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اُمّت پر کتنی ہی دشواریاں اور مشکلات آئیں لیکن اُس کے بعد کوئی نہ کوئی خیر اُمّت میں ظاہر ہوئی۔ ان ہستیوں میں سے ایک ٹیپو سلطان ہیں جو کہ نومبر1750 عیسوی میں پیدا ہوئے اورانہوں نے 4 مئی1799 کو جامِ شہادت نوش کیا۔ ٹیپوسلطان میسور کے حاکم تھے اور ’شیرِ میسور‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُن کے اور بھی بہت سے خطاب تھے جیسے ’سلطان فاتح خان صاحب‘، ’ٹیپو صاحب‘، ’سلطان بہادر خان ٹیپو‘، ’فاتح علی ٹیپو سلطان بہادر‘۔ یہ خطابات اُن کی دلیر شخصیت کی عکّاسی کرتے ہیں۔ ایک بہادر مرد،دلیر جنگجواورفاتح۔ یہی ایک حقیقی مسلم حکمران کی خصوصیات ہیں۔ اور بھی مسلمان لیڈر ان خصوصیات کے حامل تھے جیسے خالد بن ولیدؓ، سلطان محمّد الفاتح، محمّد بن قاسم۔
ٹیپو سلطان نے حالات کے پیشِ نظر ٹھوس قدم اُٹھائے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اُس کے رسول ﷺ اور ایمان والے اُن سے راضی ہوں۔ اُنہوں نے وہ دور دیکھا جب مسلمان مغربی استعمار،خصوصاً کافر برطانیہ کے ہاتھوں مشکلات کا شکار تھے۔ ٹیپو سلطان نے اُس برطانیہ کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جو اپنے فائدے کے لیے مسلم اُمّت کی دولت پر حملہ آورتھا۔ برِّصغیر،جو کہ دنیا کی ایک چوتھائی پیداوار کا مرکز تھا، پر برطانیہ کی رال ٹپکتی تھی۔ لہٰذا برطانیہ نے سازشی جال بُنا اور دھوکہ دہی، افراتفری اور جنگ و جدل کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ مگر اُس کی یہ کوشش اتنی آسان نہیں تھی جتنا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ برطانیہ نے صدیوں تک اپنی استعماریت کو پھیلایا جس طرح کہ یورپ نے چرچ کی سربراہی میں مشرقِ وسطیٰ پر صلیبی جنگوں کے ذریعے دھاوا بولا تھا۔ برطانیہ جن وجوہات کی بنا پر اپنے ناپاک عزائم میں تیزی سے کامیاب نہ ہو سکا اُن میں سے ایک ٹیپو محمّد سلطان تھے۔
’شیرِ میسور‘ اور آج کے گیدڑ حکمرانوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے وہ خط ہی کافی ہے جو اُنہوں نے حیدرآباد کے سلطان نظام علی خان کولکھا تھا جس میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف اتّحاد کی دعوت دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میں چاہتا ہوں کے تم برِّصغیر کے مسلمانوں کے لئے اپنی طاقت استعمال کرو اور میری خواہش ہے کہ میں اسلام اور اللہ کے راستے میں اپنا جان و مال قربان کردوں۔ میں مسلمانوں کو متّحد کرنا چاہتا ہوں اور یہ کہ وہ کفار کا ساتھ دینے کے بجائے میری مدد کریں‘‘۔ اس خط سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُن کا مقصد صرف اور صرف اسلام اور مسلمان تھے۔ وہ ایسےحاکم اور کمانڈر تھے جو مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور اُن کا مقصد مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے متّحد کرنا تھا۔ ان کی شخصیت ہمارے آج کے سیاسی اور فوجی حکمرانوں جیسی نہیں تھی جو مغرب سے ہاتھ ملاتے ہیں اور اُن کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اسلام نے اِن نااہل، خائن اور بددیانت حکمرانوں سے اور اِن حکمرانوں نے اسلام سے تعلق توڑ لیا ہے۔ یہ حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی نہیں کرتے اور جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نظام کو لانا چاہتے ہیں یہ حکمران اُن سے لڑتے ہیں۔ یہ حکمران کفّار کی کھینچی ہوئی لکیروں اور اُن کے دئیےگئے منقسم جھنڈوں کو زیادہ مقدّس مانتے ہیں۔ دشمنوں نے اپنے اِن ایجنٹوں کو ہم پر حکمران بنا دیا ہے جس کی وجہ سے اُمّتِ مسلمہ 50 سے زائد ٹکڑوں میں بٹ چکی اور اُمت کی طاقت تقسیم ہو چکی ہے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ ٹیپو سلطان جیسے بہادر جانباز مجاہد رہنما کے بارے میں قرآن میں فرماتا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
’’مومنوں میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو اللہ سے باندھے گئے عہد و پیمان پر صدقِ دل سے قائم ہیں ، بعض اپنے عہد کو پورا کرگئے اور انہوں نے اس کی راہ میں شہادت قبول کرلی، اور کچھ انتظار میں ہیں اور انہوں نے ہر گز اپنے عہد و پیمان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ‘‘ (سورۃ الاحزاب33:23)۔
اگر آج مسلم امت کے حکمرانوں اور فوجی کمانڈروں کے بارے میں بات کی جائے تو انکی صورتِ حال اس حدیث کے مطابق ہے جسے ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا،
سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ
’’ایسا وقت آئے گا جب جھوٹے کو ایماندار سمجھا جائے گا اور ایماندار کو جھوٹا؛ غدّار کو دیانتدار اور دیانتدار کو غدّار سمجھا جائے گا؛ اور ’رُوَیبِضَۃ‘ لوگوں کے معاملات چلائیں گے۔ پوچھا گیا ’رویبضۃ‘ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا گھٹیا اور خبیث لوگ‘‘ (مسند احمد)۔
کسی بھی قوم کی قوّت اُس کے افکار ہوتے ہیں اور کسی بھی ریاست کی قوّت وہ افکار ہوتے ہیں جن کی وہ حامل ہوتی ہے اور وہ شخصیات جو ان افکار کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان افکار کو نافذ کرتے ہیں۔ اس طرح اگر اُمّت کے بنیادی افکار کو سمجھنے میں کمزوری ہے تو وہ لوگ جو مخلص نہیں ہیں وہ ریاست پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ جس وجہ سے کمزوری (وَہن)، دھوکہ دہی اور غدّاری ریاست میں اور اس کی صفوں کے اند رنمایاں ہو جاتی ہے۔ٹیپو سلطان کے ساتھ ایسا تب ہوا جب اُنہوں نے میر صادق جیسے لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل ہونے کی اجازت دی، جس کو ایک بار ٹیپو سلطان کے والد نے معزول کردیا تھا۔ بعد میں میر صادق نے ہی ٹیپو سلطا ن سے غداری کی ۔
بھارت میں بہت سے ایسے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے چالاک قابض قوّتوں کا ساتھ دیا جیسا کہ نظام علی خان۔ وہ حیدرآباد کا حکمران تھا وہ گندی سیاست میں ڈوبا ہوا تھا اور حرام امور میں ملوث تھا۔ اگر مقابلہ صرف ٹیپو سلطان اور انگریزوں کے درمیان رہتا تو ٹیپو سلطان انگریزوں پر حاوی ہو جاتے۔ ٹیپو نے بہترین طریقے سے جنگ کی تیاری کی اور جب انگریز فوج سرنگاپٹم پہنچی اور سلطان کے خلاف محاذ آرائی کی تو بہت جلد ہی اُنہیں سمجھ آ گیا کہ ٹیپو سلطان کو شکست دینا انتہائی مشکل ہے۔ ٹیپو نے ایک ایسی فوج تیار کی تھی جس سے لڑنا بہت مشکل تھا۔ انگریزوں نے سرنگاپٹم کا محاصرہ کر لیا اور بیس دن تک وہاں جمے رہے ، ان کا خوراک کا ذخیرہ ختم ہو گیا اور اب ان کے بھوکے فوجی واپس جانا چاہتے تھے ۔ آخر کار جب انگریز فوج نے واپسی کا ارادہ کیا تو کچھ کمانڈروں نے ٹیپو کو یہ مشورہ دیا کہ اس حالت میں انگریزوں پر اچانک دھاوا بول دیا جائے مگرمردِ مجاہدنے اسے دھوکہ دہی سمجھتے ہوئے منع کر دیا۔
کچھ عرصہ بعد انگریز فوج، نظام حیدر آباد اورمراٹھوں کی مشترکہ فوج نے ایک طاقتور حملہ کیا۔ معرکہ اتنا طویل اور شدید تھا کہ دشمنوں پر واضح ہو گیا کہ ٹیپو کوایک طویل جنگ اور زبردست جانی و مالی نقصان اٹھائے بغیر مکمل شکست دینا ممکن۔لیکن ٹیپو کا ایک کمانڈر انگریزوں سے جا ملا، لہٰذا ٹیپو سلطان کوقلعے میں پناہ لینا پڑی ۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب اُمّتِ مسلمہ کی صفوں میں بہت سے مغرب کے ایجنٹ پیدا ہو گئے تھے اور ایسے لوگ سامنے آ رہے تھے جو مغربی ثقافت سے بہت متاثر تھے۔ اس کے نتیجے میں مغرب یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر اپنے ایجنٹوں کو مسلّط کرنے میں کامیاب رہا۔ یوں مغرب نےمسلم اُمّت پر اپنی حکمرانی جاری رکھی۔ اگر اُمّت اور مغربی استعمار کے درمیان ایک واضح تفریق ہوتی توا مت مغرب کے خلاف کامیاب ہوجاتی ۔اس کمزوری کے باوجود کہ امت ریاستِ خلافت کے کلمہ توحید والے جھنڈے تلے متحد نہیں لیکن مغرب کے خلاف جنگ میں اس کی سب سے بڑی مشکل اور کمزوری ان کے اپنے حکمران اور مغربی ایجنٹوں کا پیدا کردہ سیاسی ماحول ہے ۔
اصل لیڈر اور ہیروگیدڑوں اور بھیڑوں کی موت نہیں مرتے بلکہ میدانِ جنگ میں جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ وہ اپنے بستروں پر نہیں مرتے اور نہ ہی اُمّتِ مسلمہ کی دولت کو مغربی ممالک میں اُڑاتے ہیں، جیسا کہ آج کے کتنے ہی مسلم دنیا کی افواج کے جرنیلوں کا حال ہے ۔ اس کے برعکس اُمّت کے ہیرو ٹیپو سلطان جیسے لوگ ہیں جنہوں نے جب میدانِ جنگ میں انگریز فوج کو اپنی طرف پیش قدمی کرتے دیکھا تواُن کی جانب بڑھے اور پوری قوت سے اُن پر حملہ کیا اور چہرے پر گولی لگنے اور اسلام کی راہ میں شہید ہونے سے پہلے اُن میں سےتین چار کو جہنم واصل کیا۔
وہ جو اس اُمّت کے بارے میں سوچتے ہیں، اُن کی یہ سوچ اُن کے جانے کے بعد بھی نہیں مرتی اور آنے والے لوگوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہوتی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے اُمّت کو محفوظ اور دشمنوں سے بچایا جا سکتا ہے۔’’شیرِ میسور‘‘ کی شہادت برِ صغیر میں اسلام کے باکمال دور کا اختتام تھا۔ ٹیپو نے یہاں اسلام کو بچانے کے لئے اُمّت کولازمی وحدت اختیار کرنے اور اللہ کے دین کے لئے اور اسلام کے جھنڈے کو پوری دنیا پر غالب کرنے کا پیغام دیا ۔ اُنہوں نے محمّد بیک حمدانی کو ایک خط لکھا جس میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس وقت کفار اور مشرکین کے خلاف متّحد ہو جائیں ۔ وہ اپنے جان و مال کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے قربان کر دیں۔ سلطنتِ دہلی ختم ہو چکی۔ اگر مسلمان اللہ کی راہ میں متحد ہو کر لڑتے تو انہیں روزِ قیامت ا للہ سبحانہ و تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے سامنے کوئی پشیمانی و شرمندگی نہ ہوتی‘‘۔
ٹیپو سلطان جانتے تھے کہ دشمن کے غلبے کا مقابلہ صرف طاقت یعنی جہاد سے کیا جا سکتا ہے نہ کہ بزدلانہ امن معاہدوں سے جو کہ آج کے حکمران کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران یہودیوں کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں، ہندو ریاست کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہیں اور کفار کےسردار امریکہ کے ساتھ افغان مجاہدین کے مذاکرات میں تعاون کرتے ہیں۔ یہ غدّار حکمران ٹیپو سلطان جیسے عظیم شخصیت کے پیروں کی خاک بھی نہیں پا سکتے ،ویسا کا لقب ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔
ہمیں اپنی شاندار تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمارے لیےخاص طور پر فوجی قیادت کے لئے ایک واضح مثال ہے ۔ہمیں ان میں سے نہیں ہونا چاہیے جو صلیبی حکمرانوں اور اُن کی تعلیمات کونمونہ سمجھتے ہیں اور ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ فوجی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے ہیرو، ٹیپو سلطان کی پیروی کریں جن کا مقصد اُمّت کو ایک جھنڈے تلے متّحد کرنا اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کام کرنا تھا، بجائے اس کے کہ امریکہ، ہندوؤں اور یہودیوں کے ساتھ تعلقات بنائے جائیں۔ آج کے غدّار اور مغربی ایجنٹ حکمرانوں کی سربراہی میں نہ تو مسلمان ایک جھنڈے تلے متّحد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے راستے میں جہاد کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بغیر خلافتِ راشدہ کی واپسی کے ممکن نہیں، جس کی خوشخبری رسول اللہ ﷺ نے چودہ سو سال پہلے دی تھی۔لہٰذامسلم دنیا کے مخلص فوجی افسران، خاص طور پرجو پاکستان میں ہیں، کو چاہیے کہ وہ موجودہ سیکولر جمہوری نظام کو اُکھاڑ پھینکیں اور خلافتِ راشدہ کے قیام کے لئے حزب التحریر کو جلد از جلد نُصرۃ فراہم کریں تا کہ وہ ٹیپو سلطان کی تعلیمات اور اُن کے راستے پر عمل کرسکیں۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا،
فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
’’جو بات میں تم سے کہتا ہوں تم اُسے آگے چل کر یاد کرو گے اور میں اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بے شک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے‘‘
(سورۃ الغافر، 40:44)۔