بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان: سود کی مدد سے ہونے والی معاشی سرگرمیاں پاکستان کی معیشت کو تباہ کردیں گی
خبر:
پچھلے ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اچانک 25 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کر کےشرح سود 10.25فیصد مقرر کردی۔عمران خان کے وزارت اعظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد شرح سود میں یہ مسلسل پانچویں بار اضافہ ہے، اور یہ افواہیں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ ملک کی مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف کے احکامات پر مرتب ہورہی ہے۔
تبصرہ:
شرح سود میں غیر متو قع اضافے کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طار ق باجوہ نے کہا کہ استحکام کے لیے لیے کیے گئے اقدامات کے نفاذ کی وجہ سے" تسلسل سے اعتماد میں بہتری آرہی ہے اور معاشی غیر یقینی کم ہورہی ہے"(1)۔ لیکن گورنر نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی کہ ان ا قدامات کی وجہ سے کن کے اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے برخلاف ایک عام پاکستانی شرح سودمیں مسلسل اضافوں اور روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سے شدید الجھن اور پریشانی کا شکار ہے۔ پاکستان کے عوام کا معیشت پر اعتماد تو نہیں بڑھ رہاالبتہ وہ خان صاحب کی معاشی پالیسیوں کے خلاف شدیدغصے کا اظہار کررہے ہیں اور اس غصے میں اضافہ ہورہاہے۔
عوام کے غصے کا اثر قبول کیے بغیر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کی غیر محفوظ معیشت میں چند اور کرداروں کا اضافہ کردیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں نے پاکستان کے اکاؤنٹ میں 6 ارب ڈالر جمع کرادیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ چین نے بھی ڈالرجمع کرائے ہیں۔ اس کے بعد صرف آئی ایم ایف ہی رہ جاتا ہے جو حکومت کی جانب سے لیے گئے اب تک کے ا قدامات سے مطمئن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا مجوزہ نسخہ یعنی کہ معیشت کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے اس کے مجوزہ احکامات جیسا کہ شرح سود میں اضافہ، کرنسی کی قدرمیں کمی، ٹیکس نیٹ میں اضافے، سرکاری اداروں کی نجکاری وغیرہ ،شایدہی کبھی کامیاب ہوا ہو۔ پاکستان نے پچھلے تیس سال میں آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل اصلاحات کے ذریعے ان مشوروں کو کئی بار آزمایہ اور ہر بار ناکامی کا سامنا کیا۔ تو آخر اس بار کیا نیا ہونے جارہا ہے؟
پاکستانی معیشت دا نوں کو آئی ایم ایف سے متعلق سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا اس کا اصلاحاتی پروگرام کام بھی کرتا ہے؟ سرمایہ درانہ نظام میں کسی بھی مالیاتی پالیسی میں شرح سود ایک بنیادی عنصر ہے۔ دنیا بھر میں مرکزی بینک کرنسی کی رسد کو بڑھانے یا کم کرنے کے لیے شرح سود کو استعمال کرتے ہیں اوراس طرح کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کو کنٹرول کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اس نظام میں جب شرح سود کم ہوتا ہے تو معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے جی ڈی پی بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔اور جب شرح سود زیادہ ہوتا ہے تو معاشی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں اور جی ڈی پی کم ہوجاتا ہے۔ تو اس طرح جی ڈی پی شرح سود کے مطابق گھٹتا یا بڑھتا ہے یعنی کہ شرح سود اور جی ڈی پی کے درمیان منفی تناسب ہے۔ یہ سرمایہ درانہ نظام کا بنیادی معاشی اصول ہے جو معیشت کی ہر کتاب میں درج ہوتا ہے اورسرمایہ درانہ نظام کے معیشت دانوں کے لیے وحی کے حکم کی طرح ہے۔
نئی تحقیق نے اس فہم کو چیلنج کردیا ہے۔ اکالوجیکل اکنامسٹ رسالے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے ، جس کا عنوان ہے:"مالیاتی پالیسی پر دوبارہ غور :شرح سود اور نومینل جی ڈی پی (گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ) کے درمیان تعلق پر ایک تجرباتی امتحان(Reconsidering Monetary Policy: An Empirical Examination of the Relationship between Interest Rates and Nominal GDP (Gross Domestic Product) Growth)، میں یہ بحث کی گئی ہے کہ جی ڈی پی اور سودکے درمیان ایک مثبت تناسب ہے(2)۔ مصنف نے 1957 سے 2008 کے درمیانی عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی چار معیشتوں، امریکا، برطانیہ، جاپان اور جرمنی ، کی نومینل جی ڈی پی اور شرح سودکے درمیان تعلق پرتحقیق کی اور ان کے درمیان اس نے ایک مثبت تناست دیکھااور وہ یہ کہ زیادہ جی ڈی پی کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ ہوا نہ کہ اس کے الٹ معاملہ ہوا۔
اس صورتحال کی ایک ممکنہ توجیہ یہ حقیقت ہوسکتی ہے کہ جب مرکزی بینک شرح سود کم کرتے ہیں تو بینک کے پاس جمع ہونے والی رقم کم ہوجاتی یعنی اس کے پاس ڈیپازٹ کم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ درانہ نظام میں معاشرے میں دولت کی گردش کا بینک ہی اصل ذریعہ ہیں تو کم ڈیپازٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ قرض دینے کے لیے کم رقم دستیاب ہے۔ جب مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں تو بینک کے ڈیپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے اور قرض دینے کے لیے اضافی رقم موجود ہوتی ہے۔ اس توجیہ میں ایک واضح خامی ہے اور وہ یہ کہ شرح سود پیداوار پر اثرانداز ہوتا ہے۔
مغربی سرمایہ داریت میں شرح سود ایک معمہ ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس طرح سے کام کرتا ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو معیشت میں پیدا ہونے والے زبردست اضافوں اور زبردست کمی کے تسلسل ، جسے بوم اینڈ بسٹ کہتے ہیں، کو شرح سود کے ذریعےختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن ان واضح حقائق کے باوجود معیشت دان اب بھی اندھوں کی طرح شرح سود کی بنیاد پر معیشت میں اضافے کا ماڈل پیش کرتے ہیں۔
اسلام نہ صرف شرح سود کی بنیاد پر ہونے والے معاشی پھیلاؤ کو مسترد کرتا ہے بلکہ اس کا متبادل نمونہ بھی پیش کرتا ہے تا کہ معاشرے میں حقیقی معاشی نمو کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام کے معاشی نمونے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں دولت کا ارتکاز ممنوعہ ہے۔ یہ بات سرمایہ دارانہ ماڈل کے بالکل برخلاف ہے جو کہ دولت کے ارتکاز کی حمایت اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اسلام کا معاشی نظام معیشت میں اضافے کے لیے کاغذی کرنسی کی جگہ سونے اور چاندی کی کرنسی کولازمی قرار دیتا ہے۔ اسلامی ریاست ایسے طریقہ کارکو نافذ کرتی ہے جو اس بات کو یقینی بناتاہے کہ قیمتوں کے تعین کے لیے سونے کے رسد میں غیر فطری ردو بدل نہ کیا جائے۔ اسلامی ریاست کا ہر شہری اشیاء اور سہولیات کی خریداری کے لیےبینکوں کے ذریعے نہیں بلکہ اسلامی معاہدوں کے ذریعے دولت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
معیشت میں اضافے کے لیے اسلام کا طریقہ کار حقیقت میں منفرد ہے۔ یہ طریقہ کار کرنسی کی قدر میں کمی اور بوم اینڈ بسٹ کے سلسلوں کو ختم کردے گا، قیمتوں میں استحکام لائے گا اور آمدن پرسے ٹیکس ختم کردے گا۔ اس طریقہ کار میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ غربت ، جہالت، صحت کی سہولیات میں کمی اور بہت سے دیگر مسائل کو بھی ختم کرسکتا ہے جن سے سرمایہ دار معاشرے متاثر ہیں۔ لیکن یہ طریقہ کار صرف اور صرف اس وقت نتائج دے سکتا ہے جب نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو۔ پاکستان کے معیشت دانوں کو چاہیے کہ وہ شرح سود پر مبنی معاشی بڑھوتی کی اندھی تقلید چھوڑ دیں اور معاشی بڑھوتی کے لیے اسلام کے نظام معیشت کے داعی بن جائیں۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
عبدالمجید بھٹی