بسم الله الرحمن الرحيم
ارطغرل غازی کے عہد سے حاصل ہونے والے اسباق
ترک ڈرامہ سیریزدیریلس ارطغرل نے پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور عالم اسلام میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اسے پسند کررہے ہیں۔ اس ڈرامے کا مرکزی خیال تیرہویں صدی کے ارطغرل کی زندگی پر مبنی ہے۔ ارطغرل کافروں سے جنگیں کرتا ہے، ترکوں کو متحدکرتا ہے اور اپنے بیٹے عثمان کے لیےعثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس ڈرامے نے پاکستان کے مسلمانوں کے تخیل کو اس قدر اپنے سحر میں مبتلا کرلیا ہے کہ کچھ لوگوں نے ارطغرل کے اعزاز میں یادگاریں تعمیر کرڈالی ہیں اور کچھ نے اس کی تعریف میں نغمے لکھ دیے۔
پاکستان کی چھوٹی سے سیکولر اشرافیہ دیریلس ارطغرل کی زبردست کامیابی سے حیران و پریشان ہو گئی ہے۔ پاکستان کے لاکھوں مسلمانوں کی جانب سے اس کی پسندیدگی اُن سے ہضم نہیں ہورہی۔ کچھ نے اس کے خلاف سخت ردعمل دیا اور کہا کہ پاکستانی نیشل ازم کو مضبوط کیا جانا چاہیے جبکہ کچھ دوسرے سیکولر حضرات نے تجویز دی کہ پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں مزید سرمایہ کاری کی جانی چاہیے تا کہ معیاری پاکستانی ڈرامے بیرونی ڈراموں کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ دیریلس ارطغرل نے پاکستان کے مسلمانوں کے اسلامی جذبات کو بھڑکا دیا ہے، جس کے باعث یہ اتنی مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور مسلمان خلافت عثمانیہ کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔
پاکستان کے مسلمان اب درآمد شدہ ہالی وڈ اور بالی وڈ فلموں کے سحر سے نکل گئے ہیں جوگری ہوئی گھٹیامغربی اقدار کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتی ہیں جیسےمنقسم خاندان، خواتین کا استحصال، مفاد پرستی، خود نمائی، ذمہ داریوں سے فرار، بڑوں کی عزت نہ کرنا ،جنسی بے راہ روی اور زنا کا فروغ وغیرہ ۔ اس کے برخلاف پاکستان کے مسلمان اسلامی اقدار کا فروغ چاہتے ہیں جیسے خاندان کے ادارے کا تحفظ، خواتین کی عزت، معاشرے کی فلاح، ایفائے عہد، بڑوں کی عزت کرنا اوراسلامی اخلاقیات وغیرہ ۔
دیریلس ارطغرل کی اقساط تسلسل سے ان اقدارکی ترویج کررہی ہیں اور یہ پاکستانی ناظرین کے افکار و احساسات کا آئینہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کافروں اور ایمان والوں کے درمیان ایک سیدھی لکیر کھینچتا ہے، جہاد کی عظمت بیان کرتا ہے اور غداروں کو سزا دیتا نظر آتا ہے۔ ان تمام باتوں نے پاکستان کے مسلمانوں میں اس خواہش کو پھر سے بیدار کیا کہ ہم ایک بار پھر اس عزت و سرفرازی والے دور کو واپس لے آئیں جس کا مشاہدہ مسلمانوں کی پچھلی نسلوں نے کیا تھا۔
لیکن جب پاکستان کے مسلمان اپنے ملک کو اپنے ان احساسات،جذبات اور اقدارکے تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ مروجہ مغربی افکار اور پالیسیوں سے شدید نفرت محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں جو انھیں اس امر پر اکساتا ہے کہ وہ اسے اسلامی اقداراور طرز زندگی سے تبدیل کریں۔ پاکستان کے مسلمان یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت نے انہیں تقسیم کیا ہے اور مغربی بالادستی کا شکار بنا دیا ہے۔ وہ ایک عرصے سے ارطغرل جیسے رہنما کے انتظار میں ہیں جو بلوچی، پختون، پنجابی ، سندھی اور دیگر لسانی اکائیوں کو اسلام کی بنیاد پر یکجا کرکے انہیں مغربی استعماریت کے چنگل سے نجات دلائے۔ لیکن کچھ لوگ اپنے درمیان موجود ان غداروں کو برداشت بھی کرتے ہیں جو اُن کے اِس خواب کو حقیقت بننے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔پاکستان کے مسلمان مغربی سرمایہ دارانہ حل کے نفاذ کی وجہ سے ان کی زندگیوں پر پڑنے والے بھیانک نتائج سے سخت پریشان ہیں اور جانتے ہیں کہ اسلامی حل ہی ان کے مال ودولت اور زندگی کی دیگر ضروریات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ مغرب کی جانب سے مسلط کیے گئے رہنماوں کو مزید وقت اس بیکارامید پر دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی زندگی میں تبدیلی لے آئیں گے۔ پاکستان کے مسلمان کشمیری مسلمانوں کی جابر ہندو سے آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں، اور وہ ارطغرل جیسے رہنما کے منتظر ہیں جو جہاد کرے، جابر ہندو وں کو کچل ڈالے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کشمیر کے خواب کو پورا کردے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ اپنی طاقتور فوج کی خاموشی پر لب کشائی نہیں کرتے جو کہ ہندو کے چنگل سے کشمیر کو آزاد کرانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
خاموشی اختیار کرنا اور تبدیلی کی امید رکھنے کا بالواسطہ مطلب یہ ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک مغرب کی بالاد ستی کے زیر سایہ رہیں۔ قرآن ہماری جانب سے صورتحال کی تبدیلی کی کوشش نہ کرنے پر ہمیں خبردار کرتا ہے،
﴿إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾
"اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو ان کے اپنے نفوس میں ہے"(الرعد،13:11 )۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ دیریلس ارطغرل سے پیدہونے والے خالص اسلامی جذبات اسلامی حکمرانی کی بحالی تک لے جائیں، یہ ضروری ہے ارطغرل کے دور کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والے اہم اسباق سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے تا کہ مطلوبہ تبدیل حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنی سیاسی زندگی میں نافذ کریں۔
تیرہویں صدی عیسوی ، جس کے پس منظر میں یہ ڈرامہ بنایا گیا، میں سات اہم کردار تھے: صلیبی (یورپی)، بازنطینی(رومی)، منگول اور بکھری ہوئی مسلم ریاستیں:ایوبی،سلجوق اور عباسی۔ ساتواں کردار وہ ترک قبائل تھے جو وسطی ایشیاٰ میں منگولوں کے ظلم و ستم سے بچ نکل کر کسی نئے وطن کی تلاش میں تھے۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل نقاط اخذ کیے جاسکتے ہیں اور انہیں ہم اپنی موجودہ صورتحال پر لاگو کرسکتے ہیں۔
1۔ اس وقت کی مسلم طاقتوں اور موجودہ مسلم ممالک کی صورتحال میں بہت کم فرق ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ایوبی، سلجوق اور عباسی سلطنتیں صلیبی سلطنتوں (انطاکیہ، کاونٹی آف ایڈیسہ، کاونٹی آف طرابلس اوریروشلم) اور منگولوں کے اثروسوخ کا شکار ہوتی جارہی تھیں یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آگیا کہ یہ مسلم ریاستیں کافر طاقتوں کی باجگزار ریاستیں بن گئیں۔ اُس وقت کی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ یہ ریاستیں کافر استعماریوں کی چنگل سے آزادی حاصل کریں اور آج بھی یہی حکم لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اس حکم سے مستثنیٰ نہیں ہے کیونکہ اس کے اندرونی و بیرونی پالیسی امریکا کنٹرول کرتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ کام کر کے اپنے ملک کو امریکی راج سے آزادی دلائیں۔
2۔ صلیبیوں نے خود کو شام کی سرزمین(موجودہ شام، اردن، فلسطین، لبنان اور قبرص) میں چار فارورڈ آپریٹنگ اڈوں یا چار ریاستوں تک محدود رکھا تھا اور کبھی شامی سرزمین میں بہت اندر تک گھسنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ یہ چار ریاستیں مشرقی بحیرہ روم کے ساحلوں کے ساتھ موجود تھیں اور انہیں یورپ سے مسلسل رسد (سپلائی)ملتی رہتی تھی۔ اس کے علاوہ ان میں سے کچھ صلیبی ریاستوں کو مقامی مسلم طاقتوں سے بھی مدد ملتی تھی جس کے باعث صلیبی ریاستوں کو شام کی سرزمین میں اپنے قدم جمانے میں مدد ملی۔ آج مغرب نے ایسا ہی طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے کہ اس نے شام کی سرزمین میں ایک بیرونی اکائی، یہودی وجود، کو قائم کیا۔ اس اکائی کو مغرب تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہ اکائی صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے اگر اسے مقامی مسلم ریاستوں، مصر، اردن،شام اور دیگر مسلم ممالک کی معاونت حاصل ہو۔ تیرہویں صدی عیسوی میں مملوکوں نے صلیبی ریاستوں کی سپلائی لائن کو کاٹنے کے لیے مصر کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا اور بلا آخر الشام میں صلیبیوں کے اثرروسوخ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آج بھی اسی قسم کا عمل درکار ہےکیونکہ امن عمل ایک دھوکہ ہے جس کو ہدف بنا کر اس امت کو 70 سال سے ایک سراب کے پیچھے بھگا بھگا کر تھکایا جارہا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی تمام کوششوں کی زبردست مزاحمت اور فلسطین کو یہود کے قبضے سے آزادی دلانے کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مسلمان لازمی پاکستان اور افغانستان میں قائم امریکی اڈوں کو ختم کریں جنہیں مشرف اور پھر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے امریکیوں سے ملی بھگت کرکے قائم کیا۔
3۔ پانچویں صلیبی جنگ(1217 سے 1221)کے دوران کیکاوس اول کی سربراہی میں سلجوقوں نے ایوبیوں کے خلاف صلیبیوں سے اتحاد کرلیا تھا۔ اگرچہ ایوبی جیت گئے تھے لیکن مسلم دنیا کی اندرونی تقسیم نے صلیبیوں کو مزید پچاس سال تک اس خطے میں رہنے کا موقع فراہم کیا۔ اسی طرح مسلم دنیا کی اندرونی تقسیم نے چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ انہوں نے خوارزم کی سلطنت کو 1221 میں شکست دی جس کے نتیجے میں عباسی خلافت کمزور ہوگئی۔
ہماری آج کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کافر طاقتوں نے خلیج کی جنگوں میں عراق کو تباہ کرنے کے لیے مسلم ریاستوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ شام میں بشار الاسد کی مخالف اسلام پسند مزاحمت کو کچلنے کے لیے کافر طاقتوں نے مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد بنایا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کافر طاقتوں نے ایجنٹ مسلمانوں اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ۔ اسی طرح کافر طاقتوں نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے ایساف(آئی ایس اے ایف) کے زیر نگرانی کئی مسلم ممالک کو اتحاد کا حصہ بنایا ۔ یہ بہت ضروری ہے کہ امت اپنی تکلیف دہ تاریخ سے سبق حاصل کرے تا کہ آئندہ کافر طاقتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوطی سے کھڑی ہوسکے۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کو امت مسلمہ کے د رمیان قائم کی گئی مصنوعی سرحدوں کو ختم کرنے کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر کے امت کو خلافت کے زیر سایہ یکجا کرنا چاہیے۔
4۔ ارطغرل اور اس کے بیٹے عثمان نے عثمانی ریاست قائم کرنے سے پہلے ترک قبائل اور مسلم طاقتوں میں موجود غداروں کو بے نقاب کرنے اور سزا دینے کے لیے انتک محنت کی۔ پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے درمیان موجود غداروں خصوصاً سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو مسترد کرنا چاہیے۔ ان غداروں کے جرائم اور ان کی جانب سے کافر طاقتوں سے اتحاد پر خاموشی اختیار کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
5۔ ارطغرل اور اس کا بیٹا عثمان بازنطینی قوتوں میں موجود کمزوریوں کو استعمال کر کے مشرقی رومن سلطنت سے موجودہ ترکی کا علاقہ چھیننے میں کامیاب رہے تھے۔ کائی قبیلہ ایک عالمی ویژن رکھتا تھا اور اس کی قیادت کافر استعماری طاقتوں کے درمیان موجود اختلافات سے بہت اچھی طرح سے با خبر تھی اور انہوں نے ان اختلافات کو مشرقی رومن سلطنت کو ختم کر کے اپنی ریاست کے قیام کے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا پاکستان کے مسلمانوں کے لیے اپنی طاقت کو جاننا بہت ضروری ہے، انہیں ایک عالمی نظر اختیار کرنی چاہیے اور علاقائی اور بین الاقوامی کافر طاقتوں کی کمزوریوں اور طاقت کو سمجھنا چاہیے۔
مثال کے طور پر امریکا اور چین دونوں ہی خطے میں اپنی بالادستی کے قیام کے لیے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکا پاکستان پر انحصار کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے افغان طالبان کی قیادت کو امریکا کے ساتھ امن بات چیت کرنے پر مجبور کرے۔ اس کے علاوہ امریکا کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک کوٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کرتا ہے تا کہ بھارت مضبوطی کے ساتھ اس کے دائرہ اثر میں رہے۔اسی دوران چین بھارت کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستان پر انحصار کرتا ہے اورپاکستان ہی کے ذریعے اسلامی تحریکوں کو افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے سے روکتا ہے تا کہ وہ سنکیانگ میں عدم استحکام پیدا نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ سی پیک کی تکمیل کے لیے چین پاکستان کی معاونت پر انحصار کرتا ہے تا کہ قیمتی اشیاء اور خام مال (جس میں خام تیل بھی شامل ہے) گوادر سے کاشی سڑک کے ذریعے پہنچائی جاسکیں تاکہ ابنائے ملاکا میں موجود امریکی بحریہ کے خطرے سے اپنی رسد کو محفوط بنا سکے۔
6۔ صلیبیوں نے 1204 میں قسطنطنیہ کو تاراج کیا اور 57 سال تک اس پر قابض رہے۔ انہوں نے اپنے عیسائی بھائیوں کے خلاف ناقابل بیان بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا۔ بازنطینی اس علاقے کو اس وقت واپس لینے میں کامیاب ہوئے جب مسلمانوں کی مملوک سلطنت نے شام کی سرزمین سے صلیبی ریاستوں کا خاتمہ کردیا۔ اس وجہ سے بھی یورپ اور قسطنطنیہ کے درمیان تلخی پیدا ہوئی جس کو سلطان محمدفاتح نے دو سو سال بعد اپنے حق میں استعمال کر کے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ اسی طرح آج یورپ اور امریکا اور اسی طرح امریکا اور چین کے درمیان بھی گہری بداعتمادی موجود ہے ۔ امریکہ چین بداعتمادی کی جڑیں تو انیسویں صدی کی افیون کی جنگوںکے وقت سےہیں۔ بجائے اس کے کہ پاکستان امریکا یا چین کا اتحادی بنے، جو کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی سوچ ہے، پاکستان کیوں نہیں اپنی صلاحیت کو دو کافر طاقتوں کے درمیان موجود تناؤ کو بڑھانے کے لیے استعمال کرے اور اسلام کی بالادستی قائم کرے۔
7۔ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اگر پاکستان خلافت میں تبدیل ہوگیا تو وہ بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ کیا مملوک ریاست نے تیرہویں صدی کی دو بڑی طاقتوں، صلیبیوں اور منگولوں، کا ایک ساتھ مقابلہ نہیں کیا تھا؟ کیا مملوکوں نے شام کی سرزمین میں مسلمانوں کو متحد کر کے بازنطینی افواج کو واپس اپنی بیرکوں میں جانے پر مجبور نہیں کردیا تھا؟ ایٹمی پاکستان اس بات کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خلافت کی بالادستی کو یقینی بناسکے لیکن اس سے پہلے پاکستان کے مسلمانوں کو اس کے قیام کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
رسول اللہﷺ کی امت کو ارطغرل جیسے کئی مبارک رہنما ملے جنہوں نے کفر کی طاقتوں کے شیطانی منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے اسلام کی بالادستی قائم کی۔ ارطغرل کے دور کے ہی ایک مسلمان، دہلی سلطنت کے حکمران علاؤالدین خلجی نے پانچ بار منگول لشکروں کو 1297 سے 1306 عیسوی کے درمیان شکست دی ، برصغیر کو منگولوں کے شر سے محفوظ رکھا اوراسے مضبوطی سے اسلام کا قلعہ بنائے رکھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دورِ حکمرانی(1707-1658) میں منگول اورتبت کے اتحاد کو کشمیر کے علاقے لداخ میں شکست دی گئی۔ اورنگ زیب نے پورے برصغیر کو اسلام کی حکمرانی میں لانے کے لیے سخت محنت کی اور مغل سلطنت کی معیشت ، چین کی معیشت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے سب سے بڑی معیشت بن گئی۔ اور جب مغل سلطنت کا زوال ہو اتو ٹیپو سلطان جیسے کئی ہیرو پیدا ہوئے جنہوں نے برطانوی استعماری راج کے خلاف اسلام کی عزت کا دفاع کیا۔
پاکستان کے مسلمانوں کی تاریخ ایسے اسلامی ہیروز سے بھری پڑی ہے جنہوں نے برصغیر میں یہ ظاہر کر کے دکھایا کہ کیسے کافر طاقتوں کے خلاف اس امت کا دفاع کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کی خواہش کی تکمیل کریں اور ارطغرل، علاؤالدین، اورنگزیب اور ٹیپو سلطان کی پیروی کریں۔ اب ایک اور ریکارڈ توڑنے کی باری پاکستان کے مسلمانوں کی ہے۔ مسلم دنیا میں خلافت ختم ہوئے 96 سال ہوچکے ہیں اور پاکستان کے مسلمانوں کے پاس ایک منفرد موقع ہے کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم کرکے صحابہ ؓ کی تاریخ دہرا دیں۔ امام احمد نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
»ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ«
"۔۔۔۔اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہو گی"۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اس مقصد کو دوسرے تمام کاموں پر ترجیح دینی چاہیےیہاں تک کہ اپنی زندگیوں سے بھی بڑھ کر اس مقصد کو اہمیت دینی چاہیے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ﴾
"مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں "(التوبۃ، 9:38)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے عبدالمجید بھٹی نے تحریر کیا