بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کیلئے ہماری محبت
ہمارے خاندان اور ہمارے پیشے سے بڑھ کر ہے
مصعب بن عمیر
آج اس دور میں خاندان کے معاملات، والدین، پڑھائی، کاروبار ، تجارت یا مستقبل کو سنوارنے کی کوشش ہمارے لیے اسلامی معاشرے اور دین سے متعلق ذمہ داریوں سے زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ذمہ داریوں کی ترجیحات کے حوالے سے ایسی سوچ کا نتیجہ بہت مہنگا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب اسلامی امت پر ظلم وستم ہر دور سے بڑھ کر ہورہا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران استعماری طاقتوں کے کہنے پر ظلم کررہے ہیں اور اپنے اس عمل کی کوئی وجہ بیان کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔ اس امت کے دین، اس کے علاقوں اور وسائل کے خلاف اقدامات ایک ایک کر کے نہیں لیےاٹھائے جا رہے بلکہ امت کے تمام مفادات پر ایک ساتھ حملہ کیا جا رہاہے۔بے شک آج ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالے۔ لہٰذا ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک عام شہری جس پر اسلام کی دعوت کی ذمہ داری ہے وہ اس عمل سے کوتاہی کا مظاہرہ کرے ، اور گھر کی ذمہ داریوں کو عذر کے طور پر پیش کرے۔ اسی طرح ایسا بھی ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک فوجی افسر جس کی جانب سے اسلام کو ایک ریاست کی صورت میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ فراہم کرنا لازمی ہے، وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہے اس بنا پرکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں بہت مصروف رہتا ہے۔
یقیناً انسان فطری طور پر اپنے خاندان کی دیکھ بھال اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رجحان انسان میں موجود جبلت کی وجہ سے ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان میں تخلیق کیا ہے۔ انسان میں جبلت نوع موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد اور اپنے والدین سے پیار کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح انسان میں جبلت بقاء بھی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی ، کاروبار یا مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ جبلت میں ایک قوت موجود ہوتی ہے جو اسے اپنے اہداف کو حاصل کرنےاور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف دھکیلتی ہے۔ یہی وہ جبلتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان اُس وقت کشمکش کا شکار ہوجاتا ہے جب اسے اپنی ذاتی ذمہ داریوں اورضروریات سے بڑھ کر معاشرے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ مغربی دنیا کہ جو ہدایت سے محروم ہے میں کام اور زندگی میں توازن ،کوالٹی ٹائم اور معاشرے کے لیے وقت نکالنے کی ضرورت پر بہت بحث ہوتی ہے۔ لیکن ذاتی ذمہ داریوں اور معاشرے کے حوالے سے ذمہ داریوں کے درمیان موجود یہ تنازعہ اس لیے حل نہیں ہو پاتا کیونکہ انسانوں کی بنائی ہوئی مغربی طرزِ زندگی جہاں ایک جانب ناقص ہے تو دوسری جانب نامکمل بھی ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے حل مسئلے کواس انداز سےحل نہیں کرتے کہ جس سے اطمینان اور سکون حاصل ہوجائے۔ لہٰذا لوگ احساس جرم، پچھتاوے، پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ذاتی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی ایک فہرست ہوتی ہے اور وہ ان کی ادائیگی کے درمیان توازن قائم رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔
لیکن مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رہنمائی اور ہدایت حاصل ہے، جس نے انسان اور اس کی جبلتوں دونوں کو تخلیق کیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم اور دانائی کی کوئی حد نہیں ۔ الحمد اللہ اسلام ایک مکمل ہدایت و رہنمائی کے طور پر موجود ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن کا تعین کرتا ہے۔ یہ وہ واحد دین ہے جو اس دنیا سے پہلے کی حقیقت یعنی ماقبل اور اس دنیا کے بعد کی حقیقت یعنی مابعد کے ساتھ اس دنیا کی زندگی کا تعلق مضبوطی سے قائم کرتا ہے۔ اس طرح سے اسلام ان لوگوں کو ایک مکمل اور جامع ہدایت فراہم کرتا ہے جو سیکولر ازم کی گمراہی کا شکار ہوچکے ہیں۔ایک ہدایت یافتہ روشن خیال شخص وہ ہے جو اس زندگی کاتعلق اس حقیقت سے جوڑ سکتا ہے جو حقیقت اس زندگی سے پہلے گزر چکی اور جو حقیقت اس زندگی کے بعد آنے والی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام نے خاندان، تجارت اور کاروبار کی جانب انسان میں موجود جھکاؤ کومحضاس کی جبلتوں کے حوالے نہیں کردیا بلکہ اسلام زندگی میں خاندان، تجارت اور کاروبار کے مناسب مقام کے متعلق واضح تصور کے لحاظ سے جبلتوں کو ڈھالتا ہے اور اس بات کا تعین کیا ہے کہ اسلام اور جہاد کی نسبت سےان کی حیثیت کیا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
"کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اورکنبے اوروہ مال جو تم کماتے ہو اور تجارت کہ جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺسے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب)بھیجے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا "(التوبۃ، 9:24)۔
تو اس آیتِ کریمہ کے مطابق والدین، اولاد، بیوی، گھر، تجارت اور کاروبار کی محبت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت پر مقدم نہیں ہونی چاہیے، یعنی پہلی ترجیح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دین ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے یہ محبت فرض ہے۔ محبت ایک میلان یاجھکاؤ ہے جو انسان کی نفسیت کو ایک شکل دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ایک شرعی تصور سے منسلک ہے جو اسے ایک فرض قرار دیتا ہے۔ الازھری نے کہا، " ایک خدمت گزار کی اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کی اطاعت کرتا ہے اور ان کے احکامات کی پیروی کرتا ہے"۔ بیضاوی نے کہا، "محبت اطاعت کرنے کے ارادے کا نام ہے" ۔ ابن عرفہ نے کہا ہے، "عربوں کے زبان میں محبت کا مطلب کسی کام کو سیدھے طریقے سے کرنا ہے"۔ زجاج نے بیان کیا ہے، "انسان کی اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت یہ ہے کہ وہ ان کی اطاعت کرے اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اور جسے رسول اللہﷺنے پہنچایا ہے اسے قبول کرے"۔ اس طرح اس میلان یاجھکاؤ کو اسلام نے ایک خاص شکل دی ہے ۔ خاندان اور مستقبل کو سنوارنے کی جبلی خواہش پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کی خواہش غالب آجاتی ہے اور انسان اسلام کی ذمہ داریوں کو ادا کرپاتا ہے۔
اسلام نے والدین، اولاد، خاندان، تجارت اور کاروبار کے حوالے سے فرائض کا تعین کیا ہے۔ اسلام نے اس شخص کی تعریف کی ہے جوصلہ رحمی میں لگارہتا ہے۔ اسلام نے دیانتداری سے کام کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ جس حد تک ممکن ہو ایک شخص کاروبار اورلین دین کے معاہدوں کو پورا کرسکے۔ لیکن مسلم امت پر صرف ان معاملات ہی کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔ مسلم امت ایک منفرد امت ہے جس پر پوری انسانیت تک اسلام کی ہدایت پہنچانے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، لہٰذا اسلام کی دعوت کو اٹھانے کی ذمہ داری اس امت پر عائد ہوتی ہے۔ مسلم امت وہ بہترین امت ہے جسے انسانیت کی بھلائی کے لیے لایا گیا ہے کیونکہ وہ اچھائی اور نیکی کے کاموں کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے۔ یہ مسلم امت ہی ہے جو اسلام کو ایک طرز زندگی کے طور پر نافذ کرتی ہے تاکہ پوری انسانیت کے لیے مثال قائم ہوسکے۔ یہ مسلم امت ہی ہے جو دنیا کو ایک زبردست دعوت کے ذریعے اسلام قبول کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ جب لوگ دعوت سے آگاہی کے بعد اسلام کی جانب میلان کا اظہار کرتے ہیں تو یہ مسلم امت ہی ہوتی ہے جو ان پر مسلط حکمرانوں کو اپنی افواج کے جہاد کے ذریعے ہٹاتی ہے۔ یہ عمل اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ ان پر اسلام کا عملی نفاذ ہو سکے ۔ ایک مسلمان صرف اپنے خاندان یا تجارت کی ذمہ داریوں تک ہی محدود نہیں ہوتا۔ اس کی سوچ اس سے بہت زیادہ وسیع ہوتی ہے اور یہ وسعت اسلام کے نفاذ، اس کی دعوت اور جہاد کی خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ طاقتور مقصد حیات ہے جو ایک مسلمان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اور تجارت سے وقت نکالے تاکہ اپنی زندگی اور جوانی کا بہترین وقت اور توانائی اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لیے قربان کرے۔ ایک مسلمان اسلامی طرز زندگی کی بحالی، اسلام کی دعوت کو مضبوط کرنے اور جہاد کو دوبارہ جاری کرنے کے کام کو ترجیح دیتا ہے تاکہ اسے عالمی سطح پر منظم کیا جا سکے۔
اسلامی تہذیب نے اپنی صدیوں پر محیط تاریخ میں پے در پے ایسی شخصیات پیدا کی ہیں جو معاشرے اور دنیا میں تبدیلی لانے کا باعث بنیں۔ اس تہذیب نے ہر مسلمان کی شخصیت کی تعمیر اس انداز سےکی کہ وہ اسلامی معاشرے اور اپنے دین کے لیے فکرمند ہوتا تھا، اور یہ فکرمندی اسے اس بات پر مجبور کرتی تھی کہ وہ اپنی ذاتی خواہشات اور مقاصد کو پس پشت ڈال کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کام کرے۔ لہٰذا صحابہؓ کے سنہری دور میں اور اس کے بعد بھی اسلام نے ایسی شخصیات پیدا کیں جنہوں نے اسلام کے لیے غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔ اسلامی تہذیب نے ایسے کاروباری حضرات پیدا کیے جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے، جنہوں نے اپنے دور کو اور اس کے بعد کے ادوار کو تبدیل کردیا۔ اسلامی تہذیب نے ایسے فوجی جرنیل پیدا کیے جو اپنے اس فرض سے آگاہ تھے کہ ان کا کام صرف دشمن سے لڑنا نہیں بلکہ لڑائی سے قبل اسلام کی دعوت کو بھی ان تک پہنچانا ہے۔ آئیں ہم ان دونوں باتوں پر غور کریں تا کہ ہم اپنے موجودہ دور میں اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
عام شہریوں کو ایک تاجر اور عالم، امام ابو حنیفہؒ کی مثال پر غور کرنا چاہیے۔ ابو حنیفہؒ ایک ماہر تاجرتھے اور ان کا کاروبار بہت منافع بخش تھا۔ ان کا رزق اس قدر کشادہ تھا کہ انہوں نے اپنے طلباء کے مالی معاملات کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی تھی اور ان کا "وظیفہ" لگا رکھا تھا تا کہ وہ پوری توجہ سے ان سے دین کا علم سیکھ سکیں۔ اپنے کاروبار کے علاوہ امام ابو حنیفہ نے اسلام کی تعلیمات اور اس کے احکامات کے علم میں انتہائی مہارت حاصل کی۔ امام ابو حنیفہ نے خود کو علم حاصل کرنے کے لیے وقف کررکھا تھا۔ مقدمہ حاشیہ ابن عابدین میں لکھا ہے،
رأى الإمام أبو حنيفة غلامًا يلعب بالطين ، فقال له: يا غلام ، إياك والسقوط في الطين, فقال الغلام للإمام إياك أنت من السقوط ، لأن سقوط العالِم سقوط العالَم
"امام ابو حنیفہ نے ایک بچے کو کیچڑ کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو انہوں نے اس سے کہا: اے لڑکے، کیچڑ میں گرنے سے خبردار رہو۔ بچے نے امام کو جواب دیا:اور آپ بھی کیونکہ ایک عالم کا گرناتو پوری دنیاکا گرنا ہے" ابن عابدین پھر بیان کرتے ہیں ،فكان أبو حنيفة لا يفتي بعد سماع هذه الكلمة إلا بعد مدارسة المسألة شهرًا كاملاً مع تلامذته "یہ سننے کے بعد امام ابو حنیفہ کبھی بھی اس وقت تک فتویٰ جاری نہیں کرتے تھے جب تک ایک مسئلے کو پورے ایک مہینے تک اپنے طلباء کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہ کر لیں "۔
اپنے طلباء کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہؒ نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری سے بھی پوری طرح آگاہ تھے، لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ حکمران اسلام کی سیدھی راہ پر چلتے رہیں۔ امام ابو حنیفہ نے اپنے طالب علم، ابو یوسف، کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا،كن من السلطان كما أنت من النار، تنتفع بها وتتباعد عنها، ولا تدنُ منها؛ فإنك تحترق وتتأذى منها؛ فإن السلطان لا يرى لأحد ما يرى لنفسه"سلطان سے ایسے خبردار رہو جیسے تم آگ سے رہتے ہو، تم اس کے پاس جائے بغیر اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتےمگر تم اس کے قریب نہیں جا سکتے ورنہ وہ تمھیں جلا دے گی اور نقصان دے گی، سلطان اس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا سوائے اس کے جو وہ اپنے لیے دیکھنا چاہتا ہے"۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا،
إذا رأيتم العالم يرتاد أبواب السلاطين فاتهموه في دينه
"اگر تم عالم کو حکمرانوں کے دروازے پر جاتا دیکھو تو اس کے دین پر الزام لگاؤ"۔
یقیناً امام ابو حنیفہ کا ذہانت پر مبنی یہ موقف اس وجہ سے تھا کہ وہ حکمرانوں کی قربت سے اجتناب برتنا چاہتے تھے کیونکہ طبرانی نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«إيَّاكُمْ وَأبْوَابَ السُّلْطَانِ، فَإنَّهُ قَدْ أصْبَحَ صَعْبَاً هَبُوطَاً»
"حکمرانوں کے دروازوں سے خبردار رہو کہ وہ شدیدٹھوکرکا سبب بنتے ہیں"۔
امام ابو حنیفہ اپنے دور کے حکمران کا کڑا محاسبہ کرتے تھت ، اور یہ وہ وقت تھا جب خلافت قائم تھی اور حکمرانی اسلام کی بنیاد پر ہورہی تھی۔ تو پھر موجودہ دور کے متعلق کیا خیال ہے جب خلافت موجودہی نہیں اور مسلم علاقوں پر کفر کی بنیاد پر حکمرانی ہورہی ہے؟ آج ان لوگوں کو کیا کرنا چاہیے جو عظیم امام ابو حنیفہ کی فقہ کی پیروی کرتے ہیں؟ وہ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جب حکمران سود کے ذریعے معیشت کو تباہ کررہے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور ا س کے رسول ﷺ سے جنگ کی دعوت دے رہے ہیں؟ وہ کیسے خاموش رہ سکتے ہیں جب مقبوضہ کشمیر مدد کے لیے چیخ چیخ کر پکار رہا ہے لیکن جہاد کے ذریعے اس کی آزادی کے لیے مسلم افواج کو حرکت میں نہیں لایا جارہا ؟ جس وقت دین کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا گیا ہو تو اس وقت مساجد کا قیام کس طرح دین کے قیام و نفاذکا متبادل ہوسکتا ہے؟
آج کے مسلم فوجی افسران کو حضرت خالد بن ولیدؓ کی زندگی پر غور کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کے فوجی جرنیل حضرت خالد ؓ کی ذہانت اور فوجی حکمت عملی اور داؤ پیچ میں تخلیقی صلاحیت کی وجہ سے عزت کرتے ہیں۔ حضرت خالد ؓ نہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے میں ثابت قدم تھے بلکہ وہ اسلام کی دعوت پیش کرنے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ یرموک کی جنگ کے دوران، ایک رومی کمانڈر جار ج اپنے سپاہیوں کی قطاروں میں سے نکل کر سامنے آیا اور خالد بن ولیدؓ سے ملاقات کی خواہش کی۔ خالدؓ اس سے ملنے آئے اور وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں۔ جارج نے کہا، "اے خالد ! تم کس بات کی دعوت دیتے ہو؟ خالدؓ نے جواب دیا: اس بات کی گواہی کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور پیغمبر ہیں، اور ہر اس بات کو قبول کرنا جو وہ اللہ سے لے کر آئے ہیں۔ پھر جارج نے پوچھا: جو اس بات کو قبول نہ کرے تو؟ خالدؓ نے جواب دیا : پھر وہ جزیہ دیتے ہیں اور ہم ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ جارج نے پوچھا: اگر وہ یہ نہ دیں؟ خالدؓ نے جواب دیا: پھر ہم ان کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور ان سے لڑتے ہیں"۔
عظیم فوجی جرنیل خالدؓ نے اس بات کو بالکل واضح کردیا کہ ایک مسلم فوجی جرنیل کی دعوت اور جہاد کے حوالے سے کیا ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر ایک علاقے کے لوگ اسلام قبول کرلیتے ہیں، تو ان پر اسلام نافذ کیا جاتا ہے۔ اگر اس علاقے کے لوگ جزیہ دینا قبول کرتے ہیں تو بھی ان پر اسلام نافذ کیا جاتا ہے جبکہ وہ اپنے مذہب پر رہتے ہوئے اسلامی ریاست کے شہری بن جاتے ہیں اور ریاست ان کی حفاظت کرتی ہے۔ اور اگر وہ نہ اسلام قبول کریں اور نہ ہی جزیہ دیں تو پھر خلافت کی فوج ان کی فوج سے لڑتی ہے یہاں تک کہ خلافت ان پر بالادست ہو کر ان پر اسلام نافذ کردےتا کہ اسلام کے عملی نفاذ کو دیکھ کر ان کیلئے ا اسلام کو قبول کرنا آسان ہو جائے ۔ اسلام پر مبنی فوجی تربیت کی وجہ سے حضرت خالدؓ کا علم صرف جہاد کے احکامات تک ہی محدود نہیں تھا ۔ ابتدائی مباحثے کے بعد حضرت خالدؓ نے جارج کے ساتھ اسلام کے حوالے سے تفصیلی بات کی جس کے بعد جارج نے اسلام قبول کرلیا اور اس نے خالدؓ سے کہا:"مجھے اسلام سیکھاؤ"۔ لہٰذا خالدؓ اسے اپنے خیمے میں لے گئے، اسے غسل کرایااور اپنی امامت میں اسے دو رکعت نماز پڑھائی۔ جارج خالد کے ساتھ رومیوں سے مل کر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ تو یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خالد ؓ صرف سیف اللہ ہی نہ تھے بلکہ وہ اسلام کے قابل داعی بھی تھے۔ حضرت خالد ؓ کو یہ نہیں کرنا پڑا کہ وہ جارج کو کسی عالم کے پاس بھیجتے جو انہیں جہاد کے احکام اور اسلام کے عقائد بتاتا اور ان پر عمل کرنا سکھاتا۔ خالدؓ خودان تمام اہم معاملات میں ضروری معلومات رکھتے تھے۔
تو خالدؓ کے قابل فخر بیٹوں کو خالدؓ کی مثال سے ویسے ہی سبق لینا چاہیے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ انہیں غور کرنا چاہیےجب اس وقت مسجد الاقصیٰ اور کشمیر پر کافر طاقتیں قابض ہیں ، اور دعوت و جہاد معطل ہے؛ انہیں غور کرنا چاہیے جب وقت ایسا ہے کہ مغرب کے جرنیلوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد یہ نہیں کہ انہیں اسلام کی دعوت پیش کی جائے یا میدان جنگ میں ان کا مقابلہ کیا جائے، بلکہ صورتحال یہ ہے کہ ان سے تعاون کیا جاتا ہے ، ان کے ساتھ اتحاد قائم کیا جاتا ہے اور مشترکہ اعمال کیے جاتے ہیں۔ جنگ میں پیشہ ور ہونا کس طرح ایسے گناہ اور غفلت کو مٹا سکتا ہے؟ کیسے؟ امام احمد اور ابو داؤد سے روایت ہے کہ ابنِ عمر نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا:
«إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ بِأَذْنَابِ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُم»
" اگر تم نے عِينَةِ (سود کی ایک قسم) میں کاروبار شروع کردیا، گائیوں کی دموں کے پیچھے لگ گئے (یعنی کھیتی باڑی شروع کردی)، زراعت پر قناعت کرکے بیٹھ گئے اور جہاد کو ترک کردیا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ تم پر ذلت نازل کرے گااور وہ اُس وقت تک تم سے نہیں ہٹے گی جب تک تم دوبارہ اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ "۔
تو آئیں کہ ہم میں سے ہر ایک ، چاہے وہ تاجر ہو یا فوجی افسر، کارپوریٹ ملازم ہو یا عالم، صحافی ہو یا طالب علم، یہ جان لے کہ زندگی میں توازن یہ ہے کہ ایک ہاتھ میں خاندان اور تجارت ہے جبکہ دوسرے ہاتھ میں اسلام کو طرز زندگی کے طور پر بحال کرنے کی جدوجہد، اسلام کے پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانا اور جہاد کرنا ہے۔ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کے دعوے میں سچا ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی دین کے لیے وقف ہو۔ یقیناً اسلام کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا ہے، لہٰذا ہماللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کی آنچ کو تیز کر دیں۔