الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جلدی کرنا

مصعب عمیر، پاکستان

 

                  ایک مؤمن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جلدی کرتا ہے۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت میں سستی نہیں کرتا، اس کی عبادت ایسی نہیں ہوتی جو اس کے کردار پر اثرانداز ہی نہ ہو ۔ ایک مؤمن متحرک، پرعزم ، سنجیدہ، مستقل نظم و ضبط اور زبردست نتیجہ خیز صلاحیت کا مالک ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اس شخص میں پیدا ہوتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتا ہے ، اُس چیز سے محبت کرتا ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اچھا سمجھااور اُس چیز سے نفرت کرتا ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے برا جانا،وہ موت کو یاد رکھتا ہےاوریہ یاد رکھتا ہے کہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا ،اور اس بات کی مسلسل خواہش کرتاہے کہ ہر لمحہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خدمت میں گزرے۔ اس قسم کے مؤمنین کی کثیر تعداد کی وجہ سے اسلامی امت نے دوسری تہذیبوں پر زندگی کے ہر شعبے میں بالادستی حاصل کی تھی خواہ وہ فوجی فتوحات ہوں یا پھر فقہ، طب، انجینئرنگ ، تعمیرات اور ادب وغیرہ۔ ایسے مؤمنین نے چھوٹی عمروں میں ہی ایک سے زائد شعبوں میں عظمت کی بلندیوں کو چھوا کیونکہ انہیں اسلام پر کامل یقین تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اسلام کا پابند رکھا تھا۔ یقیناً اسلامی تاریخ ایسے مؤمنین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے دنیا پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جبکہ آخرت میں ان کی لیے نیکیوں کی کہکشائیں لکھ دی گئی ہیں۔

 

                  جنہوں نے بھی اسلام کے مطابق زندگی گزاری، ان میں سب سے اعلیٰ و ارفع ، رسول اللہﷺ ہیں جنہوں نے اپنی نبوت کے اعلان کے بعد صرف دو دہائیوں میں انسانیت کا رخ تبدیل کردیا۔ اپنی عمرمبارک کے ایک چھوٹے سے حصے میں، آپﷺ نے ایک بہت بڑی اور زبردست امت کی بنیاد رکھی جو قیامت کے دن تک موجود رہے گی، جو پوری دنیا پر اس دین کی بدولت بالادست ہو گی جو آپﷺ لے کر آئے اور روز قیامت امت مسلمہ کسی بھی دوسرے نبیؑ کی امت سے کہیں زیادہ بڑی امت ہوگی۔ اپنی زندگی کے صرف ایک تہائی حصے میں آپﷺ نے وہ حاصل کرلیا جو دوسرے عقائد اور نظام کے لوگ کئی کئی نسلیں کھپا دینے کے بعد بھی حاصل نہ کرسکے کیونکہ آپﷺ ہدایت کا حتمی سرچشمہ تھے، تمام انبیاء ؑکے سردار تھے، تمام رسولوںؑ کے امام تھے اور تمام انسانوں میں سب سے عظیم تھے۔

 

                  یہ صرف الہامی وحی ، یعنی قرآن اور سنت ہی ہے، جو دماغ کو روشن کرتی ہے ، روح کو تقویت اور اعضاء کو توانائی دیتی ہے۔ وہ جو اپنی روح کو قرآن و سنت سے سیراب کرتا ہے ، وہ عروج حاصل کرتا ہے اور خوش حال ہوتا ہے ، جبکہ وہ جو اپنی روح کو اس سے محروم رکھتا ہے وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے دیمک سے متاثر درخت کا تنا جو اندر سے کھوکھلا ، گلا سڑا اور زندگی سے محروم ہوتا ہے۔ الہامی وحی روح کو کاہلی، وقت کو ضائع کرنے، بے مقصدیت، مشکلات سے دور بھاگنے اور بے آرامی سے گریز کرنے جیسے رجحانات سے پاک کرتی ہے، یہ وہ رجحانات ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر حرکت میں آنے سے روکتے ہیں۔

 

                  یقیناً مؤمن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے الفاظ کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہے تا کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جلدی کرے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

"اپنے پروردگار کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے "(آل عمران، 3:133)

 

۔مشہور مفسرقرطبی نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا، " جلدی کرنا اور پہل کرنا ، جو کہ رد عمل ہیں ۔۔۔یعنی ، وہ اس کام میں جلدی کرتے ہیں جس سے معافی ملنا لازم ہوجاتی ہے ، اور یہ کام اطاعت ہے"۔ انس بن مالک اور مکحول نے وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ"اور بخشش اور بہشت کی طرف لپکو " کی تفسیر میں فرمایا،"اس کا مطلب نماز کی پہلی تکبیر ہے"۔ علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا، کہ اس سے مراد"فرائض اعمال کی ادائیگی"ہے ۔ عثمان بن عفان ؓ نے فرمایا، "اخلاص کے لیے"۔ کلبی نے کہا، "سود سے توبہ کرنا"۔ اور یہ بھی کہا،"لڑائی میں استقامت"۔ اور اس کے علاوہ اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا کہ " اور یہ آیت پوری طرح سے عمومی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیک اعمال میں سب سے آگے ہونا"۔ بغوی نے بیان کیا کہ "عبداللہ بن عباسؓ نےکہا، "اسلام کے لئے "۔ سدی نے اس آیت کے سلسلے میں بیان کیا کہ،"پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی مغفرت کے لئے جلدی کریں اور اس کی جنت کا ادراک کریں ، جس کی آسمانوں اور زمین کی چوڑائی ہے ، تو اس کی لمبائی کتنی ہوگی ، جسے اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لئے تیار کیا ہے ، کیوں کہ وہ جنت کے لوگ ہیں اور تقویٰ اس کی جانب لےجاتا ہے"۔

 

                  یقیناً مؤمن ثابت قدم رہتا ہے، اپنی زندگی کو نیک اعمال سے بھر تا ہے، نیک اعمال کرنے کے مواقع ضائع نہیں کرتا اور خود ایسی صورتحال پیدا کرتا ہے جس میں وہ مزید نیک اعمال کرسکے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ"تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو"(البقرۃ، 2:148)۔ سدی نے اپنی تفسیر میں فرمایا، "نیک اعمال میں سبقت حاصل کرنے کا حکم اچھے اعمال انجام دینے کے حکم سے بالا تر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اعمال میں سبقت حاصل کرنے میں انہیں انجام دینا ، انہیں مکمل کرنا ، انہیں پورا پورا لاگو کرنا اور ان کےلیےپہل کرنا شامل ہے۔ جو شخص دنیا میں نیک اعمال کرنے میں آگے رہتا ہے ، وہ پھر آخرت میں جنت میں بھی آگے ہوگا، تو سب سے آگے رہنا مخلوق کے درجات میں سے سب سے بلند درجہ ہے۔ نیک اعمال میں فرائض اور نوافل اعمال شامل ہیں ، جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، عمرہ ، جہاد۔۔"۔ طبری نے بیان کیاکہ، "ابو جعفر نے فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کا تذکرہ کیا: ' سبقت حاصل کریں'اور اس لئے وہ پہل کرتے ہیں اور جلد بازی کرتے ہیں ، جو سبقت لینا ،پہل کرنا اور تیزرفتاری دکھاناہے"۔

 

                  جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن میں نیک اعمال کی انجام دہی میں پہل، جلدی کرنے اور تیزی کو بیان کیا ہے ویسے ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات کی اہمیت کو رسول اللہﷺ کی سنت کے ذریعے بھی بیان کیا ہے۔ لہٰذا مبارک سنت میں نیک اعمال میں پھرتی کو ہم رسول اللہﷺ کی سنت سے سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے فرمایا،

بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا

"اُن فتنوں سے پہلے جلدی جلدی نیک کام کر لو جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے، صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور دنیا کے مال کے بدلے اپنے دین کو بیچ ڈالے گا "(مسلم)۔

 

ہمیں رسول اللہﷺ کے عمل میں بھی نیک اعمال کو جلد از جلد کرنے کا سبق ملتا ہے۔ بخاری نے عقبہ سے حدیث روایت کی کہ انہوں نے کہا، "میں نے مدینہ میں عصر کی نماز رسول اللہﷺ کی امامت میں ادا کی۔ جب انہوں نے نماز تسلیم کے ساتھ ختم کی ، تو وہ جلدی سے کھڑے ہوئے اور اپنی ازواج کے حجروں میں سے ایک حجرے میں جانے کے لیے لوگوں کی قطاروں کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھے۔  لوگ رسول اللہﷺ کی جلدی کو دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ پھر رسول اللہﷺ واپس آئے اور انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کی اس تیزی کی وجہ سے حیران و پریشان ہیں تو انہوں نے فرمایا، ذَكَرْتُشَيْئًامِنْتِبْرٍعِنْدَنَافَكَرِهْتُأَنْيَحْبِسَنِي،فَأَمَرْتُبِقِسْمَتِهِ" مجھے یاد آگیا کہ میرے گھر میں سونے کاٹکڑا پڑا ہے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی وجہ سے اللہ کی عبادت میں خلل واقع ہو، تو میں نے اسے صدقہ کرنے کا حکم دے دیا "۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ان باتوں کے نفاذ میں جلدی کرنی چاہیے جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

 

                  رسول اللہﷺ کی نیک اعمال کی طرف تیزی آپ ﷺ کے اردگرد موجود ایمان والوں پر بھی اثر انداز ہوتی تھی۔ مسلم نے روایت کی ہے کہ انسؓ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ اور ان کے صحابہؓ مشرکین سے قبل ہی بدر کے میدان میں پہنچ گئے تھے۔ اور جب مشرکین وہاں پہنچے تو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ کوہدایت دی، لَا يُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَى شَيْءٍ حَتَّى أَكُونَ أَنَا دُونَهُ"تم میں سےکوئی بھی مجھ سے آگے نہ نکلے "۔ جب مشرکین قریب آئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا، قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ"اب کھڑے ہوجاؤ اور اس جنت کی جانب بڑھو جو زمین و آسمان جیسی وسیع ہے"۔ عمیر بن الھمامؓ نے پوچھا، "کیا جنت زمین و آسمان جتنی وسیع ہے؟"، رسول اللہﷺ نے جواب دیا، نَعَمْ"ہاں"۔ عمیر نے کہا"کیا خوب، کیا خوب "! رسول اللہﷺ نے اُن سے پوچھا،مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ"تمہیں کس چیز نے'کیا خوب ' کہنے پر مجبور کیا "۔ انہوں نے جواب دیا، "اے رسول اللہﷺ! اس امید نے کہ شاید میں بھی جنت کا ایک فرد بن جاؤں"۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا"تم یقیناً ان میں شامل ہو گے"۔ عمیر نے کچھ کھجوریں اپنی پوٹلی میں سے نکالیں اور انہیں کھانے لگے، لیکن کچھ لمحوں بعد کہنے لگے، " اگر میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تک میں اپنی کھجوروں کو کھا سکوں، تو یہ بہت طویل زندگی ہو گی"۔ تو انہوں نے کھجوریں پھینک دیں اور دشمن سے لڑنے لگے یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے۔

 

                  رسول اللہﷺ نے عظیم فوجی جنرل اور سیاست دان پیدا کیے جنہوں نے آپﷺ کے ساتھ مل کر انسانی تاریخ کو تبدیل کردیا۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد اس مبارک نسل نے انسانیت تک اسلام کو پہنچانے کے آپﷺ کے مشن کو جاری رکھا۔ یہی وہ پہلی نسل تھی، تمام نسلوں سے بہتر، جو بعد میں آنے والی تمام نسلوں کے لیے قابل تقلید ہے۔ لہٰذا وہ سیاست دان جو اسلام کی دعوت کو پہنچانا چاہتے ہیں، آج کے معاشرے میں اسلام کو بنیاد بنانا چاہتے ہیں، وہ صحابہؓ کی مثالیں یاد کرتے ہیں جو دار الارقم سے نکلے اور قریش کے معاشرے میں اس قوت اور تیزی سے پھیل گئے کہ ہدایت کی روشنی کو پورے جزیرۃالعرب کے لوگوں نے بہت ہی کم عرصے میں محسوس کرلیا۔ لہٰذا وہ آرمی کے افسران جو مقبوضہ علاقوں کو آزاد اور نئے علاقوں کو اسلام کے لیے فتح کرنا چاہتے ہیں، انہیں خالد بن ولیدؓ ، سیف اللہ، کو یاد کرنا چاہیے۔ کسی بھی جنگ میں کفار انہیں توڑ نہ سکے اور خالدؓکے متعلق فرمایا گیا کہ، "نہ وہ خود سوتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو سونے دیتے ہیں اور کوئی چیز ان سے چھپی نہیں ہے"(طبری: جلد دوئم، صفحہ 626)۔

 

                  یقیناً جب ایک مؤمن کی آبیاری اللہ کی نازل کردہ وحی سے کی جائے اور اسلامی ثقافت سےاس کی نشوو نما ہو تو وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ وہ منظم اور بھروسے والا ہوتا ہے۔ وہ وقت ضائع نہیں کرتا اور نہ ہی سستی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ نماز، زکوٰۃ، جہاد، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا جیسی تمام ذمہ داریاں بہترین طریقے سے ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر کے اور ذاتی اموراس انداز سےمنظم کرتا ہے تا کہ وہ اسلام کی دعوت کے لیے کام کرسکے۔ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کرتا ہے تاکہ آخرت کے اجر کے لیے جدوجہد کرسکے۔ وہ ہر کام مکمل طور پر ادا کرتا ہے اور معاملات اگر معمول کے مطابق چل رہے ہو ں تو وہ مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جاتا۔

 

                  ان تمام باتوں سے بڑھ کر جو بات ایک مؤمن کو دیگر تمام ادیان اور نظریۂ حیات کے بہترین افراد سے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کی جدوجہد کا ہدف ہے   اور اچھے کاموں میں عجلت اختیار کرنا ہے۔ یقیناً وہ مغربی تہذیب کے ثمر آور ہونے سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اِس تہذیب کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی سمت اُسے خبردار ، چوکنا اور فکرمند کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا

"وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں"(الکھف، 18:104)۔ 

 

لہٰذا ان کی ویژن مختصر دنیا کے مادی نفع، فخر اور رتبے کے حصول تک محدود نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی بصیرت (ویژن)جنت کی خواہش کی بدولت وسیع تر ہوجاتی ہے، وہ جنت جس کی وسعت زمین و آسمان سےزیادہ ہے تو اس کی لمبائی کتنی ہو گی۔ اس کی ویژن کا تعین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اوامر و نواہی کرتے ہیں۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کا حصول چاہتا ہے اور ان باتوں سے دور بھاگتا ہے جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ غضبناک ہوں اور سزا دیں ۔ اسلام کی غیر موجودگی کی وجہ سے امت کی تکالیف سے اس کا دل غم سےبوجھل ہوتا ہے لیکن پھر اِس یقینِ محکم سے اس کا دل ہلکا ہوجاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام امور پر غالب ہے۔ وہ زمین پر دین کے نفاذ کے لیے اپنی دولت، وقت اور صحت قربان کردیتا ہے۔ اس کے ہونٹ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ذکر سے تر رہتے ہیں اور آنکھیں اللہ کے خوف سے آنسوؤں سے لبریز رہتی ہیں۔ راتوں کو نماز میں اللہ کے حضور کھڑا رہنے سے اس کا بدن  دُکھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ دن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے لیے بھر پور جدوجہد کرتا ہے۔ تو ایک مؤمن کو حقیقی کامیابی اور خوشحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (51) وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ

"مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺکی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں "(النور، 52-5124:

 

Last modified onمنگل, 01 دسمبر 2020 13:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک