الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

آج کے بعد کوئی آرام نہیں

مصعب عمیر

 

اسلام کے پیغام کا پہلے لمحے سے ہی مطلب اس دین کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا تھا۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سیدنا محمد کے بارے میں (نازل) فرمایا:يَاأَيُّهَاالْمُدَّثِّرُ * قُمْفَأَنذِرْ''اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے ۔  اُٹھو اور خبردار کرو''۔

 

اس آیت کے ساتھ وحی ایک پیغام بن گئی۔ ''اُٹھو اور ڈراؤ'' کا مطلب جوش اور مضبوطی  کے ساتھ آگے بڑھنا اور لوگوں کو خبردار کرنا تھا۔  پس اس آیت کے ساتھ محمدرسول بن گئے ، جیسے وہ پہلی وحی کے ساتھ نبی بنے تھے ۔  اب آپکیلئے لازمی تھا کہ اس پیغام کو اکیلے ہونے کے باوجودان لوگوں تک پہنچائیں جو ابھی تک اس پیغام سے بے خبر تھے اور جاہلیت میں گم  تھے۔ جب ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے اپنے خاوند کے کندھوں پر اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی بھاری ذمہ داری کا اثر دیکھا تو فرمایا۔''اِرتح"یعنی ''آپ کچھ آرام کیجئے''۔  تاہم رسول اللہ ﷺآگے آنے والی بھاری  ذمہ داری سے پوری طرح با خبرتھے۔ آپ ؐ نے جواب دیا:لا راحةَ بعدَ اليومَ يا خديجة '' آج کے بعد کوئی آرام نہیں،اے خدیجہ''۔

 

  یقیناً رسول اللہﷺنے سچ فرمایا۔  اللہ کےحکم کے عین مطابق، آپﷺ اٹھ  کھڑے ہوئے اوراِس نئی ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا۔ اس کے بعد ہمارے محبوب نبی ﷺکے لئے کوئی آرام نہیں تھا۔  رب العالمین کا  فیصلہ یہی تھا کہ آپﷺدنیا کی تمام ذمہ داریوں سے بڑی ذمہ داری کو اپنے کاندھے پر اٹھائیں۔  نیند، آرام، گرمیوں میں ٹھنڈی چھاؤں اور سردیوں میں گرم بستراب   آپ ؐ کی  زندگی کیلئے اجنبی بن گئے تھے ۔ رسول اللہﷺاس تصادم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جو ان کا منتظر تھا۔  اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری مخلوقات میں سب سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ذات کے کاندھوں پر آگئی تھی اوراس ذمہ داری نے آپ ؐکو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی خاطر زندگی کے ہنگامے میں لا کھڑا کیا۔ رسول اللہﷺاس عظیم امانت کا بار اٹھانے کیلئے بے لوث آگے بڑھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے مسلسل سخت جدوجہدکرتے رہے  اور کبھی سُست روی اختیار نہ کی۔ آپﷺنے بنی نوع انسان کو اسلام کے نور کی طرف لانے کا بیڑا اٹھایا اور 20 سال سے زیادہ عرصے تک  سخت جدوجہد کی اور اس دوران کوئی بھی چیز  آپ ؐ کی توجہ اس مشن سے  ہٹا نہ سکی۔

 

آپﷺکے لیے کوئی آرام نہیں تھا جب آپ ﷺ 40 سال  کی عمر کو پہنچے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب لوگ اپنے کاروبار اور گھرکو آباد (settle)کرنے کی فکر میں جُتے ہوتے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں جب لوگ اپنی بیویوں کی صحبت میں آرام کرتے تھے،تب رسول اللہﷺام المومنین خدیجہؓ  سے دور قبائل کو اسلام کا پیغام دیتے ہوئے مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے تھے اور آپ ﷺ کو دھتکارا جا رہا ہوتا تھا۔  جب دوسرے لوگ اپنی کمسن اولاد کی خوبصورت نادان حرکتوں سے خوش ہو رہے ہوتے تھے، اُس وقت رسول اللہﷺنئے مسلمانوں کی ایک چھوٹی جماعت کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے کئی کئی گھنٹے سمجھانے اور پڑھانے میں لگاتے تھے۔  پچاس برس کی عمر میں بھی آپ ﷺ کے لئے کوئی آرام نہیں تھا۔  عمر کے اِس حصے میں  جب لوگ اپنے بچوں کی شادیوں اور ذریعہ معاش کی فکر کر رہے ہوتے ہیں،تو عمر کے اس حصے میں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ ﷺ کواسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کا حکم دیا۔   آپﷺکیلئے بطور حکمران کوئی آرام نہ تھا ۔  مدینہ میں اسلام کے نفاذ کے بعد آپﷺنے مدینہ سے باہر دیگر اقوام کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا   اور علاقے فتح کرنے شروع کئے۔  نہ ہی ساٹھ برس سے زائد عمر میں آپﷺ کے لئے  کوئی آرام تھاکہ جب لوگ اس عمر میں ریٹائر ہوکر اپنے باغیچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اپنے پوتے پوتیوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں،اس وقت بھی  آپﷺاسلامی ریاست کو مضبوط بنانے اور لوگوں کو اسلام کے قالب میں ڈھالنے میں مشغول رہتے تھے۔

 

ہم دیکھتے ہیں کہ آپﷺنے آرام دہ زندگی کو نہیں اپنایا یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آگیا۔  اے بھائیو! یاد کرو انکے آخری ایام! وہ وقت کہ جب اور لوگ ہر طرح کا کام کاج چھوڑ کر اپنے  عزیزوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تاکہ وہ  اپنی زندگی کے آخری دن اُن کی صحبت میں گزار سکیں،   آپﷺنے اپنے بوڑھے ،بیمار اور قریب المرگ جسم کیساتھ دین کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔  29 صفر  11 ہجری پیر کے دن آپﷺنے البقیع میں جنازے میں شرکت کی۔  واپسی پر آپﷺکوسر میں درد شروع ہو گیااور بخار اتنا تیز ہوگیا کہ ماتھے پر گرمی محسوس کی جاسکتی تھی۔  وفات سے پانچ روز قبل بدھ کے دن بیماری کی شدت سے آپﷺکا بخار بہت تیز ہوگیا ۔  رسول اللہﷺپر غشی طاری ہونے لگی اور آپ ﷺ شدید تکلیف میں مبتلا ہوگئے۔  لیکن اس سب کچھ کے باوجود  بھی رسول اللہﷺکے لیے آرام نہیں تھا۔  آپﷺنے حکم دیا کہ مجھ پر مختلف کنوؤں سے سات قراب پانی ڈال دوتاکہ بخار کچھ کم ہو جائے اورمیں جاکر لوگوں سے مل سکوں اور ان سے بات کرسکوں۔  پس انہوں نے آپﷺکو ایک برتن میں بٹھایا اور آپﷺپر پانی ڈالتے رہے یہاں تک کہ آپﷺنے فرمایا:''بس کافی ہے،کافی ہے''۔  پھر آپﷺنے اپنے آپ میں مسجد جانے کی سکت محسوس کی۔  آپﷺسر پر پٹی باندھے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے، آپﷺممبر پر بیٹھے اور وہاں پر اپنے گرد اکھٹے لوگوں سے خطاب فرمایا۔  آپﷺنے فرمایا: ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا تھا'' پھر آپﷺنے فرمایا ''میری قبر کوبُت نہ بنانا''۔ پھر آپﷺنے لوگوں کو دعوت دی کہ اگر ان کیساتھ کبھی آپﷺنے زیادتی کی تو اس  کا حساب چکالیں۔  آپﷺنے فرمایا:''اگر میں نے کبھی کسی کی کمر پر وار کیا ہو تو میں بدلہ اتارنے کے لئے اپنی کمر حاضر کرتا ہوں۔ اگر میں نے کبھی کسی کی تضحیک کی ہوتو میں حساب دینے کیلئے اپنی عزت سامنے رکھتا ہوں''۔

 

بھائیو! ہند بن ابی ہالہ کا رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ بیان یادکرو:''رسول اللہﷺمسلسل پریشان رہتے تھے اور مستقل فکرمند رہتے تھے۔ آپﷺکبھی آرام سے نہیں بیٹھتے تھے''۔  رسول اللہﷺکیلئے کوئی آرام نہ تھا۔وہ امت کے امور کے بارے میں مسلسل فکر مند رہتے تھے اور امت کیلئے ہمیشہ بہترسے بہتر کی تلاش میں ہوتے تھے۔ آرام و سکون کو ترک کرناسرگرمیوں  میں آپﷺکی عجلت سے ،اچھے اعمال کی تکمیل کیلئے بے چینی سے، اور فتح کے حصول کی انتھک کوششسے عیاں تھا۔  یہ انفرادی عبادت میں آپ ﷺ کی لگن سے بھی ظاہر تھا۔  جب اللہ کے حضورراتوں کے قیام  میں آپﷺکے پاؤں سُوجھ جاتے تھے اور اس بارے میں آپﷺسے پوچھا جاتا تو فرماتے ''کیا ایک بندے کو شکرگزار نہیں ہونا چاہئے؟''۔ اوریہ آپﷺکے بیان کی سنجیدگی اورلوگوں کی طرف آپ کی گرم جوشیتھی ،جو لوگوں کو انکی غفلت سے بیدار کردیتی ،تھکے ہوئے میں جان ڈال دیتی اور جمود کے شکار شخص میں حرکت پیدا کردیتی کہ وہ مزیدسے مزید اجر  حاصل کرنے کی طرف بڑھے۔

 

ان سرگرمیوں اوراِس عجلت  کیلئے محرک وہ نور تھا جو کبھی نہ بجھنے والانور ہے ،جوکامل اورہر ملاوٹ سے پاک ہے ،یعنی وحی کا نور۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان سرگرمیوں کے لئے  ترغیب اللہ الرحمٰن الرحیم کی خوشنودی اور جنت  کے وعدے سےملتی  ہے، ایسی زندگی کا وعدہ جس میں ہمیشہ کی  راحت وآرام ہوگا، جس کا نہ کوئی اختتام ہے اور وہاں نہ موت ہے اورنہ تکلیف ،نہ بیماری ہے اور نہ امتحان اور نہ ہی کوئی مصیبت۔   اِن خوبصورت آیات کی طرف توجہ کرو  اے میرے بھائیو،ان آیات پر غور کرو تاکہ ہمارے دِلوں میں سے زنگ نکل جائے اورہمارے سینے نور سے بھر جائیں۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَه مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ  ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ''کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے ،حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے ۔انہیں سختیاں اور مصیبتیں پہنچیں اوروہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ موجود ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟سن لو بے شک کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے'' (البقرہ۔2:214) ۔  اور فرمایا:وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ''اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے'' (البقرہ۔2:155) ۔    اور فرمایا:وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا  ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ"اور تم اہلِ کتاب اورمشرکین سے بہت سی ایذا کی باتیں سنوگے تو اگر صبر اور پرہیز گاری کرتے رہو گے تو یقینایہ بڑی ہمت کا کام ہے'' (آل عمران۔3:186)

 

پس یہ کوئی حیرت کی بات نہیںتھی کہ محبوب لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب  رسول اللہﷺ، دینِ اسلام اور اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے وعدوں سے اثر لے کر، اپنے اردگرد کے لوگوں میں ایک نہ ختم ہونے والی توانائی بھر دیتے تھےجو لوگوں کے دل ودماغ کو ایسے گرمادیتی تھاکہ وہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی کی جستجو میں مگن ہو جاتے تھے۔  یاد کریں اُس سخت جدوجہد کو جو اسلام کو بطور ریاست نافذ کرنے کیلئے کی گئی۔  یاد کریں جب مصعبؓ نے عیش وآرام کی زندگی اور اپنی امیر والدہ کی محبت کوخیر باد کہہ دیاتاکہ وہ دعوتِ دین کی جدوجہد کرسکیں اور اسلام کو بطور ریاست قائم کرنے کا اعزاز حاصل کرسکیں۔  یاد کریں ریاست کو وسعت دینے  کی کوششوں کو، یاد کریں  حنظلہؓ  کو،وہ شہید جس نے اپنی نئی نویلی دلہن کی صحبت کو جہاد کی خاطر چھوڑا اور غسیل الملائکہ کا اعزاز حاصل کیا۔  اور یاد کریں  ریاست کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں کو،یاد کریں  93 سالہ عمار بن یاسرؓ  کو،جی ہاں 93 سالہ عمار بن یاسرؓ جو اپنے پوتوں اور شاید پڑپوتوں کو پیچھے چھوڑ کرمعرکہ صفین،کی طرف  روانہ ہو گئے، اور وہ  فتنے کے وقت میں اس بات کی نشانی بن گئے کہ حق کس طرف  ہے۔  رسول اللہﷺاور صحابہ کرام کیلئے کوئی آرام نہیں تھا سوائے جنت الفردوس میں ابدی آرام کے!

 

بھائیو!آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں رسول اللہﷺکی مبارک  صحبت کی تمنا کرنے والو!  سبقت لے جانے والوں میں سے بھی سبقت حاصل کرنے کی تمنا کرنے والو!  شہید کی حیثیت سے اٹھائے جانے کی تمنا کرنے والو!  اس دین کو انتھک محنت کے ساتھ آگے لے کر بڑھو تاکہ اُس صحبت اور انعام کے مستحق بن جاؤ۔  دن دُگنی رات چوگنی کوشش کرو،اپنی راتوں کو دنوں کے ساتھ ملالو۔  گھنٹوں کو چھوڑو، منٹوں کو بھی ضائع نہ ہونے دو۔  صرف ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک نیند پوری کرو اور زندگی کی راحتوں اور عیش وآرام سے منہ موڑ لوتاکہ روشن و پرنور چہروں کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش ہوسکو۔  سخت دوڑدھوپ کرو کہ اللہ تم سے خوش ہوجائے اور تمہاری کوششوں کے صلے میں کئی گنا اجروانعام اور نتائج  عطا کرے۔  

 

کوئی آرام نہیں، ہمارے لئے کوئی آرام نہیں،ابدی آرام تک کوئی آرام نہیں!

Last modified onبدھ, 23 دسمبر 2020 20:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک