الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ٹرمپ انتظامیہ آنے والی بائیڈن انتظامیہ کے لیے راستہ ہموار کررہی ہے

خبر:

"ٹرمپ کی صدارت کے آخری ایام میں  اس کا سیکریٹری خارجہ  اور سب سے وفادار معاون مائیک پومپیو تاریخ رقم کرنے کے لیے پُرعزم ہے " (بی بی سی)۔

 

 

تبصرہ:

ایک ایسے وقت میں جب امریکا میں ٹرمپ کی جانب سے صدارتی انتخابات میں شکست تسلیم نہ کرنے پرجذباتی بحث جاری ہے، اسی دوران اُس کی انتظامیہ اندرونی اور خارجی  مختلف محاذوں پر سرگرمی سے بڑے بڑےقدم اٹھارہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایسے اقدامات ہیں جو ملک کے مختلف سیاسی قبلوں کے درمیان مخصوص سیاستی حالات میں ایک مضبوط اور مربوط انتظامیہ کے لئے ضروری ہیں۔   اس کے علاوہ اس انتظامیہ نے  افغانستان اور عراق سے امریکی فوج کی بڑی تعداد کو نکالنے کی اجازت دے  دی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات شروع کررہی ہے، جبکہ اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے  افغانستان اور پاکستان میں اپنے ایجنٹوں پر انحصار کر رہی ہے۔   عمران خان کا حال ہی میں کابل کا دورہ اوراشرف غنی سے ملنا اسی سلسلے کی کڑی تھی۔  عراق کے گرین زون میں اپنے ایجنٹوں کی حفاظت کی ذمہ داری سعودی عرب کو دینے کے پیچھے بھی یہی مقصد کارفرما ہوسکتا ہے۔   تیس سال کی بندش کے بعد  دونوں ملکوں، عراق و سعودی عرب، کے درمیان عرار بارڈر کھولنا  اسی بات کی طرف اشارہ کرتا   ہے کہ سعودی عرب کو نئی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ یہ دو معاملات انتہائی مشکل رہے ہیں جن پر وائٹ ہاوس میں آنے والے مختلف صدور کی انتظامیہ کے درمیان اُس وقت سے اختلاف رائے رہا ہے جب امریکا نے ان دونوں ممالک میں اپنی افواج کو بھیجا تھا۔ اس دوران آنے والے مختلف صدور میں سے کوئی بھی انخلاء کے منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کرسکا کیونکہ انخلاء کے حامیوں اور افواج کو ان ممالک میں بھیجنے کی حمایت کرنے والوں کے درمیان شدید اختلاف تھا۔موجودہ امریکی صدارتی انتخابات کےانتخابی شوروغل اور انتخابات کے نتائج میں میڈیا اور الیکٹوریٹ کی مشغولیت کے دوران  ٹرمپ انتظامیہ نے  بڑے آرام سے  امریکہ میں سیاسی فریقوں کی جانب سے کسی اعتراض کے بغیر انخلاء کے لیے اقدامات اٹھائے۔

 

                  ٹرمپ کے آخری دنوں کے بڑے اقدامات میں سے ایک اُس کے سیکریٹری خارجہ پومپیو کا دورہ بھی ہے جس نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شروع کیے گئے  اُس منصوبےکو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کی جس کے تحت ُان ممالک کو یہودی ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کرنے پرمجبور کردیاگیا جو یہودی ریاست کے لیے خطرہ تھے۔  اس حوالے سے سب سے حالیہ قدم یہودی وجود کے وزیر اعظم  نیتن یاہو، سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان اور پومپیو کے درمیان حجاز میں  ملاقات تھی۔ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک تھا جس نے  عرصہ دراز سے امریکی سیاست دانوں کو گومگو کی کیفیت سے دوچار کررکھا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ   یہودی ریاست کو مسلم علاقوں پر مسلط کرنے،اس کو بطور ریاست تسلیم کرنے،   اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور اس کو خطے کا ایک فطری حصہ بنانے کے امریکی نقطہ نظر کو  مسلط کرنے میں کامیاب ہوئی۔     پہلے بھی مشرق وسطی سے متعلق یہی استعماری پالیسی تھی جس کو عملی جامہ پہنانے میں وہ ناکام ہوتے تھے۔

 

                  امریکی سیاست، ٹرمپ اور اس کی پالیسیوں اورعالمی اور اندرونی  ناپسندیدہ اقدامات سےخود کو  الگ کرنے میں کامیاب ہوئیہے، جن کو متکبرانہ  اور آمرانہ کہاجاتاہے۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ آنے والے دنوں میں  ان سے بھی زیادہ ناپسندیدہ اقدامات اٹھائے۔ ایران پر پابندیاں لگا کر وہ اس پر حملہ کرسکتا ہے تا کہ خطے میں نئے سیاسی صورتحال پیدا کی جائے۔ یہ اقدامات ایسے  روایتی صدر کے لیے ممکن نہیں جس کو امریکی اداروں اور پالیسی سازوں کی ظاہری حمایت بھی حاصل ہو، حالانکہ یہ سارے اقدامات امریکی مفاد میں ہیں  اور امریکہ ہمیشہ ان کے حصول کا خواب دیکھتا رہا مگر ان اعمال کے جواز پیدا کرنے میں ناکام رہا۔  امریکہ  ہمیشہ چین کو زیر کرنے اور دن دھاڑے لوٹنے،  میکسیکو اور امریکہ کے درمیان نسل پرستانہ دیوار کی تعمیر ، یورپ سے غنڈہ گردی سے پیش آنے، مسلمانوں کے وسائل کو بغیر کسی روک ٹوک کےلوٹنے اور  یہودی وجود کو  امت مسلمہ پر مسلط کرنے کا خواب دیکھتا رہا ہے اور ان خواہشات پر عمل کرنے کے لیےامریکا کو ایک سرکش اور متکبر صدر کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ کچھ اور اقدامات اور قوانین  ہیں جن پر ٹرمپ وائٹ ہاوس میں اپنی موجودگی کے آخری دنوں اور  لمحوں میں دستخط کرے گا۔

 

امریکی پالیسیوں، اس کے سیاسی منصوبوں، سیکیورٹی سروسز، آئین، قوانین اور فیصلہ سازوں پر نظر رکھنے والے یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ٹرمپ سرمایہ داروں کے مختلف گروہوں میں سے ہی کسی ایک گروہ کی خدمت گزاری کرے گا اور اس سے باہر نہیں جائے گا۔ ٹرمپ یقیناً ایسا نہیں کرے گا کہ جیسا کہ وہ مشہور زمانہ  افسانوی کردارسیمسن ہو جس نے  عبادت خانے کی چھت اپنے اوپر اور دوسرے لوگوں پر گرادی تھی جو اس کے ساتھ تھے۔   یقیناً ٹرمپ کا انتخابی نتائج کو مسترد کرنا، جو اس کے مد مقابل کے حق میں ہیں،بھی اسی طرح کا ہی ایک معاملہ ہے۔ ایسا اسلئے ہے کیونکہ ٹرمپ کی سمت کا تعین بھی انھی مستقل اجزاء نے کیا ہے جن سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا سوائے اس صورت  کے کہ وہ کوئی سیاسی یا فوجی بغاوت برپا کردے جس کا نہ تو کوئی امکان ہے اور نہ ہی ایسی کوئی آپشن زیر غورنظر آتی ہے۔ تاہم امریکی مواقع سے  فائدہ اٹھانے والی قوم  ہے اور ٹرمپ جیسے  متکبر اور سرکش آدمی کا وائٹ ہاوس میں ہونا امریکیوں کے لیے ایک نادر موقع تھا، اور اب   وہ ٹرمپ کے غیر روایتی انداز صدارت کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کررہے ہیں جو وہ ایک عرصے سے حاصل نہیں کرپارہے تھے۔ ٹرمپ جو کچھ کررہا ہے اس سے امریکی خوش ہیں  اگرچہ اس کے اقدامات سے  بعض سرمایہ دار گروہوں ،جیساکہ ٹیکنالوجی کی کمپنیوں، کو نقصان ہو رہا ہے۔

 

ٹرمپ کے یہ آخری دنوں کےاقدامات  بائیڈن کے لیے اپنی اہداف کے حصول کا راستہ ہموار کر رہے ہیں،   چاہے یہ اقدامات فیصلہ سازوں اور ٹرمپ کے درمیان اتفاق رائے سے ہوں یا عدم اتفاق کی صورت میں ہوں۔  نتیجۃً، بائیڈن  ٹرمپ کی راہ پر ہی چلے گا وہ اسے مکارانہ مسکراہٹ اور شیطانی اسالیب  کے ذریعے انجام تک پہنچائے گا۔ اس طرح امریکہ ایک نئے مہذب چہرے کے ساتھ نمودار ہوگا،  جس سے وہ مزید  بین الاقوامی مسائل میں مداخلت کے قابل ہوگا اور  اسے اپنے نقطہ نظر اور اپنی مرضی کو مسلط کرنے کا موقع ملے گا۔بائیڈن ٹرمپ کے اقدامات میں سے کسی بھی قدم سے رجوع نہیں کرے گا ہاں سوائے اس صورت کے کہ رجوع کر لینے سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہو۔ یہی امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والی امریکی انتظامیہ  ٹرمپ کی بوئی فصل کو کاٹے گی۔روایتی طور پر امریکا میں یہی ہوتا آیا ہے کہ ریپبلکن منصوبوں کے بیج بوتے ہیں اور ان کی آبیاری کرتے ہیں اور پھر ڈیموکریٹ اُن کی لگائی فصل کو کاٹتے ہیں اور اس کا پھل کھاتے ہیں۔

 

جب تک امریکا اور اس کے شیطانی نظام کے مقابلے میں ایک آئیڈیالوجیکل ریاست سامنے نہیں آتی،  امریکا عالمی معاملات میں اسی طرح بلا روک ٹوک مداخلت کرتا رہے گا۔   اسی لیے امت پر لازم ہے کہ وہ  نبوت کے طرز پر خلافت کے قیام کی کوششوں میں تیزی لائے تاکہ  دنیا اور امت مسلمہ کے خلاف امریکا کی سازشوں کو  ناکام بنایا جا سکے۔   یہی وہ واحد حل ہے جو  دنیا کو سرمایہ داریت کی ظلمتوں سے اسلام کے نور کی طرف لاسکتاہے۔

 

﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيراً مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ * يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾.

"اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا جو اس میں سے بہت کچھ تمہارے لیے بیان کرتا ہے جو تم کتاب میں سے چھپاتے تھے، او ربہت سے درگزر کرتا ہے، اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور اور کتاب آچکی، جس کے ذریعے اللہ  اپنی رضا طلب کرنے والوں کو امن کی راہ دیکھاتا ہے اور ان کو اپنے اذن سے  تاریکیوں سے نور کی طرف لاتا ہے اور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے"(المائدہ، 16-15)۔

 

بلال المہاجر، پاکستان، نے یہ مضمون  حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا

Last modified onجمعرات, 24 دسمبر 2020 20:31

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک