بسم الله الرحمن الرحيم
حدیث شریف - رسول اللہ ﷺ کی کھلم کھلا توہین کرنے والے کو قتل کرنا
ابن عباس ؓ سے روایت ہے،
أَنَّ أَعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ
" ایک نابینا شخص کی ایک بیوی تھی جو نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی۔ حسب معمول ایک رات اس نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (اندھے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا، أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ:'جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے'،تو وہ اندھا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے اور کانپتے ہوئے آ کر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسولﷺ! میں نے ہی یہ کام کیا ہے، وہ آپ ﷺ کو گالیاں دیتی تھی اور آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بیٹے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی۔ جب کل رات آئی تو حسب معمول وہ آپ ﷺکو گالیاں دینے لگی، اورگستاخی کرنی شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ'لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون معاف ہے(یعنی اس پر کوئی خون بہا نہیں)'۔ " ابو داود، النسائی نے روایت کی اور احمد نے دلیل کے طور پر استعمال کیا۔
امام شوکانی نے نیل الاوتار میں فرمایا:
وفي حديث ابن عباس دليل على أنه يُقتل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم، وقد نقل ابن المنذر الاتفاق على أن من سبَّ النبي صلى الله عليه وسلم صريحاً وجب قتله. ونقل أبو بكر الفارسي أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع أن من سبَّ النبي صلى الله عليه وسلم بما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء فلو تاب لم يسقط عنه القتل لأن حد قذفه القتل وحد القذف لا يسقط بالتوبة، وقال الخطابي: لا أعلم خلافاً في وجوب قتله إذا كان مسلماً
"ابن عباسؓ کی حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ جو رسول اللہﷺ کی توہین کرتا ہے اسے قتل کیا جاتاہے۔ ابن منذر نے ایک اجماع کا بیان کیا کہ جو رسول اللہ ﷺکی کھلم کھلا توہین کرتا ہے ، اس کا قتل واجب ہے۔ابو بکر فارسی ، ایک شافعی امام ہیں، انھوں نے کتاب الاجماع میں لکھا کہ جو شخص رسول اللہﷺ کی توہین کرتا ہے جو کہ بہتان[قذف] لگانا ہے ، وہ علمائے کرام کے اتفاق رائے سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔اگر وہ توبہ کرتا ہے تو سزا ختم نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی غیبت کی حد(سزا) موت ہے اور توبہ کرنے سےبہتان کی سزا (حد) ختم نہیں ہوتی ۔الخاطبی نے کہا ، "میں اس شخص کو قتل کرنے کی ذمہ داری میں کوئی علمی فرق نہیں جانتا جو رسول اللہ ﷺ کی کھلم کھلا توہین کرتا ہے، اگرچہ وہ مسلمان ہی ہو"۔
اگر توہین کرنے والے کا تعلق اہل ذمہ سے ہو، تو ابن قاسم نے مالک سے روایت کی:
يُقتل من سب النبي صلى الله عليه وسلم منهم إلاّ أن يُسلم
"اُن میں سے جو رسول اللہ ﷺ کی توہین کرتا ہے اسے قتل کیا جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ مسلمان ہوجائے۔"
اس طرح کی بات ابن ِمنذر نے ليث، شافعی، احمد اور اسحاق سے منسوب کی ہے۔
جہاں تک اُن یہود کو رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قتل نہ کرنا ہے جو انہیں 'السام علیک' کہتے تھے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہ (یہود)اس بات کو تسلیم کرتے تھے، تو رسول اللہﷺ نے اپنی معلومات کی بنیاد پران کے خلاف کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے ان کو اس لیے نہیں ماراکیونکہ وہ واضح طور پر اور کھلے عام اس کو نہیں کہتے تھے ، بلکہ وہ اپنی زبان کو تروڑ مروڑ کر کہتے تھے۔ کسی بھی صورت میں یہود کا کفر بدتر ہے اور ان کے خون کے محفوظ رہنے کی وجہ صرف ان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ہے ، جس کے کسی بھی حصے میں نہ تو یہ شامل ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا ، کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کرسکتے ہیں۔تو جو اُن میں سے یا عیسائیوں میں سے یا دوسرے کافروں میں سے آپ ﷺ کی توہین کرتا ہے ، وہ عہد شکنی کرتاہے اورتب یہ عہد منسوخ ہوجاتا ہے جس کے ذریعہ ان کا تحفظ ختم ہوجاتا ہے اورپھر ان کا قتل واجب ہے۔
آج رسول اکرم ﷺ کی حرمت کی خلاف ورزی کرنے اور ان کو گالی دینے کے لیےکفار جو کرتے ہیں ، یہ صرف یورپ اور امریکہ کی اقوام عالم کے لیے تیار کردہ ایجنڈے کا نفاذ ہے جس کے ذریعہ اپنے لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت کا جذبہ بلند کرتے ہیں۔ یہ تب ہوا جب انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام ان کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے باوجود ان کی سرزمین کے مرکز تک پہنچ گیا جس کے نتیجے میں لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسلام ان کے کرپٹ عقائد ، دھوکے پر مبنی جمہوریت اور ان کی وحشی سرمایہ داریت کے مقابلےمیں ایک فطری اور جبلی متبادل ہے۔ جلدہی قائم ہونے والی اسلامی ریاست ہی ، ان شاء اللہ ، وہ ذریعہ ہے جو اسلام کو ان تک اور پوری دنیا تک عملی طور پر لے کر جائے گی ، اور یہ ہمارے نبی ﷺ کی توہین کرنے والوں کو سزا دے گی۔
﴿وَسَيَعۡلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَىَّ مُنقَلَبٍ۬ يَنقَلِبُونَ﴾
" اور ظالموں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ کس کروٹ پر پڑتے ہیں"(الشعراء:227)
7 ربیع الاول 1432 ہجری
2 ستمبر 2011