بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کا ورلڈ آرڈر
مصعب عمیر - پاکستان
پاکستان کے مسلمانوں کے حکمرانوں کی طرف سے معیشت اور امن و امان پر غفلت برتنے کے نتیجے میں عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بجا ہے۔ حکمرانوں کی یہ غفلت محض نااہلی کی وجہ سے نہیں بلکہ مغربی استعماری ریاستوں کے قائم کردہ ورلڈ آرڈر کی تابعداری کی وجہ سے ہے۔
معیشت کے میدان میں پاکستان کے حکمرانوں نے 30 کھرب روپے کے سود کی ادائیگی کا عزم کیا ہے، جبکہ ٹیکس کا کل ہدف 60 کھرب روپے ہے۔یہ کہنے کی بجائے کہ اسلام سود سے قطعی طور پر منع کرتا ہے اور تمام سودی ادائیگیاں روک دی جائیں گی، حکمرانوں نے مالیاتی خسارے کے 35 کھرب کے نقصان کو مزید سودی قرضوں سے پورا کرنے کی ٹھانی ہے۔ایسا کرنے سے وہ اس اقتصادی ورلڈ آرڈر کی اتباع کر رہے ہیں جو استعمار نے اسی لیے بنایا ہے تاکہ ہر گزرنے والی دہائی کے ساتھ پاکستان سودی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ 1971 میں پاکستان کا قرضہ 30 ارب روپے تھا جو اب 400کھرب روپے تک پہنچنے والا ہے، اور یہ ہزار گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہے!
موجودہ اقتصادی آرڈر کی اتباع کرنے سے پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کو مزید قرضوں میں ڈبو دیا ہے جس کے باعث مزید سود ادا کرنا پڑے گا اور اس سود کی ادائیگی کیلئے کمرتوڑٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔موجودہ اقتصادی آرڈر فوجی قبضے والی براہِ راست استعماریت کا ہی تسلسل ہے،یعنی یہ اقتصادی آرڈراتفاقی طور پر ترتیب نہیں پایا بلکہ اسے ترتیب دیا گیا ہے۔ اب یہ نئی استعماریت ہے جہاں مغرب کے غلبے کے لیے اقتصادی غلامی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
امن و امان کے میدان میں پاکستان کے حکمرانوں نے شرم ناک حد تک اسلام کی حرمتوں سے غفلت برتی ہے۔کشمیر کو مودی کے حوالے کرنے کے بعد انھوں نے یورپی پابندیوں کے ڈر کا شور مچا کر رسول اللہ ﷺ کی توہین پر فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے کے مطالبے کے خلاف مزاحمت کی۔رسول اللہ ﷺ کی حرمت کا سودا کرنے کے بعد انھوں نے فاصلے کی دوری کا بہانہ بنا کرپاک فوج کے مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی۔
ان کی یہ غفلت اس مغربی عالمی آرڈر کی بے دھڑک اتباع کی وجہ سے ہے جو خلافت کے خلاف صلیبی جنگوں کی میراث ہے۔اپنی ساخت کے اعتبار سے عالمی امن و امان کا آرڈر مغربی غلبے کو ہی یقینی بناتا ہے ،اور مسلمانوں کو اپنی حرمتوں سےدست بردار کرتا ہے۔اسی وجہ سے پاکستان کے حکمران مودی کے کشمیر پر قبضے کے باوجود تحمل کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں، بلکہ اب تو وہ اس خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں جبکہ وہ یہاں سے ذلیل ہو کر نکلنے کےقریب ہے۔ پاکستان کے حکمران مسجدِ اقصی کے معاملے میں فاصلوں کی دوری اور علاقائی حدود کا راگ الاپتے ہیں، جبکہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تو علاقائی، فاصلوں، صلاحیت اور موقع کے اعتبار سے ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
ان حکمرانوں سے تو مسلمان صرف ذلت اور کنجوسی ہی کی امید کر سکتے ہیں، جو کہ مغربی استعمار کے ظالمانہ قوانین کے ذریعے حکومت کرتے ہیں۔مسلمانوں کی صورتحال صرف تبھی بہتر ہو سکتی ہے جب وہ اپنے اوپر ایسے حکمران لے کر آئیں جو ان کے دین کے ذریعے ان پر حکومت کریں۔یہ صرف خلافت ہی ہو گی جو سودی ادائیگیوں کو رد کرے گی اور سود کے استعماری چنگل سے نکلنے کے ساتھ ساتھ ایسے محاصل پیدا کرے گی جنھوں نے صدیوں تک خلافت کے ذریعے اسلام کو غالب کیے رکھا۔یہ خلافت ہی ہو گی جو مسلم افواج کو عالمی قوانین کی بیڑیوں سے آزاد کر دے گی تاکہ وہ دعوت و جہاد کے ذریعے پوری دنیا تک اسلام کو پھیلا سکیں۔