بسم الله الرحمن الرحيم
ہمارے چاروں طرف پھیلے تخلیق کے شواہد کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارشادات
مصعب عمیر، پاکستان
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایسے کئی آیات نازل کی ہیں جو اس طرف انسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز پر اس پہلو سے غور کریں کہ یہ سب تخلیق کے عمل کا نتیجہ ہیں۔ ایسی بہت سی آیات وحی کے ابتدائی تین سالوں میں ہی نازل ہوگئیں۔ انہی آیات کے ذریعے ہی رسول اللہ ﷺ نے، دارِارقم میں ہونے والے حلقات میں ،نومسلم صحابہ کرامؓ کی تثقیف(culturing) کی۔ تخلیق کے عمل کے بارے میں یہ آیات ہی ہیں جنھوں نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو اس طرح پکا کیا کہ وہ آخری زمانے تک آنے والی تمام نسلوں سے افضل و اعلیٰ ہو گئے۔
چونکہ اللہ کی نازل کردہ وحی کا گہرا مطالعہ خلافت کی تعلیمی پالیسی کی اساس تھا، لہٰذا مسلمان انسان ، کائنات اور حیات کی تخلیق کے بارے میں قرآنی تفسیر سے واقف تھے۔ یہ آیات ہی فتوحات کے استحکام کی اساس تھیں۔ انہی آیات کے ذریعے لوگوں کی صفوں کی صفوں کی تثقیف کی گئی اور غیر مسلموں کے دِلوں کو اسلام کے لیے کھولا گیا۔ اور اس موضوع میں مہارت کا عالم یہ تھا کہ عام شہری غیر مسلموں کو قائل کرنے کی قابلیت رکھتے تھے۔ یہ اسی کی مثال ہے کہ انڈونیشیا کے لوگ عام مسلمان تاجروں کی دعوت کے ذریعے مسلمان ہو گئےجو وہاں تجارت کے لیے جایا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ شریعت کی رُو سےانڈونیشیا عشری زمین ہے ۔
ایسی آیات پر غور کرنا اور ان میں موجود بے بہا حکمت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے ،خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں کئی لوگ ملحدین کے ہاتھوں گمراہ ہو رہے ہیں۔ تاہم کئی لوگ اپنے اردگرد نظر آنے والے تخلیق کے آثار کے بارے میں ایسے جواب کی تلاش میں ہیں جو عقل کو قائل کرنے والاہواور دلوں کے لیے اطمینان بخش ہو۔ یہ صورتِ حال مغرب کے مسلمانوں کے لئے ایک اچھا موقع ہے ،جو غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہیں اور ان کو اسلام کے روشن فکری پر مبنی جواب سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ یہ مسلم دنیا کے مسلمانوں کے لئے بھی ایک موقع ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے طویل فاصلوں پر رابطوں کو ممکن بنا دیا ہے۔ یہ سب اُس خلافت کی واپسی سے پہلے کی بات ہے ، جس میں ریاست کی طرف سے اسلام کی دعوت کے ذریعے اس طرح کی انفرادی سرگرمیوں کی پشت پناہی جائے گی۔
قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:
}إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ{
"بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں ہیں اور بارش میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا ہےاور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں؛عقلمندوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں" (البقرة: 164)
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی تو کہا ،
وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَكَّرْ فِيهَا
"افسوس ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اسے پڑھا اور اس کے بارے میں نہیں سوچا"۔
اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے انسانیت کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز پر غور کریں۔ جب انسان تخلیق پر غور کرتا تو وہ کیا پاتا ہے؟ وہ ایک مربوط نظام پاتا ہے جو ان تمام چیزوں کو کنٹرول کرتا ہے جنہیں ہم اپنے چاروں طرف محسوس کرتے ہیں۔ ان تمام بڑی اور چھوٹی ، ہلکی اور بھاری چیزوں کی کچھ حدود ہیں جو انہیں کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ قوانین ان پر عائد کیے گئے ہیں پس وہ حد سے تجاوز نہیں کرتیں اور ایک معین کردہ طریقے کی مستقل طور پر پابندی کرتی ہیں۔ یقیناً ، سب اشیاءمحدود ہیںاور یہ ان تمام چیزوں میں واضح ہے نہ کہ صرف کچھ میں۔
ستاروں اور سیاروں کی نقل و حرکت پر غور کریں۔ آسمان اور زمین، جن میں ستارے اور سیارے بھی شامل ہیں جو ایک معین نظام کے مطابق اپنے اپنے مدار میں گھومتے ہیں۔ اپنے بڑے حجم اور حرکت کے باوجود ، وہ اپنے راستے سے انحراف نہیں کرتے ہیں۔ کیا یہ نظام باریک بینی پر مبنی نہیں ہے؟ رات اور دن پر غور کریں۔ رات اور دن، ان کا ردو بدل اور دورانیہ ، حالات ، تاریکی اور روشنی میں فرق،ان کا نیند اور اور دوسری سرگرمیوں پر اثر۔ کیا کوئی عین مربوط نظام رات اور دن کو کنٹرول نہیں کرتا؟ بحری جہازوں اور سمندروں پر غور کریں۔امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں تبصرہ کیا: والفلك التي تجري في البحر الفلك: السفن۔ "الفلك وہ ہیں جو سمندروں پر تیرتے ہیں، یعنی کشتی۔" انہوں نے مزید کہا کہ ، تجری على وجه الماء ووقوفها فوقه مع ثقلها "تاکہ وہ پانی کی سطح پر تیریں، اپنے وزن کے باوجودتیرتے رہیں"۔ یقیناً، پانی اور بحری جہاز کے حوالے سے ایک عین تنظیم موجود ہے ، جس میں کوئی چیز توکشتی کی مانند تیرتی ہے جب کہ کوئی اسی جیسی چیز وزن رکھنے کے باوجود ڈوب جاتی ہے۔
پھر پانی ہے جو آسمان سے زمین پر بارش کے طور پر نازل ہوتا ہے ، زمین کو بنجر ہونے کے بعد اور پیلی زرد پڑ جانے کے بعد زندہ کرتا ہے اور سرسبز و شاداب کر دیتا ہے۔ اورزمین پر ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو زمین کے پانی کے ذریعے اپنی نسل بڑھاتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ اسی طرح ایسی ہوائیں چلتی ہیں جو بادلوں کو چلاتی ہیں ، جگہ جگہ ایک خاص نظام اور انتظام کے مطابق بارش برساتی ہیں اس کی کبھی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔امام قرطبی نے بیان کیا کہ ، فسأله ابن عباس : هل سمعت كعب الأحبار يقول في السحاب شيئا ؟ قال : نعم ، قال : السحاب غربال المطر ، لولا السحاب حين ينزل الماء من السماء لأفسد ما يقع عليه من الأرض۔ "ابن عباسؓ نے کسی سے پوچھا: کیا آپ نے کعب الاحبار کو بادلوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے؟ آپ ؓ نے کہا: ہاں ۔ پھر فرمایا:اس نے کہا کہ بادل بارش کی چھلنی ہیں ، اگر یہ بادل نہ ہوتے تو آسمان سے جب پانی نیچے آتا تو یہ زمین کو خراب کردیتا"۔
جب ہم اپنے ارد گرد کی تمام چیزوں کو محسوس کرتے ہیں اور ان کا ادراک کرتے ہیں تو ان سے یہ واضح ہے کہ ایک نظام موجود ہے۔ ایک ایسا نظام کہ جس میں کوئی افراتفری یا خلل نہیں ہے ، مدار کی خلاف ورزی نہیں ہے ، پانی کے بغیر سبزہ نہیں ، غلط جگہ پر سمندر نہیں اور نہ ہی غلط موقع پر چلتی ہوئی ہوا۔ یہ ایک مستقل اور متعین کردہ نظام ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ﴾۔
" (اے دیکھنے والے) کیا تو (اللہ) رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟"(الملک 67:3)۔
اس کی تفسیر میں ابن کثیر نے کہا: أي : بل هو مصطحب مستو ، ليس فيه اختلاف ، ولا تنافر ، ولا مخالفة ، ولا نقص ، ولا عيب ، ولا خلل ، "یعنی یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ بنا کسی کو تاہی کے جوڑ دیے گیے ہیں اورایسے ہموار ہیں جس میں کوئی اختلاف ، تنازعہ ، عدم مطابقت ، کمی ، نقص یا عیب نہیں"۔
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آس پاس کی ساری چیزیں ایک کامل ، بے عیب نظام پر استوار ہیں۔ اجزاء اپنی تشکیل اور تناسب دونوں میں ایک پیچیدہ نظام کے تابع ہیں۔ تشکیل کے حوالے سے ، ہر وجود کا دارومدار ایک یا بہت سی دوسری چیزوں پر ہے۔ لہذا سبزہ پانی اور سورج کی روشنی کا محتاج ہے۔ یہ اپنے آپ میں کمزور ہے کیونکہ یہ اپنے اُگنے کیلئے پانی اور سورج کی روشنی کا محتاج ہے۔ یہ محتاجی ایک بے نسبت محتاجی نہیں ہے بلکہ ایک خاص تناسب اور نسبت سے ہے۔ تناسب ان تمام معاملات میں ہے جنھیں ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر سورج کی روشنی ایک خاص مقدار میں ہو توتبھی پودا نشونما پائے گا۔ اگر یہ کم ہو تو وہ مرجھا جائے گا۔ مزید برآں اگر سورج کی روشنی کو کسی عدسے کے ذریعے یا کسی اور طرح سے تیز کر دیا جائے ، تو پودے کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، جس سے فصلوں اور جھاڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ پانی کے حوالے سے ہم جانتے ہیں کہ کچھ فصلوں کو پانی کی بہت زیادہ مقدار میں ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہی مقدار بہت سی فصلوں کو یہاں تک کہ پوری کھیتی کو تباہ کر دیتی ہے ۔ کسی ایک فصل کیلئے ،ایک مقررہ وقت پر بارش فائدہ مند ہوتی ہے اور پکنے کا باعث بنتی ہے، جب کہ کسی دوسرے وقت میں بارش کی وجہ سے پکی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ پانی کے بارے میں تشکیل ایسی ہے کہ اس کا اُبلنا حرارت پر منحصر ہوتا ہے۔ تاہم یہ انحصار اس طرح ہے کہ پانی صرف حرارت کے خاص تناسب کے مطابق ہی ابلتا ہے۔ اس طرح نظام کی تشکیل اور تناسب دونوں اپنی جگہ مخصوص ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ تمام چیزیں اپنے آپ پر مسلط کردہ نظام کے تابع ہیں اور وہ خوداس نظام کو بنانے والی یا اس کی منتظم نہیں ہیں۔ اگر وہ ہوتیں تو اپنی مرضی سے نظام کو تبدیل کرسکتیں ، جبکہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ پانی پر غور کریں جو ہوا کے ایک خاص دباؤ پر حرارت کی ایک خاص مقدار کے ملنے پر ابلتا ہے۔ نہ تو یہ قانون اور نہ ہی یہ مقدار پانی اور حرارت کے قابو میں ہے۔ پانی خود کو گرمی کے بغیر ، یا کسی بھی مقدار کی حرارت پر ابال نہیں سکتا ، اورحرارت کی صحیح مقدار کی اس نسبت میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ ایک خاص انداز میں منظم ہے۔ در حقیقت ، ان تمام چیزوں کے بارے میں غور کرنا جنھیں ہم محسوس کرتے ہیں ، یہ یقین قائم کرتا ہے کہ ان اشیاء نے اس نظام کی ابتدا نہیں کی اور اسے ترتیب نہیں دیا جس کی وہ تابع ہیں۔لہٰذاواقعتاً کوئی ایک ایسی ذات ہے جسے ہم براہِ راست محسوس نہیں کرتے ، اور جس نے تمام اشیاء کیلئے اس نظام کو پیدا اور منظم کیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ،
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ﴾
"اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہلِ دانش کے لیے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں"(الروم: 22)۔
قرطبی نے اپنے تفسیر میں کہا ، فهذا من أدل دليل على المدبر البارئ۔ "یہ المد بر ، الباری کے وجود کے ثبوت ہیں"۔ عربی میں ، "المدبر" اللہ سبحانہ وتعالی کے ناموں میں سے ایک ہے اور اس کا مطلب ہے ، الذي يُجري الأمور بحكمته ويصرّفها على وفق مشيئته وعلى ما يوجب حُسْنَ عواقبها، "جو معاملات کو اپنی دانشمندی سے چلاتا ہے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق اور ایسے چلاتا ہے جو اچھے نتائج پیدا کرتے ہیں"۔ عربی میں "الباری" (ابتداء کرنے والا) بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہے اور اس کا مطلب ہے ، واهب الحياة للأحياء، والسَّالم الخالي من أيِّ ،"زندگی والی چیزوں کو زندگی بخشنے والا ، کسی بھی خامی سے پاک"۔
امام ابو حنیفہ نے دنیا کے تدبیر (تنظیم)کے متعلق جوتبصرہ کیا، اسے ابن ابی العزنے بیان کیا،
وَيُحْكَى عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ أَرَادُوا الْبَحْثَ مَعَهُ فِي تَقْرِيرِ تَوْحِيدِ الرُّبُوبِيَّةِ فَقَالَ لَهُمْ أَخْبِرُونِي قَبْلَ أَنْ نَتَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ عَنْ سَفِينَةٍ فِي دِجْلَةَ تَذْهَبُ فَتَمْتَلِئُ مِنَ الطَّعَامِ وَالْمَتَاعِ وَغَيْرِهِ بِنَفْسِهَا وَتَعُودُ بِنَفْسِهَا فَتُرْسِي بِنَفْسِهَا وَتَتَفَرَّغُ وَتَرْجِعُ كُلُّ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُدَبِّرَهَا أَحَدٌ فَقَالُوا هَذَا مُحَالٌ لَا يُمْكِنُ أَبَدًا فَقَالَ لَهُمْ إِذَا كَانَ هَذَا مُحَالًا فِي سَفِينَةٍ فَكَيْفَ فِي هَذَا الْعَالَمِ كُلِّهِ عُلْوِهِ وَسُفْلِهِ (شرح العقيدة الطحاوية)۔
"یہ کہا جاتا ہے کہ ابو حنیفہ سے کچھ فلسفیوں نے رابطہ کیا ، جو ان کے ساتھ رب تعالیٰ کے ایک ہونے کے بارے میں بحث کرنا چاہتے تھے۔ ابو حنیفہ نے کہا ، "اس سوال پر بات کرنے سے پہلے ، مجھے یہ بتاؤ کہ آپ لوگ فرات میں ایک ایسی کشتی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، جو ساحل پر جاتی ہے ، کھانا اور دوسری چیزوں سے خود کو لادتی ہے ، پھر واپس آتی ہے ، لنگر انداز ہوتی ہے اور خود ہی اپنا تمام سامان اتار دیتی ہے ، بغیر کسی کی مدد کے ؟" انہوں نے کہا ، یہ مضحکہ خیز ہے اور کبھی ممکن ہی نہیں ہے"۔ ابو حنیفہ نے کہا ، اگر یہ کشتی کے حوالے سے مضحکہ خیز ہے تو اپنی پوری وسعت اور گہرائی میں یہ اس دنیا کے لئے کیسے (ممکن) ہے؟"(شرح العقيدة الطحاوية 1\35)۔
اس طرح امام بن حنبل نے الصانع(کاریگر) کی بات کی ، الصانع عربی کا لفظ ہے جس کے معنی نقاش یا کاریگر کے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۔
"(یہ) خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا"۔ (النمل 27:88)۔
ابنِ کثیر نے بیان کیا ،عَنِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رحمه الله أَنَّهُ سُئِلَ وُجُودِ الصَّانِعِ فَقَالَ هَاهُنَا حِصْنٌ حَصِينٌ أَمْلَسُ لَيْسَ لَهُ بَابٌ وَلَا مَنْفَذٌ ظَاهِرُهُ كَالْفِضَّةِ الْبَيْضَاءِ وَبَاطِنُهُ كَالذَّهَبِ الْإِبْرِيزِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذِ انْصَدَعَ جِدَارُهُ فَخَرَجَ مِنْهُ حَيَوَانٌ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ذُو شَكْلٍ حَسَنٍ وَصَوْتٍ مَلِيحٍ يَعْنِي بِذَلِكَ الْبَيْضَةَ إِذَا خَرَجَ مِنْهَا الدَّجَاجَةُ۔ "امام احمد ابن حنبل سے خالق کے وجود کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ امام احمد نے کہا : فرض کریں کہ ایک ایسا قلعہ ہے جس میں داخل ہونا ناممکن ہے اور اس کا کوئی داخلی یا خارجی دروازہ نہیں۔وہ باہر سے سفید چاندی کی طرح ہے اور اندر سے چمکتے سونے کی مانند ۔ یہ اسی طرح تعمیر کیا جاتا ہے،پھراس کی دیواریں ٹوٹتی ہیں اور قلعے میں سے ایک سننے اور دیکھنے والا جانور باہر نکلتا ہے، جوخوش شکل اور خوشگوار آواز کا حامل ہے۔ اس سے امام احمدبن حنبل کی مراد انڈا تھی کہ جس میں سے چوزہ نکلتا ہے"۔ (تفسیر ابن کثیر 2\21)۔
اسی طرح ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ امام شافعی نے خالق کے وجود کے بارے میں بیان کیا، هَذَا وَرَق التُّوت طَعْمه وَاحِد تَأْكُلهُ الدُّود فَيَخْرُج مِنْهُ الْإِبْرَيْسَم وَتَأْكُلهُ النَّحْل فَيَخْرُج مِنْهُ الْعَسَل وَتَأْكُلهُ الشَّاة وَالْبَقَر وَالْأَنْعَام فَتُلْقِيه بَعْرًا وَرَوْثًا وَتَأْكُلهُ الظِّبَاء فَيَخْرُج مِنْهَا الْمِسْك وَهُوَ شَيْء وَاحِد۔ "یہ شہتوت کے درخت کا پتہ ہے جو ایک کھانا ہے۔ جب ریشم کے کیڑے اسے کھاتے ہیں تو ریشم بنتا ہے۔ جب مکھی کھاتی ہے تو اس سے شہد بنتا ہے۔ جب بھیڑیں ، گائیں اور مویشی کھاتے ہیں تو اس سے گوبر اور کھاد بنتے ہیں۔ جب کستوری ہرن اسے کھاتا ہے تو کستوری بنتی ہے۔ جبکہ یہ ایک ہی چیز ہے" ۔
ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے صورت گری اور تنظیم کو قدرت یا فطرت سے منسوب کیا ، ابنِ قیم نے ان کے متعلق کہا،اخبريني عَن هَذِه الطبيعة اهي ذَات قَائِمَة بِنَفسِهَا لَهَا علم وقدرة على هَذِه الافعال العجيبة ام لَيست كَذَلِك بل عرض وَصفَة قَائِمَة بالمطبوع تَابِعَة لَهُ مَحْمُولَة فِيهِ فَإِن قَالَت لَك بل هِيَ ذَات قَائِمَة بِنَفسِهَا لَهَا الْعلم التَّام وَالْقُدْرَة والارادة وَالْحكمَة فَقل لَهَا هَذَا هُوَ الْخَالِق البارئ المصور فَلم تسمينه طبيعية۔ "مجھے اس قدرت کے بارے میں بتا ؤ کہ کیا یہ خود ہی اپنے آپ کو برقرار رکھتی ہے؟ کیا ان حیرت انگیز عوامل کے متعلق اس کے پاس علم اور طاقت ہے؟ یا پھر ایسا نہیں ہے اور یہ قدرت صرف ظاہری طور پر اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے قابل لگتی ہے؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ یہ یقینی طور پر اپنے آپ کو خود ہی برقرار رکھتی ہے اور اسے مکمل علم ہے،اور یہ طاقت ، مرضی اور حکمت رکھتی ہے تو ان سے کہو کہ یہ تو خالق الباری اور المصور ہے، تو تم اسے فطرت یا قدرت کیوں کہتے ہو؟"(مفتاح دارالسعادۃ،261/1)
جس چیزمیں نقاشی کی خصوصیات ہیں اس کیلئے کسی نقاش (کاریگر)کا ہونا ضروری ہے۔ ابن قیم نے کہا، الطبيعة عرض مَحْمُول مفتقر الى حَامِل وَهَذَا كُله فعلهَا بِغَيْر علم مِنْهَا وَلَا إِرَادَة وَلَا قدرَة وَلَا شُعُور اصلا وَقد شوهد من آثارها مَا شوهد فَقل لَهَا هَذَا مَالا يصدقهُ ذُو عقل سليم كَيفَ تصدر هَذِه الافعال العجيبة وَالْحكم الدقيقة الَّتِي تعجز عقول الْعُقَلَاء عَن مَعْرفَتهَا وَعَن الْقُدْرَة عَلَيْهَا مِمَّن لَا عقل لَهُ وَلَا قدرَة وَلَا حِكْمَة وَلَا شُعُور۔"اگر ان کا کہنا ہے کہ فطرت کسی معیار کے بغیر ہے اور فطرت کے سارے عمل اس کے علم ، مرضی ، طاقت یا آگاہی کے بغیر ہیں اور صرف اس کے اثرات ہی دیکھے جاسکتے ہیں ، تو پھر ان سے کہو کہ اس پر کوئی بھی عقل رکھنے والا شخص یقین نہیں کرسکتا۔ یہ حیرت انگیز افعال اور کامل لطافتیں ، جو ذہین ترین دماغ بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے، ماپ نہیں سکتے ، وہ بغیر کسی احساس ، طاقت ، دانشمندی اور شعور کے آگے کیسے بڑھ سکتی ہیں؟"( مفتاح دارالسعادۃ،261/1)
بے شک یہ تمام اشیا اور نظام کہ جو ان اشیاء کو کنٹرول کرتا ہے،یہ سب کچھ اس ہستی کی طرف سے شروع کیا گیا ہے جسے براہِ راست محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ تو وہ لوگ جو ڈائیلیکٹک مادیت میں اس مادی وجود کا دعوی کرتے ہیں ، وہ کیسے یہ دعویٰ کرتے ہیں؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشادفرمایا ،
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ{
"کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔ یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں" (الطور 52: 35)۔
ابنِ کثیر نے اس کی تفسیر میں بیان کیا ، أي : أوجدوا من غير موجد ؟ أم هم أوجدوا أنفسهم ؟ أي : لا هذا ولا هذا ، بل الله هو الذي خلقهم وأنشأهم بعد أن لم يكونوا شيئا مذكورا۔ "یعنی: کیا وہ غیر موجود سے آ موجود ہوئے؟ یا انہوں نے اپنے آپ کو خود پیدا کیا تھا؟دونوں ہی درست نہیں ، بلکہ اللہ ہی ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور انھیں وجود بخشا ، جس سے پہلے وہ کچھ نہیں تھے ۔ لہٰذاعربی میں یہ کہا جاتا ہے کہ، خَلَقَ اللهُ الإِنْسَانَ : أَوْجَدَهُ مِنَ العَدَمِ، أَنْشَأَهُ، صَوَّرَهُ۔"اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اسے عدم سے وجود بخشا جب وہ کچھ نہ تھا اور اس کے وجود کو سنوارا"۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مخلوق کو تخلیق کیا اور مخلوق کی صفات خالق جیسی نہیں ہیں۔ خالق کائنات سے بہت عظیم ہے اور وہ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لئے کسی چیز پر انحصار نہیں کرتا ۔ اللہ سبحانہ وتعالی ازلی ہے، اسے کسی نے تخلیق نہیں کیا۔ لغت میں ازلی کے متعلق بیان کیا گیا ہے ، الأَزَلِيُّ ما لا أَوّل له،"ازلی وہ چیزہے جس کی کوئی ابتدا نہیں" ۔ لہٰذا ازلی کے لئے کوئی منتظم یا پہل کرنے والا نہیں ہے۔ ازلی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے ، الخَالِدُ الدَّائِمُ الوُجُودِ لاَ بَدْءَ لَهُ “ہمیشہ سے موجود ، جس کا وجود دائمی ہے،جس کی کوئی ابتداءنہیں ہے"۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ازلی ہے ، بغیر کسی تخلیق کے موجود ہے ، تمام دوسرے وجود پیدا کیے گئے ہیں اور ایک نظام کے تابع ہیں۔ تخلیق کا عمل (خلق) یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو عدم سے وجود میں لانا۔ اس دنیا میں جو چیزیں موجود ہیں ان میں کوئی بھی کسی چیز کو عدم سے تخلیق کرنے یا ابتدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے ،خواہ وہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر۔ کوئی بھی انفرادی چیز عدم سے تخلیق کرنے یا تخلیق کا آغاز کرنے سے قاصر ہے۔ اگر یہ چیزیں ایک دوسرے کی مددکریں تو تب بھی وہ مل کربھی ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ تو وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کائنات خود ہی ابدی اور ازلی ہے ، کس طرح ایسا کہتے ہیں؟
بے شک ہر قابلِ محسوس چیز میں اللہ کے موجود ہونے کے ثبوت موجود ہیں ۔ ہر چیز کسی دوسری چیز کی محتاج ہے۔ یہ محتاجی ایک خاص ترتیب، مقدار اور تناسب سے ہے جو ان پر مسلط کی گئی ہے ۔ لہٰذا ان مخلوقات کا تخلیق شدہ ہونا کہ جس کا ہم ادراک کرتے ہیں، ایک یقینی بات ہے ، کیونکہ ان کے محتاج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور کی تخلیق ہیں، اور انہوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق نہیں کیا ہے۔ اس طرح تمام چیزیں جو ہم محسوس کرتے ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے وجود کی واضح نشانیاں ہیں ، وہ ذات جس کے بغیر یہ مخلوقات وجود میں نہیں آسکتیں ،جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی ان سب سے مختلف ہے جنہیں اس نے پیدا کیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ(4)
"کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے. معبود برحق جو بےنیاز ہے ﴿۲﴾ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا ﴿۳﴾ اور کوئی اس کا ہمسرنہیں" (سورۃ اخلاص:4-1)