بسم الله الرحمن الرحيم
ویانا بات چیت اور امریکی مفادات
13 جون 2021:" ہفتے کے دن ویانا میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان 2015 کے ایران ایٹمی معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے بلواسطہ بات چیت شروع ہوئی ۔ یورپی یونین کے مطابق بات چیت بہت 'شدید'(intense)تھی اور جرمنی نے تیزی سے پیش قدمی کا مطالبہ کیا۔۔۔۔بات چیت کے لیے امریکی وفد، جسے جوائنٹ کمیشن آف دی جوائینٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن(Joint Commission of the Joint Comprehensive Plan of Action) کے نام سے جانا جاتا ہے، سڑک کی دوسری جانب ایک ہوٹل میں مقیم ہے کیونکہ ایران نے براہ راست اجلاس سے انکار کردیا تھا۔ "
پس منظر:
- 2015 میں ایران اور دوسری ریاستوں (جن میں امریکا بھی شامل ہے) نے ایران ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عائد عمومی پابندیاں ختم ہوئیں اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر حدود و قیود(پابندیاں) لاگو ہوئیں۔
- پھر 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے یہ دعوی کرتے ہوئے دستبرداری اختیار کرلی کہ یہ معاہدہ ایران کے میزائل پروگرام اور ایران کے علاقائی اثرورسوخ کو محدود کرنے میں ناکام رہا ہے۔
- اس کے ایک سال بعد ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عائد کی گئی حدود و قیود کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔
- امریکی صدارتی انتخابات کے دوران، بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ایران ایٹمی معاہدے کو دوبارہ اختیار کرلے گا۔ اور پھر اکتوبر 2020 میں امریکا جوائنٹ کمیشن آف دی جوائینٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن(JCPOA’s) کی "سنیپ بیک" طریقہ کار کے ذریعے ایران پر پابندیاں کو توسیع دینےاور دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں نافذ کروانے میں ناکام ہوا۔
- پھر اپریل میں، ایران کے وزیر خارجہ سعید خطیب زادے نے کہا کہ ایران 2015 کے ایٹمی معاہدے میں عائد کی گئیں حدود و قیود کی جانب لوٹ جائے گا جب امریکا تمام پابندیاں اٹھا لے گا۔ اور امریکا کے دفتر خارجہ کے نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکا وہ "پابندیاں اٹھا لے گا جو JCPOA سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن اس کے ساتھ اس بات پر زور دیا کہ وہ اس کی تفصیلات نہیں بتا سکتا۔"(ذرائع)
- اس وقت ویانا بات چیت دوبارہ شروع ہوچکی ہے جبکہ اس سے پہلے 19 مئی کو یہ بات چیت کسی حتمی معاہدے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی تھی۔ اس بات چیت کا ہدف یہ ہے کہ امریکا اور ایران کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ 2015 کے ایران ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد دوبارہ سے شروع کردیں۔ سیاسی رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ دونوں ممالک کسی معاہدے پر پہنچ جائیں گے لیکن انہیں کچھ وقت درکار ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ معاہدے یا کئی معاہدوں پر عمل کرنا چاہتی ہے۔(ذرائع)
اولین ایٹمی معاہدے میں ایٹمی پروگرام پر عائد کی گئی حدود و قیود کے ساتھ ساتھ اُن پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا جنہیں امریکا نے واپس لینا تھا۔ لیکن امریکا نے معاملات کو پیچیدہ کردیا، جب ٹرمپ انتظامیہ نے بیلسٹک میزائل، دہشت گردی اور انسانی حقوق کے تحت کئی پابندیاں عائد کردیں۔ جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اس کا غیر متزلزل ارادہ ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکے اور اِس کے ساتھ ہی اُس نے تہران کو "سفارتکاری کے لئے ایک قابل اعتبار راستہ" پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ (واشنگٹن پوسٹ)
جہاں تک بات چیت میں ایران کے موقف کا تعلق ہے، تو میڈیا اس وقت یہ بحث کررہا ہے کہ ایران میں ہونے والے انتخابات بات چیت میں ایرانی موقف پر کس حد تک اثرانداز ہوں گے۔ وہ ملکی صورتحال کو جواز کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں ، یا بات چیت جس بھی نتیجے پر پہنچے ، اس پر اتفاق کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ خارجہ پالیسی کو ایران میں صدر نہیں چلاتا، بلکہ ایران کے سپریم رہنما، علی خامنائی چلاتے ہیں جو 1989 سے اقتدار میں ہیں۔ عام طور پر ایران اپنی عمومی حکمت عملی کو اچانک تبدیل نہیں کرتا ، یہاں تک کہ نئے آنے والے صدر کے خیالات کے مطابق بھی حکمت عملی تبدیل نہیں کرتا۔ امریکا کی جانب سے عائد کی گئیں پابندیوں پر ایران کی توجہ مرکوز ہے، اور اُن کی ضرورت ہے کہ یہ پابندیاں ہٹائیں جائیں۔
ہاں امریکا اپنے مفاد کے حصول کے لیے کام کررہا ہے، اور وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے۔
جب ہم خبریں اور سیاسی تجزیے پڑھتے ہیں ، تو یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ جیسے امریکا اور ایران ایک دوسرے کے دشمن ہیں، دونوں ریاستیں اپنے اپنے موقف پر مضبوطی سے کھڑی ہیں، اور وہ اپنے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ لیکن یہ خبریں اور تجزیے جس بات کا ذکر نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ کس طرح امریکا خطے میں اپنے ایجنڈے کو آگے لے جانے کے لیے ایران اور اُس کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کو استعمال کرتا ہے۔ پہلے صدر ٹرمپ کا اس معاہدے سے نکل جانا اور اب ویانا میں ہونے والی بات چیت اسی سیاق و سباق کے تحت ہے۔
پچھلے کچھ سال سے امریکا کی سیاسی اشرافیہ اور میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ بہت جلد باز ہے۔ انہوں نے اس کی غلطی کی نشاندہی کی جب امریکا ایران کے ساتھ کیے گئے ایٹمی معاہدے سے باہر آگیا تھا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ وہ اب بھی امریکا کے سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہے، امریکی صدر صرف اپنی رائی کی بنیاد پر عمل نہیں کرتا بلکہ وہ ملکی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے، اور یہ ادارے اس طرح سے تعمیر کیے گئے ہیں کہ وہ ریاست کے قومی مفاد کی حمایت کریں۔ لہٰذا، جب امریکا ایران کے ساتھ کیے گئے ایٹمی معاہدے سے باہر آیا تھا ، اور اُس نے پابندیاں عائد کیں، تو ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ ایسا کرنا ان کے مفاد میں تھا۔
یہ بات امریکا کے کئی فیصلوں سے واضح ہے جو امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران کیے تھے، جہاں انہوں نے اپنے انتہائی متنازعہ فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے ٹرمپ کی شخصیت اور طریقہ کار کو استعمال کیا۔ اس کی مثالیں یہ ہیں: مہاجرین کو امریکا میں آنے سے روکنا، چین کو محدود کرنے کے لیے تجارتی پابندیاں، امریکی کمپنیوں کو واپس امریکا آنے پر مجبور کرنا۔ امریکا نے تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے فائدہ اٹھایا، یہ قیمتیں اُس وقت بڑھیں تھیں جب امریکا نے ایران پر دباؤ ڈالا کیونکہ اس طرح امریکی تیل کی کمپنیوں کو فائدہ پہنچا اور انہوں نے مزید شیل تیل نکالنا شروع کردیا جو امریکا میں موجود ہے، لیکن اگر تیل کی قیمتیں کم ہوجائیں تو امریکی کمپنیوں کے لیے امریکا سے شیل تیل نکالنا منافع بخش نہیں رہتا۔
اِس وقت امریکا اور میڈیا ایک ایسے تاثر کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ امریکا بین الاقوامی نظام کے "اصولوں" کے مطابق چلنے پر تیار ہے، اسی لیے وہ پیرس معاہدے میں حصہ لے رہا ہے، ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے تا کہ وہ انسانی حقوق کی کونسل اور ٹرانس پیسیفک پاٹنرشپ (ٹی پی پی) کا رکن بن جائے۔ لہٰذا، ایسا لگتا ہے کہ جو بائیڈن اس سیاق و سباق کے تحت کام کررہا ہے، لیکن اس کا اثر ویانا کی بات چیت پر کیا ہوگا ، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ لیکن امریکا نے ہمیشہ خطے میں اپنے مفادات کا پیچھا بلواسطہ یا بلاواسطہ کیا ہے، اور وہ آئیندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔
وقت کے ساتھ امریکا کے لیے ایران کی ضرورت تبدیل ہوچکی ہے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے امریکا کے ایران کے ساتھ تعلقات تبدیل ہوئے ۔
2015 مین ایران نے ذلت آمیز ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لیں تھیں۔ اس کے نتیجے میں ایران کے امریکا کے ساتھ کھلے تعلقات استوار ہوئے۔ ایران نے اُس کردار کو جاری رکھا جس نے امریکا کو اس قابل رکھا کہ وہ اپنی عالمی بالادستی برقرار رکھ سکے اور ایک عالمی طاقت ہونے کے حوالے سے اُس کے کندھوں کے بوجھ کو ہلکا کیا جبکہ اس دوران امریکہ خطے میں ایران کے سیاسی کھیل کو ایک ڈھال فراہم کرتا رہا۔
ایران کا مختلف تنازعات ( جیسا کہ افغانستان، شام، عراق اور لبنان) میں جو کردار رہا ہے اُس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا، اور یہی وہ کردار ہے جو امریکا ایران سے چاہتا ہے۔ ایران کے ایٹمی خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے امریکا کو یہ جواز ملا کہ وہ یہودی وجود اور خلیج کے ممالک کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو بڑھائے اور مشرق وسطی کے تیل کو اپنے کنٹرول میں رکھے۔
جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو ایرانی ایٹمی معاہدے سے نکال لیا تو اس عمل کو ایسے پیش کیا گیا جیسا کہ اُس نے غلطی کی ہے لیکن معاملہ ایسا نہیں تھا۔ اُس وقت بشار الاسد کی پوزیشن شام میں مضبوط ہوچکی تھی۔ اب امریکا کو خطے میں ایران کے براہ راست کردار کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی، اور ایٹمی معاہدے سے باہر آنے کے نتیجے میں امریکا کو یہ موقع ملا کہ وہ نئی شرائط تیار کرے تا کہ خطے میں ایران کی کردار کو کم کرے جبکہ اسی دوران ایران کو نئے ایٹمی معاہدے پر مجبور بھی کرتا رہا جس سے امریکی کمپنیوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا کیونکہ انہیں ایرانی مارکیٹ میں رسائی کا موقع مل جاتا۔
ابھی ایسا نظر آتا ہے کہ امریکا یہ چاہتا کہ ایران خطے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ لیکن چونکہ اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ اُن کے درمیان کیا معاملات طے پائیں ہیں ، اس لیے یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران کو کس قدر اور کس طرح سے کردار ادا کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس دوران جو بائیڈن خطے سے اپنی افواج نکال رہا ہے، اور امریکی اثرورسوخ کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لیے متبادل طریقے تلاش کررہا ہے، تو امریکا نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسے ایران کے کس قسم کے کردار کی ضرورت ہے۔
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کے لیے یہ مضمون
رکن مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر، فاطمہ مصعب، نے تحریر کیا