السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام میں والد کی ذمہ داریاں

 

تعارف:ایک مسلمان والد اگلی نسل کے لیے مضبوط بنیادیں رکھتا ہے

 

اسلام میں والد کی ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ یہ تمام مسلمانوں کی سب سے بنیادی شناخت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ" انہیں (بچوں کو)ان کے باپ ہی کے نام سے  پکارو ،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مناسب ہے"(الاحزاب، 33:5)۔  یہ ولدیت قائم کرتا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے باپ کی ذمہ داریوں کی بنیاد ہے۔ اِن ذمہ داریوں میں   اپنے بچوں کو اپنی صحبت فراہم کرنا ، ان کی معاشی ضروریات پوری کرنا، بچوں کو اسلامی ثقافت سے روشناس کرانا ، بچوں کے ایمان میں یقین پیدا کرنا اور بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانا شامل ہیں۔  یقیناً والد کا کردار بیٹوں اور بیٹیوں کے نام رکھنے پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس  سے بہت  زیادہ ہے۔

 

رسول اللہﷺ نے اسلامی امت کو اپنی جانب سے دی جانے والی تعلیمات کو باپ کی ذمہ داری سے تشبیہ دی اور فرمایا،

إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ

"(لوگو!)میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں،کہ تمھیں (ہر چیز)سکھاتا ہوں"(سنن ابی داؤد)۔

 

ہمارے آقا ، رسول اللہ، محمدﷺ نے مردوں اور عورتوں کی ایک پوری نسل کھڑی کی، دین کے ستون قائم کیے جس نے آج کے دن تک امت کو ایک خاص شکل دے رکھی ہے۔ آپﷺ نے چار بیٹیوں ؓکی پرورش اور تربیت کی جو ہر دور میں اسلامی امت کے لیے مثالی شخصیات رہی ہیں۔  آپﷺ نے حضرت علیؓ ، چوتھے خلیفہ راشد،کی پرورش اور تربیت فرمائی، جو آپ ﷺکے بڑے اور نسبتاً غریب چچا کے بیٹے تھے۔ آپﷺ نے زید ابن حارثہؓ اور اُن کے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کی بہترین پرورش اور تربیت فرمائی۔  آپﷺ کی زیر نگرانی تربیت پانے والے نوجوانوں کے لیے آپﷺ ایک توجہ دینے والے ساتھی اور صابر استاد تھے۔ آپﷺ نے نوجوانوں کی اسلام کی بنیاد پر تربیت کی، آپﷺ نے ان کے ایمان میں یقین پیدا کیا اور انہیں حکمت اور شفقت سے نظم و ضبط کا پابند بنایا۔  یہی  آپﷺ کے تربیت یافتہ وہ مومن مرد اور عورتیں تھیں جنہوں نے آپﷺ کی قیادت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی قائم کی اور وقت کے ساتھ نبوت کے نقش قدم پر قائم ہونے والی پہلی خلافت  کے ستون بن گئے۔  اس کے نتیجے میں ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسے ذمہ دار باپ بن گئے جنہوں نے اپنی اولاد  کو نیکی کی راہ پر ڈالا ، جیسے چار عبداللہ (رضی اللہ عنہم) جو یزید کے ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے۔ یقیناً، جیسے زندگی کے ہر کردار میں ، حکمران سے لے کر فوجی کمانڈر تک ، شوہر سے پڑوسی تک ، ہم آپﷺکی مثال کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ والد کی ذمہ داریوں کو ویسے ہی ادا کریں جیسے آپﷺ نے ادا کیں اور اپنی دنیا اور آخرت کو محفوظ کرلیں۔  لہٰذا ، آج کے والد اپنے بچوں کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے اپنی ذمہ داری پر غور کریں ، کیونکہ مسلمانوں کی موجودہ نسل نبوت کے نقش قدم پر خلافت  کی واپسی کے حوالے سے خود کو رسول اللہ ﷺکی بشارت کے لیے تیار کررہی ہے۔ انہیں اپنے گھروں میں وہ مضبوط شخصیات تیار کرنی ہیں جو اسلام کو ایک طرز زندگی کے طور پر دوبارہ شروع کریں اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک لے جائیں۔

 

والد اپنے بچے کے  لیےایک  توجہ دینے والا ساتھی ہوتا ہے

جہاں ایک والد اپنے بچے کیلئے ایک استاد ، سرپرست اور نظم و ضبط کا پابند کرنے والا ہوتا ہے ،وہاں وہ اپنے بچے کے لیے شفیق ، توجہ دینے والا ساتھی بھی ہے۔رسول اللہﷺ نے اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تربیت میں شفقت اور عزت نفس کا خیال رکھا ۔  امّ ا لمؤمنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا،

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ كَانَ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم كَلاَمًا وَلاَ حَدِيثًا وَلاَ جِلْسَةً مِنْ فَاطِمَةَ. وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا رَآهَا قَدْ أَقْبَلَتْ رَحَّبَ بِهَا، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهَا فَجَاءَ بِهَا حَتَّى يُجْلِسَهَا فِي مَكَانِهِ، وَكَانَتْ إِذَا أَتَاهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَحَّبَتْ بِهِ، ثُمَّ قَامَتْ إِلَيْهِ فَقَبَّلَتْهُ

"میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو فاطمہؓ سے زیادہ الفاظ یا تقریر یا بیٹھنے کے انداز میں رسول اللہﷺ سے مشابہ ہو۔جب آپﷺ دیکھتے کہ وہ آئی ہیں تو آپ ﷺ  انہیں سلام کرتے اور پھر آپ ﷺ اُن کے لیے کھڑے ہوجاتے ، اُن کا بوسہ لیتے ، اُن کا ہاتھ پکڑتے اور انہیں آگے لاتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔جب نبی ﷺ اُن کے گھر جاتے تو وہ آپﷺ کو سلام کرتیں ، آپﷺ کے لیے کھڑی ہوجاتیں، اور آپﷺ کو چومتیں "(الأدب المفرد)

 

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ صحرا کے عرب بدّو رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا، "کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟" آپﷺ نے فرمایا، نعم "ہاں"۔اس پر انہوں نے کہا، "اللہ کی قسم لیکن ہم اپنے بچوں کو نہیں چومتے"۔ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا، وَأَمْلِكُ إِنْ كَانَ اللَّهُ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ"اگر اللہ نے تمہیں رحم سے محروم کردیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں"؟ (مسلم)۔ ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ الأقرع بن حابس نے یہ دیکھا کہ رسول اللہﷺ حسن ؓ کو چوم رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا، "میرے دس بچے ہیں، لیکن میں نے اُن میں سے کسی کو کبھی نہیں چوما"۔ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا، إِنَّهُ مَنْ لاَ يَرْحَمْ لاَ يُرْحَمْ "جو (اپنے بچوں پر) رحم نہیں کرتا ، اس پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا" (مسلم)۔

 

اس کے علاوہ ، اسلام میں والد جب اپنے بچوں پر شفقت اور احسان کرتا ہے ،تو اپنے تمام بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا ہے اور کسی کو کسی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا ۔نعمان بن بشيرؓ  نے روایت کی کہ،

ذَهَبَ بِي أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يُشْهِدُهُ عَلَى شَىْءٍ أَعْطَانِيهِ فَقَالَ ‏ "‏ أَلَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ نَعَمْ ‏.‏ وَصَفَّ بِيَدِهِ بِكَفِّهِ أَجْمَعَ كَذَا أَلاَ سَوَّيْتَ بَيْنَهُمْ

"میرے والد مجھے نبی ﷺکے پاس لے گئے تاکہ اُن سے کسی چیز کی گواہی مانگیں جو انہوں نے مجھے دی تھی۔آپﷺ نے فرمایا:'کیا تمہاری کوئی دوسری اولاد بھی ہے؟' انہوں نے کہا:'ہاں' آپﷺ نے اپنے ہاتھ کو اس طرح افقی طور پر اٹھاتے ہوئے اشارہ کیا، اور فرمایا:'تم اُن سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیوں نہیں کرتے'"؟(النسائی)

 

زمین پر دینِ اسلام کے قیام کا بہت بڑا بوجھ اٹھانے کے باوجود ، اللہ کے رسول ﷺ اُن بچوں کی ضروریات پر توجہ دیتے تھے جن کی وہ ایک والد کی طرح تربیت فرماتے تھے۔ انس بن مالکؓ نے روایت کی کہ، "رسول اللہﷺ ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابو عمیر تھی۔ اُس کے پاس ایک چڑیا تھی جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا، لیکن وہ مر گئی۔ تو ایک دن آپﷺ اُس سے ملنے آئے اور اسے افسردہ دیکھا۔ آپﷺ نے پوچھا:مَا شَأْنُهُ 'اسے کیا ہوا ہے؟' لوگوں نے کہا : اس کی چڑیا مر گئی ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا:

يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ

'اے ابو عمیر! چھوٹی چڑیا کو کیا ہوا ہے؟'"(ابو داؤد)

 

مسلمان والد بچوں کی صحبت میں بچوں جیسا ہوتا ہے ، اور جب صورتحال تقاضا کرے تو وہ ایک مضبوط آدمی ہوتا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد، عمر بن الخطابؓ نے فرمایا،لَيُعْجِبُنِي الرَّجُلُ أَنْ يَكُونَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ كَالصَّبِيِّ فَإِذَا ابْتُغِيَ مِنْهُ وُجِدَ رَجُلًا "میں یقینی طور پر حیرت زدہ ہو جاتا ہوں کہ ایک آدمی اپنے خاندان کے ساتھ بچے کی طرح رہ سکتا ہے ، لیکن اگر اسے پکارا جائے تو وہ ایک بھرپور آدمی پایا جاتا ہے۔"(ماخذ: شعب الايمان 7851)۔ والد کی مردانگی اس کے اسلامی کردار کی طاقت سے ہے ، جبکہ اسے دین کی طرف سے عزت دی جاتی ہے۔ عمر بن الخطابؓ نے فرمایا،أَصْلُ الرَّجُلِ عَقْلُهُ وَحَسَبُهُ دِينُهُ وَمُرُوءَتُهُ خُلُقُهُ"انسان کی بنیاد اس کی عقل ہے ، اس کی عزت اس کے دین میں ہے ، اور اس کی مردانگی اس کے کردار میں ہے" (ماخذ: أدب الدنيا والدين 17/1)۔  متقی مسلمان باپ اپنے بچے کا اچھا دوست بن کر بری دوستی ، تباہ کن اثر و رسوخ اور دوستوں کے منفی دباؤ کی جگہ لے لیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ

" آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے" (ابو داؤد)۔

 

والد ایک صابر اور بااختیارکرنے والا استاد ہوتا ہے

تعلیم کے دوران ، مسلمان والد اپنے بچوں کی کسی کمزوری پر اُن پر کسی قسم کا لعن طعن نہیں کرتا، اور نا ہی انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔وہ صبر کے ساتھ ان کی تعلیم کے دوران ان کی عزت کو برقرار رکھتا ہے ، ان کو باعزت بناتا ہے اور انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ انہیں اپنی عزت کی حفاظت کرنی ہے۔ وہ اُن کے اعتماد کو بلند کرتا ہے اور اُن کی خود اعتمادی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ"مومن  نہ تو کسی کو طعنہ دیتا ہے، نہ ہی حقیر و ذلیل سمجھتا ہے، نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کرتا ہے، اور نہ ہی کسی سے گالی گلوچ کرتا ہے"(ترمذی)۔ عمر ابن الخطابؓ  نے فرمایا،لا يُعْجِبَنَّكُمْ مِنَ الرَّجُلِ طَنْطَنَتُهُ وَلَكِنَّهُ مَنْ أَدَّى الأمَانَةَ وَكَفَّ عَنْ أَعْرَاضِ النَّاسِ فَهُوَ الرَّجُلُ "اپنے آپ کو کسی آدمی کی دھاڑ سے متاثر نہ ہونے دیں۔ اس کے بجائے ، اگر وہ اعتماد پر پورا اترتا ہے اور اپنے آپ کو لوگوں کی عزت کو نقصان پہنچانے سے روکتا ہے ، تو وہ واقعی ایک بھرپور آدمی ہوگا" (ماخذ:الزهد والرقائق 681)۔

 

یقیناً ، اسلامی دورکے علمائے کرام نے مردانگی (یعنی مردانہ وقار ) کی خصوصیت کو بیان کیا کہ مرد توہین ، تنقید اور حقارت نہیں کرتا۔  امام أيوب السختيانيؒ نے فرمایا،لَا يَنْبُلُ الْمَرْءُ وَلَا تَتِمُّ مُرُوءَتُهُ حَتَّى تَكُونَ فِيهِ خَصْلَتَانِ الْعَفْوُ عَنِ النَّاسِ وَالتَّجَاوُزُ عَنْهُمْ" ایک شخص نہ تو نیک ہے اور نہ ہی اس کی مردانگی مکمل ہے جب تک کہ اس میں دو خوبیاں نہ ہوں: لوگوں کو معاف کرنا اور ان کے عیوب کو نظر انداز کرنا" (ماخذ: المروة 106)۔  امام عبد اللہ بن المبارک نے فرمایا،مَنِ اسْتَخَفَّ بِالْإِخْوَانِ ذَهَبَتْ مُرُوءَتُهُ "جو کوئی اپنے بھائی کو بدنام کرے گا ، اس کا وقارختم ہو جائے گا " (سير عالم النبلاء 251/17)۔  سعيد بن العاصؒ، جو کہ مدینہ کے حاکم تھے،انھوں نے اعلان کیا تھا،مَا شَتَمْتُ رَجُلا مُنْذُ كُنْتُ رَجُلا"جب سے میں آدمی بنا، میں نے کسی آدمی کی توہین نہیں کی"۔ (ماخذ: الحلم لابن أبي دنيا 119)۔

 

نوجوان صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو تعلیم دیتے ہوئے ، اللہ کے رسول ﷺ  صبر کا مظاہرہ کرتے ، ان کے اعتماد کو برقرار رکھتے اور ان کی ناگزیر غلطیوں کو برداشت کرتے تھے۔ انسؓ سے روایت ہے کہ،خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ‏ وَلاَ لِمَ صَنَعْتَ وَلاَ أَلاَّ صَنَعْتَ" میں نے رسول اللہ کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے 'اف 'تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ 'فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟'"(بخاری)۔ 

نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ ان کے ذہنوں کو متحرک کرتے تھے۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ، كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ ‏"‏‏.‏ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هِيَ النَّخْلَةُ"ہم نبیﷺ کے ساتھ تھے اور آپﷺ کے پاس کھجور کے درخت کی تازہ کھجوریں لائی گئیں۔ اِس پر انھوں نے کہا ، 'درختوں میں ایک درخت ہے جو مسلمان سے مشابہت رکھتا ہے'۔میں کہنا چاہتا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن چونکہ میں (ان میں سے) سب سے چھوٹا تھااس لیےمیں خاموش رہا۔اور پھر رسول اللہﷺنے فرمایا:'یہ کھجور کا درخت ہے'"(بخاری)۔  اللہ کے رسول ﷺ نے بچوں کو ایسے تعلیم دی جیسے آپ ﷺان کے  والد ہوں اوران کی مثبت حوصلہ افزائی کی ۔  رسول اللہﷺ کی بیوی حضرت حفصہؓ نے اپنے بھائی عبد اللہ بن عمرؓ کو بتایا کہ آپﷺ نے انہیں بتایا تھا کہ،إنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ لَوْ كَانَ يُكْثِرُ الصَّلاَةَ مِنَ اللَّيْلِ"عبداللہ ایک نیک آدمی ہے ، اگر وہ رات کو زیادہ نماز پڑھے"(بخاری)۔  الزہری نے فرمایا،وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِكَ يُكْثِرُ الصَّلاَةَ مِنَ اللَّيْلِ "اس کے بعد عبداللہ رات کو زیادہ نماز پڑھتے تھے"۔

 

رسول اللہ ﷺ ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے تھے بلکہ آپﷺ نے نوجوانوں کو اچھی طرح تیار کرنے کیلئے  انھیں بڑی اور اہم ذمہ داریاں سونپیں ۔ رسول اللہﷺ نے ایک فوج اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں روانہ کی جب وہ صرف بیس سال کے تھے۔ جب کچھ لوگوں نے اسامہؓ کی قیادت پر سوال اٹھائے تو رسول اللہﷺ نے اعلان فرمایا،إِنْ تَطْعُنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعُنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلإِمَارَةِ" اگر آج تم اس(اسامہ) کے  امیر بنائے جانے پر اعتراض کر رہے ہو تو اس سے پہلے اس کے باپ کے امیر بنائے جانے پر بھی تم نے اعتراض کیا تھا اور خدا کی قسم وہ(زیدؓ ) امارت کے مستحق تھے"(بخاری) ۔

 

والد اپنے بچوں کی دینی تربیت کرتا ہے

ایک مسلمان والد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تربیت کرے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ

"اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کوآگ (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں"(التحریم، 66:6)۔

 

ابن عباسؓ نے فرمایا،اعملوا بطاعة الله واتقوا معاصي الله وأمروا أهليكم بالذكر ينجيكم الله من النار "اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کی نافرمانی سے بچو، اور اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اللہ کو یاد کریں، پھر اللہ تمھیں جہنم کی آگ سے بچائے گا"۔ حضرت علیؓ نے فرمایا،اعملوا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم"تم اور تمہارے گھر والے خیر کے کام کریں اور تم انہیں لازمی نظم و ضبط کا پابند کرو" ۔مجاہد نے فرمایا،اتقوا الله وأوصوا أهليكم بتقوى الله، "اللہ سے تقویٰ اختیار کرو اور اپنے اہل و عیال کو تقویٰ کا حکم دو"۔ قتادہ نے فرمایا،تأمرهم بطاعة الله وتنهاهم عن معصية الله وأن تقوم عليهم بأمر الله وتأمرهم به وتساعدهم عليه فإذا رأيت لله معصية قذعتهم عنها وزجرتهم عنها،"وہ (والد)  اللہ کی اطاعت  کرنے اور اس کی نافرمانی نہ کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ اپنے گھر والوں کو حکم دیتا ہے کہ اللہ کے احکامات کو تسلیم کریں اور ان احکامات پر عمل کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔  جب وہ اُن میں سے کسی کو نافرمانی کرتے دیکھتا ہے، تو وہ انہیں روکتا ہے اور انہیں وہ عمل کرنے سے منع کرتا ہے "۔

 

والد ایک استاد ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو فرائض اور حرام کاموں سے آگاہ کرتا ہے۔  سورۃ تحریم کی آیت 6 کے متعلق ضحک اورمقاتيل نے فرمایا،حق المسلم أن يعلم أهله من قرابته ما فرض الله عليهم وما نهاهم الله عنه،"مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قریبی خاندان کے افراد کو یہ سکھائے جو اللہ نے ان پر فرض کیا ہے اور جو اللہ نے ان کے لیے حرام کیا ہے"۔ مسلمان والد اپنے بچوں کو اسلام سکھانے کا ذمہ دار ہے ، چاہے وہ خود ایسا کرے یا اپنی ذاتی نگرانی میں کسی دوسرے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ"(دین کا)علم  حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے" (ترمذی)۔ فرض یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کے لیے ضروری تمام احکامات سے آگاہی حاصل کی جائے ،چاہے اس کا تعلق نماز ، روزہ ، مالی لین دین ، مخالف جنس کے ساتھ برتاؤ کرنے سے ہو یا اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے ہو۔

 

دوسرے خلیفہ راشد، عمر الفاروقؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنے بیٹے کے برے سلوک کے متعلق شکایت کی۔ لہٰذا عمرؓ نے اس کے بیٹے کو  بلوایا اور پوچھا،لماذا تعق والدك؟"تم کیوں اپنے والد کی بے عزتی کرتے ہو؟" بیٹے نے کہا، "اے امیر المومنین، کیا بیٹے کا اپنے والد پر حق نہیں ہے؟" عمرؓ نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور کہا، "بالکل"۔ تو بیٹے نے پوچھا، "تو وہ (حق) کیا ہیں؟" عمرؓ نے جواب دیا،أن ينتقي أمه، ويحسن اسمه، ويعلِّمه الكتاب"وہ اس کی والدہ کا انتخاب کرتا ہے ، اپنے بیٹے کا خوبصورت نام رکھتا ہے اور اسے کتاب (یعنی قرآن) سکھاتا ہے"۔ بیٹے نے جواب دیا، "بے شک میرے والد نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جہاں تک میری ماں کا تعلق ہے ، وہ ایک مجوسی(آگ کی پوجا کرنے والی) تھیں۔ اس نے مجھے جلالان (گوبر کا کیڑا) کا نام دیا اور اس نے مجھے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں سکھایا"۔  یہ سن کر عمرؓ نے اس کے والد سے کہا،أيها الرجل أجئت إليَّ تشكو عقوق ابنك وقد عققته قبل أن يعقك، وأسأت إليه قبل أن يسيء إليك "اے صاحب! آپ میرے پاس اپنے بیٹے کی حقارت کی شکایت کرنے آئے ہیں۔ آپ پہلے اپنے فرض میں ناکام رہے ہیں اس سے پہلے کہ وہ آپ کے ساتھ اپنے فرض میں ناکام ہوا۔ آپ نے پہلے اس کے ساتھ ظلم کیا اس سے پہلے کہ   اس نے آپ پر ظلم کیا"۔

 

جہاں تک عمر الخطابؓ کے اپنے بیٹے، عبد اللہ بن عمرؓ کا تعلق ہے تو ان کے والد نے ان کا حق اداکیا۔ عبد اللہ بن عمرؓ رسول اللہﷺ کے صحابی تھے، وہ سنت کی روایت کرنے والے تھے، وہ ایک فقیہ تھے اور وہ  مسلمانوں کو رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ درحقیقت یہ چار "عبد اللہ" تھے جن میں سے ایک عبد اللہ بن عمرؓ تھے جنہوں نے امیر معاویہ کا اس وقت سخت احتساب کیا جب انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا تھا،فإن هذه الخلافة ليست بهرقلية، ولا قيصرية، ولا كسروية، يتوارثها الأبناء عن الآباء، ولو كانت كذلك كنت القائم بها بعد أبي، فوالله ما أدخلني مع السنة من أصحاب اشورى إلا على أن الخلافة ليست شرطا مشروطا"یہ خلافت نہ تو بازنطینی ہے ، نہ قیصری (رومی) اور نہ ہی خسرانی (ایرانی) ، جہاں حکومت بیٹوں کو باپ سے وراثت میں ملتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو  اپنے والد کے بعد یہ کام کرنے والا میں ہوتا۔ اللہ کی قسم ، انہوں نے مجھے شوریٰ کے چھ افراد میں شامل نہیں کیا ، سوائے اس شرط کے کہ خلافت مقرر نہ ہو"۔

 

مالکی امام، ابو الحسن علی بن خلف الکابیسی، نے فرمایا،فمن رغب إلى الله أن يجعل له من ذريته قرة أعين، لم يبخل على ولده بما ينفقه عليه في تعليمه القرآن، فلعل الوالد إذا أنفق ماله في تعليمه القرآن أن يكون من السابقين بالخيرات - بإذن الله - والذي يعلِّم ولده فيحسن تعليمه، ويؤدبه فيحسن تأديبه، قد عمل عملاً يُرجَى له من تضعيف الأجر فيه "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک بنادے ، تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس بات میں بخل (کنجوسی) نہیں کرے گا کہ وہ قرآن کی تعلیم کے لیے اس پر خرچ کرے۔ ممکن ہے کہ اگر وہ (یعنی والد) قرآن پڑھانے پر اپنا پیسہ خرچ کرتا ہے تو ایسا باپ نیک کاموں میں سب سے آگے ہوگا ، ان شاءاللہ ،اور جو اپنے بچے کو اچھی طرح پڑھاتا ہے ، اس کی تعلیم اور نظم و ضبط کو بہتر بناتا ہے تا کہ وہ اچھی طرح سے نظم و ضبط کا پابند ہوجائے ، تو اس نے ایک ایسا عمل کیا ہے جس کے لیے امید ہے کہ ثواب دوگنا ہو جائے گا"۔

 

والد اپنے بچوں میں یقین کے ساتھ ایمان قائم کرتا ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

"اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں سے یہی کہا) کہ بیٹا اللہ نے تمہارے لیے یہی دین (اسلام) پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا"(البقرۃ، 2:132)۔ 

 

باپ اپنے بچوں کو اسلام پر ایمان رکھنے پر مضبوطی سے قائم کرتا ہے ،اس میں وہ رسول اللہﷺ کی مثال کی تقلید کرتا ہے جنھوں نے دارِ ارقم میں نوجوان صحابہ کرام ؓ کی پرورش کی  ۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ ہماری اولادیں ان کے ایمان کی وجہ سے درجات میں بلند ہوں گی اور اپنے اچھے باپوں کے ساتھ جنت کی زندگی میں شامل ہوں گے۔  موت کے ذریعے عارضی طور پر علیحدگی کے بعد یہ واقعی ایک خوشگوار ابدی ملاپ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ

" اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے"(الطور، 52:21)۔

 

اسلام باپ کو آخرت میں اپنے بچوں کے درجات بلند کرنے کا اعلیٰ نظریہ دیتا ہے ، بجائے دنیا میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے پست نظریے کے  کہ اس کی اولاد دنیاوی حیثیت  یعنی دولت، تعلیم اور سہولیات  میں دوسروں سے آگے نکل جائے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

" اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے"(لقمان، 31:13)۔

 

اسلام میں ، باپ، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ والدین رہنمائی میں مرکزی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اپنے بچے میں یقین کی حد تک اس ایمان کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

" ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی(عیسائی) یا مجوسی (آگ کی پوجا کرنے والا) بنا لیتے ہیں"(بخاری و مسلم)۔

 

اسلام کے عقیدے پر ایمان کے حوالے سے ، آج کے والد کو سیکولر ریاستوں کے تحت ایک بڑا چیلنج درپیش ہے جو ہمارے دین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔  سیکولر نظام مذہب کو دنیا کی زندگی سے لاتعلق کرنے پر مبنی ہے ، تاکہ عقیدے کا مسئلہ غیر اہم ہو جائے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پوری دنیا میں عقیدے سے متعلق شک اور لایقینی (اگنوسٹسزم) عروج پر ہے ، جہاں لوگ اعلان کرتے ہیں کہ وہ زندگی کی منزل (یعنی آخرت) کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ عقیدے سے متعلق اس لایقینی کا عروج کوئی حادثہ نہیں بلکہ اُس تعلیم اور سوشل میڈیا کا براہ راست نتیجہ ہے جو سیکولرازم پر مبنی ہے۔ اس لئے مسلمان والد کو مضبوط اور وسیع اسلامی تعلیمات پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تا کہ اولاد میں ایمان اچھی طرح سے قائم ہو ۔

 

والد کو لازمی طور پر ان موضوعات کو پڑھنا اور انہیں اپنی اولاد کو سمجھانا چاہیے ، جیسا کہ؛اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ناگزیر وجود ، رسولوں کی ضرورت ، قرآن مجید کا بے مثال معجزہ ، سنتِ رسول کا یقینی طور پر وحی ہونا اور قضا و قدر کا معاملہ ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، اسے سیکولر ماحول کی بدعنوانی سے آگاہ ہونا چاہیے جو کہ مادیت کو کائنات کا اصل قرار دیتے ہوئے اسلام اور اس کے الہامی نصوص کے برحق ہونے کو چیلنج کرتا ہے۔ اسے مقامی روایات میں موجود  خرابیوں سے بھی آگاہ ہونا چاہیے ، جہاں کسی چیز پر ایمان بغیر ثبوت کے وراثت میں ملتا ہے ، جبکہ تقدیر پر اس طرح سے  یقین کرنا کہ ہر چیز پہلے سے مقرر شدہ ہے اور انسان کے بس میں کچھ نہیں، اسلام سے وابستگی میں کمزوری کا باعث بنتاہے۔ چنانچہ ایک والد اپنے گھر کو دارِارقم کا نمونہ بناتا ہے ، وہ گھر جوہدایت کی روشنی کے ساتھ ساتھ جھوٹے کفر عقائد کی تردیدسے روشن ہوتا ہے۔یہ ہمارے بچوں کی قوت مدافعت کواس کفر کےخطرے کے خلاف مضبوط کرنے کا صحیح طریقہ ہے جو کورونا وائرس سے بھی بدتر ہے اور ہمیشہ رہنے والی آخرت کو برباد کر سکتا ہے۔

 

ان تمام تر کوششوں کے باوجود رہنمائی و ہدایت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔  اس لیے والد کو مسلسل یہ دعا کرنی چاہیے کہ مشکل حالات میں بھی اس کے بچوں کے ایمان میں کوئی کمزوری نہ آئے، اور وہ یہ جانتے ہوئے دعا کرے کہ وہ اُن لوگوں میں سے ہے جن کی دعا مسترد نہیں کی جاتی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لاَ شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ

"تین دعائیں ہیں جن کا بلاشبہ جواب دیا جائے گا: ایک (مظلوم) کی دعا جس پر ظلم ہوا؛ مسافر کی دعا اور باپ کی اپنے بچے کے لیے دعا"(ابن ماجہ)۔

 

والد اسلام پر عمل کرنے کے لیے اولاد کو نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً

" اور وہ جو (اللہ سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا"(الفرقان، 25:74)۔ 

 

اسلام والد پر یہ فرض عائد کرتاہے کہ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی عبادت اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنےکی طرف رہنمائی کرے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لقمانؑ  کی جانب سےاپنے بیٹے کو دی جانے والی نصیحت کو قرآن میں بیان فرمایا،

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

"اےمیرے بیٹے! نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں "(لقمان، 31:17)۔ 

 

باپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی اولاد میں راست بازی پیدا ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

" اے میرے پروردگار !مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (تقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں"(الاحقاف، 46:15)۔ 

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ

" کوئی باپ اپنی اولاد کو اچھے ادب سے افضل اور بہتر تحفہ نہیں دے سکتا"(ترمذی)۔

 

اس طرح ، ایک دوستانہ اور توجہ دینے والے استاد کے طور پر ، باپ سمجھداری سے نظم و ضبط کا خیال رکھتا ہے ، اپنی محبوب اولاد کو اللہ (عزوجل) کے غضب اور آخرت میں سزا سے محفوظ رکھتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

لأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ

" ایک آدمی اپنے بیٹے کو نظم و ضبط کا پابند کرے ، یہ اس کے لیے ایک صاع صدقہ دینے سے بہتر ہے"(ترمذی)۔

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ

"اگر کوئی تین بیٹیوں کا خیال رکھتا ہے ، ان کی تربیت کرتا ہے ، ان کی شادی کرتا ہے اور ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا"(ابو داؤد)۔

 

والد کی طرف سے نظم و ضبط کی تربیت ہمدردی اور دیکھ بھال سے پیدا ہوتی ہے ، مایوسی ، غصے اور بغض سے نہیں۔ والد کی جانب سے نظم و ضبط اپنے بچوں کی دنیاوی خواہشات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ  اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا، اور کبھی نہ ختم ہونے والی آخرت میں بچے کی حیثیت کو بلند کرنا ہوتاہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَنْ كَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ وَمَنْ كَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ

" جس نے روزہ رکھا وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح کھانا کھا لیا ہو وہ باقی دن پورا کرے(یعنی اب کچھ نہ کھائے)"(مسلم)۔ 

 

مسلم نے مزید روایت کی کہ صحابہؓ نے کہا:فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ نَصُومُهُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الإِفْطَارِ " پھر اس کے بعد ہم روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے، ان شاء اللہ ،اور جب ہم مسجد کو جاتے تھے توبچوں کے لیے اون کے کھلونے بنالیتے تھے، پھر ان میں سے جب کوئی  بھوک سے رونے لگتا تھا تو اس کو وہی کھیلنے کو دے دیتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا تھا"۔

 

تعلیم دینے ، حکم دینے ، حوصلہ دینے ، نصیحت کرنے ، اور تنبیہ کرنے کے بعد آخری حربے کے طور پر  ، باپ کو دس سال سے زیادہ عمر کے بچے کو نماز ادا نہ کرنے پر مارنا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، 

مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، فَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا

" بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہو جائیں تو اس(کے ترک کرنے)پر انہیں مارو"(ابو داود، ترمذی)۔

 

آج ، مسلمان باپ کو نظم و ضبط میں خاص طور پر ہوشیار رہنا چاہیے ، کیونکہ آج اسلام ایک طرز زندگی کے طور پر موجود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر سیکولرازم کے غلبے کی وجہ سے لبرل اقدار ہمارے نوجوانوں کو بگاڑ رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں آنے والے مسائل والد کے لیے ایک بڑی تشویش بن گئے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں اور نوعمروں کے مسائل کے حوالے سے ۔ یہ ایک عام بات بن گئی ہے کہ والد اپنے بچوں کے طرز عمل پر چیختا چلاتا اور روتا ہے،  اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دورِ جوانی یا بچپن کے وقت میں نظم و ضبط اور ایک دوسرے کو دی جانی والی عزت کو یاد کرتا ہے۔  تعلیم اور سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مغربیت نے واقعی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ انفرادیت کسی بھی اتھارٹی، حکم دینے والے، کے حوالے سے فطری ناپسندیدگی پیدا کرتی ہے ، بشمول اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے ، تو باپ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

 

مادیت اور لذت پسندی، بغیر کسی پابندی یا رہنمائی کے، خواہشات کو پورا کرنے کا احساس پیدا کرتی ہے ۔ سیکولر نظام کے تحت اب یہ بات نایاب نہیں  کہ نوجوان مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شراب نوشی ، نشہ اور بدکاری میں ملوث ہوتے ہیں۔ اخلاقی بدعنوانی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ غیر شادی شدہ جوڑے  اسقاط حمل کر رہے ہیں ، جبکہ کچھ خود کو ہم جنس پرست بھی قرار دیتے ہیں۔

 

یہ سب کچھ مسلم خاندانوں میں پیدا ہونے والی اُن کمزور شخصیات کے علاوہ ہے جو اپنے غصے کو روکنے سے قاصر ہیں ، عورتوں اوربچوں پر ظلم کرتے ہیں ، انہیں بے رحمانہ مار پیٹ اور ذہنی اذیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ مسائل مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ مغرب میں بھی موجود ہیں ، فرق صرف ان کی شدت کا ہے۔

 

والد مالی طور پر اولاد کی دیکھ بھال کا ذمہ دارہوتا ہے

اسلام میں ، یہ والد ہوتا ہے جو بیوی اور  بچوں پر خرچ کرنے کا پابند ہے۔ عورت بحیثیت بیوی یا ماں، بچوں یا شوہر کی دیکھ بھال کے لیے خرچ کرنے کی پابند نہیں ہے ، چاہے وہ کتنا ہی کمائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ

"مرد عورتوں کے نگران ہیں ، کیونکہ مردوں کو اللہ نے عورتوں پر فضیلت دی ہے اور ان کی مالی مدد کی ذمہ داری سونپی ہے "(النساء، 4:34)۔ 

 

اسلام نے والد پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرے جس میں اس کے اپنے بچے بھی شامل ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ

"جو بھی تم خرچ کرتے ہو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیےہے"(البقرۃ، 2:215)۔

 

والد کی طرف سے خرچ کیا جانے والا مال نہ تو احسان ہے اور نہ ہی صدقہ ہے بلکہ اللہ کی طرف سے فرض ہے۔ یہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے اور اس میں کنجوسی  نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں  کسی بھی قسم کی کوتاہی ایک سنجیدہ معاملہ ہے ، جس کے نتیجے میں اسلامی قاضی فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہند بنت عتبہ نے رسول اللہﷺ سے کہا، "ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہیں اور مجھے ان کی دولت میں سے کچھ لینا پڑتا ہے"۔ رسول اللہﷺ فرمایا،

خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ

" مناسب انداز سے اتنا لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کے لیے کافی (بالمعروف)ہو"(بخاری)۔

 

مالی دیکھ بھال کے حوالے سے ، بالمعروف میں بنیادی ضروریات جیسے کھانا ، لباس ، رہائش اور کچھ دیگر سہولیات شامل ہیں ۔ بالمعروف ایک معقول معیار ہے  جو اس علاقے کے شہری آبادکاری کے درجے پر منحصر ہے اور اس حوالے سے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ خاندان شہر میں رہتا ہے،   کسی گاؤں میں آباد ہے یا کسی صحرا یا ریگستان میں رہتا ہے۔

 

یہ مالی دیکھ بھال  آج مسلم دنیا میں کفر کی بنیاد پر قائم نقصان دہ ریاستوں کی وجہ سے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ معقول معیار کی مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ، بہت سے والد حضرات کو نجی تعلیم اور صحت کی سہولیات کے کمر توڑ بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  دوسرے فرائض  تو درکنار، والد کے لیے اپنے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بہر حال ، مالی دیکھ بھال والد کے کئی فرائض میں سے ایک فرض ہے نہ کہ اکلوتا فرض۔

 

نتیجہ:  متقی بچے اپنے والد کو اُس کی زندگی میں اور اس کی موت کے بعد، دونوں صورتوں میں فائدہ پہنچاتے ہیں

بے شک مسلمان والد کی اپنی اولاد کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں ہیں ، جن کو پورا کرنے پر اجر اورانہیں نظرانداز کرنے پر سزا ہے۔ باپ اپنے گھر کا سرپرست ہے اور اس سے اس کی سرپرستی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

إن الله َسائلٌ كلَّ راعٍ عما استرعاه أَحَفِظَ أم ضيَع حتى يُسألَ الرجلُ عن أهلِ بيتِه

" بیشک اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کرے گاکہ کیا اُس نے ذمہ داری  پوری کی یا اس میں غفلت کا مظاہرہ کیا ، حتیٰ کہ وہ بندے سے اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی پوچھے گا"(النسائی، ابن حبان)۔ 

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرعِيهِ اللهُ رَعِيَّة يَموتُ يَوْمَ يَمُوتُ وهو غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ إِلا حَرَّمَ اللهُ عليه الجَنَّةَ"

کوئی بندہ ایسا نہیں جس کو اللہ تعالیٰ رعیت دے پھر وہ اس حالت میں مرے کہ وہ اپنی رعیت کے حقوق میں خیانت کرتا ہو،سوائے یہ کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا "(مسلم)۔

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يجد رَائِحَة الْجنَّة

" اللہ جس بندے کو کسی رعیت کا نگہبان بنائے اور وہ ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا"(بخاری)۔

 

مبارک باپ وہی ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور انھیں  نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے اپنا فرض ادا کرتا ہے اور اللہ کی ہدایت سے نیک اولاد کا مالک بنتا ہے۔ اس طرح کے بچے وہ ہوتے ہیں جو رضاکارانہ طور پر اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت میں اپنے والد کی اطاعت کرتے ہیں جو اس کا حق ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فضل سے ، فرض شناس والد اپنی زندگی میں برکت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹنے کے بعد بھی برکت پاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ

"جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہےجس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے"(النسائی)۔ 

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

" آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہے گاکہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا(حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا)اس کو جواب دیا جائے گا: تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے"(ابن ماجہ)۔

 

اے اللہ! ہمیں والد کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کرنے کی توفیق عطاء فرما! ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ہماری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک اور امت مسلمہ کے لیے ستون ثابت ہوں! ہماری اولاد وہ ہو جو ہمارے ساتھ نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت کو دوبارہ قائم کرنے ، اسلام کو زندگی گزارنے کے طریقے کے طور پر دوبارہ شروع کرنے اور پوری دنیا میں اسلام کو ایک دعوت کے طور پر لے جانے کے کام میں جدوجہد کرے۔ آمین!

 

احمد نے روایت کی کہ رسول اللہﷺ ، جنہوں نےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو اپنی زبان میں اپنی سنت کے طور پر بیان کیا اور وہ کچھ نہیں کہتے تھے سوائے اس کے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپﷺ پر وحی کیا، نے اعلان فرمایا،

تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة

"تم میں نبوت باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی، وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔پھر دانتوں سےجکڑ لینے والی بادشاہت ہو گی، وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔ پھرجبری حکومت کا دور ہو گا، وہ تب تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی"،اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہو گئے،(احمد)۔

 

مصعب عمیر، پاکستان

Last modified onمنگل, 17 اگست 2021 05:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک