بسم الله الرحمن الرحيم
ہمارے میڈیا اور تفریحی صنعت (Entertainment Industry (کے حوالے سے امریکی منصوبہ
تحریر: حسن ولید، پاکستان
میڈیا اور تفریحی صنعت کے ذریعے سے غلط افکار کو ایک معمول کی بات بنادینا
امریکی ٹیلی ویژن شوز اور سنیما فلمیں، پہلی نظر میں، خود کو اس طرح پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لیے تفریح کرنے کا ایک بے ضرر طریقہ ہے۔ تاہم، مغربی حکومتی ادارے تفریحی صنعت کا استعمال مسلم دنیاسمیت دنیا بھر کی فکری اور سیاسی رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ تفریحی صنعت ذہنوں کو متاثر کرتی ہے، غلط اور عجیب و غریب تصورات کو معمول کے تصور بنانے کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران تفریحی اور میڈیا انڈسٹری کی مدد سے معاشرے میں جھوٹے اور غلط خیالات، جیسے کہ شراب نوشی، تفریحی کے لیے منشیات کا استعمال ، زنا، بدکاری اور ہم جنس پرستی کو معمول کی بات بنا دیا گیا ہے۔
ہم جنس پرستی کو معمول بنانا
ہالی ووڈ نے خاص طور پر ہم جنس پرستی کو معمول کے طو رپر پیش کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا ہے، اور ایسی فلموں کو مزاح یا سنسنی میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے، جیسے "دی ایٹرنلز"( The Eternals)، "بروک بیک ماونٹین"(Brokeback Mountain) یا I Now Pronounce You Chuck & Larry۔ جہاں تک ٹیلی ویژن کا تعلق ہے، 18 جنوری 1996 کو، مزاحیہ ڈرامے"روزین" (Roseanne) کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی شادی دکھانے کے صرف پانچ ہفتے بعد بے حد مقبول "فرینڈز" مزاحیہ ڈرامے نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو نشر کیا ۔ امریکہ میں ابتدائی طور پر اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ پورٹ آرتھر، ٹیکساس میں KJAC-TV اور لیما، اوہائیو میں WLIO نے ڈرامے کی اس قسط کو نشر کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تاہم، وقت کے ساتھ، اس واقعہ نے ایک ماحول بنانے میں کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے قانون سازی، میڈیا اور تعلیم میں اصلاحات ہوئیں۔ اب جبکہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو ایک معمول کی چیزبنا لیا گیا ہے، تو اب بے حیائی کو معمول پر لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
ہیڈونزم (Hedonism)کے تصور کو عام کرناکہ زندگی کا مقصد صرف لذتوں کا حصول ہے
فکری طور پر، مغربی تفریح مغربی طرزِ زندگی کے ایک بنیادی تصور کو فروغ دیتی ہے، جو کہ hedonism ہے۔ Hedonism ایک مغربی اخلاقی نظریہ ہے کہ کسی بھی ذریعہ سے لذت کا حصول انسانی زندگی کا اعلیٰ ترین اور مناسب مقصد ہے۔ یہ تصورمغربی معاشرے میں چرچ کی طرف سے ذاتی طرز عمل پر پابندیوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ Hedonism کا بنیادی سبق یہ ہے کہ مذہب کے ذریعے ذاتی لذت کے حصول پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے، جب تک کہ آپ دوسروں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ مسلم دنیا میں تفریح کی شکلوں کا تعین کرنے میںامریکی تفریح صنعت کا کردار تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔
تفریحی صنعت میں امریکی پینٹاگون اور سی آئی اے کا کردار
یہ عوامی ریکارڈ کی بات ہے کہ 1948 سے امریکی پینٹاگون نے ایک تفریحی رابطہ دفترقائم کر رکھا ہے۔ یو ایس فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے، فائلوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ 1911 سے 2017 کے درمیان، 800 سے زیادہ فیچر فلموں کو امریکی حکومت کے محکمہ دفاع کی جانب سے تعاون حاصل ہوا۔ ان میں مشہور فلمیں جیسے ٹرانسفارمرز، آئرن مین، اور دی ٹرمینیٹرThe Terminator شامل تھیں۔ ٹیلی ویژن پر1100سے زیادہ ٹائٹلز کو پینٹاگون کی حمایت حاصل ہوئی، ان میں سے 900 پروگرامز کو 2005 سے معاونت ملی جن میں ، فلائٹ 93 ، آئس روڈ ٹرکرز (Ice Road Truckers)اور آرمی وائیفز(Army Wives) شامل ہیں۔ جب سی آئی اے نے 1996 میں ایک تفریحی رابطہ دفتر قائم کیا تو پھراس نے ایل پچینو (Al Pacino)کی فلم "دی ریکروٹ" (The Recruit)اور اسامہ بن لادن کے قتل کی فلم "زیرو ڈارک تھرٹی"(Zero Dark Thirty) پر بھرپور طریقے سے کام کیا۔پینٹاگون میں امریکی محکمہ دفاع کے تفریحی رابطہ دفترکی دستاویزات جان گن(John Gunn’s) کی فلم "دی سوسائیڈ اسکواڈ" (The Suicide squad)کے متعلق فوجی رابطے اور تعاون کو ظاہر کرتی ہیں، یہ فلم امریکی انٹیلی جنس کے طریقہ واردات کے متعلق ہمدردانہ اور خوش کن جذبات اُبھارتی ہے کہ کس طرح امریکی انٹیلی جنس لاطینی امریکا میں حکومتوں کو غیر مستحکم کرنےکے لیےمجرمانہ پراکسیز (Proxies) اور سیاہ کاروائیاں(Black Operations) بروئے کار لاتی ہے۔
تفریحی صنعت ، میڈیا اور قانون سازوں کا مغربی گٹھ جوڑ
امریکہ میں، چھ تنظیمیں تمام ذرائع ابلاغ کی مالک ہیں اور کنٹرول کرتی ہیں جن کا نیٹ ورک امریکہ سے باہر تک پھیلاہوا ہے، ان ذرائع ابلاغ میں اخبارات، رسائل، پبلشرز، ٹی وی نیٹ ورکس، کیبل چینلز، ہالی ووڈ اسٹوڈیوز، میوزک لیبلز اور مشہور ویب سائٹس شامل ہیں۔ یہ تنظیمیں ٹائم وارنر(Time Warner)، والٹ ڈزنی (Walt Disney)، ویاکوم (Viacom)، روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdoch’s) کی نیوز کارپوریشن، سی بی ایس کارپوریشن (CBS Corporation) اور این بی سی یونیورسل (NBC Universal)ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا میڈیا مالک گوگل (Google)بذاتِ خودہے، اس کے بعد والٹ ڈزنی (Walt Disney)، کامکاسٹ (Comcast)،ٹوینٹی فرسٹ سینچری فاکس (21st Century Fox)اور سی بی ایس کارپوریشن (CBS Corporation)ہیں۔ میڈیا کے امریکی ارکینِ کانگریس اور سینیٹرز کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، جن کی وہ لابی کرتے ہیں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ عوام کو کیا دِکھانا ہے۔ امریکی میڈیا تنظیموں سے متاثر میڈیا معلومات مسلم دنیا میں خبروں کی اشاعت پر غالب اثر رکھتی ہیں۔
مسلم دنیا میں ہیڈون ازم Hedonism))کا فروغ
مغربی تفریح صنعت کا پوری دنیا میں ایک ایجنڈا (پروگرام) ہے، لیکن مسلم دنیا میں اس کا ایک خاص چہرا ہے۔ ثقافتی یلغار کا مقصد یہ ہے کہ مغرب اپنی زندگی گزارنے کے طریقے کو اسلامی طرز زندگی کےمتبادل ایک پرکشش طرز زندگی کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ ماں کی گود میں صحیح راستے پر پلنے والے مسلم نوجوانوں کو تفریح کے ذریعے مغربی طرز زندگی پر چلنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ مغربی تفریحی صنعت کا پیغام یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے بجائے اپنی خواہشات اور ہوس کی پیروی کریں۔ یہ ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جب تک ہم کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا رہے ، ہم کسی بھی حرام کام کو انجام دے سکتے ہیں۔
ناپسند اور ذمہ داری
یہ سچ ہے کہ انسان چیزوں اور اعمال کو اس بنیاد پر پسند اور ناپسند کرتا ہے کہ وہ کس طرح اس کی خوشی کو متاثر کرتی ہیں۔ تو یہاں انسان چیزوں کو ان کے خوشگوار یا ناخوشگوار ہونے کے نقطہ نظر سے فیصلہ کرتا ہے۔ تاہم، یہ معاملہ اُس کے لیے اُن اعمال کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے معاملے سے الگ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"
(مسلمانو)تم پر (اللہ کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے ،وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے نقصان دہ ہو۔ اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"(البقرۃ، 2:216)۔
پس باوجود اس کے کہ آدمی لڑائی کو ناپسند کرتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے کیونکہ قانون ساز نے اسے اچھا (خیر) قرار دیا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے مطابق عمل کرنا
اسلام میں ہیڈونزمHedonism)) کا راستہ نہیں ہے کہ جس میں انسان اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کوئی عمل کرتا یا اس سے اجتناب کرتاہے۔ اسلام چیزوں اور اعمال سے پرہیز کا تعین ہماری خواہشات کی بنیادپر نہیں بلکہ اس بنیاد پر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا ہے،
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ
"اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا،اور ان سے بچتے رہیں کہ یہ آپ کو کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے ، بہکانہ دیں"(المائدہ، 5:49)۔
اپنی پسند اور ناپسند کو اسلام کے مطابق تشکیل دینا
اسلام پسند و ناپسند کی تشکیل اسلامی احکام کے مطابق کرتا ہے۔ تو ایک مسلمان جہاد کو اس لیے پسند کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتاہے اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گمراہ آدمی کے برعکس، مؤمن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات پر خوشی سے عمل کرتا ہے، کیونکہ اس کا مزاج اُن تمام چیزوں سے تشکیل پاتا ہے جو رسول اللہﷺ لائے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لا يُؤمنُ أحدُكُم حتى يكونَ هَوَاهُ تبعًا لما جِئتُ بِهِ
"تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات ان تمام چیزوں کے مطابق نہ ہوں جو میں لایا ہوں۔"
لہٰذا اہلِ ایمان شراب پینے، تفریح کے لیے منشیات کے استعمال اور زنا کو ناپسند کرتے ہیں، اگرچہ وہ لذت بخش ہی ہوں۔ اسی طرح وہ نکاح، نماز اور حلال ذرائع سے کمانے کو پسند کرتے ہیں۔
خلافت میں میڈیا
خلافت میں میڈیا اسلام کی سچائی ، افراد اور معاشرہ دونوں کو حاصل ہونے والے سکون اور خوشی ، جو انصاف اسلام نے قائم کیا اور ریاست کی فوجی برتری کا، پرچار کرے گا ۔ مزید برآں، خلافت کا میڈیا انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کے جھوٹ اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ دشمن کی عسکری قوت کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کرے گا۔ اس طرح میڈیا پوری دنیا میں اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے لیے کام کریں، جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ میڈیا انسانیت کوہیڈونزم کی جہالت کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لے جانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔