بسم الله الرحمن الرحيم
افغانستان میں طالبان - ازبکستان میں داڑھی منڈوانا
تحریر: محمد منصور
خبر:
تاشقند کے علاقے یانگیول (Yangiyul) شہر میں، 22 نومبر کو درجنوں مردوں کو محکمہ پولیس میں طلب کیا گیا، جہاں ان کی داڑھیاں زبردستی کاٹی گئیں۔ سیاسی کارکنوں نے بتایا کہ حال ہی میں اس خطے میں داڑھی والے مردوں پر چھاپے مارے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اطلاع ازبک ذرائع ابلاغ نے دی ہے۔
ایک مقامی کارکن نے بتایا کہ یانگیول میں گزشتہ ماہ کے دوران 22 مردوں کی داڑھیاں کاٹی گئیں تھیں۔ "صرف مذہب پر عمل کرنے والے مردوں کو داڑھی منڈوانے (کاٹنے) پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مجھ سے گفتگو میں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایس واقعات تسلسل سے ہوتے ہیں ۔ یعنی، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ داڑھی کاٹنے کا عمل کل سے شروع نہیں ہوا"، ایک مقامی کارکن نے کہا۔
تبصرہ:
ہمیشہ کی طرح تاشقند کے علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبصرین کی جانب سے جبری داڑھی کاٹنے کی خبروں کی تردید کی اور صحافیوں کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار مردوں کو داڑھی ٹھیک کرنے کے لیے کہہ سکتے تھے، لیکن کسی نے انھیں داڑھی منڈوانے پر مجبور نہیں کیا۔
تاہم، جن مردوں کی داڑھی کاٹی گئی تھی، کچھ اور ہی بات بتاتے ہیں۔ "ایسے مرد ہیں جو فیشن کی وجہ سے داڑھی بڑھاتے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں چھیڑتا، قانون نافذ کرنے والے افسران صرف مذہب پر عمل کرنے والوں میں سے ہی عیب نکالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم' انہیں دہشت گرد لگتے ہیں۔ ہم داڑھی رکھتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے نبیﷺ کی سنت سمجھی جاتی ہے"، یانگیول کے رہائشیوں میں سے ایک نے کہا۔
ازبکستان کے مسلم بورڈ نے داڑھیوں کے خلاف چھاپوں کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ ان کی اہلیت میں نہیں ہے۔ "ہم نماز کو خراب کرنے والے اعمال سے متعلق سوالات کے جواب دے سکتے ہیں، یا یہ کہ کن صورتوں میں کوئی شخص قرآن پڑھ سکتا ہے، اور کن میں نہیں۔ اگر آپ کو داڑھی بڑھانے کے بارے میں کوئی سوال ہے، تو آپ کو کمیٹی برائے مذہبی امور سے رابطہ کرنا چاہیے"، محکمہ کے ایک نمائندے نے صحافیوں کو بتایا۔
ایسے کیسز کی معلومات وقتاً فوقتاً میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جون کے اوائل میں، تاشقند کے علاقے انگرین(Angren) شہر میں، درجنوں مردوں کو بھی داخلی امور کے محکمے میں بلایا گیا تھا، جہاں ان کی داڑھیاں زبردستی منڈوائی گئیں تھیں۔ مبصرین نوٹ کرتے ہیں کہ ازبک قانون نافذ کرنے والے ادارے وقتاً فوقتاً ایسی واقعات کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ازبک معاشرے میں اسلامائزیشن کی تیز رفتار کو کم کیا جا سکے، جو کریموف کی موت کے فوراً بعد دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ازبک حکام ازبک معاشرے پر اسلامی سیاسی نظریات کے اثر سے مزید خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں، حالیہ مہینوں میں ہم ملک میں مذہب پر عمل کرنے والے باشندوں پر دباؤ میں اس حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے کریموف کی حکمرانی کے زمانے کو یاد کرنا شروع ہو گیا ہے۔