الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 چین بالمقابل امریکہ: جنگ، مشغولیت یا  روک تھام؟

تحریر: عبدالمجید بھٹی

                  24 ستمبر 2021 کو چار ملکوں کے سیکورٹی فورم ، کواڈ(Quad )   نے اعلان کیا، "ہم ایک ساتھ مل کر، آزاد اور کھلے، قوانین پر مبنی آرڈر کو فروغ دینے کی سفارش کرتے ہیں، جو بین الاقوامی قانون سے منسلک  ہے اور جبر سے پاک ہے، تاکہ انڈو پیسیفک اور اس سے باہر کے علاقوں  کی سلامتی اور خوشحالی کو تقویت ملے" (1)۔ رہنماؤں نے اپنے بیان کے بنیادی ہدف،  چین کا نام نہیں لیا ، لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ وہ  بیجنگ کو مخاطب کر رہے  ہیں۔ مزید برآں، ایشین پیسفک کے بجائے انڈو پیسیفک کی اصطلاح کا استعمال اس بات کی سختی سے نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت ، امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا خطے میں چینی توسیع پسندی کو برداشت نہیں کریں گے۔


                   کواڈ (Quad) کے اجلاس کے منعقد ہونے کے بعد AUKUS کا اعلان سامنے آیا  جہاں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے ایک نئے فوجی معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کی جائیں گی۔ 2016 میں، امریکہ اور برطانیہ نے جاپان کے ساتھ فوجی اتحاد  بنایا تھا، لیکن اس میں  جوہری آبدوزوں کی فراہمی شامل نہیں تھی۔  چین نے دونوں معاہدوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ چین نے کواڈ کو ایک ایسا طریقہ کار قرار دیا ہے جو سرد جنگ کی ذہنیت اور طریقہ کار کی نشاندہی کرتا ہے (2) ۔ AUKUS کے بارے میں، چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان، ژاؤ لیجیان نے کہا کہ یہ اقدام "علاقائی امن اور استحکام کو یقینی  طور پر  کمزور کرتا ہے"(3)۔


                  جب اس طرح کے ہتھکنڈوں کو اوباما کی 'ایشیا کی حکمت عملی' اور چین کے ساتھ ٹرمپ کی 'تجارتی جنگ' کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو بے چینی کا بڑھتا ہوا احساس ہوتا ہے کہ امریکہ اور چین تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فنانشل ٹائمز میں لکھتے ہوئے ایڈورڈ لوس(Edward Luce) کا خیال ہے کہ امریکہ جلد ہی چین سے ٹکرا جائے گا(4)۔  دوسرے مبصرین کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے چین کے ساتھ روک تھام(containment)  کا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ برانڈز(Brands)  اور بیکلے(Beckley)  یہ سمجھتے ہیں کہ پچھلے پانچ سال کے عرصے میں امریکہ نے چین کو  مشغول رکھنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار اپنایا ہے(5)۔ لارسن (Larson) کے مطابق ، امریکہ نے روس اور چین کے عزائم کو روکنے کے لیے سرد جنگ کے دور میں استعمال ہونے والے روک تھام (containment)  کے طریقہ کار کو  خاص طور پر دوبارہ زندہ کیا ہے(6)۔ دریں اثنا ، جان ایکن بیری (John Ikenberry) ان مفکرین کی ایک چھوٹی سی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے جو چین کے ساتھ تعلقات پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اس میں مغربی حکمرانی پر مبنی بین الاقوامی نظام میں چین کا انضمام شامل ہے(7)۔

                  تصادم اور ٹکراؤ جیسے الفاظ اکثر جنگ کے مترادف ہوتے ہیں ، لیکن یہ گمراہ کن ہے اور چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔وسیع پیمانے پر قوموں کے ساتھ امریکی تعلقات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جنگ ، مشغولیت (engagement) اورروک تھام (containment)  ۔ ان اقسام کی صورتحال میں سے کسی ایک سے دوسری صورتحال  کی طرف  منتقلی اکثر غیر واضح دکھائی دیتی ہے ، اور مبصرین عام طور پر اس مرحلے کے دوران کسی خاص ریاست کے ساتھ امریکی تعلقات کی وضاحت کے لیے تصادم یا ٹکراؤ کی اصطلاح  استعمال کرتے ہیں۔

                  تینوں مراحل میں سے جنگ کو ایک ریاست کی طرف سے دوسری ریاست کے خلاف عسکری طاقت اور تشدد کے استعمال کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مشغولیت  (engagement)  کا مقصد ریاستوں کو مغرب کی حکمرانی پر مبنی بین الاقوامی نظام میں ضم کر نا ہے، یہاں تک کہ اُن ریاستوں کو بھی جو موجودہ سیاسی نظام میں تبدیلی (انقلاب) چاہتی ہیں۔ اس طرح روس اور چین جیسی ریاستیں بھی  مغربی حکمرانی پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی چاہے بین الاقوامی نظام میں مغرب کا حصہ بدترین حد تک کم ہورہاہو(8)۔


                   روک تھام (containment)کے تصور  کوسمجھنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ مبہم طور پر بیان کیا گیا ہے۔جارج کینن (George Kennan) کے مطابق ،جو کہ اس تصور کامرکزی معمارہے،روک تھام کا نظریہ ہمیشہ دنیا بھر میں کمیونسٹ نظریے کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے تھا  اور کبھی بھی امریکی خارجہ پالیسی کو عسکری بنانے کے لیے نہیں تھا۔ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہوئے  کینن نے اس موضوع پر اپنے خیالات کو "سیاسی خطرے کی سیاسی روک تھام" کے طور پر بیان کیا(9)۔ بہر حال ،ایسا لگتا ہے کہ یکے بعد دیگرے امریکی حکومتوں نے جان بوجھ کر کینن کےروک تھام  کے تصور کو استعمال کیا جس کے تحت  وہ مخالف ریاستوں کے نظریاتی عزائم اور فوجی طاقت پر حد لگاتے تھے، اور دشمن کی معاشی طاقت اور علاقائی توسیع پسندی کو محدود کرتےتھے۔

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ، امریکہ نے جزیرہ نما کوریا میں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین کے ساتھ جنگ کی تھی۔ 1953 کے بعد ، امریکہ نے چین کے خلاف روک تھام کی حکمت عملی شروع کی تھی۔ اس کا مقصد ایشیائی پیسیفک خطے میں کمیونسٹ نظریے کے اثر کو کم کرنا تھا۔ بعض اوقات امریکہ نے دنیا بھر میں کمیونزم کے اثر کو محدود کرنے کے لیے افریقہ میں سوویت روس اور ویت نام میں چینیوں کے ساتھ پراکسی جنگیں کیں۔ تاہم ، سوویت روس اور چین کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد 1969 میں ان سابقہ دوست کمیونسٹ ریاستوں کے درمیان سات ماہ کی سرحدی جنگ ہوئی جس  کے بعد امریکہ اس قابل ہوا کہ اس نے آہستہ آہستہ   چین کومشغول کرنا شروع کیا ۔

                  1970 کی دہائی کے آخر سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے  عرصے کے درمیان ، امریکہ نے چین کو بین الاقوامی آرڈرمیں شامل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کی انتہا امریکہ کی چین کو WTO میں شامل کرنے کی حمایت تھی۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک چین کو وسیع پیمانے پر امریکہ کا اسٹریٹیجک مد ِ مقابل سمجھا جانے لگا تھا۔ اگر بش اور اوباما افغانستان اور عراق کی جنگوں میں مصروف نہ ہوتے تو امریکہ چین کی روک تھام کرنے کے مرحلے میں  بہت پہلےچلا جاتا۔

                  آج ، جب چین کی بات آتی ہے تو امریکہ نے روک تھام کے حق میں مشغولیت کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ امریکہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیائی سمندر میں چین کی بحریہ کو  ناکام بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ واشنگٹن چین کے لیے شمالی اور چین کے'ون بیلٹ ون روڈ' (OBOR)  منصوبے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ واضح طور پر 1950 کی دہائی کے بعد سے ، امریکہ کے نظریاتی عزائم نے ہی چین کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کو تشکیل دی ہے اور اس نے جنگ، روک تھام اور مشغولیت کی شکل اختیار کی ، جن سب میں روک تھام کی نئی پالیسی سب سے حاوی ہے۔

                  جنگ ، روک تھام اور مشغولیت کے مراحل کسی خاص قوم کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ یہ  عمومی ہیں لیکن آئیڈیالوجی کے نظریات کے تابع ہیں۔  مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست نے اپنے قیام کے فوراً بعد ہی قریش کے خلاف جنگی پالیسی اختیار کی۔ بدر اور اُحد کی لڑائیوں سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ نے قریش سے کئی جھڑپیں کیں جن کا مقصد صرف اور صرف قریش؎کو جنگ پر اکسانا تھا۔  حدیبیہ کے معاہدے کے ذریعے قریش کے ساتھ جنگ کی اس پالیسی  کو روک تھام کی پالیسی میں تبدیل کردیا گیا۔

                  اس معاہدے نے اللہ کے رسول ﷺ کو اس قابل بنایا کہ انہوں نے  دوسرے قبائل اور ریاستوں کے خلاف  جنگ اور مشغولیت، دونوں  طرح کی پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جزیرہ نما عرب میں قریش کے اثر و رسوخ کو بہت حد تک  کم کردیا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے صرف دو ہفتوں کے بعد ، رسول اللہﷺ نے قریش کے اتحادی بنو خیبر (یہود)کی طاقت ختم کر دی۔ اس معاہدے نے اللہ کے رسولﷺ کو اس قابل بھی بنایا کہ انہوں نے  کھلے عام قبائل اور جزیرہ نما عرب کی ہمسائیہ ریاستوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس لیے دوسرے قبائل اور قوموں کے ساتھ مشغولیت کی پالیسی نے قریش کے اثر کو تیزی سے کم کیا اور اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد خلفاء نے جنگ (جہاد) ، مشغولیت (اسلام کی دعوت یا اسلام کے مطابق زندگی گزارنے) اور روک تھام (جنگ بندی معاہدوں) کی پالیسیوں کو جاری رکھا ، اور اس وجہ سے اسلام  تیزی سے پھیلا۔

                  چنانچہ مسلمانوں کو امریکہ کی چین کے ساتھ تعلقات میں روک تھام یا جنگی پالیسی کی  بحث کو خاموش  تماشائی کی طرح  نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ مسلمانوں کو گہرائی سے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا مشاہدہ کرنا چاہیے تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ جونہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچے تو اُس موقع کا فائدہ اٹھا کر  دوسری خلافتِ راشدہ کو دوبارہ قائم کردیا جائے۔ بلا شبہ، جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی، تو اُس وقت  رسول اللہ ﷺ   تندہی سے رومیوں اور فارسیوں کے درمیان  جنگ کا  اندازہ لگا رہے تھے۔

حوالاجات:

 

[1] Reuters, (2021).  Quad leaders press for free Indo-Pacific, with wary eye on China. Reuters. Available at: https://www.reuters.com/world/china/quad-leaders-meet-white-house-amid-shared-china-concerns-2021-09-24/

[2] Economic Times News, (2021). China says it firmly opposes Quad alliance as it adheres to Cold War mentality. Economic Times News. Available at: https://economictimes.indiatimes.com/news/international/world-news/china-says-it-firmly-opposes-quad-alliance-as-it-adheres-to-cold-war-mentality/articleshow/81692933.cms

[3] BBC, (2021). Aukus: UK, US and Australia launch pact to counter China. BBC, Available at: https://www.bbc.com/news/world-58564837

[4] Luce, E. (2021). A US-China clash is not unthinkable. Financial Times, Available at: https://www.ft.com/content/b3d41138-7dab-4a7f-9ed5-7b5ec7baf985

[5] Brands, H. and Beckley, M. (2021). The End of China's Rise: Beijing Is Running Out of Time to Remake the World. Foreign Affairs. 100(6).Available at: https://www.foreignaffairs.com/articles/china/2021-10-01/end-chinas-rise.

[6] Larson, D. (2021) The Return of Containment: What the Cold War policy means for our current moment. Foreign Policy, Available at: https://foreignpolicy.com/2021/01/15/containment-russia-china-kennan-today/

[7, 8] Ikenberry, J. (2014). The Rise of China and the Future of Liberal World. Chathamhouse. Available at:https://www.chathamhouse.org/sites/default/files/field/field_document/20140507RiseofChina.pdf

[9] Kennan, G. (2020) Memoirs 1925-1950. Plunkett Lake Press.

Last modified onپیر, 10 جنوری 2022 02:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک