بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے
01جنوری2022
جرمنی جوہری پلانٹس کو کم کر رہا ہےجس سے توانائی میں کمی کا خدشہ بڑھ رہا ہے
اس ہفتے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، 'جرمنی جمعہ کو اپنے آخری چھ جوہری پاور اسٹیشنوں میں سے تین کو بند کر دے گا جو کہ جوہری توانائی سے اپنے انخلاء کو مکمل کرنے کی طرف ایک اور قدم ہے کیونکہ جرمنی نے اپنی توجہ قابل تجدید (Renewable) ذرائع پر مرکوز کر دی ہے۔' متوقع طور پر جرمنی موجودہ سال میں جوہری توانائی پراپنا انحصار ختم کر دے گا جس سے بالآخر جوہری توانائی کے استعمال کا خاتمہ ہو جائے گا، جس کا اعلان چانسلر انجیلا مرکل نے جاپان میں 2011 کے فوکوشیما جوہری واقعے کے بعد ہونے والے مظاہروں کے جواب میں کیا تھا۔ طویل مدتی مقصد قابل تجدید (Renewable) ذرائع پر منتقل ہونا ہے جیسا کہ شمسی اور ہوا ئی توانائی؛ مگر قلیل مدت میں جوہری توانائی کا خاتمہ جرمنی کا ہائیڈرو کاربن ذرائع یعنی تیل اور گیس پر انحصار بڑھا دے گا۔ ماحول کے لیے خراب ہونے کے علاوہ، تیل و گیس زیادہ تر بیرون ملک سےہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ یورپ اور چین وسیع اقتصادی طور پر طاقتور خطوں کی حیثیت سے غیر معمولی ہیں لیکن توانائی کی شدید کمی کا شکار ہیں اور باقی دنیا سے تیل اور گیس کی صورت میں توانائی کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس شدید ضرورت کی وجہ سے جرمنی نے یوکرین کو بائی پاس کرتے ہوئے روس کی گیس براہ راست یورپ تک پہنچانے والی Nord Stream 2 پائپ لائن کی تعمیر میں امریکی احتجاج کو نظر انداز کر دیاتھا، جہاں (یوکرین)اس سال دوبارہ تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
درحقیقت سرمایہ دارانہ معاشی نظام معاشی بنیادوں کو درست طریقے سے استوار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مغربی دنیا اپنی سامراجی خارجہ پالیسی کی وجہ سے صرف معاشی طور پر طاقتور ہے، جو باقی دنیا سے وسائل اور محنت کا استحصال کرتی ہے۔ مسلم امّہ نہ صرف اپنی بہت بڑی آبادی اور وسائل کی وسیع دولت کی وجہ سے ایک معاشی دیو بننے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام سماجی و اقتصادی بنیادوں کو صحیح طریقے سے تیار کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ مقامی پیداواری صلاحیت جنم لیتی ہے جس کو مضبوط مقامی خاندانی نظام اور کمیونٹی کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام توانائی کی فراہمی کو ایک مشترکہ عوامی ضرورت کے طور پر دیکھتا ہے جس کا تجارتی منافع کے لیے استحصال نہیں کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عوامی وسائل کے استعمال میں انتہائی ذمہ دار رہیں۔ ایک اور عوامی ذخیرے کی مثال لے لیں، نبی کریم ﷺ صفائی کے لیے پانی کے استعمال میں بہت زیادہ محتاط تھے، یہاں تک کہ جو پانی استعمال کرنے بعد بچ جاتا تھا اس کو ضائع کرنے کے بجائے نہر میں واپس کر دیتے تھے۔
مغربی تہذیب کے پاس دنیا کے لیےمحرومیوں اور مصائب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر اسلامی خلافت کو دوبارہ قائم کرکے انسانیت کو ایک متبادل پیش کرے جو تمام مسلم سرزمینوں کو متحد کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، اسلامی شریعت کا نفاذ کرے گی، اسلامی شریعت کو بحال کرے گی اور اسلامی طرز زندگی اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک پہنچائے گی۔\
غیر قانونی یہودی وجود کا شام پر دوبارہ حملہ، سوڈان میں بغاوت مخالف مظاہرے
ایسوسی ایٹڈ پریس کی اس ہفتے کی رپورٹ کے مطابق، 'اس ہفتے شام کی بندرگاہ لطاکیہ پر لی گئی سیٹلائٹ تصاویر میں یہودی وجود کی جانب سے میزائل حملے کے بعد ملبے سے اٹھتا دھواں دکھایا گیا ہے، جس سےچند گھنٹے قبل فائر فائٹرز نے بڑے پیمانے پر لگی آگ کو قابو کیا تھا۔' غیر قانونی یہودی وجود نے شام پر مکمل استثنیٰ کے ساتھ حملہ کیا، اور اس مکمل یقین دہانی کے ساتھ کہ واقعی کوئی بھی مسلم سرزمین خواہ یہودی وجود سے ملحق ہو یا اس سےکچھ فاصلے پرہو ،اسے نہ تو روکا جائے گا اور نہ ہی اس کے غیر قانونی اقدامات کے نتیجے میں اسے کوئی نقصان پہنچائے گا۔ اس صورتحال کے لیے صرف غیر قانونی یہودی وجود کو مورد الزام ٹھہرانا کافی نہیں ہے، کیونکہ یہ حقیقت میں مسلمانوں کی سرزمین کے قلب میں مغرب کا لگایا ہوا پوداہے۔ قومی ریاست کی خودمختاری کی حفاظت کرنے والے مغرب کے بین الاقوامی اصولوں کا اطلاق مغرب کی طرف سے غیر مغربی ممالک پر حملوں پر نہیں ہوتا۔ ان اصولوں کے اندر یہ امرمضمر ہے کہ یہ اصول ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں 'مہذب' ممالک کے لیے ضابطہ اخلاق ہیں۔ ان کا مقصد مغرب کو غیر مغربی ممالک طرف سے کسی بھی نقصان سے بچانا بھی ہے۔ لیکن ان اصولوں نے مغرب کو دوسروں پر حملہ کرنے سے کبھی نہیں روکا، جو حقیقت میں تحفظ کے حقدار ہونے کے لیے اتنے مہذب نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے غیر قانونی یہودی وجود کے اقدامات کے خلاف ’بین الاقوامی‘ فورمز سے اپیل کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ یہ تمام فورم مغرب نے اپنے طے شدہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق قائم کیے ہیں۔ مسلمانوں کی سرزمین کو تب ہی محفوظ بنایا جاسکے گا اور ان کے مقبوضہ علاقوں کو مکمل طور پرتب ہی آزاد کیا جاسکے گا جب امت مسلمہ اپنی ریاست، خلافت کو دوبارہ قائم کر ے گی۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ' جب دسیوں ہزار افراد فوجی حکمرانی کے خلاف مارچ کر رہے تھے ،سوڈانی سیکورٹی فورسز نے ملک گیر احتجاج کے دوران چار افراد کو گولی مار کر جاں بحق کر دیا، ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے کہا۔' رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، 'ڈاکٹروں کے مطابق ، جمعہ کو ایک بیان میں پولیس حکام نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 297 مظاہرین اور 49 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ جمہوریت کے حامی کارکنوں کی جانب سے 25 اکتوبر کو ہونے والی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر مظاہروں کی مہم شروع کرنے کے بعد سے اب تک سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 52 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سوڈان کے حکمرانوں کو بھی مسلم سرزمین کے باقی موجودہ حکمرانوں کی طرح، مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھاہے۔ امریکہ سوڈانی حکومت کے پیچھے کھڑا ہے، ایک سرکاری بیان میں محض صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ، 'امریکی سفارت خانہ جمہوری امنگوں کے پرامن اظہار کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتا ہے، اور آزادی اظہار کا استعمال کرنے والے افراد کا احترام اور تحفظ کرنے کی ضرورت ہے'۔ 'پرامن امنگوں' کے اظہار کی خواہش مغربی مفادات کو اچھی طرح سے پورا کرتی ہے۔ یہ جمہوریت کی اصل حقیقت ہے، یہاں تک کہ خود مغرب میں بھی، جن کی اپنی حکومتیں اشرافیہ کے مفادات کی محافظ ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے ریاستِ خلافت نہ صرف مسلمانوں کے معاملات سے تمام مغربی اثر و رسوخ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی بلکہ دنیا کو حکومت کا ایک متبادل نمونہ بھی فراہم کرے گی جو خلیفہ کو مکمل طور پر بااختیار بنائے گی اور اس طرح اسے ایک متعصب اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے روکے گی، اور اس کوسختی سے پابند کرےگی کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کے مفادات کے مطابق حکومت کرے۔
اندرونی دباؤ کے تحت پیوٹن نے توہین رسالت کی مذمت کی
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اس ہفتے کہا تھا، "پیغمبر اکرم ﷺکی توہین کی ہے؟ کیا یہ تخلیقی آزادی ہے؟ مجھے نہیں لگتا، یہ مذہب کی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے مقدس جذبات کی خلاف ورزی ہے، اور اس سے دوسرے اور بھی زیادہ شدید اور انتہا پسند آثار زندہ ہوتے ہیں۔" پیوٹن کو اسلام کے احترام میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں ہے، اور اس نے اپنے دورِ حکومت میں مسلمانوں پر روس کے جبر کو بہت زیادہ بڑھایا ہے، جس میں چیچنیا جیسے مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں پر وحشیانہ جبر بھی شامل ہے۔ لیکن اسی وقت پوٹن روس کے اندر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوفزدہ ہےجو کہ اس کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے، "روس ایک کثیر القومی اور کثیر الجہتی ریاست کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا، اور ہم بنیادی طور پر ایک دوسرے کے مفادات اور روایات کا احترام کرنے کے عادی ہیں۔"
روس اس کی ابتداء درحقیقت اسلام کے مرہون منت ہے۔ ماسکو کے حکمرانوں نے پڑوسی علاقوں پر بالادستی حاصل کی کیونکہ انہیں ان کے مسلمان تاتار حکمرانوں نے ان علاقوں سے خراج وصول کرنے کے لیے مقرر کیا تھاجو کہ خان کے 'یارلک 'یا فرمان کے مطابق تھا۔ بعد ازاں، ایوان سوئم کے زمانے میں، روس نے ماسکو کے حکمرانوں کی اصلیت کو موجودہ یوکرین کے دارالحکومت Kievسے منسوب کر کے اس تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ پوٹن نے روس اور یوکرین کے درمیان تاریخی روابط کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک ان روابط کے بارے میں بات نہیں کی ہے جو اسلام کے ساتھ اس سےبھی پہلے سے استوار تھے۔
دوبارہ قائم ہونے والی خلافت ، روس کی سب سے بڑی جغرافیائی پڑوسی ہو گی، جس کے ساتھ اس کی سب سے لمبی سرحد ہو گی۔ ریاستِ خلافت بھی اپنی وسیع آبادی، عظیم وسائل، وسیع حجم، اعلیٰ جغرافیائی سیاسی محل وقوع اور اسلامی نظریے کی بنا پر روس کے برابر یا اس سےبھی بڑھ کر ایک عظیم طاقت ہوگی۔ تاہم، روس سے اپنے مقبوضہ علاقوں کو واپس لینے کے بعد، ریاستِ خلافت کو طاقت کے ذریعے خود کو روس پر مسلط کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے اس کی اسلامی تہذیب کی واضح برتری روس کے لوگوں کو اسلام کی طرف لوٹانے کے لیے کافی ہوگی۔