الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

طالبان کی قیادت نے آغاز اوسلو سے کیا جہاں سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے غداروں نے آغاز کیا تھا۔ طالبان کی قیادت وہی پہنچے گی جہاں پی ایل او پہنچی تھی، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک عظیم غداری

 

خبر:  طالبان اور مغربی سفارت کار افغانستان کے انسانی بحران پر بات چیت کے لیے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے باہر ایک میٹنگ کر رہے ہیں۔ امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے 20 سال بعدجب سے  گزشتہ اگست میں طالبان  اقتدار میں واپس آئے ہیں تو اس کے بعد سے افغانستان میں انسانی بحران تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین اور ناروے کے نمائندوں کے ساتھ بند کمرے کی بات چیت 24 جنوری کو اوسلو کے باہر برفانی پہاڑی کی چوٹی پر واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہے۔

 

 

تبصرہ: طالبان کے رہنماؤں نے حزب التحریر کی طرف سے ایسی ریاست کے قیام کی پیشکش کو مسترد کر دیا جو مکمل طور پر کتاب و سنت کے مطابق حکومت کرے گی۔ اس کے بعد تحریک کے قائدین نے اپنے مقصد کو وسیع تر اسلامی امت کے مقصد کے ساتھ ضم کرنے سے انکار کردیا۔نتیجتاً، افغانستان کے لوگ چند مہینوں کے اندر ہی بھوک کا شکار ہوگئے، جو  پناہ گاہیں تلاش کررہے ہیں ،اور سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر قطاروں میں کھڑے ہو کر ملک چھوڑ رہے ہیں۔ لوگوں کو گرادیا گیا اور جو انسانی توانائیاں ملک کی تعمیر کے لیے استعمال کی جانی تھیں وہ ختم ہو گئیں۔ اس سب اور دیگر سانحات کے بعد، طالبان تحریک کے رہنماوں نے مغرب کی جانب منہ موڑ لیا ہے، وہ مغرب  جو اسلام کا پیچھا کر رہا ہے اور مسلمانوں کا شکار کر رہا ہے۔ وہ مغرب کا رخ کررہے ہیں جس نے ہمیشہ افغانستان کے لوگوں کو دھوکہ دیا اور جنہوں نےفوجی اتحاد بنائے  اور افغانستان کے قلعوں کو مسمار کردیا، اس کے لوگوں کو شہید ، اس کی عورتوں کو بیوہ  اور اس کے بچوں کو یتیم کیا۔  تو کیا یہ سب کچھ ان رہنماوں کی یاد سے مٹ گیا ہے؟ کیا ایسے رہنما قیادت کے لائق ہیں؟!

 

جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما، سب سے بڑے غدار یاسر عرفات کی سربراہی میں، 1993 میں اوسلو گئے، تو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آخری مراحل شروع ہوئے، جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی "اتھاریٹی" کا قیام عمل میں آیا جو فلسطین پر قابض یہودی وجود کے لیے سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتی ہے۔  طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہورہے ہیں، وہ اسی سمت میں جا رہے ہیں۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ طالبان کے وفد سے بات چیت کے لیے ناروے کے دارالحکومت میں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ مغرب کا وفد "نمائندہ سیاسی نظام کی تشکیل، فوری انسانی اور اقتصادی بحرانوں پر ردعمل، سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خدشات، اور انسانی حقوق، خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم" پر تبادلہ خیال کرے گا۔

دونوں فریقین کے درمیان جس چیز پر اتفاق کیا جائے گا، جبکہ طالبان رہنما عمل درآمد میں پیچھے نہیں رہیں گے، وہ یہ ہے کہ مغربی ماڈل پر ایک فعال اور سول سیاسی نظام کی تشکیل دیا جائے جو اسلام کی  بنیاد پرحکمرانی نہیں کرتا، بلکہ اسلام کی واپسی کو روکتا ہے، اور خلافت کی واپسی کے حامیوں کا پیچھاکرتا ہے، جسے امریکی محکمہ خارجہ "سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خدشات" کہتا ہے۔اس کے علاوہ افغان معاشرے کو مغرب زدہ اور سیکولر بنانا بھی  ہے، جیسا کہ محمد بن سلمان سرزمین حرمین میں کر رہا ہے، اور اس مقصد کو مغرب نے "لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم" کے پردے کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔

 


مغرب اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ طالبان تحریک کے قائدین افغانستان کے لوگوں کے خلاف ان سازشوں کو عملی جامہ پہنائیں، اور یہ رہنما ان چیزوں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، جبکہ مغرب نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ’’نیک نیت‘‘ ظاہر کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور ناروے  میں ان کی میزبانی کرنا بھی ان کو خاموشی سے تسلیم کرنا  نہیں ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ Anniken Huitfeldt نے زور دے کر کہا کہ یہ مذاکرات "طالبان کی قانونی حیثیت یا تسلیم  کرنانہیں ہے۔"

 

غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے لیے "بین الاقوامی امداد"، جو کہ افغان بجٹ کے تقریباً 80 فیصد خرچ کو پورا کرتی تھی، اچانک روک دی گئی، جبکہ امریکہ نے امریکی بینکوں میں افغانوں کے 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے، جس کے نتیجے میں افغانستان کی صورت حال خاصی خراب ہوئی۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پچانوے فیصد افغان عوام بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔ خشک سالی کی کئی لہروں سے تباہ ہونے والی زمینوں میں بے روزگاری کی شرح میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مہینوں سے ادا نہیں کی گئیں۔۔۔ ان اعدادوشمار سے ایک مبصر یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ طالبان تحریک کا اوسلو جانا مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ ہدایات لینےکے لیے تھا۔ کوئی بات چیت نہیں ہے، کیونکہ تحریک کے پاس مذاکرات کے لیے کچھ نہیں ہے، جیسا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ ہوا تھا، جب انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے اور اوسلو میں شہداء کے خون کا سودا کیا، اور مسئلہ فلسطین کے خاتمے کو یقینی بنایا ۔  سچ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو پی ایل او کے ساتھ ہوا تھا۔ طالبان رہنما اس وقت اوسلو گئے جب انہوں نے پہلےکئی وعدے کیے کہ وہ صلیبی اور نفرت کرنے والی عالمی برادری کی مکمل اطاعت کریں گے۔ اس کے بعد وہ افغانستان واپس آ جائیں گے تاکہ وہ ان دھوکہ دہی پر عمل کریں جن کی انہیں ہدایت کی گئی تھی۔

 

اگر افغانستان کے مخلص عوام اور تحریک طالبان نے اپنے معاملے کی اصلاح نہ کی تو ان کی بے پناہ قربانیوں کا انجام فلسطین کے عوام کی قربانیوں  جیسا ہوگا،  دشمنوں کی بندوقوں تلے  نام نہاد اختیار، جو کہ ایک مذاق ہو گا۔ ایک کمزور، نازک اور غریب سول ریاست، جس کی بقاء صلیبی اتحاد کی رضامندی پر منحصر ہو گی۔ اس طرح وہ دنیا اور آخرت گنوا دیں گے، لہٰذا تحریک کے وفاداروں اور افغانستان کے عوام کو مغرب کی طرف ہاتھ پھیلانے والے لیڈروں سے اپنی صفیں صاف کرنی چاہئیں۔ انہیں حزب التحریر کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے اور اسے خلافت کے قیام کے لیے نصرت دینی چاہیے جو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور امت اسلامیہ کی کوششوں پر انحصار کرتی ہے۔

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی ریڈیو نشریات کے لیے یہ مضمون پاکستان سے بلال المہاجر نے تحریر کیا

 

Last modified onاتوار, 06 فروری 2022 20:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک