الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تقلید

 

استاذ حمزہ حرز اللہ

مجلۃ الوعی، شمارہ 382 سے ترجمہ

 

تما م تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو کائنات کا خالق ہے، زمین و آسمان کا رب ہے، اُس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور انہیں چیزوں کے نام سکھائے، ان کے سامنے جنوں اور فرشتوں سے سجدہ کروایا اور بنی آدم کو  عزت وکرامت سے نوازا۔ پھر ابلیس نے تکبر کیا اور انسانوں کو بہکانے کی ٹھان لی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان گاہ اور میدانِ عمل بنایا ہے، بدلہ دینے کی جگہ نہیں بنایا۔ اللہ  نےاپنی رحمت سے انسانوں کی طرف انبیاء  اور رسول بھیجے، اور زمین  و آسمان  میں بسنے والوں میں سب سے زیادہ بہترین ہستی کو  خاتم النبیین بناکر بھیجا، جس کی رسالت کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہوئی۔پس  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کے برابر حمد ہو،میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود بر حق نہیں، وہ گواہی جو اللہ سے ہماری مغفرت اور معافی کا سبب بن کر ہمیں اللہ کی  دوزخ سے نجات دلادے، اور ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں  کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کافرمان ہے:

 

((مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ))

"اللہ تعالیٰ جس کے لیے خیر  اور بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں"(بخاری و مسلم)۔

 

اس کے بعد، ہم  اس موضوع پر اس لیے کچھ لکھ رہے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امت کو اس موضوع کو سمجھنے کی بہت  زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ ہر مسلمان شریعت کے علم میں  اجتہادنہیں کر سکتا،ظاہر ہے کہ پھر اس کواجتہاد کرنے والوں کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔اس کو تقلید کی  ضرورت ہےتاکہ اپنے رب کےاوامر اور نواہی کو پہچان سکے، اپنے دین پر پابندی کے ساتھ عمل کرسکے اور اپنی پوری زندگی کو دین کے تحت گزار سکے۔

 

اس معاملے میں  زیادہ بگاڑ شریعت کے علم کے کھوجانے اور امت کے اذہان  سے اس کے اوجھل  ہوجانے سے آیا، اس کی وجہ مجتہدعلماء کا  ان کے درمیان سے اُٹھ جانا ہے۔  امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت نقل کی ہے:

(( حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))

"قتیبہ بن سعید نے ہم سے حدیث بیان کی، اُن سے جریر نے ھشام بن عروہ سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی،وہ اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں، میں نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو یہ کہتے ہوئے سنا  کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اُٹھاتا کہ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نکال دے،  اللہ تعالیٰ علم کو علماء کو اٹھاکر قبض کر لیتاہے،یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم نہیں رہے گا ، تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا  بنالیں گے،وہ ان سے(معاملات) پوچھیں گے اور وہ بغیر سمجھ بوجھ کے انہیں فتوے دیں گے،وہ خود گمراہ ہوں گے ، پوچھنے والوں  کو بھی گمراہی کی طرف لے جائیں گے"۔

یعنی علماء کے چلے جانے اور جاہلوں کو پیشوا بنائےجانے سے علم اٹھ جائے گا، کیونکہ  جو علماء باقی تھے،ان کو مسلمانوں سے دور کر دیا گیا، چپ کروا دیا گیا یالاپتہ کر دیا گیا، یوں امت سے شریعت کا علم بھی غائب ہوگیا۔

 

امت کے اندر اسلام کی سمجھ میں ضعف اور فقہی صلاحیت میں کمزوری واقع ہونے کی ابتداء تب سے ہوئی جب عربی زبان کو سیکھنے کے حوالے سے بے توجہی اور قلت اہتمام برتا جانے لگا، پھر اجتہاد کا دروازہ بند کرنے نے اس میں مزید بگاڑ پیدا کیا اور بالآخر مسلمانوں پر مغرب اور  کفریہ ریاستوں کا غلبہ اور تسلط اور ان کی اتھارٹی کو ان سے چھین لینے نے اس بگاڑ میں اضافہ کیا۔اس کے بعد کفار نے اُمت پر فکری و ثقافتی یلغار کی ،اور انہوں نے باقاعدگی سے اس پر کام کیا کہ مسلم ممالک میں قائم  شرعی علوم کےمدرسے اور یونیورسٹیاں علم کو اس طرح پیش کریں جیسے فلسفہ اور منطق کو پیش کرتےہیں، یوں لوگوں کو فقہ سے متنفر کردیا گیا۔جبکہ اہلِ فقہ کو حقیقت سے دورکردیاگیا۔ چنانچہ  ایک فقیہ یاشیخ یا شرعی علوم کے کالج  کے طالبِ علم کا علم فقط منبر اور وعظ و نصیحت تک محدود ہوکر رہ گیا، نہ کہ شرعی احکام  کے نفاذ ،اس کے ذریعے تبدیلی،اور لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے اس کو استعمال کیا جائے،جس کی وجہ سے فقہی مضبوطی  بہت زیادہ زوال کا شکار ہو گئی۔ اسی وجہ سے علماء کم ہوتے گئےاور مقلدین میں اضافہ ہوتا گیا۔ 

 

 

لیکن ایک اور    مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ مقلد یہ نہیں جانتا کہ وہ علماء کی تقلید کرے تو کیسے کرے،تقلید کے ضوابط اور احکامات کیاہیں؟اسے یہ معلوم نہیں کہ بحیثیت مقلد کے اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،وہ یہ سمجھتا ہے جیسا کہ غلط العام ہے، حطها برأس عالم واطلع سالم "حکم کی ذمہ داری تو عالم کے سر پر ہے،بس درست والا تلاش کر لو"۔

 

تقلید کے موضوع کے حوالے سے اس دور کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعدادکو حکم الہٰی اور اس کے اوامر و نواہی کی معرفت حاصل نہیں،یا پھر اس میں باریکی میں نہیں جاتے،حد تو یہ ہے کہ وہ خود ساختہ فتوے دیتے ہیں، یوں اللہ کاحکم ان کی پسند و  ناپسند اور مفادات کا تابع ہوکر رہ جاتا ہے، جب آپ ان سے پوچھیں کہ یہ کیا کرتے ہو؟ تو ان کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے" کہ اپنے دل سے پوچھو ، خواہ لوگ فتوے دے چکے ہوں"،یا یہ کہ " دین میں آسانی ہے،تنگی نہیں،آپ کیوں اسے مشکل بناتے ہو"، یا "مصلحت یہ ہے اور دین لوگوں کے مصالح و مفادات کی نگرانی کرتا ہے" ،یا" میری نیت صاف ہےاور دارومدار نیت پر ہے" وغیرہ ۔یہ وہ بہانےہیں جن سے وہ اپنے دلوں کو بہلاتے ہیں تاکہ انہیں اپنے دین اور امت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے  جان چھڑانے کا موقع مل سکے۔ 

 

پھر جس نے بھی دو تین کتابیں پڑھ لیں ،اپنے آپ کو زمانے کا عالم اور علامہ سمجھنے لگا، گویا اس کو کسی اور کی تقلید کی ضرورت نہیں،بلکہ اس کو اپنے لیے عار سمجھا گیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ صاحبِ علم اور فقہی اعتبار سے قابل ہے۔چنانچہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے حوالے سے ایسے فتوے جاری کرتا ہے، جس کا اسے پتہ ہی نہیں،یوں خود بھی راہِ راست سے بھٹکتا  ہے اوردوسر وں کو بھی بھٹکا دیتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری تھا کہ  ایسے افکار نمایاں کیے جائیں جو غیر مجتہد اشخاص کے لیے دینی احکامات لینے کے حوالے سے مشعل راہ ثابت ہوں ، اللہ ہی مددگار ہے اور ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

 

ہم اس موضوع کے حوالے سےمتعدد مسائل کے بارےمیں بات کریں گے:

پہلا مسئلہ: تقلید کی تعریف اور اس کاحکم

کسی کی بات پر ،حجت لازم کرنے والی دلیل جانے بغیر ،عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔تقلید کرنے والا شخص کسی فقہی مسئلہ میں کسی مجتہد عالم کی رائے کی اتباع کرتا ہے تاکہ وہ عالم کے کہے پر عمل کرسکے۔چنانچہ وہ اس کے قول کی اتباع اور پیروی کرتا ہے،کیونکہ اسے یہ اعتماد ہوتا ہے کہ اس کا قول  شرعی دلیل سے اخذ شدہ  ہے، جس کو مجتہد عالم نے اپنے لیے حجت بنایا ہے،لیکن مقلد شخص کو مجتہد کی دلیل کا علم ہونا ضروری نہیں ،یا استنباط یا اجتہادکے طریقہ کار کا جاننا ضروری نہیں، جبکہ اسے یہ معلوم بھی نہیں کہ عالم نے کیا ذکر کیا، یاد کیا یا محفوظ کیا۔ پس مقلد شرعی دلیل سے حکم کا استنباط کیے بغیر اس پر عمل کرتا ہے ۔

 

بلاشبہ جو شخص اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا ،خواہ اس نے  اجتہاد سے متعلق کچھ علوم حاصل بھی کرلیے ہوں،اُس پر بھی کسی مجتہد کی تقلید اور عملی احکامات میں اس کے فتویٰ  کو ماننالازم ہے۔اس  میں بعض معتزلہ وغیرہ نے اختلاف کیا ہے،لیکن جو ہم نے کہا ہے ،اس پر ہمارے پاس شرعی نص  اوراجماع صحابہ سے دلائل موجود ہیں۔

جہاں تک شرعی نص کا تعلق ہے تواللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

(فَسْاَلُوٓاْ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ)

"اہل ذکر سے پوچھ لو،اگر تم نہیں جانتے ہو"(الانبیاء:7)۔ یہ آیت کریمہ ہر اس چیز پر لاگو ہوتی ہے جو معلوم نہ ہو۔

 

جہاں تک اجماع صحابہ کی بات ہے، تو صحابہ کرام کے دور میں عام  مسلمان  شرعی عملی احکامات میں مجتہد صحابہ سے پوچھتے تھے،مجتہدصحابہ انہیں جواب دیتے تھے،اور ایسا ہوتا کہ جواب میں فقط حکم  ذکر کرتے ،حکم کی دلیل ذکر نہ کرتے،سوال کرنے والے اور جواب دینے والے نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ شعبی سے صحیح روایت کے ساتھ ثابت ہے،وہ فرماتے ہیں:

 

كَانَ سِتَّةٌ مِنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْتُونَ النَّاسَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيٌّ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَبُو مُوسَى. وَكَانَ ثَلَاثَةٌ مِنْهُمْ يَدَعُونَ قَوْلَهُمْ لِقَوْلِ ثَلَاثَةٍ، كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ عُمَرَ، وَكَانَ أَبُو مُوسَى يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ عَلِيٍّ، وَكَانَ زَيْدٌ يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

"رسول اللہ ﷺ کے چھ صحابہ لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے: ابن مسعود، عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، زید بن ثابت،اُبَیْ بن کعب اور ابو موسیٰ   رضی اللہ عنھم اجمعین۔ تین لوگ تین لوگوں کے پیچھے اپنا قول چھوڑ دیتےتھے، عبد اللہ بن مسعود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے،ابو موسی ٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور زیدبن ثابت  ابی بن کعب کے لیے" ۔یوں صحابہ کرام کی طرف سے تقلید کے جائز ہونے پر یہ اجماع تھا۔

 

یہ ساری بات فروعات میں تقلید سے متعلق تھی۔ جہاں تک اصول دین یعنی عقیدے میں تقلید کی بات ہے تو یہ جائز نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

(وَمَا لَهُم بِهِۦ مِنۡ عِلۡمٍۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّۖ وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغۡنِي مِنَ  ٱلۡحَقِّ شَیْئاً)

"حالانکہ انہیں اس بات کا ذرا بھی علم نہیں۔ وہ محض وہم و گمان کے پیچھے چل رہے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہم و گمان حق کے مقابلے میں بالکل کارآمد نہیں"(النجم:28)۔

 

دوسرا مسئلہ: مقلد پر لازم ہے کہ وہ اس شخص سے فتویٰ لے جس کے علم اور اجتہاد کی اہلیت کا اس کو پتہ ہو۔

مقلد کے لیے صرف ایسے شخص کی تقلید جائز ہے جو اجتہاد کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو،اس کے ساتھ ساتھ عادل بھی  ہو۔ یہ بات کہ وہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو،تو یہ اس لیے ہے کہ کسی دوسرےکی رائے کو بغیر شرعی دلیل کے ماننا اور پیروی کرنا،یہ پیروی صرف حکم شرعی کی معرفت کے لیے کی  جاتی ہے،اور حکم شرعی کی پہچان  صرف اور صرف شرعی دلیل میں غور و فکر اور استدلال سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ غور و فکر مجتہد کا کام ہے ،یعنی اس میں مجتہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص سے لوگ فتویٰ مانگتے ہیں،اس کا مجتہد ہونا اور تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کے استنباط و استخراج کا اہل ہونا ضروری ہے۔

 

جہاں تک عادل ہونے کا تعلق ہے، تو یہ اس لیے کہ شرعاً شہادت(گواہی) کے لیے عادل ہونا شرط ہے۔ایک مفتی حکم شرعی بتا کرفتویٰ دیتا ہے تو یہ اس کی طرف سے گواہی ہے کہ یہی حکم شرعی ہے،جسے درست اجتہاد کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے۔اس لیے جس سے لوگ فتویٰ طلب کرتے ہیں ،اس کے اندر شہادت کی شرائط یعنی عدالت وغیرہ پوری  ہونی چاہیئں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کیا مقلد پر یہ لازم ہے کہ جس سے وہ فتویٰ طلب کرتا ہے، فتویٰ طلب کرنے سے قبل اس کی علمی حیثیت اور اجتہاد کی اہلیت یا عدالت وغیرہ کے بارے میں  معلوم کرے؟

 

جہاں تک  اجتہاد کی اہلیت کی بات ہے تو مقلد پر لازم ہے ،کہ وہ سوال کرنے اور استفتاء سے پہلے اس عالم کے بارے میں پوچھے،اور یہ اس طرح کہ نیک و صالح مسلمانوں میں سے کسی سے پوچھ لے،یااگر مقلد اجتہاد کے لیے درکار کچھ ضروری علوم سے واقف ہو ،تو وہ  اس  عالم کی تالیفات و تصنیفات کو پڑھ لے، یا اس کے حلقہ درس میں شرکت کرے ، تاکہ وہ جان سکے کہ اس عالم کا اپنی کتابوں یا علمی حلقات میں  استنباط درست شرعی اجتہاد ہے یا نہیں۔ انسانی مزاج بھی اس  کی تائید کرتا ہےاور موجود ہ  زمانے کے لوگوں کی حالت بھی یہ  ہے کہ اکثر لوگ دین سے ناواقف ہوتے ہیں،اجتہاد کی قابلیت اور فتویٰ کی اہلیت نہیں رکھتے۔  تو اگر  وہ مفتی کی قابلیت کے بارے میں معلوم نہیں کرے گا  تو غالب گمان ہے  کہ اسے وہی جواب ملے گا جو اکثریت لوگوں چھایا  ہوا  ہو گا۔

 

جہاں تک عدالت کی بات ہے تو اس کے عادل ہونےکے بارے میں پوچھنا  بھی ضروری ہے،مثلاً اس کی قوم کے لوگوں سے اس کے بارے میں معلوم کر لے یا جو اس کو جانتا ہو اور اس کے اعمال واقوال کو دیکھ  کر کہ  بظاہر کسی فسق میں مبتلا  نہ ہو،یا کوئ ایسی چیز جو اس کی  نیکی و شرافت پر بٹہ لگاتی ہو۔ باربار چھوٹے گناہ نہ کرتا ہو،یا دیگر ایسے کام جو فقہا کے خیال میں آدمی کی عدالت سے میل نہیں کھاتے۔ ایک عالم کے عادل ہونے کو مجروح کرنے والے کام حکمران کے دروازے پر کھڑا ہونا،ان کی تعریفیں کرنا ،حکمرانوں کی وجہ سے حرام کو حلال کرنا، اس قسم کے کردار کے حامل شخص پر دین میں اعتبار نہیں کیا جاتا اور اس سے فتویٰ نہیں لیا جاتا ، بلکہ امت پر اس کا محاسبہ کرنا  اور اس کے سامنے کھڑا ہونا ضروری ہے، امت پر لازم ہے کہ وہ اس کو دو ٹوک انداز سے سمجھائیں۔

 

اسی بنا پر فتویٰ دینے کے لیے فقہ اکیڈمی یا دار الافتاء قائم کرنا،جبکہ لوگوں کو وہاں بیٹھے مفتی کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو یا جیسے ایک جماعت کسی مخصوص مسئلہ  میں اجتماعی غور وخوض کرے،ایک رائے اخذ کرے پھر وہ لوگوں کو فتویٰ دے،یہ تقلید کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ اس صورتحال میں مقلد لوگوں کو ان کے علم اور عادل ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا ۔

 

تیسرا مسئلہ: ایک سے زیادہ مجتہدین کی موجودگی میں مقلد کیا کرے؟

مقلد پر یہ لازم ہے کہ مجتہدین کے درمیان ترجیح قائم کرے۔ مقلدین کیلئے ترجیحات قائم کرنے کے کئی معیار ہوسکتے ہیں، جن کی بنیاد پر مجتہدین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم معیار زیادہ علم والا ہونا ہے۔ چنانچہ مقلد مجتہدین کے درمیان جب ترجیح قائم کرتا ہے، تو وہ اس مجتہد کی تقلید کرتا ہے، جس کے بارے میں اسے اعتماد ہوتا ہے کہ وہ تمام مجتہدین سے زیادہ علم والا ہے۔  مقلد کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنی خواہشات کی اتباع میں کبھی ایک عالم  اورکبھی دوسرے  یاکبھی ایک مجتہد اور کبھی دوسرے کی تقلید کرے،یا آسان اجتہادات کی تلاش اور ہلکے احکامات کی جستجو کرے۔ یہ درست ہے کہ مقلد کے لیے   ایک الگ متعین مسئلہ میں الگ متعین مجتہد کی تقلید کی اجازت ہے،مثلاً نماز کے مسئلہ میں امام شافعی کی تقلید کرے، روزے کے مسئلہ میں ابوحنیفہ ،اورحج کے مسئلہ میں امام احمد بن حنبل کی تقلید کرے۔ایسا کرنا جائز ہے بشرطیکہ مخصوص مسئلہ میں مخصوص مجتہد کو تقلید کے لیے منتخب کرنے کی وجہ اس کا یہ اعتماد ہو کہ وہ اس مسئلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے،نہ کہ اس کی خواہش اور سہل پسندی کی وجہ سے ہو۔

 

اور جیسا کہ مقلد کے لیے ہر مسئلہ میں مخصوص عالم کی تقلید کرنا جائز ہے ، اسی طرح وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ دین کے تمام مسائل میں ایک ہی عالم یا مجتہد کی تقلید کرے، مثلاً وہ  یہ کہے کہ "میں شافعی  مذہب کی مکمل طور پرتقلید کرتا ہوں"، تو یہ جائز ہے ،اس میں کوئی ممانعت نہیں۔            

 

یہاں یہ بھی اہم سوال  پیدا ہوتا ہے کہ مقلد ایک مسئلہ میں ایک عالم یا ایک خاص مذہب ومسلک کی تقلید کرے،تو کیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور عالم کی تقلید کرسکتا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایساکرنا ہر اس مسئلہ میں جائز ہوتا ہے، جس پراس نے عمل نہ کیا ہو، مثلاً جب مقلد کہے کہ "میں نماز اور زکوٰۃ کے مسائل میں امام شافعی کی تقلید کروں گا"۔پھر اس نے شافعی کے مذہب کے مطابق نماز بھی پڑھ لی، لیکن ابھی اس کے پاس اتنا مال اکٹھا نہ ہوا ہو جس پر زکوٰۃ فرض ہو،سو اس نے ابھی زکوٰة کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ پھرجب اس کے پاس بقدر نصاب مال آیا ، اس وقت وہ یہ سمجھا کہ زکوٰۃ کے مسائل میں تو امام ابوحنیفہ اجتہاد پر زیادہ دسترس رکھتے ہیں، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ زکوٰۃ کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کرے۔

 

مگر جب  مقلد کسی مسئلہ کے ساتھ اپنا عمل  جوڑدے،اور اس میں مخصوص مجتہد کی تقلید کی ہو تو پھر مقلد کیلئے دو صورتیں ہیں۔ مقلد یا تو ایسا ہوگا کہ وہ  اجتہاد کے مسائل سے لاعلم ہوگا ،جسے مقلد عامی کہتے ہیں، یا یہ کہ اجتہاد میں معتبر بعض علوم کو جانتا ہوگا،لیکن وہ سارے علوم جو اس کو اجتہاد کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہیں،وہ اس کو حاصل نہیں ہیں، اسے  مقلد متبع کہتے ہیں۔

جہاں تک مقلد عامی کی بات ہے، تو جب  ایک عالم کے علم  اور عادل ہونے پر اس نے اعتماد کیا،اور اس سے مسائل بھی اخذ کیے، تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی اور مجتہد کی طرف جائے، خوا ہ بعد میں دوسرے مجتہد کا زیادہ بڑا عالم ہونا اس پر واضح ہوجائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ  چونکہ وہ اجتہاد کے لیے درکا ر علوم  سے ناواقف ہے، اس لیے وہ علماء  اور ان کی استنباط کی قابلیت کے درمیان ترجیح قائم نہیں کرسکتا ہےیا کس کے بڑے عالم ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ جب  اس مقلد پر یہ ظاہر ہوجائے کہ مجتہد واضح فسق(گناہ) میں مبتلا ہے، یا ایسی واضح لاعلمی سامنے آجائے جو دین کے مسلمات کے بالکل خلاف ہو تو اس صورت میں مقلد پر واجب ہے کہ وہ اس عالم کی تقلید چھوڑ دے اور جس کی علم و عدالت پر اس کا اعتماد ہو ،اس کی پیروی کرے۔

 

جہاں تک مقلد متبع کی بات ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے کہ وہ مجتہدین کے درمیان علم و معرفت میں کمی بیشی   کی بنیاد پر ترجیح قائم کرے، اور بہتر سے بہترین کی تقلید کرے، کیونکہ اس کے پاس علومِ اجتہاد موجود ہوتے ہیں، جن کے ذریعے وہ  علماء کے استنباطوں اور  ان کے دلائل کو پرکھ سکتا ہے، یہ پرکھ صرف ترجیح کی حد تک ہوتی ہے نہ کہ استنباط کرنے کیلئے۔

 

چوتھا مسئلہ: موجودہ زمانے میں مجتہدین کی کمی کے مسئلے کا حل

اس زمانے میں یہ بھی ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک مقلد اپنے علاقے میں مجتہد کی تلاش  کرتا ہے مگر اسے کوئی مجتہد نہیں ملتا، اور معاملے میں مزید بگاڑ ان سرحدوں سے پیدا ہواجو استعمار نے مسلمان ممالک کے درمیان قائم کی ہوئی ہیں، نیز مسلمانوں کی اقتصادی حالت ایسی بدتر ہوگئی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے سفر کرنا اور دوسرے ممالک میں علماء اور مجتہدین کو تلاش کرنا  کافی مشکل ہے۔

 

اس کا ایک حل ہے اور وہ یہ کہ مقلد مجتہدین کی کتابوں میں مسائل کے حل کو تلاش کرے، مثلاً امام شافعی ، مالک اور النووی وغیرہ۔ اس طرح اسے اپنے مسئلے کا حل مل سکے گا، یا مسئلہ ایسے شخص سے پوچھے جو ان مذاہب  کا علم رکھتا ہو یا دوسرے مجتہدین کی آرا ء جانتا ہو۔ لہٰذا جب وہ عالم مجتہدین کی کتابوں اور آراء میں سے جواب نقل کرکے دے گا، تو گویا سائل نے اسی مجتہد ہی کی تقلید کی  جس کی رائے نقل کی گئی ،یہ اس  شخص کی تقلید نہیں جس نے مجتہد کا علم نقل کرکے جواب دیا۔ جواب نقل کرنے والے کا کردار اتنا  ہی ہے کہ وہ مقلد کو مجتہد کی رائے سمجھادے، یہ کوئی ممنوع امر نہیں،بشرطیکہ مقلد جواب نقل کرنے والے کی امانت داری اور عادل ہونے پر یقین رکھتا ہوں۔

 

پانچواں مسئلہ: ایک مقلد مخصوص مذہب کی تقلید کرتا رہا ،لیکن  اس کی زندگی میں اس مذہب کے علماء ناپید ہوگئے۔ تو وہ کیا کرے؟

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مقلد مکمل مذہب کی تقلید کرتا ہے، چنانچہ اس نے اس  مذہب کے علماء کے استنباط کردہ بہت سے مسائل  کو عملاً اختیار کیا،یا ایسے مسائل جو اس مذہب کے اصول پر اخذ کیے گئے اور ان کی تعمیل کی۔پھر ایسے  حالات آجاتے ہیں مثلاً مقلد کسی ایسی جگہ سفر کرے جہاں اس مذہب کے علماء  میں سے اسے کوئی نہیں  ملتا، یا اس مذہب کے علماء ختم ہوگئے، فوت ہوگئے ،تو اس مقلد  پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اسی طرح عمل جاری رکھے اور جن مسائل پر عمل کرتا رہا ہمیشہ اسی طرح کرتا رہے۔ ہاں وہ مسائل جن  کو وہ ابھی  زیر عمل نہیں لایا تو اگر وہ کسی اور مذہب کے علما ء سے پوچھ کر ان کی تقلید کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔  جو ہم نے اوپر بیان کیا، اس سے اس کا اختلاف نہیں۔

 

باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ مسائل جن پر مقلد نے عمل کر لیا ہے، ان مسائل میں ہی مقلد کو فروعی مسائل درپیش ہوجائیں،جبکہ اس مذہب کے علماء باقی نہیں رہے، تو اس صورت میں مقلدکے پاس کوئی چارہ  نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ کسی  قابلِ اعتماد عالم سے پوچھےجو  اس فرعی مسئلہ میں اجتہاد کے اہلیت سے مالامال ہو۔

 

 

آخر میں عرض ہے کہ صرف مذکورہ بالا مسائل کو اس لیے بیان کیا کہ میری نظر میں یہ اہم مسائل ہیں جن کی ضرورت آج کے مقلدین کو پیش آتی ہے۔

(وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین )

 

       

بسم الله الرحمن الرحيم

تقلید

استاذ حمزہ حرز اللہ

مجلۃ الوعی، شمارہ 382 سے ترجمہ

تما م تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو کائنات کا خالق ہے، زمین و آسمان کا رب ہے، اُس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور انہیں چیزوں کے نام سکھائے، ان کے سامنے جنوں اور فرشتوں سے سجدہ کروایا اور بنی آدم کو  عزت وکرامت سے نوازا۔ پھر ابلیس نے تکبر کیا اور انسانوں کو بہکانے کی ٹھان لی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان گاہ اور میدانِ عمل بنایا ہے، بدلہ دینے کی جگہ نہیں بنایا۔ اللہ نےاپنی رحمت سے انسانوں کی طرف انبیاء اور رسول بھیجے، اور زمین  و آسمان  میں بسنے والوں میں سب سے زیادہ بہترین ہستی کو  خاتم النبیین بناکر بھیجا، جس کی رسالت کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہوئی۔پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کے برابر حمد ہو،میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود بر حق نہیں، وہ گواہی جو اللہ سے ہماری مغفرت اور معافی کا سبب بن کر ہمیں اللہ کی دوزخ سے نجات دلادے، اور ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں  کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کافرمان ہے: ((مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ))"اللہ تعالیٰ جس کے لیے خیر  اور بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتے ہیں"(بخاری و مسلم)۔

اس کے بعد، ہم اس موضوع پر اس لیے کچھ لکھ رہے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امت کو اس موضوع کو سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ ہر مسلمان شریعت کے علم میں اجتہادنہیں کر سکتا،ظاہر ہے کہ پھر اس کواجتہاد کرنے والوں کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔اس کو تقلید کی  ضرورت ہےتاکہ اپنے رب کےاوامر اور نواہی کو پہچان سکے، اپنے دین پر پابندی کے ساتھ عمل کرسکے اور اپنی پوری زندگی کو دین کے تحت گزار سکے۔

اس معاملے میں زیادہ بگاڑ شریعت کے علم کے کھوجانے اور امت کے اذہان  سے اس کے اوجھل ہوجانے سے آیا، اس کی وجہ مجتہدعلماء کا ان کے درمیان سے اُٹھ جانا ہے۔  امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت نقل کی ہے:(( حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))"قتیبہ بن سعید نے ہم سے حدیث بیان کی، اُن سے جریر نے ھشام بن عروہ سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی،وہ اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں، میں نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو یہ کہتے ہوئے سنا  کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اُٹھاتا کہ لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نکال دے،  اللہ تعالیٰ علم کو علماء کو اٹھاکر قبض کر لیتاہے،یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم نہیں رہے گا ، تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے،وہ ان سے(معاملات) پوچھیں گے اور وہ بغیر سمجھ بوجھ کے انہیں فتوے دیں گے،وہ خود گمراہ ہوں گے ، پوچھنے والوں کو بھی گمراہی کی طرف لے جائیں گے"۔یعنی علماء کے چلے جانے اور جاہلوں کو پیشوا بنائےجانے سے علم اٹھ جائے گا، کیونکہ جو علماء باقی تھے،ان کو مسلمانوں سے دور کر دیا گیا، چپ کروا دیا گیا یالاپتہ کر دیا گیا، یوں امت سے شریعت کا علم بھی غائب ہوگیا۔

امت کے اندر اسلام کی سمجھ میں ضعف اور فقہی صلاحیت میں کمزوری واقع ہونے کی ابتداء تب سے ہوئی جب عربی زبان کو سیکھنے کے حوالے سے بے توجہی اور قلت اہتمام برتا جانے لگا، پھر اجتہاد کا دروازہ بند کرنے نے اس میں مزید بگاڑ پیدا کیا اور بالآخر مسلمانوں پر مغرب اور  کفریہ ریاستوں کا غلبہ اور تسلط اور ان کی اتھارٹی کو ان سے چھین لینے نے اس بگاڑ میں اضافہ کیا۔اس کے بعد کفار نے اُمت پر فکری و ثقافتی یلغار کی ،اور انہوں نے باقاعدگی سے اس پر کام کیا کہ مسلم ممالک میں قائم  شرعی علوم کےمدرسے اور یونیورسٹیاں علم کو اس طرح پیش کریں جیسے فلسفہ اور منطق کو پیش کرتےہیں، یوں لوگوں کو فقہ سے متنفر کردیا گیا۔جبکہ اہلِ فقہ کو حقیقت سے دورکردیاگیا۔ چنانچہ  ایک فقیہ یاشیخ یا شرعی علوم کے کالج  کے طالبِ علم کا علم فقط منبر اور وعظ و نصیحت تک محدود ہوکر رہ گیا، نہ کہ شرعی احکام کے نفاذ ،اس کے ذریعے تبدیلی،اور لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے اس کو استعمال کیا جائے،جس کی وجہ سے فقہی مضبوطی بہت زیادہ زوال کا شکار ہو گئی۔ اسی وجہ سے علماء کم ہوتے گئےاور مقلدین میں اضافہ ہوتا گیا۔ 

لیکن ایک اور    مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ مقلد یہ نہیں جانتا کہ وہ علماء کی تقلید کرے تو کیسے کرے،تقلید کے ضوابط اور احکامات کیاہیں؟اسے یہ معلوم نہیں کہ بحیثیت مقلد کے اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،وہ یہ سمجھتا ہے جیسا کہ غلط العام ہے، حطها برأس عالم واطلع سالم "حکم کی ذمہ داری تو عالم کے سر پر ہے،بس درست والا تلاش کر لو"۔

تقلید کے موضوع کے حوالے سے اس دور کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعدادکو حکم الہٰی اور اس کے اوامر و نواہی کی معرفت حاصل نہیں،یا پھر اس میں باریکی میں نہیں جاتے،حد تو یہ ہے کہ وہ خود ساختہ فتوے دیتے ہیں، یوں اللہ کاحکم ان کی پسند و  ناپسند اور مفادات کا تابع ہوکر رہ جاتا ہے، جب آپ ان سے پوچھیں کہ یہ کیا کرتے ہو؟ تو ان کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے" کہ اپنے دل سے پوچھو ، خواہ لوگ فتوے دے چکے ہوں"،یا یہ کہ " دین میں آسانی ہے،تنگی نہیں،آپ کیوں اسے مشکل بناتے ہو"، یا "مصلحت یہ ہے اور دین لوگوں کے مصالح و مفادات کی نگرانی کرتا ہے" ،یا" میری نیت صاف ہےاور دارومدار نیت پر ہے" وغیرہ ۔یہ وہ بہانےہیں جن سے وہ اپنے دلوں کو بہلاتے ہیں تاکہ انہیں اپنے دین اور امت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے  جان چھڑانے کا موقع مل سکے۔ 

پھر جس نے بھی دو تین کتابیں پڑھ لیں ،اپنے آپ کو زمانے کا عالم اور علامہ سمجھنے لگا، گویا اس کو کسی اور کی تقلید کی ضرورت نہیں،بلکہ اس کو اپنے لیے عار سمجھا گیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ صاحبِ علم اور فقہی اعتبار سے قابل ہے۔چنانچہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے حوالے سے ایسے فتوے جاری کرتا ہے، جس کا اسے پتہ ہی نہیں،یوں خود بھی راہِ راست سے بھٹکتا ہے اوردوسر وں کو بھی بھٹکا دیتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری تھا کہ  ایسے افکار نمایاں کیے جائیں جو غیر مجتہد اشخاص کے لیے دینی احکامات لینے کے حوالے سے مشعل راہ ثابت ہوں ، اللہ ہی مددگار ہے اور ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

ہم اس موضوع کے حوالے سےمتعدد مسائل کے بارےمیں بات کریں گے:

پہلا مسئلہ: تقلید کی تعریف اور اس کاحکم

کسی کی بات پر ،حجت لازم کرنے والی دلیل جانے بغیر ،عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔تقلید کرنے والا شخص کسی فقہی مسئلہ میں کسی مجتہد عالم کی رائے کی اتباع کرتا ہے تاکہ وہ عالم کے کہے پر عمل کرسکے۔چنانچہ وہ اس کے قول کی اتباع اور پیروی کرتا ہے،کیونکہ اسے یہ اعتماد ہوتا ہے کہ اس کا قول  شرعی دلیل سے اخذ شدہ ہے، جس کو مجتہد عالم نے اپنے لیے حجت بنایا ہے،لیکن مقلد شخص کو مجتہد کی دلیل کا علم ہونا ضروری نہیں ،یا استنباط یا اجتہادکے طریقہ کار کا جاننا ضروری نہیں، جبکہ اسے یہ معلوم بھی نہیں کہ عالم نے کیا ذکر کیا، یاد کیا یا محفوظ کیا۔ پس مقلد شرعی دلیل سے حکم کا استنباط کیے بغیر اس پر عمل کرتا ہے ۔

بلاشبہ جو شخص اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا ،خواہ اس نے اجتہاد سے متعلق کچھ علوم حاصل بھی کرلیے ہوں،اُس پر بھی کسی مجتہد کی تقلید اور عملی احکامات میں اس کے فتویٰ  کو ماننالازم ہے۔اس  میں بعض معتزلہ وغیرہ نے اختلاف کیا ہے،لیکن جو ہم نے کہا ہے ،اس پر ہمارے پاس شرعی نص اوراجماع صحابہ سے دلائل موجود ہیں۔

جہاں تک شرعی نص کا تعلق ہے تواللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: (فَسْاَلُوٓاْ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ) "اہل ذکر سے پوچھ لو،اگر تم نہیں جانتے ہو"(الانبیاء:7)۔ یہ آیت کریمہ ہر اس چیز پر لاگو ہوتی ہے جو معلوم نہ ہو۔

جہاں تک اجماع صحابہ کی بات ہے، تو صحابہ کرام کے دور میں عام  مسلمان  شرعی عملی احکامات میں مجتہد صحابہ سے پوچھتے تھے،مجتہدصحابہ انہیں جواب دیتے تھے،اور ایسا ہوتا کہ جواب میں فقط حکم  ذکر کرتے ،حکم کی دلیل ذکر نہ کرتے،سوال کرنے والے اور جواب دینے والے نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ شعبی سے صحیح روایت کے ساتھ ثابت ہے،وہ فرماتے ہیں: كَانَ سِتَّةٌ مِنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْتُونَ النَّاسَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيٌّ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَبُو مُوسَى. وَكَانَ ثَلَاثَةٌ مِنْهُمْ يَدَعُونَ قَوْلَهُمْ لِقَوْلِ ثَلَاثَةٍ، كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ عُمَرَ، وَكَانَ أَبُو مُوسَى يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ عَلِيٍّ، وَكَانَ زَيْدٌ يَدَعُ قَوْلَهُ لِقَوْلِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ "رسول اللہ ﷺ کے چھ صحابہ لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے: ابن مسعود، عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، زید بن ثابت،اُبَیْ بن کعب اور ابو موسیٰ   رضی اللہ عنھم اجمعین۔ تین لوگ تین لوگوں کے پیچھے اپنا قول چھوڑ دیتےتھے، عبد اللہ بن مسعود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے،ابو موسی ٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور زیدبن ثابت ابی بن کعب کے لیے" ۔یوں صحابہ کرام کی طرف سے تقلید کے جائز ہونے پر یہ اجماع تھا۔

یہ ساری بات فروعات میں تقلید سے متعلق تھی۔ جہاں تک اصول دین یعنی عقیدے میں تقلید کی بات ہے تو یہ جائز نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَا لَهُم بِهِۦ مِنۡ عِلۡمٍۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّۖ وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغۡنِي مِنَ  ٱلۡحَقِّ شَیْئاً) "حالانکہ انہیں اس بات کا ذرا بھی علم نہیں۔ وہ محض وہم و گمان کے پیچھے چل رہے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہم و گمان حق کے مقابلے میں بالکل کارآمد نہیں"(النجم:28)۔

دوسرا مسئلہ: مقلد پر لازم ہے کہ وہ اس شخص سے فتویٰ لے جس کے علم اور اجتہاد کی اہلیت کا اس کو پتہ ہو۔

مقلد کے لیے صرف ایسے شخص کی تقلید جائز ہے جو اجتہاد کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو،اس کے ساتھ ساتھ عادل بھی  ہو۔ یہ بات کہ وہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو،تو یہ اس لیے ہے کہ کسی دوسرےکی رائے کو بغیر شرعی دلیل کے ماننا اور پیروی کرنا،یہ پیروی صرف حکم شرعی کی معرفت کے لیے کی  جاتی ہے،اور حکم شرعی کی پہچان  صرف اور صرف شرعی دلیل میں غور و فکر اور استدلال سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ غور و فکر مجتہد کا کام ہے ،یعنی اس میں مجتہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص سے لوگ فتویٰ مانگتے ہیں،اس کا مجتہد ہونا اور تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کے استنباط و استخراج کا اہل ہونا ضروری ہے۔

جہاں تک عادل ہونے کا تعلق ہے، تو یہ اس لیے کہ شرعاً شہادت(گواہی) کے لیے عادل ہونا شرط ہے۔ایک مفتی حکم شرعی بتا کرفتویٰ دیتا ہے تو یہ اس کی طرف سے گواہی ہے کہ یہی حکم شرعی ہے،جسے درست اجتہاد کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے۔اس لیے جس سے لوگ فتویٰ طلب کرتے ہیں ،اس کے اندر شہادت کی شرائط یعنی عدالت وغیرہ پوری  ہونی چاہیئں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کیا مقلد پر یہ لازم ہے کہ جس سے وہ فتویٰ طلب کرتا ہے، فتویٰ طلب کرنے سے قبل اس کی علمی حیثیت اور اجتہاد کی اہلیت یا عدالت وغیرہ کے بارے میں  معلوم کرے؟

جہاں تک اجتہاد کی اہلیت کی بات ہے تو مقلد پر لازم ہے ،کہ وہ سوال کرنے اور استفتاء سے پہلے اس عالم کے بارے میں پوچھے،اور یہ اس طرح کہ نیک و صالح مسلمانوں میں سے کسی سے پوچھ لے،یااگر مقلد اجتہاد کے لیے درکار کچھ ضروری علوم سے واقف ہو ،تو وہ  اس  عالم کی تالیفات و تصنیفات کو پڑھ لے، یا اس کے حلقہ درس میں شرکت کرے ، تاکہ وہ جان سکے کہ اس عالم کا اپنی کتابوں یا علمی حلقات میں  استنباط درست شرعی اجتہاد ہے یا نہیں۔ انسانی مزاج بھی اس  کی تائید کرتا ہےاور موجود ہ  زمانے کے لوگوں کی حالت بھی یہ  ہے کہ اکثر لوگ دین سے ناواقف ہوتے ہیں،اجتہاد کی قابلیت اور فتویٰ کی اہلیت نہیں رکھتے۔  تو اگر وہ مفتی کی قابلیت کے بارے میں معلوم نہیں کرے گا  تو غالب گمان ہے کہ اسے وہی جواب ملے گا جو اکثریت لوگوں چھایا  ہوا  ہو گا۔

جہاں تک عدالت کی بات ہے تو اس کے عادل ہونےکے بارے میں پوچھنا بھی ضروری ہے،مثلاً اس کی قوم کے لوگوں سے اس کے بارے میں معلوم کر لے یا جو اس کو جانتا ہو اور اس کے اعمال واقوال کو دیکھ  کر کہ بظاہر کسی فسق میں مبتلا نہ ہو،یا کوئ ایسی چیز جو اس کی  نیکی و شرافت پر بٹہ لگاتی ہو۔ باربار چھوٹے گناہ نہ کرتا ہو،یا دیگر ایسے کام جو فقہا کے خیال میں آدمی کی عدالت سے میل نہیں کھاتے۔ ایک عالم کے عادل ہونے کو مجروح کرنے والے کام حکمران کے دروازے پر کھڑا ہونا،ان کی تعریفیں کرنا ،حکمرانوں کی وجہ سے حرام کو حلال کرنا، اس قسم کے کردار کے حامل شخص پر دین میں اعتبار نہیں کیا جاتا اور اس سے فتویٰ نہیں لیا جاتا ، بلکہ امت پر اس کا محاسبہ کرنا  اور اس کے سامنے کھڑا ہونا ضروری ہے، امت پر لازم ہے کہ وہ اس کو دو ٹوک انداز سے سمجھائیں۔

اسی بنا پر فتویٰ دینے کے لیے فقہ اکیڈمی یا دار الافتاء قائم کرنا،جبکہ لوگوں کو وہاں بیٹھے مفتی کے بارے میں کچھ پتہ نہ ہو یا جیسے ایک جماعت کسی مخصوص مسئلہ  میں اجتماعی غور وخوض کرے،ایک رائے اخذ کرے پھر وہ لوگوں کو فتویٰ دے،یہ تقلید کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ اس صورتحال میں مقلد لوگوں کو ان کے علم اور عادل ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا ۔

تیسرا مسئلہ: ایک سے زیادہ مجتہدین کی موجودگی میں مقلد کیا کرے؟

مقلد پر یہ لازم ہے کہ مجتہدین کے درمیان ترجیح قائم کرے۔ مقلدین کیلئے ترجیحات قائم کرنے کے کئی معیار ہوسکتے ہیں، جن کی بنیاد پر مجتہدین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم معیار زیادہ علم والا ہونا ہے۔ چنانچہ مقلد مجتہدین کے درمیان جب ترجیح قائم کرتا ہے، تو وہ اس مجتہد کی تقلید کرتا ہے، جس کے بارے میں اسے اعتماد ہوتا ہے کہ وہ تمام مجتہدین سے زیادہ علم والا ہے۔  مقلد کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنی خواہشات کی اتباع میں کبھی ایک عالم اورکبھی دوسرے  یاکبھی ایک مجتہد اور کبھی دوسرے کی تقلید کرے،یا آسان اجتہادات کی تلاش اور ہلکے احکامات کی جستجو کرے۔ یہ درست ہے کہ مقلد کے لیے   ایک الگ متعین مسئلہ میں الگ متعین مجتہد کی تقلید کی اجازت ہے،مثلاً نماز کے مسئلہ میں امام شافعی کی تقلید کرے، روزے کے مسئلہ میں ابوحنیفہ ،اورحج کے مسئلہ میں امام احمد بن حنبل کی تقلید کرے۔ایسا کرنا جائز ہے بشرطیکہ مخصوص مسئلہ میں مخصوص مجتہد کو تقلید کے لیے منتخب کرنے کی وجہ اس کا یہ اعتماد ہو کہ وہ اس مسئلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے،نہ کہ اس کی خواہش اور سہل پسندی کی وجہ سے ہو۔

اور جیسا کہ مقلد کے لیے ہر مسئلہ میں مخصوص عالم کی تقلید کرنا جائز ہے ، اسی طرح وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ دین کے تمام مسائل میں ایک ہی عالم یا مجتہد کی تقلید کرے، مثلاً وہ یہ کہے کہ "میں شافعی  مذہب کی مکمل طور پرتقلید کرتا ہوں"، تو یہ جائز ہے ،اس میں کوئی ممانعت نہیں۔         

یہاں یہ بھی اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقلد ایک مسئلہ میں ایک عالم یا ایک خاص مذہب ومسلک کی تقلید کرے،تو کیا وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور عالم کی تقلید کرسکتا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایساکرنا ہر اس مسئلہ میں جائز ہوتا ہے، جس پراس نے عمل نہ کیا ہو، مثلاً جب مقلد کہے کہ "میں نماز اور زکوٰۃ کے مسائل میں امام شافعی کی تقلید کروں گا"۔پھر اس نے شافعی کے مذہب کے مطابق نماز بھی پڑھ لی، لیکن ابھی اس کے پاس اتنا مال اکٹھا نہ ہوا ہو جس پر زکوٰۃ فرض ہو،سو اس نے ابھی زکوٰة کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ پھرجب اس کے پاس بقدر نصاب مال آیا ، اس وقت وہ یہ سمجھا کہ زکوٰۃ کے مسائل میں تو امام ابوحنیفہ اجتہاد پر زیادہ دسترس رکھتے ہیں، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ زکوٰۃ کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کرے۔

مگر جب  مقلد کسی مسئلہ کے ساتھ اپنا عمل  جوڑدے،اور اس میں مخصوص مجتہد کی تقلید کی ہو تو پھر مقلد کیلئے دو صورتیں ہیں۔ مقلد یا تو ایسا ہوگا کہ وہ  اجتہاد کے مسائل سے لاعلم ہوگا ،جسے مقلد عامی کہتے ہیں، یا یہ کہ اجتہاد میں معتبر بعض علوم کو جانتا ہوگا،لیکن وہ سارے علوم جو اس کو اجتہاد کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہیں،وہ اس کو حاصل نہیں ہیں، اسے مقلد متبع کہتے ہیں۔

جہاں تک مقلد عامی کی بات ہے، تو جب ایک عالم کے علم اور عادل ہونے پر اس نے اعتماد کیا،اور اس سے مسائل بھی اخذ کیے، تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی اور مجتہد کی طرف جائے، خوا ہ بعد میں دوسرے مجتہد کا زیادہ بڑا عالم ہونا اس پر واضح ہوجائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ اجتہاد کے لیے درکا ر علوم  سے ناواقف ہے، اس لیے وہ علماء اور ان کی استنباط کی قابلیت کے درمیان ترجیح قائم نہیں کرسکتا ہےیا کس کے بڑے عالم ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ جب  اس مقلد پر یہ ظاہر ہوجائے کہ مجتہد واضح فسق(گناہ) میں مبتلا ہے، یا ایسی واضح لاعلمی سامنے آجائے جو دین کے مسلمات کے بالکل خلاف ہو تو اس صورت میں مقلد پر واجب ہے کہ وہ اس عالم کی تقلید چھوڑ دے اور جس کی علم و عدالت پر اس کا اعتماد ہو ،اس کی پیروی کرے۔

جہاں تک مقلد متبع کی بات ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے کہ وہ مجتہدین کے درمیان علم و معرفت میں کمی بیشی کی بنیاد پر ترجیح قائم کرے، اور بہتر سے بہترین کی تقلید کرے، کیونکہ اس کے پاس علومِ اجتہاد موجود ہوتے ہیں، جن کے ذریعے وہ  علماء کے استنباطوں اور  ان کے دلائل کو پرکھ سکتا ہے، یہ پرکھ صرف ترجیح کی حد تک ہوتی ہے نہ کہ استنباط کرنے کیلئے۔

چوتھا مسئلہ: موجودہ زمانے میں مجتہدین کی کمی کے مسئلے کا حل

اس زمانے میں یہ بھی ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک مقلد اپنے علاقے میں مجتہد کی تلاش  کرتا ہے مگر اسے کوئی مجتہد نہیں ملتا، اور معاملے میں مزید بگاڑ ان سرحدوں سے پیدا ہواجو استعمار نے مسلمان ممالک کے درمیان قائم کی ہوئی ہیں، نیز مسلمانوں کی اقتصادی حالت ایسی بدتر ہوگئی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے سفر کرنا اور دوسرے ممالک میں علماء اور مجتہدین کو تلاش کرنا کافی مشکل ہے۔

اس کا ایک حل ہے اور وہ یہ کہ مقلد مجتہدین کی کتابوں میں مسائل کے حل کو تلاش کرے، مثلاً امام شافعی ، مالک اور النووی وغیرہ۔ اس طرح اسے اپنے مسئلے کا حل مل سکے گا، یا مسئلہ ایسے شخص سے پوچھے جو ان مذاہب کا علم رکھتا ہو یا دوسرے مجتہدین کی آرا ء جانتا ہو۔ لہٰذا جب وہ عالم مجتہدین کی کتابوں اور آراء میں سے جواب نقل کرکے دے گا، تو گویا سائل نے اسی مجتہد ہی کی تقلید کی  جس کی رائے نقل کی گئی ،یہ اس  شخص کی تقلید نہیں جس نے مجتہد کا علم نقل کرکے جواب دیا۔ جواب نقل کرنے والے کا کردار اتنا ہی ہے کہ وہ مقلد کو مجتہد کی رائے سمجھادے، یہ کوئی ممنوع امر نہیں،بشرطیکہ مقلد جواب نقل کرنے والے کی امانت داری اور عادل ہونے پر یقین رکھتا ہوں۔

پانچواں مسئلہ: ایک مقلد مخصوص مذہب کی تقلید کرتا رہا ،لیکن  اس کی زندگی میں اس مذہب کے علماء ناپید ہوگئے۔ تو وہ کیا کرے؟

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مقلد مکمل مذہب کی تقلید کرتا ہے، چنانچہ اس نے اس  مذہب کے علماء کے استنباط کردہ بہت سے مسائل  کو عملاً اختیار کیا،یا ایسے مسائل جو اس مذہب کے اصول پر اخذ کیے گئے اور ان کی تعمیل کی۔پھر ایسے حالات آجاتے ہیں مثلاً مقلد کسی ایسی جگہ سفر کرے جہاں اس مذہب کے علماء  میں سے اسے کوئی نہیں  ملتا، یا اس مذہب کے علماء ختم ہوگئے، فوت ہوگئے ،تو اس مقلد پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اسی طرح عمل جاری رکھے اور جن مسائل پر عمل کرتا رہا ہمیشہ اسی طرح کرتا رہے۔ ہاں وہ مسائل جن کو وہ ابھی زیر عمل نہیں لایا تو اگر وہ کسی اور مذہب کے علما ء سے پوچھ کر ان کی تقلید کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جو ہم نے اوپر بیان کیا، اس سے اس کا اختلاف نہیں۔

باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ مسائل جن پر مقلد نے عمل کر لیا ہے، ان مسائل میں ہی مقلد کو فروعی مسائل درپیش ہوجائیں،جبکہ اس مذہب کے علماء باقی نہیں رہے، تو اس صورت میں مقلدکے پاس کوئی چارہ نہیں ، سوائے اس کے کہ وہ کسی قابلِ اعتماد عالم سے پوچھےجو  اس فرعی مسئلہ میں اجتہاد کے اہلیت سے مالامال ہو۔

آخر میں عرض ہے کہ صرف مذکورہ بالا مسائل کو اس لیے بیان کیا کہ میری نظر میں یہ اہم مسائل ہیں جن کی ضرورت آج کے مقلدین کو پیش آتی ہے۔

(وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین )

      

Last modified onجمعہ, 15 اپریل 2022 04:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک