بسم الله الرحمن الرحيم
دین کی تجدید
یوسف الساریسی- بیت المقدس
اللہ تعالی نے انسانی معاشروں کی زندگی میں کچھ قوانین اور روایات مقررکی ہیں جو ان کو فاسد ہونے سے بچاتے ہیں جیسے لوگوں کے درمیان زمانوں کے تبدیل ہو جانے کا قانون، نافرمانوں اور جابروں کی جلد از جلد تباہی کا قانون اورعروج تک پہنچنے کا قانون جس تک صرف فکر کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے،وغیرہ۔اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے مسلم امت کے لیے قوانین مقرر کیے ہیں جو دین اسلام کی بقا اور حفاظت کے ضامن ہیں، جن سے اللہ کا یہ آخری دین ہی ایک صحیح اور مناسب دین ہو گا جو ہر زمان ومکان کےلیے مناسب ہوگا،اور تمام ادیان اور آئیڈیالوجیز پر غالب آئے گا۔
یہ امتِ مسلمہ پر اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اللہ نے قرآن اور اس دین کی تحریف سے حفاظت کی ذمہ داری خود لی ۔اس کیلئے اللہ سبحانہ وتعالی نے اس امت میں ہر زمانے میں حق پر ڈٹا رہنے والا ایک گروہ پیدا کیا۔ جو بھی حق کا متلاشی ہو گا وہ اس طرح کے گروہ کو پا لے گا، اس لیے کوئی زمانہ حق کے داعیوں سے خالی نہیں ہوتا ، ان سے جو لوگوں کو حق بات بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں پر اللہ کی یہ نعمت بھی ہے کہ ان کے دین کی حفاظت کےلیے ہر سو سال بعد اللہ سبحانہ وتعالی ایک ایسے شخص کو بھیجتے ہیں جو اس امت کےلیے ان کے دین کی تجدید کرتاہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے جس کو ابو داود نے روایت کیا ہے:
«إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها»
"اللہ اس امت کےلیے ہر صدی کی ابتدا میں اس شخص کو بھیجتاہے جو اس امت کےلیے اس کے دین کی تجدید کرتاہے"۔
یوں یہ مجدد دین کی تجدید کرتاہے اور اسلام کے صحیح فہم کو بیان کرتاہے، جو اس دین میں سے نہیں تھا مگر اس میں شامل کر دیا گیا تھا اس کو اسلام سے زائل کرتا ہے ، وہ مسلمانوں کو درپیش بڑے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتاہے۔ یہ مسلمانوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ہے، اس کا فضل اور مہربانی ہے؛ اس سے یہ دین آخری دین ہونے کی حیثیت سے قیامت تک زمانوں کےلیے حجت رہے گا اور اسلامی امت باقی امتوں پر گواہ رہے گی۔
یہاں اس سوال کا پیدا ہونا لازمی ہے کہ دین کو تجدید کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس کو لوگ اپنی زندگیوں میں نافذ کرتے ہیں ، جس میں وہ قوانین موجود ہیں جو اسلام کے افکار اور احکامات کی اس امر سے حفاظت کرتے ہیں کہ ان کے نفاذ میں کوتاہی اور حدود سے تجاوز نہ ہو، جس میں پیش آنے والے وہ نئے حالات بھی شامل ہیں جن پرشرعی احکامات کو لاگو کرنا ہوتاہے۔اس معاملے میں اسلامی افکار اور مغربی افکار کے درمیان تصادم کے نتیجے میں مغربی افکار کے اسلام میں داخل ہونے کا احتمال ہوتاہے۔ اس افراط وتفریط میں فہم کے ضعیف ہونے اور اجتہاد نہ ہونے کی صورت میں حالات کے شرعی احکامات سے تعلق ٹوٹے کا اندیشہ ہوتاہے۔ ان عوامل کے تسلسل کے نتیجے میں اسلام اور حالات کے درمیان شکوک اورجدائی پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے مسلسل تجدید کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم تجدید کے معنی اور اس کی حقیقت کے بارے میں بحث شروع کریں ،پہلے ہم عصر حاضر میں بعض مسلم مفکرین کے ہاں دین کی تجدید کی سوچ کے جنم لینے کی وجوہات پر تحقیق کریں گے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مطابق اس سوچ کے پیدا ہونے کا کوئی اسلامی محرک نہیں بلکہ اس کی بنیاد ہی مغرب کی تقلید ہے؛ کیونکہ انیسویں صدی کی ابتداء سے ہی مسلمان یورپ کی سرمایہ دارانہ اقوام کے دلدادہ ہونے لگے تھے اور ہر چیز میں ان کی تقلید کرنے لگےتھے۔ اس میں سے ایک امر دین کی تجدید اور اصلاح تھا۔ اس لیےہمیں یورپی انقلاب سے پہلے کےنصرانی یورپ میں اصلاح اور تجدید کی سوچ کے پنپنےکی تاریخ پرنظر دوڑانی ہو گی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اپنے دین کے معاملات کے حوالے سے وہ کیا عوامل تھے جنھوں نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا،جس میں ہمارے لیے سبق موجود ہے!
یورپ میں اصلاح اور تجدید کی سوچ کی نشونما
سولویں صدی عیسوی سے قبل یورپ کتھولک کلیسا کے ظلم و ستم تلے سسکیاں لے رہا تھا۔ اس نے یورپ میں اصلاحی تحریکوں اور انقلاب کو جنم دیا، پروٹیسٹنٹ سے لبرل تک اور پھر شہنشاہوں اور بادشاہوں کے خلاف حقیقی انقلاب جیسے فرانس کا انقلاب جو یورپ میں سوچ اور نظام حکمرانی کو تبدیل کرنے پر منتج ہوا۔
جرمن پادری مارٹن لوتھر نے کتھولک کلیسا کے دین کی تفسیر کے اختیار ،معصوم عن الخطاء(غلطی سے پاک ہونے) اور مراعات، جو روم میں وٹیکن کے پادری تک محدود تھے، ان افکار کی اصلاح کے نام سے سولویں صدی کے اوائل میں دینی اصلاح کا نعرہ لگایا ۔ لوتھر نےعہدِ جدید کی کتاب ، یعنی انجیل اور عہد قدیم کی کتاب یعنی تورات کی جدید نقطہ نظر کے مطابق تجدید کی ضرورت کا نعرہ لگایا ۔ یہ یورپ میں نصرانیت کی دینی تجدید کی سوچ کی ابتدا تھی۔ پھر اسی کی دعوت سے پرو ٹیسٹنٹ مسلک وجود میں آیا۔ نتیجتاً نصرانیت تین فرقوں میں بٹ گئی: مشرقی آرتھوڈاکس، مغربی کتھولک پاپائیت اور پروٹسٹینٹ۔ پھر اس جدید پروٹیسٹنٹ مسلک سے بے شمار نصرانی کلیسا وجود میں آئے، ہر ایک کا اپنا عقیدہ، اپنی شریعت اور اپنا مستقل دینی منہج تھا، یوں مغربی نصرانی کلیسا متعدد گروہوں اور کلیساوں میں تقسیم ہوکر آپس میں مدِ مقابل ہو گئے، جس کی وجہ لوتھر کی دینی اصلاح کی سوچ تھی۔
پھر پروٹیسٹنٹ کلیسا نےیورپ میں اٹھنے والی اس نئی لبرل سوچ کو قبول کر لیا جس نے اس تنازعے اور تصادم سے جنم لیا جس میں ایک طرف مذھبی پیشوا ، بادشاہ اور حکمران تھے اور دوسری طرف مفکرین اور فلسفی تھے، جب انہوں نے الٰہی حق کے خلاف بغاوت کی اور اس کو طبعی حق کی فکر سے تبدیل کیا اور دین کو زندگی سے جدا کرنے، یعنی سیکولرازم کو ضروری قرار دیا ۔ جس نے سب سے پہلے دین کو ریاست سے الگ کرنے کی اس فکر کو قبول کیا وہ برطانیہ کا پروٹسٹینٹ کلیسا تھا ،جس نے 1680 ءمیں کرومول کے انقلاب کے بعداسے قبول کر لیا۔ یوں نئی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی اور سیکولرازم کی بنیاد برطانیہ میں رکھ دی گئی۔
یورپ میں ترقی کی سوچ کی بدعت
یورپ کے دین سے دستبردار ہونے اور اس کو زندگی سے الگ کرنے کے بعد اس کو دین سے الگ آئین اور قوانین کی ضرورت تھی، اس لیے یورپیوں نے کلیسا کے قوانین کے متبادل کے طور پر یونان اور روم سے نام نہاد فطری قوانین اخذ کیے۔ فطری قوانین کی حقیقت یہ تھی کہ وہ جامد تھے اورتبدیل نہیں ہوسکتے تھے، لیکن وہ قوانین جو انھوں نے بنائے، وہ ان کو مسلسل تبدیل کرنے پر مجبور رہتے تاکہ وہ حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔
اس امر نے ان کےلیے مشکلات پیدا کردیں، کیونکہ جمہوریت کے انسانی قوانین انسان کی خواہشات اور مفادات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ مستقل فطری قوانین کے برعکس تھا۔ اس لیے اس بات کا جواز پیدا کرنے کی ضرورت تھی کہ فطرت خود ایسے قوانین پر مشتمل ہے جو ترقی کرتے ہیں؛ اسی لیے ایک ایسی خیالی فکر ایجاد کی گئی جس کو ارتقاء کا نام دیا گیا اور اس کو فطرت کا ایک قانون قرار دیاگیا ۔ یوں ارتقاء کا نظریہ رکھنے والوں نے یہ گمان کیا کہ نظام اور انسانی قوانین کےلیے ارتقاء لازمی ہے کیونکہ یہ اصل میں فطرت کا ہی قانون ہے، یہی دائمی تغیر اور ارتقاء ہے۔ اس لیے جو قوانین وہ وضع کرتے تھے ان کا نئے حالات اور واقعات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری تھا ۔ ان کا دعوی تھا کہ جو نظام زمانے کے گزرنے کے ساتھ ترقی نہیں کرتے ،ان کے سامنے بالآخر مسائل کے انبار لگ جائیں گےجن کی بدولت وہ حالات و واقعات کے ساتھ چلنے سے عاجز ہونگے اور یوں وہ نظام فرسودہ اور ناکارہ ہو جائیں گے۔ اسی لیےمسلسل ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو زمانے کے ساتھ تبدیل ہوں اور ترقی کریں!!
چونکہ مغرب کے نزدیک تجرباتی علم ہی درست اور صحیح ہونے کی اساس ہے، چنانچہ یورپیوں نے ارتقاء کے دعوے کو ثابت کرنے کےلیے علم ِ حیات سے فائدہ اٹھایا کہ یہی زندہ کائنات کی زندگی میں طبعی قانون ہے۔ یوں فرانسن میں جارج دی بوفوں کے ہاتھوں طبعی ارتقاء کا مکتبہ فکر وجود میں آیا۔ اس کے بعد برطانیہ میں ڈارون نے اپنے نظرئیے میں طبعی صورت حال کے مکتبہ فکر کے افکار اور طبعی ارتقاء کے مکتبہ فکر کے افکار کو گڈمڈ کرنے کے بعد نظریہ ارتقاء ( نشونما اور ارتقاء) کا اختراع کیا۔
یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داریت اور اشتراکیت کو وضع کرنے والے ڈارون کے نظرئیے کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ارتقاء و ترقی اور تجدید فطری قوانین میں سے ہیں اور ناگزیر ہیں، یہی نظاموں اور افکار کو زندہ رکھتے ہیں جس سے وہ نشونما پاتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں، جو ترقی نہیں کرتا وہ سکڑ جائے گا اور بلا آخر فناء ہوجائے گا۔یہ دعوی ہی ان کے نظاموں اور قوانین کی ناکامی کا اعتراف ہے مگر اس کے لیے لگے لپٹےالفاظ کو استعمال کیا گیا ہے،یعنی اگر قانون اور نظام ان مسائل اورحالات کا حل دینے کی اہلیت اور استطاعت نہیں رکھتے جن کےلیے ان کو وضع کیا گیا ہو تو وہ قانون اور نظام ناکام اور فاسد ہیں۔ ان کو وضع کرنے والوں کی جانب سے ترقی اور جدت کے نام پر ان قوانین کو تبدیل کرنا دراصل ان قوانین اور نظام کے فاسد اور ناکام ہونے کو ترقی اور جدت کے نعروں میں چھپانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اگر وہ گہرائی سے سوچتے تو اس نتیجے پر پہنچتے کہ کسی بھی نظام یا قانون کی درستگی اور کامیابی کا معیار اس کے ان اصولوں اور اساس کی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے جس بنیاد پر وہ نظام کھڑا ہوتا ہے۔اگر وقت کے ساتھ نئے مسائل اورحالات وقوع پزیر ہوں اور یہ نظام اور قانون اپنے ان قواعد اور اساس سے ہٹے بغیر ان کا حل دے، تب یہ مؤثر اور کامیاب سمجھا جائے گا۔لیکن اگر قانون بنانے والے نئے پیدا ہونے والے حالات سے موافقت پیدا کرنے کیلئے زبردستی اس نظام کو تبدیل کرنے اور اس کو شکل دینے میں قانون کی فاسد تاویلات کرنے پر اتر آئیں تووہ اس کی اساس اور قواعد سےہٹ جائیں گے، اس کے مقاصد اور پیمانوں سے انحراف کریں گے، جو اس قانون کے فاسد ہونے اور نئے پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں اس کی ناکامی کی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نظام اور قوانین میں ارتقاء اور تجدید کا دعوی نظام اور قوانین کے خرابی اور ناکامی کے نتائج سے منہ چھپانے کی کوشش ہے۔ نظام اور قوانین کی صلاحیت کا معیار مسائل کا کامیاب حل دینے کی قدرت ہے، یہ ترقی کے جھوٹے عنوان کے تحت رنگ بدلنے ،توڑنے مروڑنے اور پیوندکاری کی صلاحیت نہیں۔
مسلمانوں کے ہاں اصلاح اور "تجدید" کے رجحان کی نشونما
فرانس نے 1798 ءمیں نیپولن کی قیادت میں مصر پر اور اس کے بعد فلسطین پر حملہ کر دیا۔ پھر 1801 ءمیں فرانس کے وہاں سے نکلنے پر محمد علی پاشا مصر کے حکمران بن گئے۔ اس نے مصر سے کچھ چنیدہ نوجوانوں کوسائنسی تعلیم حاصل کرنے کےلیے یورپ بھیجا۔ وہ جب واپس آئے تو ان میں سے کئی نوجوان نئے یورپی افکار جیسے جمہوریت، آزادیاں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رنگ میں رنگ چکے تھے، کیونکہ وہ یورپ کی صنعتی اور تہذیبی ترقی سے متاثرہوگئے تھے۔ انہوں نے مصر اور اس کے قرب وجوار میں ان نئے افکار کی نشرو اشاعت شروع کردی۔ اس گروہ کے نمایاں لوگوں میں سے رفاعہ الطہطاوی ،عبد الرحمن الکواکبی اور خیرالدین التونسی وغیرہ تھے۔
تہذیب اور نظام میں یورپ کی تقلید کی دعوت دینے والے اس نئے گروہ کے نتیجے میں ایک اورگروہ بھی وجود میں آگیا جو اسلام اور مغربی تہذیب کی ہم آہنگی کا داعی تھا اور یہ اصلاحی مکتبہ فکر کی تحریک تھی۔ اس گروہ کا سربراہ جمال الدین افغانی تھاجس نے مسلمانوں میں تجدید اور اصلاح کے افکار کی ترویج کرنی شروع کر دی۔جامعہ الازہر کے علماء کا ایک گروہ جمال الدین افغانی سے متاثر ہوا ، ان علماء میں نمایاں محمد عبدہ تھے جو بعد میں الازہر کے شیخ بن گئے، ان کے شاگردوں میں المنار میگزین والے محمد رشید رضا تھے۔ پھر یہ مرکزی اصلاحی گروہ جو سرمایہ درانہ آئیڈیولوجی کی تہذیب اور اسلامی آئیڈیولوجی کی تہذیب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا، یہ تحریکوں ،جماعتوں اور افراد کی شکل میں مسلمانوں کے مختلف علاقوں پھیل گیا۔
مسلمانوں کے ہاں اس اصلاحی مکتبہ فکر کی نمایاں دعوت تجدید اور دینی اصلاح کی فکر ہے۔ جب ہم اس فکر کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کے نصاری نے جو دینی اصلاح کی فکر کا نعرہ لگایا تھا، یہ فکر اسی سے مشابہت رکھتی ہے، جس کے نتائج میں سے نمایاں ترین چیز لبرلزم اور دین کی زندگی سے جدائی کو قبول کرنا تھا۔ اس اصلاحی مکتبہ فکر نے حکمرانی میں مغرب کی جمہوریت اور اس کے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو قبول کر لیا مگر اس کو تجدید اور موافقت کے پردے میں شرعی غلاف پہنادیا،مگر اس اصلاحی مکتبہ فکر نے اعلانیہ طور پر لبرلزم کی فکر کی حمایت نہیں کی جیسا کہ یورپ کے پروٹیسٹنٹ نے کیا، بلکہ انھوں نے اسلامی عقائد ،عبادات اور اخلاقیات پر قائم رہتے ہوئے مغرب کے اقتصادی اور حکمرانی کے نظام سے استفادہ حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
اصلاح پسندوں نے اسلامی شریعت کے ایسے امور میں چھان بین کے ذریعے دین کی تجدید کی کوشش کی جو مغرب کے نظاموں اور افکار میں سے اخذ کرنے کو جائز قرار دیتے ہوں۔ چنانچہ ان کو رسول اللہ ﷺ کی احادیث مل گئیں جو تجدید کی بات کرتی ہیں۔ یہ اور اس جیسا دیگر مواد ان کےلیے اصلاح اور تجدید کے پردے میں مغرب سے ہم آہنگی کےلیے دینی امور میں تبدیلی کا دروازہ ثابت ہوا۔ پھر یہ لوگ اصولِ فقہ کی طرف متوجہ ہوئے تو اس کو دیکھا کہ وہ ان کےلیے دروازہ بند کرتاہے اور ان کے مغربی نظاموں کو قبول کرنے کےلیے رکاوٹ ہے، مگر وہ تلاش اور تحقیق کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو ایک سراخ مل گیا جس کے ذریعے وہ داخل ہوئے اور یہ سراخ مقاصدشرعیہ اور مصالح مرسلہ کی ایسی تاویل کرنے کی سوچ ہے جس کے ذریعے اقتصاد اور نظامِ حکمرانی سے متعلق مغربی امور کو"وسیع تر مفاد" کےلیے قبول کیا جا سکے، یہ فرض کرتے ہوئے کہ مغربی تہذیب ہی تہذیب یافتہ ، ترقی یافتہ اور حکمت پر مبنی ہونے کا معیار ہے، اور اسلام کے احکامات کی اس کے ساتھ موافقت اور ہم آہنگی ضروری ہے۔
دین کی تجدید کی سوچ کے پروان چڑھنے کی یہ مختصر تاریخ ہے۔ مسیحی مغرب میں جو کچھ ہوا،یہ اس کے تجربے سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش اور اسی کی مشابہت ہے؛ مگر یہ امر گوہ کے اس بل میں داخل ہوناہے جس میں یورپ کے عیسائی داخل ہوئے اور اس کے نتیجے میں ان کے ہاں دین اور دنیا کی جدائی،خدا کے وجود کا انکار،دیگر منحرف عقائد اور نئے مذہبی فرقے وجود میں آئے جن میں کچھ بھی مشترک نہیں۔ کیا ہم مسلمان عیسائیت کے دین کو تباہ کرنے کے اس تجربے کی نقل کرنے کو قبول کر کے اس کو اسلام پر لاگو کر سکتے ہیں ؟ پھر یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ یہ دین کی تجدید ہے؟!
افکار کی اعصاب شکن جنگ کے دوران تجدید
موجودہ صدی کی ابتداء میں امریکہ نے سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کے قائد کی حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لبادے میں اسلام کے خلاف جنگ شروع کی۔ امریکہ کے سابقہ وزیر دفاع ڈانلڈ رمسفیلڈ نے 2003 ءمیں افکار کے خلاف جنگ کےلیے نئی ایجنسی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ دوبارہ شروع کی گئی پرانی جنگ ہے تاکہ اکیسویں صدی کے چیلنجوں کے خلاف مزید افادیت سے نمٹا جا سکے ۔ اسی طرح امریکی دانشور تھامس فریڈ مین نے افکار کی جنگ کے بارے میں مضامین کا ایک مجموعہ لکھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ جنگ مسلم معاشروں کے اندر ہونا ضروری ہے، یہ اعتدال پسندوں کو مضبوط کرنے سے ہوگا تاکہ وہ مغرب کی نیابت کرتے ہوئے انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کے افکار سے جان چھڑانے کےلیے اس مہم کو چلائیں۔
چونکہ امت میں اسلام کی طرف رجحان طاقتور ہوتا جارہا ہے اور اس کو ختم کرنا ناممکن نظر آرہا ہے، چنانچہ سرمایہ دار مغرب نے یہ محسوس کیا کہ بیدار اور مخلص مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ آج دوبارہ خلافت کے قیام کی دعوت کو مضبوط کیا جائے ، اور کس طرح امت میں یہ بڑھتا ہوا رجحان مغرب کیلئے خطرہ ہے،خصوصاً جب تہذیبوں کے تصادم میں مغرب زوال کی جانب گامزن ہے اور اسلام آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح مغرب نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے علاقوں میں موجودہ حکومتیں بے کار ہو چکی ہیں، ان کی عوام اور ان کے حکمرانوں کے درمیان اعتمادختم ہو چکا ہے۔ اسی لیے مغرب سمجھتا ہے کہ اسلام کے اقتدار تک پہنچنے سے پہلے ہی معاملے کو سنبھال لے، اسی لیے اس نے اسلام سے نمٹنے میں تیزی دکھائی۔ مغرب چاہتا ہے کہ تجدید اس کی مرضی کے مطابق دین کوپگھلا کر اس کو تبدیل کرنے اوراس کی نصوص کے فہم سے کھلواڑ کر کےاس کی مرضی کے طریقے پر ہو۔ مغرب اسلام سے ان مضامین کو نکالنا چاہتاہے جن کے خلاف وہ لڑ رہاہے اور جو مغربی تہذیب کو چیلنج کرتے ہیں، خصوصاً سیاست ،معیشت اور حکمرانی سے متعلق موضوعات۔
حالیہ دور میں اس کی جدوجہد سیاسی اسلام کے خلاف جنگ پر مرکوز رہی اور اس بات کی دعوت پر کہ اسلام صرف اخلاقیات، عبادات اور شعائر کی دعوت دیتاہے، اس میں کوئی ریاست کوئی شریعت کوئی سیاست اور کوئی جہاد نہیں۔ یہ دعوت شرعی مفہوم کے مطابق دین کی تجدید کی دعوت کے مخالف ہے۔ وہ نمونہ جس کو کافر مغرب نے مسلمانوں کو خلافت کے قیام اور اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرنے سے دور کرنے کےلیےاختیار کیاہے وہ یہ ہے کہ مغرب نے اسلامی تحریکوں پر اسلامی سیاست سے دستبردار ہونے کے لیے سخت دباؤڈالا ہوا ہے، ان کو ختم کرنے کی دھمکی دیتاہے،اوراسلام میں سیاست کی عدم موجودگی کا جھوٹ بول کر ان کو صرف خیراتی اور اخلاقی کاموں اور عبادات کی اجازت دیتاہے۔
اسلام کا مقابلہ کرنے کےلیے استعماری کافر کی پالیسی یہ ہے کہ ایسے آلہ کار تیار کیے جائیں جو اس کی پالیسی سے مطابقت رکھیں، دین کی تجدید کے نام پر اسلام کے نئے قواعد اور اصول بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس من گھڑت تجدیدی تجاویز میں اصول دین کی تجدید ، نئے فقہ کی ضرورت، حقیقت پسندی یا فقہ الواقع(حقیقت پسندی کا فقہ)، فقہِ ضرورت(ضرورت کا فقہ)، فقہ الموازنات(توازن کا فقہ)، دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی اور اسلام میں لچک شامل ہیں،تجدیدِ دین کا دعوی کرکے فقہ کے درست اصول کے نظم وضبط کے بغیر ٹیڑھے انداز سےمقاصدِ شرعیہ سےغلط فائدہ اٹھایا جاتاہے، اسی طرح موجودہ دور کے دینی نصوص کو پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
بدعت اور تجدید
موجودہ زمانے میں مغربی مفاہیم کے غلبے کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں دو شرعی مفاہیم کے درمیان الجھن نظر آنے لگی: تجدید کا تصور اور بدعت کا تصور۔ اسلام میں تحقیق کے موضوع میں ان دونوں تصورات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اس لیے ان میں الجھن درست نہیں ۔ اسلام نے تجدید کی تصدیق کی ہے اور اس کی دعوت دی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلام نے بدعت سے منع کیا ہے اور اس کو گمراہی قرار دیا ہے۔ ان دونوں تصورات کے درمیان فرق دلائل کی طرف رجوع کرنے سے واضح ہوتاہے، چنانچہ حدیث میں ہے
«إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدِّد لها دينها»
"اللہ اس امت کےلیے ہر سو سال کے شروع میں ایک شخص بھیجتاہے جو اس امت کےلیے اس کے دین کی تجدید کرتاہے" ۔
اس باب سے متعلق دوسرے دلائل سے اجتناب کر نا درست نہیں جیسے رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے
«وإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار»
"ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے"۔
اسی طرح آپ ﷺکےاس قول سے:
«من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
"جو ہمارے اس دین میں ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں سے نہیں تو وہ بات مسترد ہے" ۔
بدعت کی دو شکلیں ہو سکتی ہیں: جو کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو شریعت میں ثابت نہیں اور اس کو دین میں شامل کرے تو اس نے بدعت کی، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے :
«من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
"جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہیں تو وہ بات مردود ہے" ۔
اسی طرح جس نے اس چیز کا انکار کیا جو شریعت سے ثابت ہو اس نے بھی بدعت کا ارتکاب کیا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿أَّفَتُؤۡمِنُونَ بِبَعۡضِ ٱلۡكِتَٰبِ وَتَكۡفُرُونَ بِبَعۡضٖ﴾
"کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو"(البقرۃ:85)۔
چنانچہ بدعت کوئی نئی چیز پیدا کرکےدین میں ایسی چیز کا اضافہ کرنا ہے جو دین میں سے نہیں۔ یوں بدعت کا مفہوم دین میں کسی چیز کا اضافہ یا کمی کرنا ہے ، زیادہ تر یہ اضافہ ہی ہوتا ہے، وہ بھی ایسے معاملات میں جن کی شرعی کیفیت مقرر ہیں-یہ عبادات جیسے نماز اور حج کے ساتھ خاص بھی ہو سکتا ہے۔چنانچہ مغرب کی نماز کی تین رکعتیں ہیں، لہٰذا جو اس میں اضافہ کرکے اس کو چار یا پانچ کرے تو یہ بدعت ہے اور یہ کام حرام ہے۔ اسی طرح کرونا وائرس کا بہانہ بناکر نماز میں فاصلہ بدعت اور حرام ہے کیونکہ یہ صفیں سیدھی رکھنے اور مل کر کھڑے ہونے کی شرعی کیفیت کو تبدیل کرنا ہے۔ اسی طرح روح کو تقویت پہنچانے کے نام پر جسم کو تکلیف دینا اور اس کو حلال نعمتوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنا بدعت ہے اور ہندو فلسفے سے ماخوذ ہے۔
اصولِ فقہ میں نئے دلائل لانے کی کوشش بھی بدعت ہے جیسے درء المفاسد(فساد کو دور کرنے) اور جلب المصالح(مفاد کو حاصل کرنے) کے نام سے سرمایہ دارانہ فائدے اور نقصان کو داخل کرنا۔ جو بھی مغرب کے جدید کفریہ نظام کو مقاصدِ شرعیہ کےنام پر اسلام میں داخل کر کے لوگوں کو ان کے دین کے بارے میں شش وپنج میں ڈالنا چاہتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں بدعت دین میں اس چیز کا اضافہ تھا جو دین میں سے نہیں، جبکہ موجودہ زمانے میں دین میں کمی کرکے، خاص طور پر سیاسی اور معاشی نظام کو نکال کر بدعت کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
جہاں تک تجدید کا تعلق ہے، تو یہ ایک حقیقی امر ہے جس کی ضرورت پڑتی ہے ، جو ہر صدی میں واقع ہوتا ہے اور جس سے دین تمام ملاوٹوں سے پاک ہو جاتا ہے جب اس میں سے لا تعلق چیزیں نکال دی جاتی ہیں اور پہلے کی نکال دی گئی چیزیں واپس کر دی جاتی ہیں ، یوں مجدد اسی طرح دین کوواپس لوٹا تا ہے جس طرح وہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ تجدید سے ہرگز مراد دین میں کسی ایسی نئی چیز کا اضافہ نہیں جو اس میں سے نہیں، کیونکہ دین میں کوئی ایسی جدید چیز لانا جو اسلام میں سے نہیں یہ دین میں بدعت اور قابل مذمت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تجدید سے مراد مردہ کو زندہ کرنا ، جو منہدم ہوگیا ہے اس کو دوبارہ تعمیر کرنا اور جواضافہ ہوگیا ہے اس کو زائل کرنا ہے ، یعنی اسلامی فکر کی صفائی کرنا اور اس کو چمکانا ہے ،اس کو اس طرح صاف شفاف بنانا ہے کہ وہ اس قابل بن جائے کہ اس کے ذریعے دوبارہ نشاۃِ ثانیہ حاصل ہو جائے۔
تجدید کے اہم ترین امور میں سے ایک معاملہ ان نئی حرام بدعات کا تعین ہے جن کو مختلف اسلامی ادوار میں ایجاد کیا گیا اور ان کو زائل کرنا کیونکہ یہ بدعتیں ہیں جن کی دین میں کوئی جگہ نہیں مگران کو دین سے جوڑ دیا گیا ۔ ہاں اگر نئی چیزیں ایسی نہ ہوں جن پر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان لاگو ہوتا ہو :
«من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»
"جو ہمارے اس دین میں ایسی کوئی نئی بات لائے جو اس میں سے نہیں تو وہ بات مردود ہے"،
اور وہ بات اصلا ًاسلام سے ہی ہو اور مفہوم مخالف کے مطابق مردود نہیں بلکہ اسلامی ہونے کی وجہ سے مقبول ہو، تو وہ بدعت محرمہ نہیں بلکہ ایک اچھی نئی بات ہے جس کو مجازا "بدعت حسنہ" قرار دے کر قبول کیا جا سکتاہے۔ اس قسم کی نئی باتیں جو اسلام کا حصہ ہیں تجدید کے باب میں شامل ہیں۔ یہ مستحسن تجدید ہے اور اسلام میں سنن حسنہ کے ضمن میں آتاہے۔
رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے اسلام میں سنن حسنہ کا مفہوم تجدید سے مطابقت رکھتا ہے:
«من سنَّ في الإسلام سنَّة حسنة كان له أجرها وأجر من عمل بها من بعده لا ينقص ذلك من أجورهم ...»
"جو اسلام میں کوئی سنت حسنہ (اچھا طریقہ) شروع کرے تو اس کا اجر اس کو ملے گا اور جو بھی اس کے بعد اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی اس کو ملے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی"، اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
سنن سے مقصود وہ قابل تعریف اعمال ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، اگر چہ نبی ﷺ کے دور میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کی نماز کو جماعت سے پڑھنے کا قول اس کی ایک مثال ہے کہ :(نعمت البدعة هذه)" یہ اچھی بدعت ہے"۔ کسی عمل کا حسن یا قبیح ہونا صرف شریعت سے ہی سمجھا جاتاہےجہاں سے اس عمل کے ثبوت کیلئے دلیل مہیا ہو سکتی ہے ورنہ وہ مذموم بدعت ہوگی ۔
اسلام میںٍ تجدید اور سنن حسنہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ جو کسی سنت حسنہ کی ابتدا کرتاہے وہ شرعی طور پر مطلوب ایک ایسے عمل کو انجام دیتاہے جس کے لیے شریعت نے کوئی خاص کیفیت اور خاص ہیئت مقرر نہیں کی ۔ وہ شخص یہ عمل ایسے متعین طریقے سے انجام دیتا ہے جو لوگوں کو اس عملِ خیر میں اس کی اقتداء پر ابھارتاہے۔ جبکہ تجدید میں سنن حسنہ بھی داخل ہیں اور اس کے علاوہ معاملات بھی جیسے مردہ سنتوں کا احیاء، بدعتوں کا ازالہ اور اس کے علاوہ ان مسائل کو حل کرناجو جدید دور کے ابھرتے معاملات کے نتیجے میں پیدا ہوچکے ہوں۔
جس تجدید کی مسلمانوں کو دائمی ضرورت رہتی ہے وہ ان اہم مسائل کا حل ہے جو اس زمانے میں امتِ مسلمہ کےلیے اہمیت کے حامل ہوں اور مسلمانوں کو ان مسائل کے بہترین تجدیدی حل کی ضرورت ہو۔ اس کی ایک مثال خراج کا وہ تصور ہے جس پر سیدنا عمر فارق رضی اللہ عنہ نے عمل کیا۔ آپؓ سمجھ گئے کہ ریاست ، افواج کے مفادات پر خرچ کرنے اور فقراء کو کھلانے وغیرہ کےلیے بیت المال کیلئے اضافی اور دائمی ذریعہ آمدن کا موجود ہونا لازمی ہے۔ اس کی مثالوں میں سے ایک اور مثال امام شافعی کی جانب سے ایسے وقت میں علم ِاصولِ فقہ کے قواعد وضع کرنا ہے جب امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے باہمی فقہی اختلافات کے بڑھنے سے بہت سے سوالات نے جنم لیا جنہیں لازماً اسلامی فقہ کے اصول اور قواعد وضع کر کے حل کرنے کی ضرورت تھی ۔ تجدید کی مثالوں میں سے"وقف" کا تصور بھی ہے جس کو مسلمانوں نے مسلم معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کفائی فرائض کو ادا کرنے کےلیے ایجاد کیا جن کی ادائیگی کا ان کو حکم دیا گیا تھا، جس میں مالدار لوگ کچھ جائیدادیں اور زمینیں یا اموال عام مسلمانوں کے فائدے کےلیے صدقہ جاریہ کردیتے ہیں،(الوعی میگزین شمارہ 407 /اگست 2020 سے "تجدید کی فقہ" کا موضوع)۔
بدعت اور تجدید میں فرق کو واضح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تجدید کی فکر کا شریعت میں سے ہی کوئی ماخذ ہونا چاہیے۔لہٰذا سیدنا عمرؓ نے خراج کے حوالے قرآن کی اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کیا:
﴿وَٱلَّذِينَ جَآءُو مِنۢ بَعۡدِهِمۡ﴾
"اور جو لوگ ان کے بعد آئیں گے"(سورۃ الحشر:10) ،
یعنی وہ مسلمان جو فاتحین کے بعد آئیں گے، ان کیلئے مالِ فئے میں حصہ ہوگا یعنی خراجی زمین کی ملکیت میں، اور صحابہؓ نے آپؓ کی اس رائے کو قبول کیا۔ اسی طرح خیراتی اوقاف کی اصل رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث ہے:
«إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية ...»
"جب کوئی بنی آدم مرتاہے تو سوائے تین چیزوں کے اس کا ہر عمل منقطع ہو جاتا ہے: صدقہ جاریہ۔۔۔" ،
لہٰذا اوقاف صدقہ جاریہ کے باب میں داخل ہے۔ اصولِ فقہ کے علم کی جڑیں بھی قرآن، سنتِ نبوی ﷺ، آثار صحابہ و فقہاء میں موجود ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ان قواعد اور اصول کو جمع کرکے مرتب کیا، ان کو وسعت دی اور ایک نئے علم کو وجود بخشا۔ اس لیے وہ تمام نئی باتیں جن کی شریعت میں کوئی اصل ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے مفہوم ِمخالف کے ماتحت آتے ہیں : «ما ليس منه»"جو اس دین میں سے نہیں"، یعنی جو اس دین میں سے ہی ہیں، یعنی ان کی اصل اسی دین میں موجود ہے تو ایسی نئی بات مقبول ہے اور یہ مستحسن تجدیدی امر ہے۔اس میں نئی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے مصائب ،ضروریات اور مسائل کا ادراک کرکے ان کا نیا حل وحی سے متصل معتبر اصولوں کی بنیاد پر شریعت سے نکالا جاتاہے ، ایسا حل نہیں کہ جس کا کوئی اصل نہ ہو یا وہ ظنی اصولوں جیسے مصالح اور مقاصد شرعیہ میں موجود چور دروازوں پر اعتماد کرتا ہو ، یہ اساس سے ہی غیر اسلامی چیزوں سے متاثرہ حل ہیں، اس لیے یہ شرعی تجدید کے زمرے میں ہی نہیں آتے، بلکہ یہ بدعت ہیں۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کو جن مستحسن تجدیدی امور کی پابندی کی ضرورت ہے وہ اسلامی افکار اور احکامات پر اعتماد کے متزلزل ہونے کا حل نکالنا ہے جو مغربی تہذیب کی مسلمانوں کے خلاف فکری یلغار سے پیدا ہوا، خاص طور پر سیاست، اقتصاد اور حکمرانی کے حوالے سے، اس لیے اس دور میں درپیش اس عظیم مہم کو سر کرنے کےلیے ایک مجتہد مجدد کی ضرورت ہے۔
ارتقاء کے دعوے کے ساتھ تجدید کا تعلق
بشمول مسلمانوں کے ،عالمی سطح پر "ارتقاء" کی اصطلاح کے مثبت انداز میں عام ہونے کے شدید خطرے کے سبب اس اصطلاح میں موجود تلبیس اور کجی کو واضح کرنا ، اس اصطلاح کو کسی دوسری مناسب اور حقیقی اصطلاح سے تبدیل کرنا اور اس خیالی اصطلاح کے استعمال سے باز آنا ہمارے لیے ضروری ہے۔
ارتقاء ایک چیز کا ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں تبدیل ہونا ہے، جس کا مطلب ہے ایک چیز کی تدریجی انداز میں بہتر اور اچھی شکل کی طرف تبدیلی۔مغرب کے نزدیک ارتقاء کا مفہوم جدت ،تہذیب اور ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے جدت اور تہذیب یافتہ ہونا اگرچہ ارتقاء کے معنی نہیں رکھتے مگر اس کے معنی کے قریبی الفاظ میں شمار کیے جاتے ہیں، یعنی یہ ان کے نزدیک ارتقاء کے لفظ کے مترادف ہیں۔اسی لیے دین کے ارتقاء کا مطلب دین کو اس طرح تبدیل کرنا ہے کہ وہ تہذیب اور جدت سے ہم آہنگ ہو اور ہر اس چیز کو ہٹانا جو چیز اس کو بہتر کرنے کی راہ میں روکاوٹ بنے ۔
جبکہ تجدید کا معنی کسی چیز کو پھر سے نیا کرنا ہے یعنی پہلی بار اس کو بناتے وقت وہ جس صورت میں تھی اس کو اسی صورت میں واپس لانا ہے۔ کپڑے کی تجدید یہ ہے کہ اس کو درست کیا جائے اور جو اس کے ساتھ لگ گیا ہے اس کو ہٹاکر ایسا کیا جائے گویا کہ وہ دوبارہ نیا ہو جائے۔ کسی مشین کی تجدید اس کو صاف اور ٹھیک کرکے اس کو اس کام کے قابل بنانا ہے جس کام کےلیے اس کو بنایا گیا تھا ، اس طرح کہ وہ با لکل نئی جیسی ہو جائے۔ یوں تجدید کسی چیز کو اس کی اصل اور ابتدائی حالت کی طرف لوٹانا ہے تاکہ وہ وہی کام کرے جس کے لیے اس کو بنایا گیا تھا۔
فکری نقطہ نظر سے ارتقاء اور تجدید میں یہ فرق ہے کہ ارتقاء میں کسی چیز کی اصل کی حفاظت اور اس کو اپنے اصل کی طرف لوٹانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایسی تبدیلی مقصود ہوتی ہے کہ اس کو تبدیل کرکے تہذیب اور جدت سے ہم آہنگ کی جائے اور ان افکار کو ہٹادیا جائے جو اس تبدیلی اور ارتقاء شدہ جدت کی طرف پیش رفت کی راہ میں روکاوٹ ہیں، چاہے اس کے لیے اس کی اصل کو ہی کیوں نہ تبدیل کرنا پڑے۔ جبکہ تجدید کسی چیز کی اصل اورروح کی حفاظت کی خاطر اس کی اصلاح کرنا اور اس کے ساتھ چمٹی غیر متعلقہ چیزوں کو الگ کرنا ہے۔
یوں دین کے ارتقاء کا معنی اس کے افکار کو تبدیل کرکے اس کو ایسا بنانا ہے کہ وہ تہذیب اور جدت کے ساتھ ہم آہنگ ہو اورجو اس کو بہتر کرنے کی راہ میں روکاوٹ ہو اس کو ہٹانا، اسی لیے اس کے ذریعے بعض ایسے افکار کو بھی دین میں داخل کیا جاتا ہے جو چاہے اس کے اصول کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں؛ لیکن چونکہ وہ تہذیب یافتہ اور جدید ہے اس لیے اسی کے ذریعے ترقی ہوگی۔ جبکہ تجدید کے معنی دین کو بہتر طریقے سے سمجھنا اور اس کو دوبارہ اسی حالت میں واپس کرنا ہے جیسے وحی میں اس کو اتارا گیا تھا، شرعی نصوص کی حقیقت کو درست شکل میں سمجھنا اور اس میں سے ان امور کو ہٹانا جو اس میں سے نہیں اور اس کی سمجھ کو ضعیف کرتے ہیں۔ یہ فکر کو شفاف کرنے، چمکانے اور دین میں کی گئی تحریف کو چھپانے اوراس دین کو بدصورت دکھانے کے عوامل سے پاک کرناہے۔
بعض لوگوں کی جانب سےارتقاء کی اصطلاح سے مراد کمال اوربہتر بنانا لیاجاتاہے، یعنی اشیاء اور معاملات کو سمجھنے میں بہتری اور صنعتوں میں مہارت کو بہتر بنانا؛ مگر یہ معنی ہی کمال کے مفہوم کو ارتقاء کے مفہوم کے ساتھ خلط ملط کرنا ہے؛ کیونکہ کمال پرانی چیز میں بھی ہو سکتا ہے اور جدید چیز میں بھی لیکن ارتقاء صرف پرانی سے نئی چیز ہی کی طرف ہو سکتا ہے کیونکہ ارتقاء ایک حالت سے بہتر حالت کی جانب تبدیلی ہے۔
لہٰذا مغرب میں ارتقاء کے نظرئیے کے تحت یہ فرض کیا جاتاہے کہ ہر نئی چیز ارتقاء شدہ(ترقی یافتہ)ہے اور یہ پرانی سے بہتر ہے۔ ارتقاء کی یہ فکر اس مفروضے پر مبنی ہے کہ تاریخ میں کبھی زوال کا دور نہیں آیا، جبکہ حقیقت اور تاریخ کے حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ کمال اور بہتری قدیم اشیاء میں بھی ہو سکتی ہے اور جدید میں بھی ،کمال کا زمانہ قدیم سے کوئی تعلق ہے نہ ہی زمانہ جدید سے ، بلکہ کمال کا تعلق امور کے فہم اور ادائیگی کی کیفیت سے ہے۔ چنانچہ اصولِ لغت، اصولِ دین اور فقہ کے علوم قدیم علوم ہیں اور آج ایسے کوئی علماء نہیں جو ان قدیم علماء کی برابری کرسکیں یا ان کے قریب بھی ہوں، جنہوں نے ان علوم میں مہارت حاصل کی اور ان کا فہم حاصل کرنے اور ان کی تالیفات میں کمال حاصل کیا۔
رہی بات ارتقاء کے مسئلے کو جدید صنعتوں کے ساتھ خلط ملط کرنے کی،تو ان میں ترقی یورپ میں نئی آئیڈیالوجی کے نتیجے میں ہوئی جس کے نتیجے میں ہر میدان میں ترقی ہوئی جن میں صنعتی سائنس وغیرہ شامل تھیں، مگر اس کا زمانے یا ارتقاء سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں مسلمان بھی سائنس میں بہت آگے اور ترقی یافتہ تھے مگر مسلمان فکری انحطاط کی وجہ سے پسپاہوئے اور پیچھے رہ گئے۔
اس لیے "ارتقاء" کی اصطلاح کو چھوڑ کر اس سے بہتر ، اس سے گہری اور درست اصطلاح"کمال"(احسان) کو اپنانا ضروری ہے۔
تجدید یا ارتقاء کب ناگزیر ہو جاتا ہے؟
جب کسی معاشرے میں مسائل کے انبار لگنے لگتے ہیں اور نظام و قوانین ان کو حل کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں ،جب اوپر تلے مسائل کے ڈھیر لگتے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، تو لوگ ان اسباب کو تلاش کرتے ہیں جو ان مسائل کو پیچیدہ کرتے ہیں۔ تب ان کو ان نظاموں اور قوانین کی تجدید یا ترقی میں راستہ نظر آتاہے۔ اسی طرح معاشرے کے افکار اور مفاہیم کے ساتھ بھی یہی ہوتاہے۔
یہ بات اس وقت درست ہوتی ہے جب یہ نظام ، قوانین اور مفاہیم کسی ایسے قطعی درست فکری قاعدے سے نہ پھوٹتے ہوں بلکہ انسانوں کی جانب سے خود ساختہ قوانین، نظام اور مفاہیم ہوں، تب انسانوں کے مسائل کے حل اور ایسے مفاہیم کی تلاش کےلیے جو تہذیب، جدت اور ترقی سے ہم آہنگ ہوں، اس فکر اور ان قوانین میں ترقی اور جدت کا جوازبنتا ہے۔لیکن اگر یہ فکر اور قوانین ایک ایسے قطعی صحیح فکری قاعدے پھوٹتے ہوں جو انسان کے خالق کی جانب سے ایک ربانی دین ہو، تب اس کی ترقی اور تبدیلی کی نہیں بلکہ صرف تجدیدکی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ اسلام اللہ کا وہ دین ہے جس میں باطل کسی بھی جانب سے داخل نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ انسان کے خالق کی طرف سے ہے اور وہی بہتر جانتاہے کہ ان انسانوں کےلیے کون سے افکار ، نظام اور قوانین بہترین ہیں۔ اس لیے انسان کے لیے اس دین کے اصولوں اور بنیاد کو چھیڑنا جائز نہیں نہ ہی ان احکامِ شرعیہ کو جو اس میں آئے ہیں کیونکہ یہ سب ربانی وحی کاہی حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں ترقی اور جدت کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ دین ربانی اس تمام حکمت والے ، ہر چیز کا علم رکھنے والے کی طرف سے ہے۔
ہمارا دینِ اسلام کو ترقی کی ضرورت نہ ہونے پر اصرار اس لیے بھی ہے کیونکہ جو لوگ مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب کے افکار کو جدت اور ترقی کے نام پر اسلام میں داخل کرنا چاہتے ہیں، یہ در حقیقت اس غالب تہذیب کی اندھی تقلید ہے، حالانکہ یہ سرمایہ دارانہ تہذیب اور اس کی آئیڈیالوجی انسا ن ہی کی بنائی ہوئی ہے جو یقینا ہر قسم کی غلطیوں، خلل، نقص اور تقصیر کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تہذیب کی بنیاد اور فکری قاعدہ ہی غلط ہے، عملی نفاذ میں اس کی ناکامی اس کے علاوہ ہے، اس نے دنیا کو ہولناک نتائج سے دوچار کیا ،غیر یورپی اقوام اور عوام کے حوالے سے جرائم کا ارتکاب کیا۔
رہی یہ بات کہ اس کے باوجود دین کی تجدید کیوں ضروری ہے جبکہ یہ ربانی دین ہے اور تبدیل نہیں ہوتا یا ترقی نہیں کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تجدید کا کتاب وسنت کے دینی نصوص کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس کا عربی لغت کی تبدیلی اور ترقی سے تعلق ہے۔ بلکہ اس سے مراد ، جیسا کہ ہم نے پہلےبیان کیا، یہ ہے کہ اسلام وہ دین ہے جس کو لوگ اپنی زندگیوں میں نافذ کرتے ہیں ،اس لیے اسلامی اور غیر اسلامی افکار کے درمیان کشمکش ہوتی ہے، نفاذ میں افراط وتفریط ہوتی ہے، نئے واقعات سامنے آتے ہیں جن پر احکامِ شرعیہ کو لاگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سب کے نتیجے میں غیر اسلامی افکار کے اسلام میں داخل ہونے کا احتمال ہوتاہے، افراط وتفریط اور واقعات کے احکامِ شرعیہ سے ربط کے ٹوٹنے کے نتیجے میں فہم کمزور ہوجاتاہے۔ ان عوامل کی موجودگی میں زیادہ زمانہ گزرنے کے نتیجے میں اسلام اور حقیقت کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے، اس کی وجہ سے تجدید کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔
جہاں تک عربی لغت کی تبدیلی کی بات ہے،کئی لغات زمانے کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں، یہ لغات کے بارے میں اللہ کی سنت ہے۔ اللہ تعالی فرماتےہے:
﴿وَٱخۡتِلَٰفُ أَلۡسِنَتِكُمۡ وَأَلۡوَٰنِكُمۡ﴾
"اور تمہاری زبانوں کا اختلاف اور تمہارے رنگوں کا"(سورۃ الروم:22)۔
چنانچہ آج عربوں کی جو زبان ہےیہ بعینہ وہی عربی لغت نہیں جس عربی لغت میں وحی نازل ہوئی بلکہ اس میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور زمانے کے ساتھ اس میں تغیر آیا اور یہ عام بول چال والے لہجوں کا ایک مجموعہ بن گئی۔ لغت میں تجدید کا مقصد عربوں کو فصیح لغت،یعنی قریش کی لغت جس میں وحی نازل ہوئی، اس میں بات چیت کی طرف لوٹا نا نہیں ہوتا، یہ نہایت مشکل راستہ ہے اور یہ شرعاً مطلوب بھی نہیں۔شرعاً مطلوب صرف یہ ہے کہ ہم وحی کی نصوص کو اس آلے کے ذریعے سمجھیں جس میں وہ نازل ہوئی اور وہ اس وقت کے عربوں کی زبان ہے۔وحی کے منقطع ہونے کے بعد اس میں جو بھی تبدیلی واقع ہوئی وہ کوئی حجت نہیں اور نہ ہی اس پر توجہ دی جائے گی۔
یوں تجدید شرعی نصوص کی اس لغت میں صحیح فہم کے اعادے کا نام ہے جس میں وحی نازل ہوئی اور اس کے منقطع ہونے کے بعد سے لے کر آج تک عربوں کے ہاں اس میں تبدیلی اور اختلاف شامل ہو گیا۔ یہ اس لیے کہ معتبر شرعی خطاب وہ خطاب ہے جس میں وحی نازل ہوئی اور اس میں عربوں کو بطور عرب کے، ان نصوص کے فہم کے مطابق مخاطب کیا گیا۔ اس فہم کا زمانے کے ساتھ ترقی کرنا اور تبدیل ہونا جائز نہیں، بلکہ اس کی بالکل ایسی ہی حفاظت فرض ہے جیسے وحی کےنزول کے اختتام سے پہلے تھا۔ اسی لیے مجدد،مجتہد، مفسر،فقیہ اور شریعت کے تمام علماء کو اس عربی لغت اور اس لہجے کا ماہر ہونا چاہیے جو زبان اور لہجہ قریش اور عرب وحی کے نزول کے وقت بولتے تھے، تاکہ ان میں سے ہر ایک شریعت کے الفاظ کے صحیح معنی کو سمجھنے پر قادر ہو۔
پہلی صدی میں لغت کے ماہرین نے لغت کے کمزور ہونے کی ابتداء سے ہی عربوں کے فصیح قبائل کی تلاش شروع کی ،عربی لغت اور عربی شاعری کی کتابت اور تدوین کی ،جو عربی ادب کہلاتا ہے۔ انہوں نے اس کو سمجھنے کے لیے ضروری لغوی معارف ایجاد کیے جیسے بلاغت کے علوم، نحو، صَرف، لغت کی فقہ ، املاء اور رسم اور معاجم وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ لغت کے علماء اور اسلام کے علماء نے اس معاملے میں ہمیں خود کفیل کردیا ہے۔اب ضرورت ان علوم کو پڑھنے اور شرعی نصوص کو سمجھنے میں ان پر اعتماد کی ہے تاکہ ہم بھی ان کو ایسا ہی سمجھ سکیں جیسا رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ نے سمجھا اور یہی وہ کمال ہے جو درکار ہے۔
اسی طرح تجدید اس حقیقت کو سمجھنے سے بھی ہوگی جس پر وحی کے نزول کے اختتام سے پہلے شرعی احکامات نازل ہوئے یعنی مناط(حکم شرعی کے لاگو ہونے کی حقیقت) کو سمجھنا۔کسی فقیہ یا مجتہد کی جانب سے شرعی نصوص کا فہم، ان نصوص کے لغوی اور شرعی فہم کے قواعد کے مطابق صحیح ہوگا جس میں کوئی شک نہیں ہوگا لیکن بعض دفعہ اس حقیقت کو سمجھنے اور فرق کرنے میں مشکل درپیش ہوگی جس حقیقت کے ساتھ نص کا تعلق ہے۔ لہٰذا اگر ان نصوص کو ان کے واقعات اور مناطِ شرعی کے علاوہ کہیں دوسری جگہ لاگو کیا جائے تو ایسا کرنے سے خرابی پیدا ہوگی۔ اسی لیے علماء نے قرآن کے نزول کے اسباب اور احادیث کے وارد ہونے کے اسباب محفوظ کیے،انہوں نے مغازی اور سیرت لکھی تاکہ یہ نصوص کی حقیقت کو سمجھنے میں معاون بنے۔
اس امر میں تجدید ان جگہوں، آثار، حالات، ماحول اور طبعی شرائط کی جستجو ہے جو وحی کے نزول کے زمانے میں موجود تھے۔ اس کوشش میں ممکن ہے کہ تجدید کا فائدہ بڑھ جائے ، مثال کے طور پر شرعی وزن اور پیمانوں کی پہچان جیسے صاع، شرعی دینار، ذراع اور قُلٌۃوغیرہ، اُس وقت زیر استعمال قتال اور حرب کے آلات ، اُس وقت استعمال ہونے والے لباس اور کھانے کے برتنوں کی معرفت، شہروں اور دیہاتوں میں طرز تعمیر ،کنووں ،پانیوں، زراعت اور صنعت کے اسالیب کو سمجھنا۔ اس قسم کا علم بہت سارے امور کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے جیسے سفر، پانیوں، راستوں ، عمارتوں اور حقِ شفعہ وغیرہ سے متعلق شرعی احکامات۔ یہ سب علوم تحقیقِ مناط اوراس حقیقت کو سمجھنے میں مجتہد اور فقیہ کی معاونت کرتے ہیں جس حقیقت پرشرعی نصوص کا نزول ہوا تھا۔
اس لیے حرمین کی سرزمین میں واہیانہ بہانوں سے اسلامی آثار کو جو تباہ کیا جارہا ہے، یہ بہت بڑا جرم ہے، یہ اہم اسلامی آثار کو ملیامیٹ کر رہے ہیں جیسے نبی ﷺ کے گھر ،صحابہؓ کرام کے گھر ،قدیم مساجد وغیرہ۔ یہ مسلمانوں اور ان کی تاریخ کے خلاف جرائم ہیں۔ تمام اسلامی آثار کی حفاظت مقصود ہے ، خصوصاً وہ جو وحی کے نزول کے زمانے میں موجود تھے کیونکہ ان کا تعلق اس حقیقت کے ساتھ ہے جن کے بارے میں شرعی نصوص نازل ہوئے، یہ احکامِ شرعیہ کی حقیقت، سیرت النبی ﷺ اور مسلمانوں کی تاریخ کو سمجھنے میں کسی نہ کسی طرح ہماری مدد کرتے ہیں۔
اس لیے آج مسلمانوں کو جس تجدید کی ضرورت ہے وہ اسلام کو اسی طرح سمجھنا ہے جیسے وہ رسول اللہ ﷺ پر وحی کے نزول کے وقت تھا۔ اس کی تجدید ان شرعی نصوص کو سمجھنے اور ان احکامات کی مناط کو سمجھنے میں کمال کے ہدف کے ساتھ معین شرعی اور عقلی ضوابط کی پابندی کرنا ہے جن سے یہ نصوص جڑی ہوئی ہیں اور ان کو ان نئے واقعات پر لاگو کرنا جو اس حقیقت کے موافق ہیں جس کے بارے میں نصوص نازل ہوئے۔جب ایسی حقیقت رونما ہو جائے جن کے بارے میں ایسے شرعی احکامات موجود نہیں جن کا احاطہ سابقہ فقہاء نے کیا ہو، تو مجتہدین اور فقہاء اصولِ فقہ کے ضوابط کے مطابق ان نئے واقعات کےلیے اجتہاد کے ذریعے شرعی احکامات کا استنباط کریں گے۔