بسم الله الرحمن الرحيم
مودی کی حکومت نے اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں سمت کھو دی، حالانکہ اسلام ہندوستان کے لوگوں کے لیے ہندوستانی سرمایہ دارانہ نظام کے جبر سے نجات کا ذریعہ ہے
20 سے 22 جنوری تک، تین دنوں کے دوران، پولیس کے ڈائریکٹر جنرلز/انسپکٹر جنرلز کی 57ویں آل انڈیا کانفرنس منعقد ہوئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور ملک کے تقریباً 350 اعلیٰ پولیس افسران نے شرکت کی۔ ملک کے سیکورٹی چیلنجز پر کئی مقالے پیش کیے گئے، جن میں انہوں نے"بنیاد پرستی، خاص طور پر مسلم نوجوانوں کی" کا بہتان لگایا ۔ اسے قومی سلامتی کے لیے ایک اہم ترین چیلنج سمجھا جاتا ہے۔
جمع کرائے گئے کاغذات میں ان تنظیموں سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت کی نشاندہی کی گئی ہے، بشمول ان کی خفیہ سرگرمیوں کی نگرانی اوران کا ڈیٹا بیس بنانا۔
مقالوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی بنیاد پرستی کا عروج بنیادی طور پر اعلیٰ درجے کی مذہبی تعلیمات اور مواصلات کے جدید ذرائع کی آسان دستیابی کی وجہ سے ہوا جس میں خفیہ مواصلاتی ذرائع بھی شامل ہیں۔
پیش کیے گئےکاغذات میں سرحد پار دہشت گردی اور پاکستان کی طرف سے ان انتہا پسند گروپوں کی حوصلہ افزائی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ کاغذات میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں بہت سی بنیاد پرست اسلامی تنظیمیں ہیں، جو مسلم نوجوانوں کی منظم شدت پسندی میں ملوث ہیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان میں مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے اور انہیں تشدد کے راستے پر دھکیلنے کا موروثی رجحان ہے۔ ان کی جانب سے پھیلائے جانے والے تصورات جمہوریت اور سیکولرازم جیسی جدید اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان گروہوں میں سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا SIMI))، وحدت اسلامی، اسلامک یوتھ فیڈریشن، اور حزب التحریر شامل ہیں۔
جمع کرائے گئے کاغذات میں شدت پسند تنظیموں سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت کی نشاندہی کی گئی، جس میں خفیہ سرگرمیوں کی نگرانی، رہنماؤں اور ان جیسےدیگر لوگوں اورڈھانچوں کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا بیس بنانا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی کے ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی اور نگرانی پر زور دیا جانا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ کسی بنیاد پرست تنظیم کے شدت پسندی پھیلانے اور اس کے لوگوں کو تشدد کی کارروائیوں میں شامل کرنے کے امکان کے پیشگی تجزیے پر بھی زور دیا جانا چاہیے۔لہٰذا، اس لیے ایکشن پلان شروع کیا جائے۔
کانفرنس کے شرکاء اور عام عوام دونوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ کانفرنس ایک سازش ہے، اگر ہم اس میں پیش کی گئی باتوں پر غور کرتے ہیں ، جو سیکورٹی اہلکاروں کی رپورٹوں میں درج تھا۔ اگرچہ وہ مسلم نوجوانوں میں "دہشت گردی"، "انتہا پسندی" اور "عسکریت پسندی" سے نمٹنے کے موضوع پر بات کرتے نظر آئے، لیکن ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ وہ اسلام کے خلاف امریکہ اور مغربی استعماری ممالک کی طرف سے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے چھیڑی جانے والی جنگ کے تناظر میں ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ یہ گندی جنگ اس ہدایت اور روشنی کے خلاف جنگ ہے جو اسلام لایا ہے۔ اسلام وہ سچائی ہے جس سے سرمایہ دار ممالک، حکمران اشرافیہ اور ان کے لیے کام کرنے والے سرمایہ دار کمپنیاں اور بااثر لوگوں خوفزدہ ہیں ، جو لوگوں کی دولت اور صلاحیتوں پر پلتے ہیں۔ ان ممالک کی سربراہی امریکہ کررہا ہے، اس میں اس کے صلیبی اتحادی اور وہ تمام موجودہ سرمایہ دار ریاستیں اور ہندوستان کی اشرافیہ شامل ہیں جو امریکہ کے مدار میں چکر لگاتے ہیں ۔
لہٰذا عالمی سرمایہ داری اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے آلہ کار اسلام کو نشانہ اس لیے بناتے ہی کہ انہیں اُن مظلوم لوگوں کا خوف ہے جو سرمایہ داری کے تحت غربت اور تنگدستی کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں یہ مظلوم لوگ اسلام کی طرف رجوع کر لیں اور اس کی رہنمائی اختیار کرلیں۔ یہ اسلام ہی ہے جو لوگوں کے ساتھ انصاف کرے گا، اس لیے مظلوم لوگ ان لالچی لوگوں کے خلاف ہو جائیں گے، اور اسلام کو ایک سیاسی عقیدہ اور نظام زندگی کے طور پر حکومت کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
اگرچہ ہندوستان میں اقتدار کے لیے مقابلہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کی صلیبی جنگ کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہیں، لیکن وہ اس بات کی تعریف نہیں کرتے کہ جس اسلام کو وہ نشانہ بنا رہے ہیں، وہ واحد انصاف پسند ہے جس میں انسانیت ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو لوگوں کو ان نظاموں کے اندھیروں اور ظلم و ستم سے نکالتا ہے ، وہ نظام جو سرمایہ داروں کے ایک چنیدہ کلب نے معاشرے میں اشرافیہ کے فائدے کے لیے لگائے تھے۔ یہ اسلام کا انصاف ہے جو طاقتور اور کمزور، امیر اور غریب، سفید اور سیاہ، سرخ اور پیلا سب کو برابری فراہم کرتا ہے۔۔۔ یہ اسلام ہی ہے جو لوگوں میں عدل و انصاف کے ساتھ دولت کی تقسیم کرتا ہے۔اسلام کے وحی پر مبنی شرعی احکام جو انتہائی منصفانہ اور قطعی ہیں۔ اسلام کا منصفانہ برتاؤ اس قدر مشہور و معروف ہے کہ منصفانہ سوچ رکھنے والے غیر مسلم مفکرین بھی اس کی گواہی دیتے ہیں، اس کے علاوہ ہر وہ شخص اس حقیقت کو جانتا ہےکو جو اسلام کے عقیدہ اور احکام کا علم رکھتا ہے۔
لہٰذا، ہم دیکھتے ہیں کہ کانفرنس کے شرکاء نے اپنا اخلاقی سمت کھو دی ہے۔ انہوں نے انسانیت کو تباہ کرنے والی برائی کے بجائے نیکی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ لہٰذا کانفرنس کے تمام شرکاء اور عام لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کا صحیح اور درست فہم حاصل کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبداری سے اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہمیں احساس ہے کہ سرمایہ داروں کے منہ میں اسلام کا ذائقہ کڑوا ہٹ گھول دیتاہے۔ تاہم یہ عقل رکھنے والے ذہنوں کے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محکوموں کے منہ میں میٹھاہٹ گھول دیتا ہے، اور ایسے لوگوں کی ہندوستان میں اکثریت ہے، مسلمان اور غیر مسلم دونوں میں۔
اسی طرح کانفرنس میں جن اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور دیگر اسلامی تحریکیں، حزب التحریر کی زیر قیادت اسلامی تحریکیں ہیں جو حق کو قائم کرنے اور انسانی نظریات، جن میں سب سے نمایاں ہے ظالم سرمایہ دارانہ نظام ہے، کے باطل کو ختم کرنے کے لیے امت کے اندر اور اس کےساتھ کام کرتی ہیں ۔ یہ اسلامی تحریکیں اسلام ہدایت اور روشنی کا پیغام انسانیت تک پہنچاتی ہیں۔ اسلام اور اس کے لوگوں میں، یا ان تحریکوں اور دیگر اسلامی تحریکوں میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ایک ایسے "دہشت گرد" کو جنم دیتی ہو جو پرامن لوگوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے خون اور عزت کو پامال کرتا ہے، یا لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس حدیث نبویﷺ کو پڑھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں،
لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا
"کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو دہشت زدہ کرے۔"(ابو داؤد)۔
مزید برآں، "دہشت گردی"، "انتہا پسندی" اور "عسکریت پسندی" دنیا کے مختلف ممالک میں سرمایہ دارانہ حکومتوں اور "سیکیورٹی" ایجنسیوں کی تخلیق ہیں، جس میں ہندوستان کی حکومت اور اس کی "سیکورٹی" ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر کچھ اسلامی تحریکوں پر تشدد کے الزامات لگائے۔ وہ اسلام اور اس کے لوگوں کو "شیطان" قرار دینے کے لیے ان پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں، تاکہ وہ انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنے والے مسلمان کارکنوں پر اپنے ظلم و ستم کا جواز حاصل کر سکیں۔یہ ان کی طرف سے اسلامی ریاست کے قیام، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام سے امت اسلامیہ کے عروج حاصل کرنے کے معاملے کو التوا میں ڈالنے کی مایوس کن کوشش ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی اور تمام لوگوں کے مکمل مفاد کے مطابق حکومت کر کے انسانیت کے لیے ایک روشن مثال قائم کرے گی ۔ پھر سرمایہ دارنہ نظام کے چہرے سے جھوٹے نقاب گر جائیں گے اور ساتھ ہی وہ پردے بھی جو اس نظام کے نقائص کو چھپا رہے ہیں۔ سرمایہ داریت کے انچارج اور اس کی بدعنوانی سے فائدہ اٹھانے والے بھی زوال پذیر ہوں گے، جبکہ لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
"اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔"(الانبیاء،21:107)۔
سرمایہ دارانہ اور سیکولر اقدار جن کو مسلم نوجوان مسترد کرتے ہیں، نیز کانفرنس میں جن سفارشات کے بارے میں بات کی گئی، یہ وہ اقدار ہیں جنہوں نے انسانیت کو پستی سے مزید پستی میں پہنچا دیا ہے۔ سرمایہ داریت نے، اپنی آزادیوں سمیت، معاشروں کو حیوانی معاشروں میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں مرد مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے ، عورت عورت کے ساتھ کرتی ہے ، اور یہاں تک کہ مرد جانور کے ساتھ بھی یہ تعلق قائم کرتا ہے۔۔۔ اس نے معاشرے کو تباہ کر دیا اور لوگوں نے ایک مستحکم اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے خاندانی نظام کو رجعت پسند اور پسماندگی کی نظر سے دیکھتے، ، جبکہ درندوں کی طرح زندگی گزارنے کو جدیدیت اور مہذب سمجھا جاتا ہے!
اس کے بعد نسل پرستانہ اقدار ہیں، جو ایک ایسا نعرہ بن گئی ہیں جس پر بہت سے سیاست دان فخر کرتے ہیں، اور اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نعرے اور ایجنڈے کے طور پر اس کو اپناتے ہیں، جن میں سے کئی نسل پرست بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھی شامل ہیں۔ نسل پرست مودی کی قیادت کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی ہے جو حال ہی میں بی بی سی نے نشر کی تھی۔ ان کی حکومت نے ہندوستان میں اس کی نشریات کو روک دیا، کیونکہ اس میں 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری مودی پر عائد کی گئی ہے۔
پھر وہ ان اقدار میں سے ایک کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس کی سیکولرسٹ بہت پرچار کرتےہیں، جو کہ آزادی رائے ہے۔ آزادی رائے کی بات کرنے کے باوجود، انہوں نے سیکورٹی سروسز کو سیکورٹی کے بہانے مرد اور اس کی بیوی اور بھائی اور بھائی کے درمیان خط و کتابت کی جاسوسی کرنے کی اجازت دی۔ اس عمل کا مقصد درحقیقت اس نظام کو برقرار رکھنا ہے جو کرپٹ حکمرانوں اور سرمایہ دار اشرافیہ سمیت سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
تو، کیا یہ قدریں بلند و بالا اقدار ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایک شخص کو جدوجہد کرنی چاہیے، یا وہ ادنیٰ اقدار ہیں جنہیں اسے ترک کرنا چاہیے؟!
ہر ایک جو سوچ میں توازن رکھتا ہے اسے اس نظام اور ان زوال پذیر اقدار کو ترک کرنا چاہیے، جیسا کہ مسلم نوجوان کررہے ہیں، جن کا اس کانفرنس میں ذکر کیا گیا ۔ تو کیوں ان نوجوانوں کا تعاقب کیا جائے اور ان کی حکمت اور متوازن سوچ سے لوگوں کو ڈرایا جائے ؟ مودی اور ان کے اردگرد کے بدعنوان لوگوں کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور ان کا احتساب ہونا چاہیے۔
ہمیں یقین ہے کہ حق اور باطل کے درمیان جدوجہد جاری رہے گی جس میں حق کی نمائندگی اللہ تعالیٰ کے دین نے کی ہے، اور باطل کی نمائندگی اب لالچی سرمایہ دارانہ نظام کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ باطل پر حق کی فتح نہ ہو جائے، اور یہ بہت جلد ہو گا، ان شاء اللہ۔ ہمیں یقین ہے کہ انسانیت کو اسلام کی وسعت اور عدل کی طرف آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ تاہم، خود سے، اپنے خاندان اور اپنے لوگوں کے لیے عقلمند اور مخلص وہی ہے جو قوموں، قبیلوں اور ملکوں کی طرح اسلام میں داخل ہونے میں جلدی کرے۔وہی ہے جو سرمایہ داریت اور اس کے اعضاء کو جھاڑتا ہے۔ وہی ہے جو اپنے آپ کو، اپنے خاندان کو اور اپنے لوگوں کو انسانی نظاموں کی سختیوں سے بچاتا ہے۔ وہی ہے جو اپنے خالق کو راضی کرتا ہے، جس نے اسے پیدا کیا اور اس کے لیے زمین و آسمان کے برابر وسیع جنت تیار کی۔ پس وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا کی زندگی میں جہنم کی آگ اور مشقت سے ڈرایا ہے، جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے،
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا* قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى * وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى
"اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔اللہ فرمائے گا کہ ایسا ہی (چاہیئے تھا) تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تونے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے۔"(طہ، 126-124)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی ریڈیو نشریات کے لیے بلال المہاجر نے پاکستان سے لکھا