بسم الله الرحمن الرحيم
جہاد اسلامی جنگ ہے جو ریاستِ خلافت کو مسلسل وسعت دیتی ہے
تعارف: اسلام کی رحمت کو پھیلانے کے لیے دعوت اور جہاد
جہاد اسلام کے اولین فرائض میں سے ایک ہے۔ لڑائی میں شہید ہونے والے یا فتح پانے والے کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے۔ جنگ کے ذریعے ریاستِ خلافت کی توسیع قرآن مجید، سنت نبوی ﷺ اور اجماع صحابہؓ سے ثابت شدہ ہے۔عظیم اسلامی تاریخ میں، مسلمانوں نے بہت سارے علاقے اسلام کے لیے فتح کیے، اور اُن میں رہنے والے لوگوں کو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے جبر سے آزاد کرایا۔ خلافت نے تمام انسانیت کو دعوت دی کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے اسلام کے نور سے رہنمائی لیں۔ کسی بھی خطے میں جب ایک بار ماحول تیار ہو جائے تو ریاستِ خلافت جنگ کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل مادی رکاوٹوں کو دور کرتی ہے۔پھرغیر مسلموں کو ان کے مذہب اور جان و مال کے حوالے سے تحفظ فراہم کرتی ہے اوریوں اس بات کے لیے راہ ہموارہو جاتی ہے کہ غیر مسلم خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیں۔ یہ ہےوہ اسلامی فوجی ڈاکٹرائن( نظریہ) جسے مسلمانوں نے صدیوں تک اختیار کیے رکھا۔
درحقیقت جہاد مغربی استعمار کی جنگ سے مکمل طور پر مختلف ہے جس کا مقصد زمینوں پر قبضہ، ان میں موجود وسائل کی لوٹ مار اور وہاں رہنے والے لوگوں کے بے دریغ قتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جہاد کے حوالے سے معذرت خوا ہا نہ رویہ ہرگزاختیار نہ کریں، اور شرمندگی کے ساتھ یہ موقف بیان نہ کریں کہ مسلمانوں کی تمام سرحدیں متعین اور دائمی ہونی چاہئیں اور اُن میں کبھی توسیع نہیں کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کو جہاد کوویسے ہی سمجھنا چاہیے جیسا کہ اللہ نے اس کا حکم نازل کیا ہے۔ جہاد جارحانہ بھی ہے اور دفاعی بھی، اوریہ تمام بنی نوع انسان تک ہدایت کی روشنی پھیلاتاہے۔
جارحانہ جہاد انسانیت کے لیے رحمت لے کر آیا
اسلامی خلافت نے مسلسل جارحانہ جہاد کیا، ظالموں اور ان کے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا، اسلام کے نورکے ذریعے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کیا۔ مستشرقین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان کیا تھا۔ خلافت کے تحت، غیر مسلم شہری اپنے مسلم حکمرانوں کے کسی بھی ظلم سے محفوظ رہتے ہیں، کیونکہ اسلام خود غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے اور یہ حکم تبدیل نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا
"خبردار! جس نے کسی ایسے ذمی کو قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا، پس وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت(دُوری)سے آئے گی"(ترمذی)۔
اس طرح اسلام نے خلافت کے غیر مسلم شہریوں کے مکمل تحفظ کو یقینی بنایا، ان کے جان و مال کی حفاظت کی اور ان کی انفرادی مذہبی رسومات کو جبراً نہیں روکا۔ اللہ کی تلوار، خالد بن ولید ؓ نے جنوبی عراق میں الحیرہ کے علاقے کو فتح کرنے کے فوراً بعد خلیفہ ابوبکرؓ کو ایک خط لکھا، جس میں بتایا کہ کیسے انہوں نے جزیہ ٹیکس نافذ کیا ہے، اور اُن غیر مسلموں کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا ہے جو غریب، بوڑھے اور معذور تھے، آپ ؓ نے بیان کیا،
طُرِحَتْ جزيتُه وعيلَ من بيت مال المسلمين وعياله
"جزیہ سے مستثنیٰ ہونے پر، اس کی اور اس کے اہل خانہ کی مسلمانوں کے بیت المال سے مالی مدد کی جائے گی"۔
خلافت نے مفتوحہ علاقوں کی دیکھ بھال کی ،اور لوگوں کے اسلام میں داخلے کی راہ ہموارکی ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں غیر مسلموں کو جزیہ ٹیکس سے نجات دلانے کے لیے فنڈز مختص کیے گئے تھے۔امام ابو عبید القاسم نے اپنی ' کتاب الاموال ' میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارے میں نقل کیا ہے،كتب عمر بن عبد العزيز إلى عبد الحميد بن عبد الرحمن وهو بالعراق أن أخرج للناس أعطياتهم، فكتب إليه عبد الحميد إني قد أخرجت للناس أعطياتهم وقد بقي في بيت المال مال، فكتب إليه أن انظر كل من أدان في غير سفه ولا سرف فاقض عنه، قال: قد قضيت عنهم وبقي في بيت المال مال، فكتب إليه أن زوج كل شاب يريد الزواج، فكتب إليه: إني قد زوجت كل من وجدت وقد بقي في بيت مال المسلمين مال، فكتب إليه بعد مخرج هذا أن انظر من كانت عليه جزية فضعف عن أرضه، فأسلفه ما يقوى به على عمل أرضه، فإنا لا نريدهم لعام ولا لعامين"عمر بن عبدالعزیز نے عراق میں عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کو خط لکھااور کہا کہ عوام کے لیے اموال ( فنڈ) لے کران پر خرچ کریں۔ عبدالحمید نے لکھا کہ "بے شک میں نے لوگوں کے لیے لے لیا اور انہیں عطا کر دیا اور جو بچ گیا وہ سرکاری خزانے میں ہے"۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیزنے اسے لکھا کہ "دیکھو جو قرض دار ہو گیا ہو،اور یہ اس کی اپنی حماقت یا اسراف کی وجہ سے نہ ہو، اس کا قرض ادا کر دو"۔ تو اس نے جواباً لکھا کہ "میں نے ان کا قرض ادا کر دیا ہے اور باقی سرکاری خزانے میں ہے"۔ چنانچہ عمربن عبد العزیز نے اسے لکھا کہ "ہر اس نوجوان کی شادی کراؤ جو شادی کرنا چاہتا ہے"۔ اس نے جواب دیا کہ "میں نے ان سب کی شادی کرادی ہے جو مجھے مل سکتے تھے اور باقی مسلمانوں کے سرکاری خزانے میں ہے"۔ اس پر عمر نے لکھا کہ "اس خرچ کے بعد دیکھو کہ کس پر جزیہ واجب الادا ہے اور وہ اپنی زمین کے بارے میں کمزور ہو گیا ہے، لہٰذا اسے کوئی ایسی چیز عطا کردو جس سے زمین پر اس کے کام کو تقویت ملے اور ہم ان سے ایک یا دو سال تک کچھ نہیں چاہتے"۔
اگر خلافت غیر مسلموں کے تحفظ کے معاہدے کی پابندی نہ کر سکے تو اسے غیر مسلم شہریوں سےجزیہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کس طرح خلافت کے غیر مسلم شہری، اپنے ہم مذہب لوگوں سے بڑھ کر خلافت کے ساتھ وفادار تھے، وہ ہم مذہب جو ریاستِ خلافت سے باہر بستے تھے۔ شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا لیکن رومی عیسائی اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے فوجیں جمع کر رہے تھے، اور اس دوران عظیم صحابی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓنے یہ دیکھا کہ وہ غیر مسلموں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔ چنانچہ انہوں نے جزیہ اس اعلان کے ساتھ واپس کر دیا کہ،
وَإِنَّمَا رَدَدْنَا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ لِأَنَّا كَرِهْنَا أَنْ نَأْخُذَ أَمْوَالَكُمْ وَلَا نَمْنَعَ بِلَادَكُمْ
"ہم نے آپ کی رقم آپ کو واپس کردی ہے کیونکہ ہم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ہم آپ سے اموال وصول کریں جبکہ ہم آپ کی زمین کا دفاع نہ کریں"۔
شام کے عیسائیوں نے رومی عیسائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے کہا،
رَدَّكُمُ اللهُ إلينا، ولَعَنَ اللهُ الذين كانوا يملكوننا من الروم، ولكن والله لو كانوا هم علينا ما ردُّوا علينا، ولكن غصبونا، وأخذوا ما قدَرُوا عليه من أموالنا، لَوِلايتُكُم وعدلُكم أحبُّ إلينا مما كنا فيه من الظلم والغُشْم
"اللہ آپ کو سلامتی کے ساتھ ہمارے پاس لوٹائے اور اللہ ان رومیوں پر لعنت کرے جو ہم پر حکمران تھے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ (اس صورتِ حال میں)ہماری طرف واپس نہ آتے بلکہ ہمیں لوٹ لیتے اور جو کچھ ہمارا مال لے سکتے تھے لے جاتے۔ بے شک آپ کی حکمرانی اور عدل ہمارے لیے اس ظلم و ستم سے زیادہ پیارا ہے"۔
پھر خلافت فاتحانہ طور پر واپس آئی اور شام کے غیر مسلموں کو اپنے سائے میں صدیوں تک تحفظ فراہم کیا۔
جہاد کے لغوی معنی
لفظ 'جِھَاد' کا مصدر چار حرفی فعل ' جَاهَدَ' ہے جو بابِ 'فِعال' میں سے ہے۔یہ المفاعلة کے معنی میں ہے یعنی دو فریقوں کا باہمی عمل جیسا کہ لفظ الخِصَام جو المُخَاصَمَة کے معنی میں ہے، یعنی دو فریقوں کا آپس میں جھگڑا، جس کا مصدر لفظ خَاصَمَ ہے۔یہ لفظ الجدال کی طرح بھی ہے جس کے معنی 'المجادلة' باہمی جھگڑا کرنے کے ہیں، جس کا مصدر لفظِ"جَادَلَ"ہے۔
لفظ 'جہاد' کے لیے تین حرفی مصدرلفظ 'جَهِد' ہے یعنی محنت کرنا ۔ القاموس المحیط کے مصنف سہ فریقی فعل الجَهد کے یہ معنی بیان کرتے ہیں: الطاقة، ويُضَمُّ، والمشقة " یعنی طاقت ، جمع ہونا اور مشقت "۔لسان العرب میں بھی آیا ہے:الجَهد «بالفتح» المشقة، والجُهد «بالضمّ» الطاقة، وفيه: الجهاد: استِفرَاغُ ما في الوسع والطاقة من قول أو فعل"ترجمہ: الجَھد( فتحہ کے ساتھ )جس کے معنی ہیں 'مشقت'،اور لفظ الجُھد(ضمہ کے ساتھ ) کے معنی ہیں 'طاقت' ۔ الجھاد کا مطلب ہے: زبان اور عمل کے ذریعے جس قدر ممکن ہو طاقت کو استعمال کرنا"۔
قسطلانی صحیح بخاری کی تفسیر میں کہتے ہیں:الجهادُ بكسر الجيم، مصدر جاهدت العدوَّ مجاهدةً، وجهاداً، وأصله: جيهاداً، كقيتالاً، فخُفِّف بحذف الياء، وهو مشتق من الجَهد، بفتح الجيم، وهو التعب، والمشقة، لما فيه من ارتكابها، أو من الجُهد بالضم، وهو الطاقة، لأن كل واحدٍ منهما بذل طاقته في دفع صاحبه"لفظالجِھَاد مصدرہے جس کا مطلب ہے دشمن سے لڑنا۔ لفظ 'جھاد' 'جیھاد' ہے، جس میں 'ى 'کا حرف بھی شامل ہے۔ یہ قیتال کے لفظ کی طرح ہے، جس میں حرفِ 'ی' شامل ہے۔ پس حرف ی کو تلفظ سے ہٹا کر اسے ہلکا کر دیا گیا، جو الجھد سے ماخوذ ہے(جیم پر فتحہ کے ساتھ)، جس کا مطلب ہے کہ جو اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ تھکاوٹ اور مشقت کرتا ہے۔ یا یہ لفظ الجُهد سے ماخوذ ہے جس کے معنی طاقت کے ہیں، کیونکہ دونوں فریق ،دوسرے سے اپنے بچاؤکے لیے، اپنی توانائیاں لگاتے ہیں"۔
تفسیر نیساپوری میں ہے:والصحيح أنَّ الجهاد: بذل المجهود في حصول المقصود"صحیح رائے یہ ہے کہ لفظ 'جہاد' کا مطلب ہے: مقصد کے حصول کے لیے بھرپورکوشش کرنا۔"
اس لغوی تعریف کے اندر، اللہ کی راہ میں جہاد بھی شامل ہے، جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے مسلمان کا جہاد کرنا۔ اور اس میں شیطان کی راہ میں جہاد بھی شامل ہے جیسے کافر کا دوسروں کے خلاف جہاد کرنا۔
قرآنِ مجید میں جہاد کا شرعی مفہوم
مکی دَور میں نازل ہونے والی آیات میں استعمال ہونے والا لفظ 'الجھاد' اس کے عمومی لسانی معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سورہ العنکبوت میں دو آیات اور سورۃ لقمان میں ایسی ایک آیت ہے،
﴿وَمَن جَٰهَدَ فَإِنَّمَا يُجَٰهِدُ لِنَفْسِهِ﴾
"اور جو اللہ کی راہ میں کوشش (جَٰهَدَ)کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے"(العنکبوت، 29:6)۔
اوراللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾
"اور اگر وہ تیرے درپے (جَاهَدَاكَ)ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا"(لقمان،31:15)۔
اور فرمایا،
﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾
"اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش(جاھدوا) کی ،ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے"(العنکبوت، 29:69)۔
البتہ مدینہ کے دور میں نازل ہونے والی چھبیس آیات ایسی ہیں کہ جن میں استعمال ہونے والا لفظ "الجھاد" واضح طور پر لڑائی کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ ان میں سے ایک سورۃ النساء کی 95 نمبر آیت ہے ، جس میں کہا گیا ہے،
﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا﴾
"جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ،اور جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ، دونوں برابر نہیں ہو سکتے، اللہ نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے ،لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر کہیں زیادہ فضیلت بخشی ہے"(النساء، 4:95)۔
اس آیت میں واضح ہے کہ لفظ "جہاد" کا مطلب ہے لڑائی کے لیے نکلنا اور یہ آیت جہاد کے لیے نکلنے والوں کی پیچھے رہ جانے والوں پر فضیلت بیان کر رہی ہے۔
انہی آیات میں سے وہ ہے جو سورۃ الصف میں سورۃ کے شروع میں قتال کے ذکر کے بعد آیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ﴾
"جو لوگ اللہ کی راہ میں (ایسے طور پر) جم کر لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں وہ بےشک اللہ کومحبوب ہیں"(الصف،61:4)۔
اوراس کے بعد، درج ذیل دو آیات (آیت 10 اور 11) اس لڑائی کو جہاد کا نام دے کر لڑائی کی مزید حوصلہ افزائی کرتی ہیں، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (10) تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
"اے ایمان والو!کیا میں بتادوں وہ تجارت جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے ۔ ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو "(الصف، 11-10)۔
پس ہم مدنی دور کی آیات میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ 'جہاد 'پر مشتمل یہ آیات خاص طور پر لڑائی پر دلالت کرتی ہیں۔ جہاد میں وہ امور بھی شامل ہیں جو لڑائی کے لیے فطری طور پر درکار ہیں جیسا کہ مال و دولت جو کہ لڑنے کے لیے درکار سازو سامان کی تیاری ہے،یا خود لڑائی میں شریک ہونا اور یا ان شرائط کو بیان کرنا جو اس فرض کے لاگو ہونے کو بیان کرتی ہوں ،جیسا کہ کافروں کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت کو بیان کرنا۔ 'مغنی المحتاج' میں مذکور ہے کہ انہیں (کافروں کو)اسلام کی طرف بلائے بغیر لڑائی شروع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پس خلافت تمام اقوام تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے کام کا آغاز کرے گی اور جب ماحول تیار ہو جائے گا تو وہ جہاد کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل مادی رکاوٹوں کو دور کر دے گی۔
سنتِ نبوی ﷺکے مطابق جہاد کا شرعی مفہوم
'جہاد' کا لفظ سنت نبویﷺ میں ان شرعی معنوں میں آیا ہے:"اللہ کی راہ میں لڑائی اور جو اس کے لیے درکار ہو"۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! ہمیں وہ عمل بتائیے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے برابر ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،لا تطيقونه" تم ایسا نہیں کر پاؤ گے"۔ انہوں نے کہا، 'یا رسول اللہؐ! ہمیں مطلع کریں تاکہ ہم کر سکیں۔' آپﷺ نے فرمایا،
«مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآيَاتِ اللَّهِ لَا يَفْتُرُ مِنْ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ المجاهد»
"اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو روزے رکھتا ہے اور رات کو نماز پڑھتا ہے اور اللہ کی آیات کی تلاوت کرتاہے اوروہ اس وقت تک نہ روزے میں وقفہ آنے دےنہ نماز میں، یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا واپس آ جائے"۔
حدیث کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ سوال جہاد میں مشغول ہونے والے کے بارے میں تھا، یعنی خاص طور پر اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے بارے میں، اور اس کا جواب بھی اسی معنی پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ"یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا واپس آ جائے۔"جابر ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے آپ ﷺ نے فرمایا،
«من عُقِرَ جَوادُه وأُهرِق دَمُه!»
"(اس آدمی کا) جس کا خون بہایا گیا ہو اور اس کا گھوڑا زخمی ہوا ہو"۔
عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«لَمَّا أُصِيبَ إِخْوَانُكُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللَّهُ أَرْوَاحَهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ، تَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا، وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مِنْ ذَهَبٍ مُعَلَّقَةٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ، فَلَمَّا وَجَدُوا طِيبَ مَأْكَلِهِمْ وَمَشْرَبِهِمْ وَمَقِيلِهِمْ قَالُوا : مَنْ يُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْيَاءٌ فِي الْجَنَّةِ نُرْزَقُ لِئَلاَّ يَزْهَدُوا فِي الْجِهَادِ وَلاَ يَنْكُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ فَقَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ : أَنَا أُبَلِّغُهُمْ عَنْكُمْ . قَالَ : فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا﴾. إِلَى آخِرِ الآيَةِ»
" جب تمہارے بھائی اُحد کے دن شہید کئے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹ میں رکھ دیا، جو جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں، اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں معلق سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، جب ان روحوں نے اپنے کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل کر لی، تو وہ کہنے لگیں: کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہمارے بارے میں یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں ،تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا،"میں تمہاری جانب سے انہیں یہ خبر پہنچاؤں گا"،تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اخیر تک نازل کی،﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا﴾"جو اللہ کے راستے میں شہید کر دئیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو"(سورۃ آل عمران: 169)۔
اول دَور کے فقہاء کی رائے میں جہاد کا شرعی مفہوم
مندرجہ بالاشرعی نصوص اوراسی طرح دیگر شرعی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے لفظ 'جہاد' کو اس کے عام لغوی معنی سے ایک مخصوص معنی میں منتقل کیا ہے جو کہ اللہ عزوجل کی راہ میں قتال کرنا ہے۔اوریہ مخصوص معنیجہاد کے تصور کی تشکیل کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، اور یہ ان تعبیرات سے بہت دور ہیں جو آج کل جنگ، فتح اور قتال کے متعلق پھیلائی گئی ہیں۔ پے درپے شرعی مصادر جہاد کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں لڑنے کے معنی میں بیان کرتے ہیں۔ فقہ کی کتابوں کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں، جو جہاد کے شرعی معنی اور اس سے متعلقہ احکام سے متعلق ہیں۔
فقہ حنفی کی کتاب بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع میں بیان کیا گیا ہے، أما الجهاد في اللغة فعبارة عن بَذل الجهد وفي عرف الشرع يستعمل في بَذل الوُسع والطاقة بالقتال في سبيل الله عز وجل بالنفس والمال واللسان أو غير ذلك"جہاں تک جہاد کا تعلق ہے، اس کا لغوی مطلب ہے کوشش کرنا۔ شرعی تعریف میں یہ لفظ جسم، مال، زبان اور دیگر ذرائع سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ عز و جل کی راہ میں لڑنے کے لیے صلاحیت اور توانائی استعمال کرنے کے لیے ہوتا ہے"۔
فقہ مالکی کی کتاب منح الجلیل میں ہے کہ، الجهاد: أي، قتال مسلم كافراً غير ذي عهدٍ، لإعلاء كلمة الله تعالى أو حُضُورُه له [أي: للقتال] أو دُخُوله أرضه [أي أرض الكافر] له [أي: للقتال] قاله ابن عرفة "جہاد اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ایک مسلمان کا ایسےغیر مسلم کافر کے خلاف لڑنا ہے جس سے امن کا معاہدہ نہ ہو، یا لڑائی میں حصہ لینا یا لڑائی کے لیے کافر کی سرزمین میں داخل ہونا ہے۔ یہ بات ابنِ عرفہ نے کہی ہے"۔
امام شافعی کی کتاب فقہ الإقناع میں جہاد کی تعریف کے بارے میں آیا ہے، أي: القتال في سبيل الله "یعنی یہ اللہ کی راہ میں لڑنا ہے"۔ شیرازی نے اپنی کتاب 'المھذب' میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ، أن الجهاد هو القتال"جہاد لڑائی ہے"۔
جہاں تک حنبلی فقہ کا تعلق ہے تو حنبلی فقہ کی کتاب المغنی میں ابنِ قُدامہ نے جہاد کے باب میں جہاد کے متعلق کافروں سے جنگ اور لڑائی کے علاوہ کسی اور معنی پر بحث نہیں کی۔وہ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا یہ اجتماعی فریضہ ہے یا انفرادی، آیایہ مؤمنوں کی دشمن سے حفاظت کے معنی میں ہے یا سرحدوں (رباط) کی حفاظت کے معنی میں ہے۔ وہ کہتے ہیں، الرباط أصل الجهاد وفرعه"رباط (سرحد کی حفاظت) جہاد کی جڑ اور شاخ ہے"۔ اور وہ فرماتے ہیں، إذا جاء العدو صار الجهاد عليهم فَرض عين… فإذا ثبت هذا فإنهم لا يخرجون إلا بإذن الأمير لأن أمر الحرب موكول إليه"اگر کوئی دشمن حملہ آورہو جائے تو ان مسلمانوں پر جہاد انفرادی فریضہ بن جاتا ہے۔۔۔یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ حکمران کی اجازت سے ہی نکلیں گے کیونکہ جنگ کا معاملہ اسی کے سپرد ہے"۔
پس لفظ "جہاد"اپنے لغوی مفہوم سے شرعی معنی میں منتقل ہوگیا ہے کہ جب یہ لفظ ذکر کیا جاتا ہے تو صرف لڑائی کے معنی میں ہی سمجھا جاتا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق اقدامی جہاد اسلام کو پھیلانے کے لیے ہے
سورۃ التوبہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
"کوچ کرو ہلکی جان سے ،چاہے بھاری دل سے۔اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو"(التوبۃ، 9:41)۔
نکلنے کے حکم کے بعد جو لفظ جہاد لایا گیا ، اس کا مطلب لڑنا ہے۔ یہ التوبۃ کی دیگرآیات سے بھی ظاہر ہے جو لڑائی کے بارے میں ہیں۔
جہاد کا قرآنی ثبوت ایک عمومی ثبوت ہے اور اس کا حکم مطلق ہے، جس میں دفاعی اور جارحانہ جنگ دونوں شامل ہیں، یعنی اس میں دشمن سے لڑائی کی شروعات ، اپنے تحفظ کے لیے جنگیں اور دیگر شامل ہیں۔ اپنی عمومیت اور مطلقیت کی وجہ سے اس میں دشمن کے خلاف ہر قسم کی لڑائی شامل ہے۔پس جہاد کو مخصوص کرنے یا جارحانہ جنگ کو چھوڑ کر اسے دفاعی جنگ تک محدود کرنے کے لیے شرعی نص کی ضرورت ہے۔ اس کی تخصیص (to specify)یا تقید (to restrict)کے لیے کوئی شرعی نص موجود نہیں، نہ قرآن میں اور نہ ہی سنت میں۔ پس جہاد اپنے عام معنوں میں باقی رہتا ہے جس میں تمام جنگیں اور دشمن کے خلاف لڑائی شامل ہے۔
جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے،
﴿وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾
"اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ"(الانفال، 8:61)،
یہ سورۃ توبہ کی آیات کی عمومیت کی تخصیص نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی مطلقیت کو محدود کرتی ہے، اس لیے کہ یہ آیت سورۃ التوبہ سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ جو وحی پہلے آئی ہے وہ اس وحی کی تخصیص نہیں کرتی یا اسے مقید نہیں کرتی جو بعد میں نازل ہوئی۔
جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے،﴿وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾" اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ"(الانفال، 8:61)، تو یہ دَور امن سے متعلق ہے۔ اور جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کا تعلق ہے ،﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾"لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے"(التوبۃ، 9:29)، تو یہ جنگ اور لڑائی کے وقت سے متعلق ہے۔ امن اور لڑائی دو ایک ساتھ موجود حالات ہیں اور ایک صورت حال دوسری کو یکسرختم نہیں کرتی۔
رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق اقدامی جہاد
رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال سے حتمی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جہاد اللہ کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کی دعوت کو پھیلانے کے لیے کفار کے خلاف جنگ کا آغاز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،
«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ»
" مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا، یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے اور بیشک محمد ﷺ اس کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ ایسا کریں تو بچا لیا انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو مگر جسے اسلام نے حق قرار دیا ہے اور ان کا حساب اللہ پر ہے"(بخاری)۔
جب رسول اللہﷺ کسی کو لشکر یا دستے کا سربراہ مقرر کرتے تو آپﷺ اسے اللہ سے ڈرنے اور لشکر میں شامل مسلمانوں کی بھلائی کا خیال رکھنے کی تلقین فرماتے۔ آپ ﷺ فرماتے،
«اغْزُوَا بسمِ اللَّهِ قَاتَلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوَا فَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتَهُنَّ مَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ الله الَّذِي يُجْرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يُجْرَى عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَإِنْ هم أَبَوا فعلهم الْجِزْيَةَ فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ»
"اللہ کے نام سے اور اس کے راستے میں جہاد کرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرتےہیں، مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مُثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو، ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کر لو اور ان کے ساتھ لڑائی سے باز رہو: ان کو اسلام لانے اور اپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو، اور ان کو بتا دو کہ اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو ان کو بتا دو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان کے اوپر وہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں: مال غنیمت اور فئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ماسوائے یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ اگر وہ اسے ماننے سے انکار کریں توان سے جزیہ کا تقاضا کرو، اگر وہ مان جائیں تو اسے ان سے قبول کرلو اور ان سے لڑنے سے با ز رہو۔ اگر وہ جزیہ سے بھی انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے جہاد شروع کر و"(مسلم)۔
جہاں تک رسول اللہﷺ کے عمل کا تعلق ہے، تو آپﷺ کے بہت سے اعمال اس پر دلالت کرتے ہیں۔ قریش کے قافلے کے پیچھے بدر کی طرف رسول اللہ ﷺ کا نکلنا، قتال کے لیے جارحانہ اقدام تھا۔ یہ قتال کے آغاز کی علامت تھا۔ قریش ایک ایسی اتھارٹی تھے جس نے ابھی رسول اللہﷺ کے خلاف یا مدینہ کے خلاف جارحیت نہیں کی تھی، کہ جو ان کے خلاف لڑنے کو دفاعی جنگ بناتی۔ اس کی بجائے آپ ﷺ نے ان کے ساتھ خودقتال شروع کیا۔ حنین کے مقام پر آپﷺ کا ہوازن پر حملہ، طائف کا محاصرہ، رومیوں سے لڑنے کے لیے جنگِ مُوتہ اور جنگِ تبوک یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جہاد کفار کے خلاف جنگ کا آغاز ہے۔ پس یہ دعویٰ کہ جہاد ایک دفاعی جنگ ہے، بے بنیادہے۔
اقدامی جہادکے متعلق صحابہ ؓکا اجماع
صحابہ کرام ؓکے اجماع سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے دین کے متعلق کوئی چیز سیکھی اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو ہم تک کسی روایت کے ذریعے منتقل کرنے کی بجائے اپنے اجماع کے ذریعہ منتقل کردیا۔ یعنی ان کے اجماع نے سنت کی منتقلی کی جگہ لے لی۔لہٰذا اجماع صحابہ ؓ بھی دلیل کوثابت کرتا ہے، یعنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہﷺکی ایک سنت ہے جو روایت کے ذریعے ہم تک منتقل نہیں ہوئی، لیکن اس سے نکلنے والے حکم پر صحابہ کرام ؓکا اجماع ہم تک منتقل ہو گیا۔ لہٰذا صحابہ کے اجماع کی حیثیت سنت ہی سے ملنے والی دلیل کی ہے ،گو کہ یہ سنت لفظاًروایت نہیں کی گئی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے کہ جہاد اسلام کو پھیلانے کے لیے اللہ کی راہ میں لڑنا ہے اور یہ خود جہاد کا آغاز کرنا ہے۔ عراق، فارس، الشام، مصر اور شمالی افریقہ کا فتح ہونا اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ یہ سب صحابہؓ کے دور میں فتح ہوئے اور اس عمل پر ان کا اجماع تھا۔ یہ جہاد کے ذریعے وقوع پزیر ہونے والا وسیع پھیلاؤ ہی ہے جس نے امتِ اسلامیہ کے ستون کھڑے کیے، جو آج کثرت سے موجود ہے۔
نتیجہ: جہاد ریاستِ خلافت کی توسیع کو یقینی بناتا ہے
خلافت، دعوت اور جہاد کی عدم موجودگی میں دنیا ایک جنگل بن چکی ہے جہاں طاقتور اپنے ذاتی مفاد کی خاطرکمزور کو کھا جاتا ہے۔ اسلام کے لیے نئے علاقے کھولنے کے بجائے مسلمان اپنی سرزمینوں پر قبضے دیکھ رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت اسلامیہ اپنی ذمہ داری کی طرف لوٹے، دین اسلام کے مطابق دنیا کی قیادت کرے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے ظلم کے خاتمے کو یقینی بنائے۔ اسے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو بحال کرنا چاہیے کیونکہ یہ دین کی رُو سے فرض ہے۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو پوری دنیا میں اسلام کی دعوت کا آغاز کرے گی۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو اسلامی فوجی نظریے کے تصور کو زندہ کرے گی، اسلامی فوج کو اسلام کے نفاذ میں حائل کسی بھی مادی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے متحرک کرے گی۔
آج جب موجودہ نظام، پاکستان کو ہندوستان کی باجگزار ریاست میں تبدیل کر رہا ہے،خلافت جہاد کو زندہ کر کے ہندوستان کو اسلامی حکمرانی تلےلائے گی اور ہندوستانی جارحیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام
" میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کر دیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہو گا جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا"(احمد، النسائی)
مزید برآں، نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت استعماری کفار کو چیلنج کرے گی جو اسلام کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ یہ دنیا پر ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرے گی، دنیا کی سرکردہ ریاست کا درجہ حاصل کرے گی اور انسانیت کو انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ قانون کے ظلم و استحصال سے نجات دلائے گی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا،
إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ أَوْ قَالَ إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا
" اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹا اور میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا اور بلاشبہ میری امت کی عمل داری وہاں تک پہنچے گی جہاں تک اسے میرے لیے لپیٹا گیا"(مسلم)۔
مصعب عمیر، پاکستان