بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے فرض کو دوبارا پورا کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے
مصعب عمیر، پاکستان
یقیناً یہ ایک بین الاقوامی سطح کا موقع ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے لیے فراہم کیا ہے ۔
جہاں تک بین الاقوامی منظر نامے کا تعلق ہے، تو بڑی عالمی طاقتیں آپس میں لڑ رہی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے روم اور فارس کی سلطنتیں مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام سے قبل ایک دوسرے کے خلاف صَف آراء تھیں ۔ ایک وقت تھا کہ روس وسطی ایشیا کو ایسی اسٹریٹیجک ڈیبتھ( تزویراتی گہرائی) کے طور پر دیکھتا تھا کہ جسے کوئی اس سے چھین نہیں سکتا۔پوٹن کے غلط اندازوں، بائیڈن کی چالاکی اور یورپ کی حمایت کے باعث ماسکو اب یوکرین کی جنگ کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ چین مقبوضہ مشرقی ترکستان پر اپنا کنٹرول مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کر رہا تھا اور اب تائیوان اور ہانگ کانگ میں اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا اس کی توجہ کا محورہے، کیونکہ امریکہ بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کو استعمال کرتے ہوئے اس کے اردگرد آگ کا حصار قائم کررہا ہے۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے،تو وہ اب طاقتوروں میں انتہائی طاقتورنہیں رہا، بلکہ وہ کمزورہوتی ہوئی ریاستوں میں سب سے مضبوط ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان گہری سیاسی تقسیم واشنگٹن کے لیے اپنی طاقت کو بروئے کار لانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، اور جیسے جیسے 2024 ء کا صدارتی انتخاب قریب آرہا ہے، یہ تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے۔اس سب کے علاوہ بڑی طاقتوں کی معیشتیں سُست ہورہی ہیں یا گرنے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔
جہاں تک مسلم دنیا کی صورتحال کا تعلق ہے تو اسلامی مقدسات پر بار بار حملوں کے حوالے سے امتِ اسلامیہ حکمرانوں کی غفلت پر شدیدمشتعل ہے۔مسلمان خطرے کی گھنٹی کو سُن رہے ہیں کیونکہ استعمار، ہندوستان اور یہودی وجود کو مسلمانوں کے خلاف مضبوط کر رہا ہے، جبکہ مسلم دنیا کے حکمران تحمل کے نام پر بے عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، افواج کی صلاحیتوں کو کم کر رہے ہیں اور بھارت و اسرائیل جیسی دشمن ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا کہہ رہے ہیں۔سود پر مبنی قرضوں کے عارضی ٹیکوں کے باوجودمسلمانوں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ ترکی میں افراطِ زر کی شرح 75 فیصد ہے جبکہ مصر میں افراطِ زر کی شرح 50 فیصد ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے،تواس کے مسلمان مشکلات بھری زندگی سے نجات کے لیے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر، خوفناک سمندروں کو عبور کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ درحقیقت، مسلمان آج اُس صورتِ حال سے دوچار ہیں جو اسلامی ریاست کے قیام سے قبل یثرب( مدینہ )کی تھی۔ وہ ہر طرف سے آفات اور طوفانوں کے تھپیڑوں کی زَد ہیں، اوروہ شدت سے اس صورتِ حال سےنکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
اب صورتِ حال یہ بن چکی ہے کہ طاقت اور اثرورسوخ والے لوگوں میں انقلابی تبدیلی کی سوچ میں تیزی آگئی ہے۔ اسلام، شرعی قانون اور خلافت کے بارے میں بڑے پیمانے پر بحث ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے، کچھ لوگ خلافت کو پچھلے دَور کی اچھی یادیا خیالی تصور کہہ کر مسترد کردیتے تھے، مگراب مسلمان اسلامی حکمرانی کی واپسی کو سب سے موزوں آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔تاہم جب تک عزم مضبوط نہ ہو ، خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے چلنے والی کوئی بھی تحریک ناکام ہو جائے گی ۔ خلافت کے تصور کو اچھا سمجھنا یا ان لوگوں کا احترام کرنا کافی نہیں ہے جو اس کے لیے کام کرنے میں اپنی راتیں اپنے دنوں کے ساتھ ملاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ مقصد ہم سب سے،اور ہم میں سے ہر ایک سے، عزم اور قربانی کے ساتھ سنجیدہ کام کا مطالبہ کرتا ہے۔یہ عزم تبھی مضبوط ہو سکتا ہے، جب یہ آگاہی ہو کہ خلافت کوئی چوائس یا آپشن میں سے ایک آپشن نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شرعی فرض ہے، جس کے متعلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں ہم سے حساب لیا جائے گا۔
اے مسلمانو! خلافت کو قائم کرنا کوئی چوائس یا آپشن نہیں ہے، یہ ایک شرعی ذمہ داری یعنی فرض ہے
انبیاء علیہم السلام اور وحی کا دَور آخری رسول اور پیغمبر ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوگیا۔ اب اسلام کی رُوسےخلفاء کا دَور ہونا چاہئے کہ جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکام کے مطابق حکومت کریں ۔ لہٰذا، اے اہل قوت و طاقت! اس معاملے کو غور اور سنجیدگی سے دیکھو!
ابوہریرہؓ سے روایت کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْبَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا،جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا: آپ(ﷺ) ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا:ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں ان کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی۔"(بخاری و مسلم)
امام الماوردی (متوفیٰ 450ھ ) اپنی کتاب "الاحکام السلطانیہ" میں فرماتے ہیں، "امامت دین کی حفاظت اور دنیا کے امور کی دیکھ بھال میں نبوت کی جانشینی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ اور جو شخص امت میں سے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے کھڑا ہوجائے تو اس کی بیعت کرنا اجماع کی رو سے واجب ہے۔"
امام نووی (سنِ وفات 676 ہجری)، اپنی تصنیف"المنهاج شرح صحیح مسلم" میں فرماتے ہیں،"سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں پر خلیفہ کی تقرری فرض ہے، اور یہ فرضیت شرعی بنیاد پر ہے نہ کہ عقلی بنیاد پر"۔
اے مسلمانو! خلافت کے قیام کو دین کے دوسرے فرائض پر ترجیح حاصل ہے
خلافت کا قیام صرف ایک اسلامی فریضہ ہی نہیں بلکہ اسے دوسرے اسلامی فرائض پر ایک ترجیح حاصل ہے، اور اسی کے مطابق صحابہ کرامؓ نے عمل کیا، اور وہ (صحابہؓ) ہمارے موقف اور عمل کے لیے رہنما اور مثال ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کو رسول اللہﷺ کے وصال ہی کے دن بیعت ِ انعقاد دی گئی ،جبکہ اگلے دن لوگ بیعتِ اطاعت کے لیے مسجد میں جمع ہوئے تھے۔
شمسُ الدین رَملی (سنِ وفات 1004 ہجری) اپنی تصنیف 'غایۃ البیان' میں لکھتے ہیں،"لوگوں پر ایک ایسا امام مقرر کرنا واجب ہے جو ان کے مفادات کا انتظام کرے... کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد نہ صرف اس پر اجماع کیا بلکہ اسے اہم ترین فرض قرار دیا اور اسے آپ ﷺ کی تدفین پر مقدم کیا، اور تمام ادوار میں لوگ اس فرض کی انجام دہی پر کاربند رہے"۔
پھر جب یہ واضح ہو گیا کہ عمر فاروق ؓ اپنے اوپر ہونے والےوار کے زخم سے شہادت پا جائیں گے تو آپؓ نے چھ عشرہ مبشرہ صحابہ ؓ (وہ صحابہ جن کو دنیا میں ہی رسول اللہﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی)کو خلیفہ کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ تین دن کے اندر اندر آپس میں سے کسی ایک کے خلیفہ ہونے پر متفق ہوجائیں، اور اگر تین دن بعد اِن چھ نامزد لوگوں میں سے جس نے بھی اکثریت کے طے کردہ خلیفہ کے انتخاب سے اختلاف کیا تواُسے قتل کر دیا جائے ۔
اس حکم کو صحابہ کرام ؓ نے دیکھا اور سنا، اور ان میں سے کسی نے بھی اسے چیلنج نہیں کیا کہ کسی مسلمان کو نا حق قتل نہیں کیا جاسکتا جبکہ یہاں تو معاملہ عشرہ مبشرہ صحابیؓ کے قتل کا تھا، لہٰذا اسے صحابہ کرامؓ کا اجماع سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح انہوں نے نئے خلیفہ کے تقرر کے لیے اپنے دن رات ایک کر دیے اور تین دن اور راتوں میں حضرت عثمان ؓ کو خلیفہ منتخب کر لیا۔
ابن کثیر نے کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے،
فلما كانت الليلة التي يسفر صباحها عن اليوم الرابع من موت عمر، جاء - عبد الرحمن بن عوف - إلى منزل ابن أخته المسور بن مخرمة فقال: أنائم يا مسور؟ والله لَم أغتمض بكثير نوم منذ ثلاث
"جب وہ رات کہ جس کی صبح عمرؓ کی وفات کا چوتھا دن تھا، تو عبدالرحمٰن بن عوف ؓ اپنے بھتیجے مِسوَر بن مخرمہکے گھر آئے اور کہا: تم سو رہے ہو ،اے مِسور؟ اللہ کی قسم! مجھے پچھلی تین کے دوران زیادہ نیند نہیں آئی۔ دوسرے لفظوں میں آخری تین راتوں کے دوران اور جب لوگوں نے فجر کی نماز پڑھی تو عثمان ؓ کی بیعت کر لی گئی"۔
بخاری نے مِسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے کہ،
طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنْ اللَّيْلِ، فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْـتَـيْقَظْتُ، فَقَالَ أَرَاكَ نَائِمًا، فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ
"رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد عبدالرحمٰن نے مجھے پکارا اور میرے دروازے پر دستک دی یہاں تک کہ میں اٹھ گیا، انہوں نے مجھ سے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سو رہے ہو! اللہ کی قسم !پچھلی تین راتوں میں مَیں پوری طرح سے سو نہیں پایا "۔
تو یہ ہے کہ خلافت کی فرضیت کو پورا کرنے کے معاملے میں صحابہ کرام ؓ کا عمل۔ تو ہمیں کیسا ہونا چاہیے جبکہ ہم صحابہ کرامؓ کو رہنمائی کرنے والے روشن ستارے مانتے ہیں؟
اے مسلمانو! خلافت کا قیام درحقیقت ایک اجتماعی فریضہ ہے،تاہم اگر یہ پورا نہیں ہوتا ، تو ہر مسلمان کو اس کے لیے لازمی کام کرنا چاہیے
خلافت کے قیام کا فرض اجتماعی فریضہ ہے۔ اگر ہم میں سے کچھ لوگ اس فرض کو پورا کردیتے ہیں تو باقی لوگ اس ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ فرض پورا نہیں ہوتا ، تو ہم سب کا اسے دوبارہ قائم کرنے کے لیے کام کرنا لازم ہے، جب تک کہ یہ فرض پورا نہیں ہو جاتا۔
حنفی عالم، ابو الیُسر بزدوی، جو 493ھ میں فوت ہوئے، فرماتے ہیں کہ،
قال عامَّةُ أهلِ القِبْلةِ يَجِبُ على النَّاسِ أن يَختاروا واحِدًا للإمامةِ، ويُفتَرَضُ عليهم إلَّا أنَّه فَرْضُ كِفايةٍ، إن قامَ به البَعضُ سَقَطَ عنِ الباقين.
"پہلی نسل نے عام طور پر کہا ہے کہ لوگوں پر فرض ہے کہ وہ امامت (خلافت) کے لیے کسی ایک کا انتخاب کریں۔یہ عمل ان پر واجب ہےاگرچہ یہ فرض کفایہ ہے۔ پس اگر کچھ لوگ اس فرض کوپورا کر لیتے ہیں تو باقی لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا"
ابو عمرو الدانی، (سنِ وفات 444 ہجری) نے اپنی تصنیف 'الرسالہ الوافیہ' میں بیان کیا ہے،"استطاعت اور صلاحیت کے حامل امام (خلیفہ) کا قیام (تقرر) امت پر ایک ایسا فرض ہے جس سے وہ نہ تو غفلت برت سکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے تحت اس (خلیفہ) کا قیام امت میں سے اہلِ حل و عقد کی ذمہ داری ہے، اور اس (خلیفہ) کے قیام کا فرض، ایک فرضِ کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگ اس فرض کو پورا کر دیں تو باقیوں سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے۔"
خلافت 3 مارچ 1924 عیسوی،بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو تباہ ہوئی۔ اس طرح خلافت کے قیام کا فرض سو ہجری سال گزر جانے کے بعد بھی پورا نہیں ہوا، اورسو عیسوی سال بھی پورا ہونے والے ہیں۔ تو ہم میں سے کون ہے جو ابھی بھی خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام نہیں کر رہا ؟!
اے تمام مسلمانو اور ان میں اہلِ اثر حضرات اور قوت وطاقت کے حامل افراد!
چاہئے کہ ہمارے رب نے ہمیں جو سنہری موقع فراہم کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں ورنہ قیامت کے دن ہمیں پچھتانا پڑے گا۔
خلافت ہمارے معاملات کو اس طریقے سے ترتیب دے گی جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔ آئین کا ہر ہر قانون اور ایک ایک آرٹیکل قرآن مجیداور سنت نبویﷺ سے اخذ کیا جائے گا۔ ہر وہ کام جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے، وہ پورا کیا جائے گا، جبکہ ہر وہ معاملہ جس سے انہوں نے روک دیا ہے وہ حرام ہوگا۔
مشہور مجددامام غزالی (سنِ وفات 505 ہجری) اپنی تصنیف 'الاقتصاد في الاعتقاد' میں بیان کرتے ہیں،
فِي بَيانِ وُجوبِ نَصْبِ الإمامِ ... نُقيمُ البُرهانَ القَطعيَّ الشَّرعيَّ على وُجوبِه، ولَسْنا نَكتَفي بما فيه من إجْماعِ الأمَّةِ، بَل نُنَبِّهُ على مُستَنَدِ الإجْماعِ، ونَقولُ: نِظامُ أمرِ الدِّينِ مَقصودٌ لصاحِبِ الشَّرعِ عليه السَّلامُ قَطعًا، وهذه مُقدِّمةٌ قَطعيَّةٌ لا يُتَصَوَّرُ النِّزاعُ فيها، ونُضيفُ إليها مُقدِّمةً أخرَى، وهو أنَّه لا يَحصُلُ نِظامُ الدِّينِ إلَّا بإمامٍ مُطاعٍ، فيَحصُلُ من المُقدِّمَتَين صِحَّةُ الدَّعوَى، وهو وُجوبُ نَصْبِ الإمامِ.
" امام کے تقرر کے واجب ہونے کا بیان... ہم اس کے واجب ہونے کا قطعی شرعی ثبوت پیش کرتے ہیں اور ہم صرف امت کے اجماع کی دلیل پر اکتفاء نہیں کرتے، بلکہ ہم اس اجماع کی بنیاد کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم کہتے ہیں: دین کے امور کی تنظیم یقیناً صاحبِ شریعت یعنی نبی کریم ﷺ (کے بھیجے جانے )کا ایک قطعی مقصد ہے۔ یہ ایک ایسی قطعی بات ہے جس کے بارے میں کوئی اختلاف تصور نہیں کیا جا سکتا، اور ہم اس میں ایک اور زاویے کا بھی اضافہ کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دین کے امور کی تنظیم صرف اس امام کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے جس کی بات مانی جائے، لہذا یہ دعویٰ کہ امام (خلیفہ) کی تقرری واجب ہے ان دو زاویوں سے ثابت ہوتا ہے۔"
خلافت کے ذریعے ہی ہم امت کو یکجا کریں گے، لوگوں کے حقوق کو قائم کریں گے، دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں گے، مسلح افواج کو اسلام کے مقدسات کے تحفظ کے لیے اس کے ضروری کردار کی طرف لوٹائیں گے۔ یہ ہماری گردنوں پر ایک فرض ہے اور اگر ہم اسے پورا کریں گے تو اللہ عزوجل کی خوشنودی ہماری منتظر ہے۔ تاہم اگر ہم نے تاخیر کی اور اس فرض کی ادائیگی سے منہ موڑ لیا تو ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے اس حال میں پیش ہوں گے کہ ہمارے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔
وہ لوگ جن پر معاملات کی سچائی واضح ہے اور جن کے دل یہ جان کر خوف سے کانپ جاتے ہیں کہ انہوں نے اس فریضہ سے کوتاہی کی ہے، اُنہیں اب لازمی اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ مشاہدے اور تجزیے کا وقت نہیں ہے۔ یہ اعمال کی انجام دہی ، بہادرانہ موقف اور قربانی کا وقت ہے۔ یہی وہ ردِ عمل ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نَصر کے حصول کا باعث بنتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
" اے ایمان والو اگر تم اللہ کےدین کی مدد کرو گے، تو اللہ تمہاری مدد کرے گا،اور تمہارے قدم جمادے گا۔"(سورۃمحمد، 47:7)