بسم الله الرحمن الرحيم
ایس ایس جی کے کمانڈوز کشمیر کو آزاد کرانے کے احکامات ملنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان
اسپیشل سروسز گروپ ( (SSGکے افسران اور سپاہیوں کا شمار دنیا کے بہترین ایلیٹ فوجی دستوں میں ہوتا ہے۔ ان کی اعلی کارکردگی کی شہرت بین الاقوامی مقابلوں اور میدان جنگ دونوں میں مانی ہوئی اورتسلیم شدہ ہے، اور یہ اسلام دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتی ہے۔
ایس ایس جی کے جنگجو کمانڈوز سخت تربیت سے گزرتے ہیں۔ وہ جیتنے کے لیے لڑتے ہیں۔ اور اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے جو ضروری ہے یہ وہ کر گزرتے ہیں۔ یہ کمانڈوز اپنی سوچ میں لکیر کے فقیر نہیں ہوتے بلکہ آوٹ آف باکس سوچتے ہیں۔ تاہم، جو چیز انہیں کسی بھی دشمن پر برتری دیتی ہے، وہ ان کی شہادت کی خواہش ہے۔ بے شک ایمان میدان جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
اوریہ ایمان صرف ہماری ایس ایس جی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایمان ہمارے تمام افسروں اور سپاہیوں کے دلوں میں ہے۔ وہ فتح اور شہادت کے لیے تڑپتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر میں ہزاروں باعفت مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر کے معصوم بچوں کو چَھّروں سے اندھا کیا جا رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ باعزت لوگوں پر تشدد اور انہیں ذلیل کیا جا رہا ہے۔
لیکن ایسے ایمان اور جذبات کے باوجود انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم کون دے گا؟
مغربی عالمی نظام سے وابستہ جمہوریت کبھی بھی انہیں حرکت میں آنے کا حکم جاری نہیں کرے گی، بلکہ جمہوریت کی کوئی بھی شکل ایسا حکم جاری نہیں کرے گی۔ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا نہیں کرتے، بلکہ ان کی نافرمانی کرتے ہیں۔
یہ صرف نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت ہی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرے گی۔ اور خلیفہ خود ہماری فوجوں کی قیادت کرے گا اور مقبوضہ کشمیر کو ہندو ریاست کے ظلم وجبر سے آزاد کرائے گا۔
ہر چیز سے بڑھ کر اللہ کی اطاعت کرو۔ خلافت قائم کرو۔ کشمیر کو آزاد کراؤ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿إِن يَنصُرۡكُمُ ٱللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمۡۖ وَإِن يَخۡذُلۡكُمۡ فَمَن ذَا ٱلَّذِي يَنصُرُكُم مِّنۢ بَعۡدِهِۦۗ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ﴾
”اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے، اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔“ (آل عمران، 3:160)