بسم الله الرحمن الرحيم
افریقی ممالک میں ہونے والی بغاوتیں، استعماری ممالک کی افریقہ کے استحصال کے لیے باہمی کشمکش کے علاوہ کچھ نہیں
انجنیئرعباس صدیقی، ولایہ پاکستان
خبر:
30 اگست 2023 کو بر اعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے ملک گبون میں فوج نے بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور صدر علی بونگو کو قید کر لیا۔ فوجی حکومت نے حکومتی اداروں کو تحلیل اور چند دن پہلے ہوئے الیکشن کے رزلٹ کو کالعدم قرار دینےکا اعلان کیا ،کہ جس میں صدر علی بونگو کو تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب میں کامیاب قرار دیا گیاتھا۔ فوجی بغاوت کے ساتھ ہی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئی اور بغاوت کی حمایت میں ریلیاں نکالیں۔
تبصرہ:
2020 کے بعد سے گبون وہ آٹھواں افریقی ملک ہے جسے فوجی بغاوت کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے نائیجر، مالی ، برکینا فاسو، گینیا، چاڈ اور سوڈان میں کامیاب فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ یہ تمام ممالک ایک وقت میں فرانس کی استعماری کالونیاں تھیں۔ نائیجر کی بغاوت اور گبون کی بغاوت میں صرف ایک مہینہ کا فرق ہے۔ اسی لیے اکثر تجزیہ کار اسے نائیجر کی بغاوت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
سابق صدر علی بونگو 2009 میں پہلی بار (اپنے والد کے مرنے کے بعد سے) گبون کے صدر بنے۔ 2016 کے الیکشن میں بھی الیکشن کمیشن نے انہیں کامیاب قرار دیا،اور 2023 کے الیکشن میں بھی انہی کو کامیاب قرار دیا گیا۔ تمام الیکشن متنازعہ رہے ۔ 2023 کے الیکشن کےاعلان کے فوراً بعد بونگو میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے اور اسکے بعد ایک فوجی بغاوت کے ذریعے علی بونگو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ علی بونگو سے پہلے ان کے والدعمر بونگو 41 سال تک گبون پر حکمرانی کرتے رہے۔یعنی فرانس سے 1960 میں آزادی پانے کے بعد 1967 سے بونگو خاندان نے گبون پر حکمرانی شروع کر دی۔ یا د رہے کہ گبون ایک عیسائی اکثریت والا ملک ہے اور اس کی صرف 10 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ عمر بونگو 1973 میں لیبیا کہ دورہ کے بعد مسلمان ہوئے اور اپنا نام البرٹ برنارڈ بونگو سے بدل کر الحاج عمر بونگو(Omer Bongo) رکھا اور اس وقت سے یہ خاندان مسلم اقلیت میں شمار ہونے لگا۔
گبون کی اپوزیشن کے مرکزی رہنما (Albert Ondo Ossa ) البرٹ اونڈو اوسا 2006 اور 2023 کے انتخابات میں اپوزیشن کی جانب سے امیدوار تھے۔ 2023 کے الیکشن میں وہ چھ جماعتوں کے مشترکہ امیدوار تھے۔ الیکشن رزلٹ سے پہلے ہی انہوں نے صدارتی دوڑ میں اپنی جیت کا اعلان کر دیا تھا۔ البرٹ 2006 سے مسلسل کسی نہ کسی حیثیت سے حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے بطور وزیر تعلیم ، وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے خدمات انجام دیں۔ اسکے علاوہ وہ معاشی میدان میں حکومت کے مشیر بھی رہے۔
فوجی بغاوت کے بعد جنرل نگوما (Brice Oligui Nguema) کو ملک کے سربراہ کے طور پہ چنا گیا۔ جنرل نگوما اس سے پہلے صدارتی رائل گارڈ کے سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ انہوں نےاپنے خطاب میں گبون کی جمہوری حیثیت کو برقرار رکھنے اور جلد صاف اور شفاف الیکشن کی یقین دہانی کرائی۔اس سے پہلے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے باغی افواج نے عوام کو بونگو خاندان سے نجات پر مبارکباد دی اور اس بغاوت کو گبون کی حقیقی ترقی کا آغاز قرار دیا۔
افریقہ کے خطے پر سرسری نظر رکھنے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ افریقہ میں استعماری طاقتوں کی سرد جنگ اب تیز ہو چکی ہے۔ 2020 کے بعد سے بغاوت کا شکار ہونے والے تمام ممالک ماضی میں فرانس کی استعماری کالونیاں رہ چکے ہیں ۔ جن میں سے کچھ بغاوت سے پہلے فرانس کے اثرو رسوخ میں ہی تھے اور کچھ اس کے اثرورسوخ سے نکل کر امریکہ کے مدار میں داخل ہو چکے تھے۔ نائیجر کی بغاوت نے اس امریکی او ر فرانسیسی کشمکش کو اور بھی واضح کر دیا۔ جہاں ایک طرف فرانس بغاوت کو ختم کرنے اور پرانی حکومت کو بحال کرنے کے لیے سرگرم نظر آتا ہے اور دوسری جانب امریکہ ، بظاہر بددلی سے، لیکن باغیوں کو بین الاقوامی سطح پر قبول کرتے اور منواتے ہوئےنظر آتا ہے۔ابھی تک یہ رسہ کشی چل رہی ہے۔ اب فوجی حکومت فرانسیسی سفیر جو کہ فرانس کے وائسرائے کا کام کرتا تھا اس کو نائیجر سےنکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گبون کی بغاوت کو ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں اور سیاسی مبصرین اس پر کئی طرح کے تبصرے کر رہے ہیں، لیکن حتمی طور پر اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، مگر کچھ نکات قابل غور ہیں۔
- امریکہ ، فرانس اور یورپی یونین سب نے اس بغاوت کی مذمت تو کی ہے مگر ساتھ ہی الیکشن کی غیر شفافیت پر آواز بھی اٹھائی ہے۔ فرانس کی حکومت نے تو اس بغاوت کی وجہ نائیجر کی بغاوت سے متاثر ہونے کو قرار دیا ہے اور ساتھ ہی نائیجر کی حکومت کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
- فرانس کے گبون میں تقریباً 2500 فوجی مستقل تعینات ہیں۔ جنہوں نے ابھی تک کوئی موومنٹ نہیں دکھائی۔ جبکہ نائیجر کے معاملہ میں فرانس افریقی ممالک کے ساتھ مل کر حملے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور اس حملہ کو ناگزیر کہہ رہا تھا۔
- بغاوت کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والے جنرل نگوما، بونگو فیملی کے ہی ایک فرد ہیں ، اور اس سے پہلے وہی صدارتی رائل گارڈ کو لیڈ کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے کچھ مبصرین اس بغاوت کو ایک ہی خاندان کی آپسی رسہ کشی سے بھی تعبیر کر رہےہیں۔
- دوسری طرف کچھ مبصرین اس کا موازنہ نائیجر کی بغاوت سے کرتے ہوئے اسے فرانس کی خطے پر کمزور ہوتی گرفتاور امریکی اثرورسوخ میں اضافہ کی نشانی بھی قرار دے رہے ہیں۔
- ایک چھوٹی تعداد ان مبصرین کی بھی ہے جو جنرل نگوما کی برطانوی تعلیم اور اس کے برطانیہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس واقعہ کو برطانیہ سے جوڑ رہے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ اقتدار کی اس رسہ کشی کے پیچھے کون ہے ۔ جو اصل بات زیر بحث آنی چاہیے کہ کیا اس سب سے عوام کے حالات پر کوئی فرق پڑے گا؟ کیا عوام کے لیے کوئی آسانی ہوگی؟ کیا ان کے حالات بدلیں گے؟
گبون کے موجودہ حالات پر سرسری نظر ڈالنے سے صاف نظر آتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں۔ اور اگر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ وقتی طور پر عوام کو خوش کرنے کے لیے ہوگا۔ گبون کا شمار اوپر کے درجہ کے متوسط ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی GDP/capita۔ 17300 $ہے۔ (پاکستان کی GDP/capita۔ 1543 $)۔ افریقی ممالک میں تیل کی پیداوار والے ممالک میں یہ تیسرے نمبر پر ہے جو روزانہ 370000 بیرل سے زیادہ کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔ Perenco, Shell, اور TotalEnergiesگبون کے تیل کی پیداوار کا 75فیصد کنٹرول کرتی ہیں۔گبون کی آبادی صرف 23.5 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان بیش بہا وسائل کے باوجود افریقاً ڈیولپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گبون کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اور ان میں سے 13 فیصد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ دولت کی تقسیم کا یہی فرق عوام کی استحصال کا باعث ہے۔
موجودہ تنازعہ اورعدم استحکام میں شریک تمام فریق چاہے وہ علی گبون اور اس کا خاندان ہو یا اسی خاندان سے تعلق رکھنے والا جنرل نگوما یا حزب اختلاف کا مشترکہ امیدوار البرٹ اُونڈو اوسا،سب اُسی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کئی دہائیوں سے اِس استحصالی جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کےرکھوالے اور اس کا حصہ ہیں۔ اسی طرح اس تنازعہ کے بین الاقوامی فریق چاہے وہ امریکہ ہو یا فرانس، ان کو بھی افریقی عوام اور ان کی دگرگوں حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ گبون فرانس کے زیرتسلط رہے یا امریکہ کے، فرق صرف یہ پڑنا ہے کہ Total Energies کی جگہ امریکی تیل کی کمپنی آجائے گی اور فرانسیسی ایجنٹ کی جگہ کوئی ویسا ہی دکھنے والا امریکی ایجنٹ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی بین الاقوامی استعماری طاقتیں اس حکمران اشرافیہ کو لوگوں پر مسلط کرتی ہیں ،خود ہی ان سے زمین، تیل اور معدنیات کے سودے کرتی ہیں اوراس استحصال کے بعد خود کو عوام کا ہمدرد ظاہر کرتی ہیں۔
یہ حال صرف گبون کا ہی نہیں بلکہ پورے افریقہ اور تیسری دنیا کاہے۔ چاہے وہ ملک الجیریا ہو، نائیجر ہو مالی ہو یا پاکستان ۔ یہ تیسری دنیا کے ممالک ان استعماری طاقتوں کے لیے استحصال کی منڈیاں ہی رہیں گے اور وسائل کے باوجودکبھی بھی اپنے پاوٗں پہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ اور جو چیز اس قبضہ اور استحصال کو یقینی بناتی ہے وہ ان استعماری ممالک کا مسلط کردہ ورلڈ آڈر اور سرمایہ دارانہ نظام ہے ،چاہے وہ جمہوری لبادے میں ہو یا ڈکٹیٹر شپ کی شکل میں۔
خلافت کا نظام ہی وہ عادلانہ نظام ہے جو انسان کو انسان کے استحصال کا نشانہ بننے نہیں دیتا۔ جہاں تمام انسانوں پر ایک ہی کتاب یعنی قرآن حکیم کے ذریعے حکمرانی ہوتی ہے۔ وہ خلافت جس نے مدینہ کی چھوٹی سی ریاست سے نکل کر دنیا کے جس بھی خطے کو اپنے ساتھ جوڑا وہاں بھی ویسے ہی ترقی اور خوشحالی آئی جیسا کہ مدینہ میں تھی۔ بلکہ کچھ علاقے ترقی اور خوشحالی میں اپنے مرکز سے بھی کئی گنا آگے نکل گئے جن کی بہترین مثال برِصغیر اور شمالی افریقہ ہیں۔ وہ افریقہ کہ جس کے شہر اور بازار دیکھنے یورپ کےشہزادے اور شہزادیاں آتےتھے۔ جہاں کے لباس اور فیشن کی نقالی یورپ میں کی جاتی تھی۔ جسے علم اور دولت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ افریقہ کے کئی شہر اور یونیورسٹیاں آج بھی افریقہ پر اسلام کی شاندار حکمرانی کی گواہی دیتے ہیں۔
اللہ کے ازن سے اب وہ وقت دور نہیں جب خلافت دنیا کو اس استعاری شکنجے سے چھٹکارا دے گی اور اسے اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمتوں کے سائے میں لے آئے گی۔
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
اور کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا بےشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔(بنی اسرائیل۔81)