بسم الله الرحمن الرحيم
ویسٹ فیلیا دفن ہو چکا۔ انڈونیشیاء اور ملائیشیاء میں خلافت کا قیام ہی خطہ کو عدم استحکام اور استعمار سے نجات دلائے گا
عباس صدیقی،ولایہ پاکستان
28 اگست 2023 کو چائنہ نے اپنا نیا ’’ سٹینڈرڈ ‘‘ نقشہ جاری کیا۔جسے’ 10 ڈیش لائن میپ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں چین نےانڈیا کے کچھ علاقوں اور ایسٹ چائنہ کے سمندری علاقے میں اپنی نئی حد بندی کو ظاہر کیا ہے۔ اس نقشہ کے منظرِ عام پر آتے ہی انڈیا،فلپائن، تائیوان،ویتنام اور مسلم ملک ملائیشیاء نے غصہ کا اظہار کیا اور اسے اپنی حدود پر غیر قانونی حق جتانے سے تعبیر کیا۔ یہ نقشہ اس سال ہونے والے G-20 سمٹ سے صرف ایک ہفتہ پہلے جاری کیا گیا۔
ملائیشیاء کی وزارت خارجہنے 31 اگست 2023 کی شب ایک بیان میں کہا، ’’ملائیشیاء بحیرہ جنوبی چین میں چین کے دعووں کو تسلیم نہیں کرتا جیسا کہ چین کے سٹینڈرڈ نقشے کے 2023 ایڈیشن میں بیان کیا گیا ہے جو ملائیشیاء کی سمندری حدود تک پھیلا ہوا ہے ‘‘۔ ’’۔۔۔یہ نقشہ ملائیشیاء کوکسی طرح سے پابند نہیں کر سکتا‘‘۔ ملائیشیاء کی حکومت نے کہا کہ چائنہ کے دھمکی آمیز رویہ کے باوجود وہ’ Borneo‘ کےجزائر کے پاس تیل اور گیس کی اپنی کھوج جاری رکھیں گے۔ 2021 میں بھی ملیشیاء نے Borneo کے جزیرے کے قریب چائنیز بحری جہازوں کی موجودگی اور ان کی کاروائیوں کی وجہ سے ملائیشیاء میں چائنیز سفیر کو حاضر ہونے کا حکم دیا تھا ۔
علاقے کے دوسرے ممالک نے بھی اس نقشہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ جن میں فلپائن اور ویتنام جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جزیروں پر چین پہلے ہی قبضہ کر چکا ہے۔فلپائن کے Scarborough Shoalکے جزیرے پر چین نے 2012 میں قبضہ کیا تھا۔ Mischief Reef چین پہلے ہی 1995 میں لے چکا تھا۔ ویتنام کے Paracel Islands پر چین نے 1974 میں قبضہ جمایا تھا۔ بھارت بھی اُن ممالک کی صف میں شامل ہے جنہوں نے اس نقشہ پر اعتراضات اٹھائے ہیں ، حالانکہ بھارت کی کوئی سمندری حدود ان 10 ڈیش لائن کے اندر نہیں آتی۔ مگر اس نقشہ میں دو علاقےارونہ چل پردیش اور آکسائی چن پلیٹو (Aksai Chin plateau ) چین کے حصہ کے طور پر دکھائے گئے ہیں ،جوبین الاقوامی طور پرچین اور بھارت کے مابین متنازعہ علاقوں کے طور پرجانے جاتے ہیں۔آکسائی چن پلیٹو کا زیادہ تر علاقہ چین کے قبضہ میں ہے، جبکہ ارونہ چل پردیش کا علاقہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔
چائنہ ہر سال اپنا سٹینڈرڈ میپ جاری کرتا ہے ۔ جسے وہ بظاہر اندرون ملک ریفرنس کے لیے ایک معیار یا ’معیاری نقشہ(Standard Map)‘ کے طور پر دکھاتا ہے ۔ لیکن اس عمل کا مقصد صرف اندرون ملک ہی اس معیاری نقشہ کا استعمال نہیں ہے بلکہ یہ اقدام خطے میں چائنہ کی ترجیحات اوراسکی جغرافیائی دعوؤں اور عزائم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ چائنہ کا یہ دعوٰی تاریخی اعتبار سے کوئی نیا نہیں ہے۔ 1947 میں چائنہ نے جو نقشہ جاری کیا وہ ’گیارہ ڈیش لائن‘ پر مشتمل تھا جو کہ سا ؤتھ چائنہ سمندر کی حدود میں کھینچی گئی تھیں۔ 1953 میں ویتنام کے ساتھ چائنہ کے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ، چائنہ نے 2 ڈیش لائنز کو ہٹا دیا اور 9 ڈیش لائن پر مشتمل نقشہ جاری کیا۔ اور اب ایک بار پھر چائنہ نے 10 ڈیش لائن پر مشتمل سٹینڈرڈ میپ جاری کیا۔ جس میں چائنہ نے دوبارہ سے کچھ علاقوں پر اپنا حق جتایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ نئے علاقوں کو بھی اس نے اپنے اثرو رسوخ میں شامل کیا ہے۔ یہ نقشہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب چائنہ کے مشرقی سمندروں میں امریکہ اور چین کی کشمکش کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس خطے کے ممالک کے ساتھ امریکی معاہدات اور تائیوان کے معاملے کو لے کر امریکہ اور چین کی یہ سرد جنگ اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ جہاں چین امریکہ کو اپنے پانیوں سے باہر رکھنا چاہ رہا ہے اور امریکہ علاقے کے ممالک (جیسا کہ فلپائن ، تھائی لینڈوغیرہ )کے ساتھ معاہدات اور بڑے ممالک (جیسا کہ آسٹریلیا، جاپان اور بھارت )کے ساتھ مل کر ان بحری راستوں پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی وہ چین اور اس کی تجارتی راستوں کو بھی کنٹرول کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ نقشہ چین کا اِن پانیوں پر حق جتانے کی ایک نئی کوشش ہے۔
جہاں علاقائی ممالک نے اس نقشہ کے جاری ہوتے ہی ایک سخت موقف دیا وہاں امریکہ نے بلاواسطہ(Directly) اس موضوع پر موقف دینے سے گریز کیا ہے۔ وائس آف امریکہ (VOA)کے G-20 سمٹ سے متعلق ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے اینکر نے جب امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سپوکس پرسن John Kirbyسے 10 ڈیش لائن نقشہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا ـ’’ہمارا موقف چین کے ان جھوٹے سمندری دعوؤں کے رد کے بارے میں بہت، بہت مستقل رہا ہے۔ یہ نقشہ اِس پالیسی کو تبدیل نہیں کرتا ۔ہمیں اصل مسئلہ اس سے نہیں کہ وہ نقشے پر کیا لکیریں کھینچتے ہیں، مسئلہ چین کے ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ کا ہے۔ مسئلہ اِن جھوٹے سمندری حدود کے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کے لیے ،خطے میں اپنے پڑوسیوں اور ہمارے کچھ اتحادیوں اور شراکت داروں کو ڈرانے کے طریقہ میں ہے‘‘۔
بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ امریکہ اس معاملہ میں خود سے زیادہ خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی پرزورمذمت کا متلاشی ہے ۔تاکہ اس مسئلہ کو خطے میں چین کی ہٹ دھرمی اور اپنے ہمسایوں سے زیادتی سے تعبیر کر سکے اور خود کو ایسے محافظ کے طور پر دکھا سکے ، جس کی خطے میں موجودگی کی وجہ اپنے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ خطے کے ممالک کو چین کے شر سے بچانا ہے۔ اس نقشے کے اجراء سے چند دن پہلےاگست کے مہینے میں ہی امریکی کوسٹ گارڈنے PALAU کے ساتھ ایک سیکیورٹی معاہدہ سائن کیا جس کی رو سے امریکہ اکنامک زون کی حفاظت، غیر قانونی فشنگ اور علاقے میں کسی بھی قسم کی در اندازی کی صورت میںPALAU کو حفاظت مہیا کرے گا۔ اس معاہدے کی رو سے اب PALAU کے کسی بحری آفیسر کی موجودگی کے بغیر بھی امریکی کوسٹ گارڈاس علاقے میں گشت کر سکیں گے۔یہ معاہدہ 2022 میں ہونے والےFederated States of Micronesia کے ساتھ ہوئے معاہدے کا تسلسل ہے۔ مئی 2023 میں امریکی کوسٹ گارڈ نے پاپا نیو گنی کے ساتھ بھی دو طرفہ سیکیورٹی معاہدہ کیا، جس کی وجہ سے پاپا نیو گنی کی کئی نیول بیسز تک امریکی رسائی ممکن ہو جائےگی۔ اس معاہدے کی وجہ سے خطے میں امریکی نیوی کی موجودگی میں اضافہ ہو گا، جس سے خطہ میں عدم استحکام کا خدشہ ہے۔ انڈونیشاء کی پارلیمنٹ میں بھی کچھ پارلیمنٹیرینز نے اس خطرناک پیشرفت پر آواز اٹھائی ۔ لیکن حکومتی سطح پر اس بارے میں کسی بیان سے اجتناب کیا گیا۔ اسی سال جولائی کے مہینہ میں چین نے بھی Solomon Islands کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے خطے کے ممالک نے متنازعہ قرار دیا۔
خطہ کے حالات پر نظر رکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ خطہ اس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ اور مستقبلِ قریب میں اس جنگ کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چین اپنی سمندری حدود اور تجارتی راستوں پر امریکہ کی پہرہ داری اور اثرو رسوخ قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی امریکہ اس خطے میں مداخلت سے باز آئے گا۔
خطہ کے مسلم ممالک اور خاص کر ان میں موجود اہل قوت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ چاہے وہ اپنا وزن کفر کی ایک طاقت کے پلڑے میں ڈالیں یا دوسری طاقت کے، دونوں ہی صورت میں یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہو گا اور اس کا بلاواسطہ اثر اُن پر پڑے گا۔ امریکہ آج اگر چین کے معاشی پھیلاؤ سے پریشان ہے اور اسے محدود کرنا چاہتا ہے، تو کل وہ انڈونیشیاء یا ملائیشیاء کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ امریکی بحریہ کی خطے میں موجودگی اِن کے لیے بھی اتنی ہی نقصان دہ ہوگی جتنی وہ آج چین کے لیے ہے۔ دوسری طرف چین اگر مضبوط ہوتا ہے تو وہ پہلے ہی اس خطے میں اپنے Expansionist عزائم کا اظہار کر چکا ہے۔
چائنہ کا اپنے علاقہ کی ملائیشیاء کے جزائر تک حدبندی کرنا ہو یا امریکہ کی اپنے ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور مشرقی چینی سمندری حدود میں بحری بیڑے کھڑے کرنا اور پھرکمزور ممالک اور انتہائی چھوٹے جزائر کے ساتھ ’آزاد ‘معاہدے کر کے ان کو اپنے اڈوں میں تبدیل کرنا، دوسری طرف نیٹوکے تحت اپنے مفاد کے تحفظ کے نام پر دنیا کے ممالک پر حملہ کی طاقت قائم رکھنا ۔ اسی طرح روس کا کریمیا پر قبضہ اور یوکرین کی جنگ۔ عراق اور افغانستان کی امریکی جنگیں ۔ چین کا تائیوان پر اپنا حق جتانا اور مشرقی چین میں جزیروں پر قبضہ ۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وہ سرحدیں جن کے تقدس کا درس مسلم حکمرانوں کے اذہان کو جکڑے ہوئے ہے،وہ سرحدیں بڑی طاقتوں کی نظر میں بےوقعت ہیں ۔وہ جب چاہیں انہیں بدل دیں یا انہیں پامال کر دیں۔
یہ وقت ہے کہ خطے کے مسلم حکمران اپنے اذہان کو WestphaliaاورInternational communityکی بنیاد پر قائم ان سرحدوں کے پنجرے سے آزاد کریں ۔ Westphalia دفن ہو چکا۔ بڑی طاقتوں کے لیے تو یہ کبھی تھا بھی نہیں ۔ یہ ان استعماری کالونیوں کے لیے تھاکہ جن سے جب استعمار گیا تو ان کے اذہان میں بٹھا گیا کہ وہ کبھی اپنے ان سرحدی پنجروں سے آزادی حاصل نہ کر سکیں اور اپنی سوچ اور عزائم کو ان پنجروں تک محدود رکھیں۔ یہ عالمی معاہدے ، عالمی قراردادیں ، عالمی ادارے صرف تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی اوقات میں رکھنے کے لیے ہیں نہ کہ ان کی فلاح کے لیے۔ یہ ادارے اور معاہدے نہ برطانیہ ، فرانس اور اٹلی وغیرہ کو دنیا کے ممالک پر قبضہ کرنے اور اپنی کالونیاں بنانے سے روک سکے ، نہ یہ امریکہ کو افغانستان یا عراق میں داخلے سے روک سکے۔ ان طاقتوں نے جب چاہا کبھی نیٹو کے نام پر کبھی(Quad)’کواڈ الائنس ‘کے نام پراور کبھی انٹرنیشنل واٹرز اور یونائیٹڈ نیشن کے نام پر، کسی بھی خطےاورکسی بھی معاملے میں دخل اندازی کی اورساتھ ہی باقی دنیا کو اپنے بنائے ورلڈ آڈر پر قائم رہنے کا درس دیتی رہیں۔
یہ وقت ہے کہ انڈونیشیاء اور ملائیشیاء مل کر خلافت کا آغاز کریں اور ان پانیوں پر جن پر صدیوں تک مسلمانوں نے حکمرانی کی دوبارہ اللہ کے دین کی حکمرانی قائم کریں اورخطہ اور مسلم دنیا کو ان بڑی طاقتوں کے استحصال سے نکالیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنےکو لازم قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قران پاک میں فرماتے ہیں هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کرے، چاہے مشرکوں کو یہ ناگوار ہی گزرے ۔ الصف:9)۔ تو اگر یہ خلافت کا قیام ان بڑی طاقتوں کو برا لگتا ہے تو لگتا رہے۔ہم ان کفر کی طاقتوں کے لڑائی میں کسی ایک کو غالب کرنے کے پلان کا حصہ بننے کی بجائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پلان کا حصہ کیوں نہ بنیں کہ جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا اور جو سب طاقتوں کا مالک ہے ۔ کفار کی غلامی کی ذلت قبول کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ کی غلامی قبول کی جائے جو آخرت میں عظیم کامیابی کی ضمانت ہے اور انسان کو دنیا کا بھی سردار بنا دیتی ہے ۔وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (اور(اللہ) ایک نعمت تمہیں مزید عطا کرے گا جسے تم بیحد پسند کرتے ہو (یعنی) اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح۔ اور اے محبوب مسلمانوں کو خوشخبری سنادو۔الصف:13) اے اہل قوت! ا ٓگے بڑھو اور رسول پاک ﷺ کی بشارت خلافہ علیٰ منھاج النبوہ کو قائم کرو۔ انشاء اللہ! اللہ ربُ العزت تمھارے ہاتھوں ان کفر کے سرداروں کا وہی حال کرے گا جو قریش کے سرداروں کا ہوا اور ان کے مردہ جسم بدر کے کنویں کی نذر ہوں گئے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ
(اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دےگا۔ سورہ محمد:38)۔