بسم الله الرحمن الرحيم
کرپٹ عدلیہ کے چیف جسٹس کو تبدیل کرنا حقیقی تبدیلی نہیں ہے۔
جمہوریت کا خاتمہ کریں اور حقیقی تبدیلی کے لیے خلافت قائم کریں۔
خبر:
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17 ستمبر کو پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس (سی جے پی) کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
تبصرہ:
نئے چیف جسٹس کے بارے میں میڈیا میں بہت دھوم مچی ہوئی ہے۔ وہ ایک راست باز جج ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، جو ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ بھی نہیں لیتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے آئین کی پاسداری کرتے ہیں۔ وہ جمہوریت کے داعی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے سرکاری پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا۔
نئے چیف جسٹس کے حوالے سےمیڈیا قوم کی امیدیں بڑھا رہا ہے کہ یہ ایک شخص اس قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان آئینی اور آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کر دے تو وہ تمام مسائل اور تکالیف ختم ہو جائیں گی جن کا ہمیں اس وقت سامنا ہے۔
سب سے پہلے، ایک بات واضح کرنا بہت ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنے نئے چیف جسٹس کے ماتحت قرآن اور سنت نبویﷺ کی بنیاد پر فیصلے جاری نہیں کرے گی۔ اس کے فیصلے انسانوں کے بنائے ہوئے 1973 کے آئین پر مبنی ہوتے ہیں، جو پاکستان میں کرپشن اور ظلم کی بنیادی وجہ ہے۔ کوئی بھی عدالت جو شریعت سے ہٹ کر فیصلے دیتی ہے وہ فساد اور ظلم کا باعث بنتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
"اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ دے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔"(المائدہ، 5:46)
دوسری اہمبات یہ ہے کہ قوانین پارلیمنٹ بناتی ہے،سپریم کورٹ قانون نہیں بناتی، یہ صرف پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے، تو وہ صرف استعمار اور حکمرانوں میں موجود استعمار کے ایجنٹوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بناتی ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی "اچھا" چیف جسٹس بھی آتا ہے، تو وہ بھی پورے معاشرے پرکرپٹ قوانین کے نفاذ کو ہی یقینی بنائے گا۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی کبھی بھی عدلیہ سے نہیں آتی۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو ہم نے دنیا میں سیاسی تحریکیں اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے انقلابات نہ دیکھے ہوتے، بلکہ اس کے بجائے، ہم عدالتی تحریکیں اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والےانقلابات دیکھتے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہم نے 2007 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلاء کی تحریک دیکھی تھی۔ اُس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوجائے تو ملک و قوم کی قسمت بدل جائے گی، لیکن کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ افتخار چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بن گئے لیکن کچھ عرصے بعد لوگوں کو نظر آگیا کہ انہیں ایک بار پھر دھوکہ دیا گیا ہے، اور یہ حقیقت اس قدر واضح تھی کہ اُس تحریک کی قیادت کرنے والے وکلاء کے رہنماؤں نے بھی کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ بھی دھوکہ کھا گئے ہیں کیونکہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ۔
نئے چیف جسٹس بھی پچھلے چیف جسٹسز سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ وہ بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں کو کیپیسٹی پیمنٹس کی ادائیگیوں اور بجلی کے بل میں شامل ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم نہیں کریں گے، جس نے عوام کو ائر کنڈیشن استعمال کرنا تو دور کی بات اب پنکھا استعمال کرن بھی شدید مشکلات بنا دیا ہے۔ وہ ربا (سود)کو ختم نہیں کریں گا، جو ہمارے وفاقی بجٹ کی آدھے سے زیادہ رقم کو کھا رہا ہے، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت زیادہ سے زیادہ رقم چھاپ رہی ہے، اور اس طرح مہنگائی بڑھنے کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ پیٹرولیم لیوی ختم کرکے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہیں کریں گے جو آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ ہے۔ وہ ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم نہیں کریں گے، جو غریب اور امیر میں فرق ہی نہیں کرتے۔ وہ ہماری مسلح افواج کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہندو ریاست کے وحشیانہ جبر سے آزاد کرانے کے لیے حرکت میں لانے کا حکم نہیں دیں گے۔ وہ امریکی بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران سے بہت سستی پیٹرولیم مصنوعات لانے کا حکم نہیں دیں گے، جس سے ہماری معیشت کو بہت زیادہ فروغ مل سکتا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور قرآن مجید کی حرمت کا دفاع نہیں کریں گے جن کی پوری لبرل دنیا میں مسلسل توہین کی جارہی ہے۔ وہ اپنی عدالت میں آنے والے لوگوں کو بھی انصاف نہیں دے سکیں گے کیونکہ وہ فیصلےشریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے قوانین کی بنیاد پر کریں گے۔ تو وہ اصل میں کیا کردار اداکرسکیں گے؟ وہ صرف موجودہ کرپٹ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے تسلسل کو "اچھے اور صاف شفاف طریقے سے"یقینی بنائیں گے، جو ہمارے تمام مسائل اور تکالیف کی جڑ ہے۔
ہمیں ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے، ایسی سیاسی تحریک جو موجودہ کرپٹ اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو چیلنج کرے۔ ہمیں ایک ایسی سیاسی تحریک کی ضرورت ہے جو انسانوں کے بنائے ہوئے حکمرانی کے نظام، جمہوریت کی جگہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو قائم کرے۔ صرف خلافت کا قیام ہی وہ حقیقی تبدیلی لائے گا جس کی پاکستان کے مسلمان قیامِ پاکستان کے بعد سے شدید خواہش رکھتے ہیں۔ خلافت کے علاوہ کوئی بھی چیز دھوکہ ہے اور اس بیمار، کرپٹ، سرمایہ دارانہ، جمہوری نظام کو مزید زندگی دینے کی کوشش ہے۔
اِنَّ الدِّيۡنَ عِنۡدَ اللّٰهِ الۡاِسۡلَامُوَمَا اخۡتَلَفَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡيًا ۢ بَيۡنَهُمۡؕ وَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ
" دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے۔"(آل عمران، 3:19)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے
انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔