الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مسلمانوں کا خون بہانے میں حصہ دار بننے کیلئے عالمی رہنما جوق در جوق یہودی وجود کے دورے کر رہے ہیں

 

خبر  :

الجزیرہ نیوز نے رپورٹ دی کہ امریکی صدر، جرمن چانسلر، برطانیہ اور اٹلی کے وزرائے اعظم اور یورپی کمیشن کے صدر کے الگ الگ یہودی ریاست کا دورہ کرنے کے بعد، فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون، 24 اکتوبر بروزمنگل کی صبح یہودی ریاست میں پہنچے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ "منگل کو یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں، میکرون نےحماس کی طرف سے 7اکتوبر کو ہونے والے خوفناک حملے کے تناظر میں اسرائیل کو "یکجہتی" کی پیشکش کی اور کہا کہ فرانس اور اسرائیل کو"دہشت گردی" کو شکست دینے کے لئے "مشترکہ دشمن" کاسامنا ہے فرانسیسی صدر نے "خطے میں تیزی سے بدلتی خطرناک صورتحال سے بچنے کے لئے"اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا، فرانسیسی ایوان صدر (ایلیسی پیلس) نے اے ایف پی کو بتایا کہ، علاقائی طاقتوں سے "اسرائیلی سکیورٹی " کے تبادلے کی گارنٹی کے ساتھ ایک ممکنہ فلسطینی ریاست تشکیل دینے کے عزم کے ساتھ، میکرون دوبارہ نئے سرے سے ایک "حقیقی امن عمل " کی تجویز دے گا"۔

 

تبصرہ :

غزہ میں مجاہدین کے ایک گروپ کی طرف سے صیہونی افواج کے خلاف کی جانے والی دلیرانہ کارروائی کے بعد سےعالمی رہنما یہودی ریاست کی حمایت کا پیغام لئےیہودی ریاست کی چوکھٹ پر درشن  دینےپہنچ گئے ہیں۔ اور  فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کےلیے اسے مختلف وسائل وذرائع فراہم کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ کہ غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام کو مزیدتیز کرنے کے لیے اسرائیل کو ایک اور تھپکی دیں۔

 

سفارتی اقدار سے دور، ان عالمی رہنماؤں کا یہ مؤقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب کہ دنیا بھرکے لوگ فلسطین کے مظلوم عوام کے لیےاپنی گہری ہمدردی کا اعلان کر تے ہوئے یہودیوں کے جرائم اور چیرہ دستیوں کے خلاف میدان میں نکل پڑے ہیں اور"یہودی جارحیت، نا منظور نا منظور"کی صدائیں بلند کر رہے ہیں، اور اس کے باوجود کہ حکام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر لوگوں کو وارننگ دی جارہی ہیں، دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں زبردست ریلیاں اور مارچ ہورہے ہیں۔ اس صورتحال نے تجزیہ کاروں کی نظر میں ان سیاسی رہنماؤں کے مؤقف کو ان کی بصیرت اور ذہانت پر سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لیڈروں کو اپنے ممالک میں رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے، مجرم یہودی ریاست کے بارے میں اپنی کھوکھلی پوزیشنوں پر اصرار کرنے میں کیا مجبوری ہے؟ حتیٰ کہ وہ سیاسی مکاری اور ٹال مٹول کی ضرورت بھی محسوس نہیں کررہے۔ بہرحال، اس سوال کا جواب تو اب تک ابہام کا شکار ہے، لیکن اگر اس وقت درست معلومات کی کمی کی وجہ سے جواب مکمل طور پر اور درست طور پر سامنے نہ بھی آسکے ، تا ہم مسلمہ تجزیہ اور اٹل بنیادوں پر ان کے اس مؤقف کے واضح مضمرات ہیں، جن میں سے سب سے اہم یہ ہیں: 

یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ ان لیڈروں کی مکاری انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ  معاملات کو ہر پہلو  سے  سمجھ سکیں، اس منطق کو کسی طور درست ثابت نہیں کیا جاسکتا۔  شیطان ان لیڈروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کے لیے سرگوشیاں کر رہا ہے۔ اور اگرچہ اس کی سازش کمزور ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے: ﴿اِنَّ کَیْدَ الْشَیْطَانِ کَانَ ضَعِیفَا”بے شک شیطان کی چال کمزور ہے (النساء؛ 4:75)، لیکن اس کی چال کو ہلکا نہ لیا جائے۔ شیطان نے بنی نوع انسان کے باپ آدم علیہ السلام کے خلاف سازش کی اور انہیں جنت سے نکلوا دیا۔ اور شیطان زمین پر لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہا اور وہ قیامت تک اللہ کے بندوں کے خلاف سازشیں کرتا پھرے گا تاکہ وہ ان کو اللہ کا نافرمان بنائے اور وہ خواہشات کی پیروی میں لگ جائیں۔

 

ان رہنماؤں کے باہمی تنازعات اور متضاد مفادات کے باوجود اس اتفاق میں، جو شیطان ان کے لئے لے کر آیا ہے، ان سب کا ایک مشترکہ مفاد نظر آتا ہے  یا یہ کہ ان سب کو ایک مشترکہ نقصان کا اندیشہ ہے جس سے وہ سب بچنا چاہتے ہیں۔ لیکن حساس ہونے کی وجہ سے وہ واضح طور پر اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ دوسری وجہ یہ کہ اس کا محض ذکر کرنے سے ان کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو جائیں گی۔

 

یہی وہ معاملہ ہے جس نے انہیں اپنی قوموں اور پوری دنیا کے عوام بشمول مسلم عوام سے منہ موڑنے پر مجبور کیا۔ گو کہ یہ منہ موڑنا ان کے اپنے جمہوری اصولوں کے خلاف ہے جو کہ عوام  پر عوام کی مرضی کے مطابق حکومت کی بات کرتےہیں اور حکومت اپنے عوام کو خوش کرنے پر زور دیتی ہے، خواہ اس کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے  اور دھوکہ وفریب سےہی کیوں نہ کام لیا جائے۔ ان رہنماؤں نے ان اصولوں کو بھی نظر انداز کیا اور سفارت کاری اور چاپلوسی کا سہارا لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی   عجیب بات یہ ہے کہ وہ عوام کی خواہشات اور جذبات کو نظر انداز کرنے اور مزعومہ انسانی اقدار کو پامال کرنے کی وجہ بھی نہیں بتاتے، ان کے لیے یہ قابل مذمت مؤقف اختیار کرنا ایک سنگین معاملہ ہونا چاہیے۔

 

ان رہنماؤں کی یہ پوزیشن اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ استعماری لیڈر مسلمانوں پر مسلط کی گئی حکومتوں کے گھناؤنے کردار سے پوری طرح مطمئن ہیں جس کے لیے انہیں اقتدار سونپا گیا تھا اور انہیں قائم کیا گیا تھا۔ انہیں جو کردار ادا کرنے کا کہا گیا ہے وہ ہے مغربی نظام کی حفاظت کرنا اور امت کو اس کی اجازت نہ دینا کہ وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور اپنے مفادات کےدفاع کے لیے ان حکومتوں کے خلاف بغاوت کریں۔ ان حکومتوں کی ذمہ داری ایک جلاد سے زیادہ نہیں جو لوگوں کو اپنا کوڑا دکھا کر دھمکاتا رہتا ہے، اب ان حکومتوں کو اپنے اس مشن کو انجام دینے میں دسترس اور تجربہ حاصل ہوچکا ہے۔ اور انہوں نے مالی، تکنیکی، معلوماتی اور انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کی دستیابی کے ساتھ  ظلم و جبر کے طریقوں میں جدت لانا شروع کر دی ہے۔

 

خطے میں اسلامی ممالک کے ساحلوں کے قریب امریکہ اور برطانیہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کا متحرک ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی طاقتیں ان کٹھ پتلی حکومتوں کی جانب سے عالمی سطح پر مسلم دارالحکومتوں، قاہرہ، عمان اور استنبول وغیرہ کی سڑکوں میں ہونے والے عوامی احتجاج کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت پر اعتماد نہیں رکھتیں۔  اسی لیے وہ کسی بھی ممکنہ انقلاب کو روکنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس سے عالمی رہنماؤں کے اس شعور کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کٹھ پتلی حکومتوں کا مؤقف مغرب میں فیصلہ سازوں کے مؤقف کی بازگشت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اور ان کا یہ مؤقف امت کے مؤقف سے بالکل الٹ ہے کہ جب امت کے کسی ایک بھی حصے میں درد اور تکلیف ہوتی ہے تو اس کے جسم کے باقی تمام اعضاء میں بے چینی پھیلی جاتی ہے۔

 

عالم اسلام  کے مختلف ممالک کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دین پر، اپنے آپ پر اور امت پر اپنا اعتماد مضبوط کریں، اور اپنے حکمرانوں اور حکومتوں سے انکار کریں جو ان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ مسلمانوں کویہ یقین رکھنا چاہئے کہ وہ ایک مستقل مزاج پلئیر ہیں جسے عالمی منظر نامہ پر کسی طور پر کم نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ صرف اس وقت تک کی بات ہے جب یہ کھلاڑی آزادانہ طور پر ایک فیصلہ کن گول کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔  امت کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے میں موجود حقیقی سیاسی لیڈروں کے گرد اکٹھا ہو جائیں، اور یہ حقیقی لیڈر حزب التحریر کے وہ کارکنان ہیں جو ان کے اندر رہ کر ان کے پاس دعوت کا پیغام لے کر چلتے ہیں۔ حزب التحریر کے یہ ارکان ہی امت اور اس کے دین کے حقیقی نمائندے ہیں، وہی ہیں جن کے ساتھ ہوکر اور ان کی قیادت میں امت ان کٹھ پتلی حکومتوں کے چنگل سے نجات پائے گی۔ اور اسلام کے پیغام کو لے کر دنیا کے فاتحین کے طور پر مارچ کے لئے روانہ ہوں گے اور ان رہنماؤں ، ان کے حامیوں، اور یہودی ریاست کو وہ سبق سکھائیں، جو ان سے شیطان کے وسوسوں کو بھلوا دے گا۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛

 

﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللہُ عَمَلکُمْ وَرَسُولہُ وَاْلمُوْمِنُوْنَ ؕ وسترَدُّوْنَ اِلَی عالمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّٔکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ

”اور کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ،  پھر اللہ، اور اس کا رسولﷺ اور مومنین تمہارے کام کو آگے دیکھیں گے اور تم غیب اور ظاہر کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں جتادے گا، جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (التوبہ؛ 9:105)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لئے لکھا گیا۔

بلال المہاجر، ولایہ پاکستان۔

Last modified onاتوار, 05 نومبر 2023 18:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک